ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

stories لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
stories لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

28 اکتوبر، 2014

افسوس!! یہ گدھے کبھی نہ سمجھیں گے

جنگل کے بادشاہ اور رعایا کی ایک کہانی
 

tags
 یہ گدھے کبھی نہ سمجھیں گے
شیر اور گدھوں کی کہانی 
story of lion and donkeys, pakistan, urdu,

1 جولائی، 2014

خواتین کی ڈرائیونگ

 ایک عورت نے اپنے شوہر کو آفس فون کیا اور پوچھا کہ آپ مصروف تو نہیں‘ شوہر نے دانت پیس کر کہا ’’میں اس وقت میٹنگ میں ہوں کیوں فون کیا ہے؟ ‘‘جواب آیا’’آپ کو ایک اچھی اور ایک بُری خبر سنانی تھی‘‘۔شوہر گرجا’’خبردار جو کوئی بری خبر سنائی‘ بتاؤ اچھی خبر کیا ہے؟؟؟‘‘ بیوی چہک کر بولی’’وہ جو ہم نے نئی گاڑی لی تھی ناں‘ اُس کے ائیر بیگز بالکل ٹھیک کام کر رہے ہیں‘‘۔
اگر آپ کسی تنگ پارکنگ میں کھڑے ہوں اور اچانک کوئی گاڑی نمودار ہو کر چھوٹی سی جگہ میں بھی کسی گاڑی کو نقصان پہنچائے بغیر بہترین طریقے سے پارک ہوجائے تو فوراً یقین کرلیجئے گا کہ اِسے کوئی مرد چلا رہا ہے۔لیکن اگر گاڑی دو تین دفعہ آگے پیچھے ہوکر پارکنگ میں جگہ بنائے تو پھر بھی یقیناًاسے کوئی مرد ہی چلا رہا ہوگا۔۔۔تاہم اگرآنے والی گاڑی آپ کی گاڑی کے پیچھے پارک ہوجائے توالحمدللہ پھر بھی اسے کوئی مرد ہی چلا رہا ہوگا۔خاتون کا شائبہ تو اُس وقت ہونا چاہیے جب پارکنگ کی ڈھیر ساری جگہ ہو لیکن آنے والی گاڑی سیدھی آپ کی گاڑی میں جاگھسے۔خواتین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ گاڑی چلا رہی ہوں تو ساری ٹریفک وفات پا جائے‘ یہ ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غلط رخ پر بھی گاڑی چلا رہی ہوں تو سامنے سے آنے والوں کو کوسنے دیے جاتی ہیں کہ کم بخت سب کے سب غلط آرہے ہیں۔مردکو جب تک گاڑی ریورس نہ کرنی آجائے وہ سمجھتا ہے کہ اسے ابھی گاڑی نہیں چلانی آتی‘ لیکن خواتین صرف دروازہ کھولنا ہی سیکھ جائیں تو انہیں کامل یقین ہوجاتاہے کہ اب وہ ڈرائیونگ سیکھ گئی ہیں۔


جن خواتین کو ڈرائیونگ نہیں آتی وہ بھی چلتی گاڑی میں حتی المقدوراپنا احساس دلاتی رہتی ہیں۔بعض اوقات تو شوہر گاڑی ریورس کر رہا ہو تو ساتھ بیٹھی بیگم اچانک بیک مرر کا رخ اپنی طرف کر کے لپ اسٹک ٹھیک کرنے لگ جاتی ہے اور چیخ تب مارتی ہے جب آدھی گاڑی گندے نالے میں جاگرتی ہے۔کئی خواتین تو گھر سے گاڑی لے کے نکلیں تو گھر والے باقی شہر کی سلامتی کی دعا کرنے لگتے ہیں۔شادی شدہ خواتین کی ڈرائیونگ سب سے خطرناک ہوتی ہے ‘ یہ ٹریفک کے اشارے پر رک بھی جائیں توہینڈ بریک لگانے کی بجائے بیک گیئر لگا کے اطمینان سے ببل گم چباتی رہتی ہیں‘ نتیجتاً اشارہ کھلتے ہی فل ریس دیتی ہیں اور پیچھے کھڑا بیچارہ سکوٹر والا رگڑا جاتاہے‘سارا قصور اِن کا اپنا ہوتاہے لیکن اپنے پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیتیں‘ الٹا غریب سکوٹر والے پر چڑھ دوڑتی ہیں’’بدتمیز‘ کمینے‘ شرم نہیں آتی خاتون کی گاڑی کے پیچھے سکوٹرلگاتے ہوئے‘‘۔ہماری ایک کولیگ بھی ایسے ہی گاڑی ڈرائیور کرتی تھیں اور ان کے گھر والے بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ہماری بیٹی کئی دفعہ گاڑی صحیح سلامت بھی واپس لاچکی ہے‘ اس کے گھر والوں نے اس کے لیے خصوصی طور پر ایک ڈرائیور رکھا ہوا ہے جسے گاڑی تو نہیں چلانی آتی تاہم وہ بی بی جی کے ساتھ ضرور بیٹھتاہے تاکہ ہر وقوعے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرسکے۔

میں کئی ایسی خواتین کو جانتا ہوں جو ڈیڑھ سو میٹر کا سفر ہینڈ بریک کھینچے ہی طے کرجاتی ہیں اور واپسی پر اپنے مکینک کو فون کر کے پوچھ رہی ہوتی ہیں کہ ’’ابھی تو کل ٹیوننگ کروائی تھی پھر گاڑی اتنی بھاری کیوں ہوگئی ہے؟‘‘۔ایسی خواتین کو ہینڈ بریک نیچے کرنا اُس وقت یاد آتاہے جب ہینڈ بریک کھینچنے کی ضرورت پڑتی ہے۔مرد اگر گاڑی کا انجن آئل چینج کرائے تو تاریخ لکھ کر پاس رکھ لیتا ہے اور ہر وقت میٹر پر نظریں جمائے رکھتا ہے کہ دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہ ہونے پائے ۔اس کے برعکس گاڑی اگر خاتون کے زیر استعمال ہو تو انجن آئل ختم ہونے کا پتا اُس وقت چلتا ہے جب خاتون بڑے جوش و خروش سے اپنے شوہر کو بتاتی ہے کہ ’’نعیم! وہ جو گاڑی کے میٹر پر ایک لائٹ کبھی نہیں جلتی تھی ناں اب وہ بھی دو تین ماہ سے بالکل ٹھیک جل رہی ہے۔‘‘ 
آپ نے بہت کم کسی خاتون کو اپنی گاڑی کاانجن آئل چینج کراتے دیکھا ہوگا‘ وجہ صرف یہ ہے کہ ایسا جب جب ہوا‘ گاڑی کرین کی مدد سے نکالنی پڑی۔خواتین کی گاڑی پنکچر ہوجائے تو یہ بھی قابل دید منظر ہوتاہے‘ یہ سانحہ اگر سڑک کے عین بیچ میں پیش آجائے تویہ اطمینان سے گاڑی وہیں کھڑی کرکے گھر فون کر دیتی ہیں کہ ’’شہباز گاڑی پنکچر ہوگئی ہے ذرا فارغ ہوکے آجاؤ‘‘۔اس دوران خواہ بدترین ٹریفک جام ہوجائے یہ اطمینان سے گاڑی کے اندر بیٹھی مختلف بٹنوں کو چھیڑتی رہتی ہیں کہ شائد کوئی بٹن دبانے سے خودبخودپنکچر لگ جائے۔گاڑی کا ٹائر بدلنا بھی خواتین پر ختم ہے‘ اول تو یہ خود ٹائر بدلنے کی بجائے راہ چلتے کسی بندے سے فرمائش کرتی ہیں لیکن اگر اپنے زوربازو پر ’’جیک اور پانا‘‘ نکال بھی لیں تو پہلے ٹائر کے نٹ ڈھیلے کرنے کی بجائے جیک لگا کر گاڑی کو اوپر اٹھاتی ہیں اور پھر ٹائر کھولنے کی کوشش کرتی ہیں‘ نتیجتاً اکثر ٹائر کھولنے کے دوران خود بھی گھوم جاتی ہیں۔ یہ منظر بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین ٹائر پنکچر ہونے پر ڈگی کی بجائے بونٹ کھول کر بیٹھی ہوتی ہیں۔ لڑکیاں عموماً آٹو گیئرگاڑی چلانا پسند کرتی ہیں اور پوری کوشش کرتی ہیں کہ سائڈ اور بیک مرر میں دیکھنے سے حتی الامکان پرہیز کریں۔کوئی لڑکی اگر گاڑی چلاتے ہوئے دائیں طرف کا انڈیکیٹر دے تو سمجھ جائیں کہ وہ بائیں طرف مڑنا چاہ رہی ہے۔انہیں دن کے وقت اوورٹیک کرتے ہوئے ’’ڈمر‘‘ دینا پڑ جائے توگاڑی کی پوری ہیڈ لائٹ آن کرلیتی ہیں‘ راستے میں اگرکوئی گاڑی کی ہیڈ لائٹس بندکرنے کا اشارہ کرے تو اُسے بیہودہ انسان تصور کرتے ہوئے گھور کر بڑبڑانے لگتی ہیں۔

میں نے ایک دفعہ سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدنی تھی جس کی مالکہ ایک خاتون تھی اور اس نے اشتہار میں لکھا تھا کہ اس کی گاڑی میں ’’پاور سٹیرنگ‘‘ ہے۔میں نے ٹرائی لینے کے لیے گاڑی سٹارٹ کی تو سٹیئرنگ کو دائیں طرف گھمانے کی کوشش میں میرا کندھا اتر گیا‘ میں نے بے بسی سے پوچھا کہ ’’محترمہ آپ نے تو کہا تھا کہ پاورسٹیئرنگ ہے‘‘۔۔۔اٹھلا کر بولیں’’ہاں تو کیا سٹیرنگ گھماتے ہوئے پاور نہیں لگ رہی؟؟؟‘‘

مرد کی گاڑی کے نیچے اگر کوئی آجائے تو وہ فوراً بریک لگا لیتا ہے جبکہ خواتین یہ سوچ کر پوری گاڑی اوپر سے گذاردیتی ہیں کہ کم بخت نیچے تو آہی گیا ہے اب بریک لگانے کا کیا فائدہ؟؟ایسی خواتین کی گاڑی کی ٹینکی پٹرول سے آدھی بھری بھی ہوئی ہو تو یہ اپنی دو انگلیوں سے میٹر پراس کا درمیانی فاصلہ ماپ کر پٹرول پمپ والے سے لڑنے لگتی ہیں کہ تین ہزار کا اتنا سا پٹرول کیوں ڈالا ہے؟ ان میں سے اکثر کے پاس لائسنس نہیں ہوتا‘ اور جن کے پاس ہوتا ہے ان کے پاس بھی نہیں ہوتا بلکہ گھر پڑا ہوتاہے۔خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اگر گھر چلاسکتی ہیں تو گاڑی کیوں نہیں؟صحیح کہتی ہیں‘ اگرانہیں گھر میں بندے کا بیڑا غرق کرنے کا حق حاصل ہے تو سڑکوں پر کیوں نہیں۔خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری توجہ سے گاڑی چلائیں اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے اِدھر اُدھر مت دیکھیں‘ اسی لیے ہر موڑ پر گاڑی پوری ذمہ داری سے کہیں نہ کہیں ٹھوک دیتی ہیں۔ اس کے باوجودخواتین کی ڈرائیونگ کے دو پہلو قابل تعریف ہیں۔ ایک یہ کہ مرد حضرات گرمی میں بغیر اے سی کی گاڑی چلا رہے ہوں تو ان کے ہاتھ مسلسل کچھ نہ کچھ کھجانے میں مصروف رہتے ہیں تاہم خواتین پورے تحمل سے روبوٹ بنی بیٹھی رہتی ہیں۔دوسرے یہ کہ خواتین کبھی تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کرتیں‘ خود ہی سوچئے پہلے گیئر میں گاڑی زیادہ سے زیادہ کتنی تیز چل سکتی ہے؟؟؟ 

 

31 مئی، 2014

محبوب یا بیکار؟


 ایک فقیر ایک پھل والے کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ کے نام پر کچھ د ے دو۔ پھل والے نے فقیر کو گھور کے دیکھا اور پھر ایک گلا سڑا آم اٹھا کر فقیر کی جھولی میں ڈال دیا۔
فقیر کچھ دیر وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا اور پھر پھل والے کو بیس روپے نکال کر دیے اور کہا کہ بیس روپے کے آم دے دو، دکاندار نے دو بہترین آم اٹھائے اور لفافے میں ڈال کر فقیر کو دے دیے۔
فقیر نے ایک ہاتھ میں گلا سڑا آم لیا اور دوسرے ہاتھ میں بہترین آموں والا لفافہ لیا اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے کہنے لگا :
"دیکھ اللہ تجھے کیا دیا اور مجھے کیا دیا"

(مو منو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
سورة آل عمران-92

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم لوگ اللہ کے نام پر اپنی بہترین چیز دیتے ہیں

بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت ابو طلحہ انصاری مدینے میں بڑے مالدار تھے انہیں اپنے اموال میں بیرحا (باغ) بہت پیارا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں کھڑے ہو کر عرض کیا مجھے اپنے اموال میں بیرحا سب سے پیارا ہے میں اس کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں حضور نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت ابو طلحہ نے بایمائے حضور اپنے اقارب اور بنی عم میں اس کو تقسیم کردیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابو موسی اشعری کو لکھا کہ میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو جب وہ آئی تو آپ کو بہت پسند آئی آپ نے یہ آیت پڑھ کر اللہ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنا ایک گھوڑا لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے، اور عرض کیا کہ مجھے اپنی املاک میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرمالیا۔

الغرض آیت متذکرہ کا حاصل یہ ہے کہ حق اللہ کی مکمل ادائیگی اور خیر کامل اور نیکی کا کمال جب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے ۔ خراب اور بےکار چیزوں کا انتخاب کر کے صدقہ کرنا مقبول نہیں ۔

16 اپریل، 2014

سچی محبت



روزینہ کو منفرد شرارت سوجی تھی۔ اس نے سعدیہ کے نام سے بھی ایک آئی ڈی بنائی اور وہ بیک وقت دونوں کے ذریعے  فیس بک پر انور سے مخاطب تھی۔
انور کی نظریں سکرین پر جمی ہوئی تھیں، اس کی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر چل رہی تھیں۔ اور دماغ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے سوچ رہا تھا۔ اسکے بے ساختہ محبت بھرے پیارے جملے روزینہ کو روزانہ کی طرح محظوظ کر رہے تھے۔ فیس بک پر ان کی ملاقات کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، لیکن انہیں لگتا تھاکہ جیسے وہ صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ مختلف موضوعات پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی گفتگو نے انہیں بے تکلف کر دیا تھا، اور اب انہیں احساس ہونے لگا تھا کے جیسے وہ ایک دوسرے کے بنا نہیں رہ سکیں گے۔

آج روزینہ تقریبا' دو ہفتوں بعد آن لائن آئی تھی۔ اس کے آتے ہی انور نے اس کی غیر حاضری سے متعلق اپنی بے تحاشا پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے سوالات کرنا شروع کردیے۔
روزینہ نے جواب دینے کے بجائے انور سے ایک سوال پوچھا اور انور اس اچانک سوال سے سٹپٹا سا گیا۔ انور نے سوال کو ایک بار پھر پڑھا۔

” سچی محبت کیا ہوتی ہے۔؟؟؟؟“

انور کا ادیبانہ ذہن پوری رفتار سے چل پڑا۔ اور اسکی انگلیاں کی بورڈ پر رقص کرنے لگیں۔”سچی محبت وہ ہوتی ہے جو کچھ کھونے کے ڈرسے آزاد ہو۔ دولت، شہرت سب اسکے سامنے ہیچ ہو۔ حتٰی کہ آپ اپنا وجود اور زندگی اسکے لیے داؤ پر لگا سکیں۔ محبت صرف اور صرف کچھ پانے کا نام نہیں۔ “
اس سے پہلے کے انور اپنی بات پوری کرتا، روزینہ نے اسے روک دیا اور دوسرا سوال پوچھا: اچھا تم نے جو میری تصویر دیکھی ہے، اگر اب میں ویسے نہ رہی ہوں تو بھی کیا تم مجھ سے محبت کرو گے؟؟؟

انور نے سوال کو بغور پڑھا اور اسے روزینہ کی شرارت سمجھ کر اسکی حسین ڈی پی تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا:

”سچی محبت کبھی جسم سے نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ روح سے ہوتی ہے۔ میں تمھاری روح سے محبت کرتا ہوں۔ میری محبت تمھارے جسم کو پانے کی گندی خواہش کی کثافت سے پاک ہے۔ “
روزینہ نے انور کا جواب پاکر بڑی محنت سے فوٹو شاپ سے تیار کردہ اپنی جلی ہوئی تصویر اسے سینڈ کی جس میں اسکا آدھا چہرہ بری طرح جلا ہوا تھا، اور ساتھ میں لکھا:”میں پچھلے کچھ دنوں سے اس لیے غائب تھی کہ گھر پر ایک حادثے میں بری طرح جل گئی تھی۔ کیا اس تصویر کو دیکھنے کے بعد بھی تم مجھ سے اپنی محبت کے دعویٰ پر قائم رہوگے اور مجھے اپنا جیون ساتھی بنا کر ہماری دوستی کو ایک قابل عزت رشتے کا نام دوگے ؟؟؟؟؟؟“

انور نے بغور تصویر کو دیکھا، جلے ہوئے حسین چہرے کی بھیانک آگ میں اسکی سچی محبت دھواں بن کر اڑگئی۔ اس نے کوئی جواب دینے کے بجائے خاموشی سے روزینہ کو انفرینڈ کردیا۔ ...

اسی وقت اسے سعدیہ نامی لڑکی کا انباکس میں میسج آیا۔ وہ کہہ رہی تھی میں آپ کی تحریروں سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کے خیال میں سچی محبت کیا ہوتی ہے۔

انور نے سوال کو غور سے دیکھا اور ایک ہی دن میں ایک جیسے سوال کے اتفاق پر مسکرادیا۔ اور اس کی انگلیاں کی بورڈ پر رقص کرنے لگیں۔”سچی محبت وہ ہوتی ہے جو کچھ کھونے کے ڈر سے آزاد ہو“

تحریر :سکندر حیات بابا

2 اپریل، 2014

ملزم صحت جرم اور صحت جسم دونوں سے انکاری ہے

پہلے تو ہمیں یہ خبر ملی کہ سنگین غداری کیس میں ملزم پر فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کردیا۔پھر یہ خبر ملی کہ ملزم نے بیرونِ ملک جانے کی اجازت چاہی، عدالت نے اجازت نہ دی۔ اس پر ملزم نے اپنی صحتِ جسم سے بھی انکار کردیا۔ دو بارہ آئی سی یو میں گھس گیا۔ جبکہ شنید یہ تھی کہ کم از کم اسپتال سے تو آج رہائی مل جائے گی۔یوں آئی سی یو میں گھس بیٹھنے پر ہمارے ایک دوست کہنے لگے: 
’’بڑا اڑیل ملزم ہے۔جرم کی صحت اور اپنی صحت دونوں سے انکاری ہے۔ جب کہ جرم بھی خاصا ’صحت مند‘ تھا اور خود بھی‘‘۔ 

ملزم کو اسپتال میں داخلہ لیے ہوئے لگ بھگ 90دن ہوگئے ہیں۔ہمارے کالم نگار دوست سلیم فاروقی کو مریض سے زیادہ معالجوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ بلکہ معالجوں سے بھی زیادہ علاج گاہ کی بابت متفکر ہیں۔کہتے ہیں کہ اسپتال کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے کہ ایک بیمار اُن سے تین ماہ میں بھی ٹھیک نہ ہوسکا۔ مگرہمیں فاروقی صاحب کی تشویش سے اتفاق نہیں ہے۔ بدنامی اسپتال کی نہیں ہو رہی ہے۔بدنامی تو مریض کی ہو رہی ہے۔ کیوں کہ جس مریض کو فوجی اسپتال بھی ٹھیک نہ کر سکے تو ۔۔۔’نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے‘ ۔۔۔ طب کی اصطلاح میں ایسے مریض کو ’لا علاج مریض‘ کہتے ہیں۔ خود مریض کے نئے وکیل (بیرسٹر فروغ نسیم) نے بھی عدالت کے رُوبرو ایک درخواست پیش کرتے ہوئے اس امرکا اعتراف کیا ہے کہ اس مریض (کے دل) کا علاج صرف امریکا میں ہو سکتا ہے۔یہ بات ہمارے دل کو بھی لگی۔بقول شاعر:
 آپ ہی نے دردِ دل بخشا ہمیں 
آپ ہی اس کا مداوا کیجیے
 ہم نے مانا کہ ’مسلح افواج کا ادارۂ امراضِ قلب‘ (AFIC) ’مایوس مریضوں کی آخری آرام گاہ‘ نہیں ہے۔مگر مایوس ملزم کو وہاں کمرے کا کرایہ، ڈاکٹروں کی فیس، لیبارٹری ٹسٹ کے اخراجات اور ادویات کی قیمت وغیرہ کچھ بھی ادا کرنے کا بوجھ نہیں اُٹھانا پڑتا۔اُسے وہاں علاج کا استحقاق حاصل ہے۔ پنشن یافتہ ہو جانے کے بعد بھی اس قسم کا استحقاق ’ملازم مریضوں‘ کو حاصل رہتا ہے۔ ہمیں تو علم نہیں، مگر کیا عجب کہ فوجی ملازمت کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ملازم مریضوں کے مقابلے میں ’ملزم مریضوں‘ کو وہاں (روپوش) رہنے کا زیادہ (عرصے تک) مستحق سمجھا جاتاہو۔
 
 یہ بات تو طے ہے کہ ادارے کی بدنامی بالکل نہیں ہورہی ہے۔ پھر بھی ایک اخبار کے نمائندے نے مریض سے چُھپ کر مذکورہ اسپتال کے معالجوں سے دریافت کیا کہ کیا واقعی اسپتال میں سی ٹی انجیو گرافی اور مستقل نگہداشت کی سہولت نہیں ہے کہ مریض کو علاج کے لیے امریکا جانا پڑے؟ اس پر ماہرین امراضِ قلب نے جواب دیا کہ دونوں سسٹم ہمارے پاس موجود ہیں اور روزانہ اوسطاً 50مریض ان سے استفادہ کرتے ہیں۔البتہ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کسی مریض کے اتنے لمبے عرصہ تک اسپتال میں رہنے سے ڈیپریشن سمیت متعدد نفسیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔اگر آپ بہت زیادہ بیمار ہیں اور لمبا عرصہ اسپتال میں رہنا پڑے تو مجبوری ہے۔لیکن اگر اسپتال میں رہنے میں آپ کی اپنی مرضی شامل ہوتو نفسیاتی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔جو مریض اپنی مرضی سے لمبا پڑا رہے اُس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ICUکے بعض بیماروں کو پروفیسر عنایت علی خان نے \’I See You\’ کے بیمار قرار دیاہے۔بلکہ ان میں ڈاکٹروں کو بھی شمار کیا ہے۔ کہتے ہیں: 
ڈاکٹر پہلے دیکھیں گے سسٹرز کو
 آئی سی یو کے بیمار اپنی جگہ

 کچھ مریض \’I will see you\’ کے (تکیۂ کلام والے) مریض بھی ہوتے ہیں۔ایسے مریضوں کا انجام یہی ہوتا ہے جو ہو رہاہے۔ 
لمبے عرصہ تک پڑے رہنے پر ایک کہانی یاد آگئی جو لڑکپن میں پڑھی تھی۔ایک بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے لیے ایک شاندار شفا خانہ تعمیر کروایا۔ ہرقسم کی سہولتیں، انواع و اقسام کی نعمتیں اور ادویات کے ساتھ ساتھ مقویات کی لذتیں بھی وہاں فراہم کردی گئیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد ’مستقل مریض‘ ہوگئی۔ یہ مریض کبھی مانتے ہی نہ تھے کہ وہ ٹھیک ہو گئے ہیں۔ معالج بھی کہتے تھے کہ کسی مریض کو ایسی حالت میں بھلا کیسے شفاخانے سے رخصت کردیں جب وہ تکلیف کی شکایت کر رہا ہو۔ بادشاہ کے لیے یہ صورتِ حال خاصی تشویشناک ہوگئی تھی۔ مگر وہ بھی اطبا کی اجازت کے بغیر ان مفت خوروں کو ’آئی سی یو‘ سے نکال نہیں سکتا تھا۔ آخر اُس نے شاہی طبیبوں کو چھوڑ کر (جو اُس کے خیال میں شاہی مریضوں سے ملے ہوئے تھے) ایک غیر شاہی طبیب سے رابطہ کیا۔ طبیب نے کہا: 
’’بادشاہ سلامت! یہ کون سا مشکل کام ہے؟ بس مجھے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔
 بادشاہ نے کہا:’’تم جو مانگو گے دیا جائے گا۔اور اگر شاہی شفا خانہ ان مفت خوروں سے خالی کرا لیا تو منہ مانگا انعام بھی دیا جائے گا‘‘۔
 طبیب نے کہا:’’مجھے فقط نو من تیل، دو من لکڑیاں، ایک کڑھاؤ اور کچھ ہٹے کٹے مشٹنڈے کارکنان درکار ہوں گے‘‘۔ 
بادشاہ نے مطلوبہ اشیا فراہم کردیں۔ اسپتال میں اعلان ہوا کہ ایک طبیب ایسا دریافت ہوا ہے جو پُرانے سے پُرانے اور پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کا چٹکی بجاتے علاج کر دیتا ہے۔لہٰذا جتنے پرانے مریض ہیں وہ نئے طبیب کے حضور پیش ہوں۔ 

نئے طبیب صاحب نے شفا خانے کے احاطے میں ایک دور دراز گوشہ ڈھونڈ کروہاں اپنا خیمہ لگایا۔وہیں لکڑیاں جلوائیں، اُن پر کڑھاؤ چڑھایا۔ کڑھاؤ میں تیل ڈلوایا اور اُسے خوب کھولایا۔جب تیل اچھی طرح کھول گیااور اُس میں سے بلبلے اُٹھنے لگے توپہلے مریض کو بُلوایا۔مریض بے چارا چار پائی (اسٹریچر) پر لاد کر لایا گیا۔حکیم صاحب نے نبض دیکھی۔پوچھا:’’کیا تکلیف ہے؟‘‘ 
مریض کراہتے ہوئے بولا: ’’آئے ہائے ہائے ہائے ہائے حکیم جی! یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں تکلیف ہے، وہاں تکلیف ہے‘‘۔ 
حکیم صاحب نے پوچھا: ’’کب سے تکلیف ہے؟‘‘ مریض بولا:’’اجی 90دن سے علاج کرا رہا ہوں۔ بیماری ہے ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لیتی‘‘۔ 
یہ سنا تو حکیم صاحب اپنے مشٹنڈوں سے مخاطب ہوئے:’’ کم بختو!یہ تین ماہ میں ٹھیک نہ ہوسکا۔ دیکھتے کیا ہو؟ یہ تو لاعلاج مریض ہے۔ اُٹھاؤ اسے اور کڑھاؤ میں پھینک دو‘‘۔
 مریض نے جب یہ سنا تو اُس میں ہڑبڑا کریکایک ایسی پھرتی، چستی، مستعدی اور چاقی و چوبندی سب پیدا ہوگئی کہ وہ چھلانگ مار کر چارپائی (اسٹریچر) سے کودا اور حکیم جی سے کہنے لگا: ’’حکیم جی!میں ٹھیک ہوگیا ہوں۔ میں ٹھیک ہوگیا ہوں حکیم جی!‘‘ 

حکیم جی نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ تمھیں اسپتال سے رُخصت کیا جاتاہے۔ مگرباہر جانے سے پہلے سب سے یہ کہتے ہوئے جاؤ کہ میں ٹھیک ہوگیا ہوں‘‘۔دیکھتے ہی دیکھتے پوار شفاخانہ ’لا علاج مریضوں‘ سے خالی ہوگیا۔ اب سناہے کہ طیارہ آگیا ہے۔ پنچھی اُڑجائے گا اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا! - 

ابو نثر  
 

6 ستمبر، 2013

کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی



“So hot”
“wowwwwwwwwww kea lag rahi ho yar”
“so cuteeeeee, awesome”
“yar je chah raha hay k, k ,k…….”
“kea qatil ada cheez ho”
“taswer teri dil mera behla na sakay g”
“aap ke tareef k leay lafz nahi, mukammal hussan ho”
“I love u”

ٹھرکی ہم وطنوں کی اس بازاری جملے بازی نے سیلانی کو تین دہائی پہلے کے سعید بھائی یاد دلا دیے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سیلانی گول مٹول شرارتی بچہ ہوا کرتا تھا، تب اس کے نیکر پہننے پر کسی کو اعتراض تھا نہ محلے کے کسی گھر میں بلا جھجھک گھسنے پر کوئی ٹوکتا تھا، تب شہر بھی بانجھ نہ ہوا کرتے تھے، محلہ کلچر زندہ تھا اور پورا محلہ ہی گھر جیسا ہوا کرتا تھا، آج اگر گھر میں کریلے پکے ہیں تو رکابی لے کر ساتھ والے میر صاحب کے گھر چلے آئے، وہاں مونگ کی دال کا سن کر منہ بنا تو چوہدری صاحب کے گھر پہنچ گئے، وہاں بھی دال نہ گلی تو کشمیری چاچی کے پاس آ گئے اور یہ بے تکلفی سیلانی تک ہی محدود نہ تھی، اس کی سرحدوں میں پورا محلہ آتا تھا، سیلانی کے گھر میں آلو گوشت بنتا تو خوشبو سونگتے ہوئے چوہدری صاحب کی ناک سڑکاتی بیٹی آ جاتی کہ خالہ خالہ ایک بوٹی اور دو آلو ڈال دو۔

اس محلہ کلچر میں انسان رہتا تو اپنے گھر کی چاردیواری میں تھا، لیکن اقدار کی چاردیواری پورے محلے کو ایک گھر بنا کر رکھتی تھی، اس وقت سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے تھے اور بڑوں کا احترام ایسا کہ اگر محلے کا کوئی بڑا بوڑھا کسی غلطی پر کان کھینچ کر تشریف پر دو جوتے بھی لگا دے تو کسی میں ہمت نہ ہوتی کہ منمناتے ہوئے امی ہی سے کہہ دیں، دہلی کالونی کے اس محلے میں سیلانی بےبی باجی سے ٹیوشن پڑھنے جایا کرتا تھا، بے بی باجی بی اے کر رہی تھیں، دبلی پتلی سی بےبی باجی کی شکل پی ٹی وی کے ڈرامے انکل عرفی کی ہیروئن سے کافی ملتی تھی، وہ بال بھی اسی انداز کے بناتی تھیں اور خاصی خوش لباس بھی تھیں، اس وقت گھٹنوں سے اوپر تک چھوٹی قمیض اور بڑے بڑے پائنچوں والی شلوار کا رواج تھا، سیلانی کو یاد ہے کہ ایک بار باجی کپڑے سلوانے کے لیے سیلانی کو ساتھ لے گئیں، راستے میں نکڑ پر محلے کے وحید مراد سعید بھائی، جسم سے چپکی قمیض اور بیل باٹم پینٹ پہنے کھڑے تھے، سعید بھائی نے باجی کو آتے دیکھا تو فورا ہی جیب سے کنگھی نکال کر اپنی زلفیں سنوار لیں اور پوز مار کر کھڑے ہو گئے، سیلانی اور باجی پاس سے گزرے تو سعید بھائی نے مسکراتے ہوئے دبی دبی آواز میں جملہ اچھالا: آج تو لوگ قیامت ڈھا رہے ہیں۔

باجی نے ناگواری سے ایک نگاہ غلط ڈالی، البتہ کہا کچھ نہیں، سیلانی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ قیامت ڈھانا کیا ہوتا ہے، اس نے باجی سے پوچھا تو انہوں نے ڈانٹ دیا، باجی نے درزی کو کپڑے دیے اور واپس ہو لیں، واپسی پر وحید مراد صاحب اسی کھمبے کے ساتھ ٹیک لگائے منتظر تھے، انہوں نے بےبی باجی کو دیکھ کر ایک سرد آہ بھری اور پھر ایک گیت گنگنانے لگے، سیلانی نے سعید بھائی کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنی آنکھ کا گوشہ دبا دیا۔
   
گھر پہنچ کر سیلانی نے بے بی باجی کی بڑی بہن سے پوچھا: آپا! یہ قیامت کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: کیوں بیٹا! تمیں قیامت کہاں سے یاد آ گئی؟

مجھے نہیں یاد آئی، وہ سعید بھائی نے بے بی باجی کو دیکھا تو انھیں یاد آ گئی، وہ باجی کو کہہ رہے تھے کہ آج تو قیامت ڈھا رہی ہو.....
سیلانی نے معصومیت سے بتایا تو بڑی باجی نے ڈانٹ کر چپ کرا دیا، مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا، صحن میں لگے سنک پر غرغرے کرتے ہوئے بھائی جان سن چکے تھے، وہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے، انہوں نے اپنی ہاکی لی اور باہر نکل گئے، اس کے بعد وحید مراد صاحب پر قیامت ڈھ پڑی۔ اس قیامت میں ان کی طوطے جیسی خمیدہ ناک اور سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا، اس روز بھائی جان نے وحید مراد کے ساتھ خوب کھیلا، محلے کے لڑکوں نے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وحید مراد صاحب کئی ہفتے گنگنانا بھول کر کراہتے رہے، سعید بھائی کے والد صاحب بھلے آدمی تھے، انھیں جب پتا چلا تو انہوں نے باجی کے گھر آ کر معافی مانگی اور سینما والوں کو خوب بددعائیں دیں، جو نوجوان نسل کو لفنگا بنا رہے تھے۔ لیکن یہ اچھے وقتوں کی بات ہے، جب بہت کم گھروں میں ٹی وی لائونج نام کی جگہ ہوتی تھی، نوجوانوں کے اخلاق و کردار پر وی سی آر نے حملہ نہیں کیا تھا، پی ٹی وی کے خبرنامے میں نیوز کاسٹر تک دوپٹہ اوڑھ کر خبریں پڑھا کرتی تھیں، اب واہیات ابلاغیات نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
سیلانی کو آج فیس بک پر ایک خاتون کی خود نمائی اور ان کے دوستوں کی جانب سے دیے جانے والے داد و تحسین کے ڈونگروں نے سعید بھائی کی ٹوٹی ہوئی خمیدہ ناک کی یاد دلا دی، فیس بک پر شائد ہی کوئی ہو جو اپنی تصاویر، بیانات اور خیالات جاری نا کرتا ہو، مستورات بھی مختلف مواقع کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کر کے خود نمائی کے شوق کی تسکین کرتی ہیں، اس کام کے لیے یقینا خواتین اور ان سے وابستہ حضرات کو فراغ دل ہونا پڑتا ہو گا، وہ محترمہ بھی خاصی فراغ دل" واقع ہوئی ہیں، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ہونے والے فیشن شوز میں بلی کی چال چلنے والی بیبیاں عموما اس طرح کی حرکات و سکنات کرتے ہوئے تصویریں بنواتی ہیں، گویا درد قولنج میں مبتلا ہوں یا ابھی ابھی نیند سے جاگی ہیں اور انگڑائی لے کر بستر سے نیچے اترنے کا سوچ رہی ہیں..... اس بی بی نے بھی ایسی ہی ادائوں کے ساتھ اپنی تصاویر فیس بک پر جاری کر دیں اور اس تصویر کے نیچے جملے اچھالنے والوں اور پسند کرنے والوں کی قطار بندھ گئی، سیلانی حیران رہ گیا، جب اس نے دیکھا کہ سات سو افراد نے اس تصویر پر مہر پسندیدگی ثبت کی اور تین سو نوے نے واہیات ابلاغیات کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ یہ سب دیکھ کر سیلانی کو بے اختیار سعید بھائی یاد آ گئے، آج یقینا ان کے منہ میں دانت ہوں گے نا پیٹ میں آنت ہو گی، غالبا وحید مراد کی زلفوں کی جگہ چمکتی ہوئی چندیا لے چکی ہو گی، آنکھیں بھی چندھیا گئی ہوں گی اور خمیدہ ناک کے ساتھ ساتھ کمر بھی خمیدہ ہو چکی ہو گی، ہو سکتا ہے ان کا حافظہ بھی خاصہ کمزور ہو گیا ہو اور الله کرے کمزور ہو گیا ہو کہ وہ ہاکی کے ذریعے خود پر ڈھائی جانے والی قیامت بھول چکے ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ میں تو صرف بلاواسطہ ہی منمنایا تھا، یہاں تو گھر گھر میں لونڈے لپاڑے فیس بک کھولے ایسے ایسے جملے چست کرتے پھر رہے ہیں کہ زمین پھٹے اور بندہ سما جائے اور پھر یہ موقع انھیں کون دے رہا ہے؟ لڑکیاں بالیاں، خواتین خود حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی، میری ناک اور دانت تو سلامت رہتے.....

 سیلانی یہ سوچ رہا تھا کہ فیس بک پر میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ ایک خاتوں کی تصویر آ گئی، تصویر میں محترمہ دوپٹہ کمر کے گرد لپیٹے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے عاجزانہ منہ بنائے کھڑی تھیں، ساتھ ہی ان کی فیس بک کے دوستوں سے درخواست تھی: دعا کریں میری واشنگ مشین جلد ٹھیک ہو جائے۔ سیلانی نے لاحول پڑھی اور بڑبڑایا بی بی، واشنگ مشین سے زیادہ آپ کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے..... سیلانی بڑبڑاتے ہوئے بی بی کی میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، اور دیکھتا چلا گیا۔




29 اپریل، 2013

وہ زہر جو دل میں اُتار لیا۔۔۔


وہ زہر جو دل میں اُتار لیا۔۔۔گلِ نوخیز اختر

آج کل ہر بندہ ٹینشن میں ہے ۔ کاروبار کی ٹینشن ….. نوکری کی ٹینشن …. مہنگائی کی ٹینشن ۔۔۔لوڈشیڈنگ کی ٹینشن ….. لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جانی باؤلے کو ان میں سے کوئی بھی ٹینشن نہیں ….. جانی باؤلے کو میں عرصہ بیس سال سے جانتا ہوں ….. عمر تقریباٌ 40 سال ہے ….. پہلے جوتیوں کے کارخانے میں کام کرتا تھا ….. آجکل چوبرجی چوک میں تیل کی شیشیاں پکڑے مالش کرتا ہے ۔ میری اس سے پہلی ملاقات بڑی دلچسپ تھی …..ہم لوگ نوائے وقت (فیملی میگزین) کے لیے مالشیوں پر فیچر تیار کر رہے تھے ، فیچر کرنے کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ آپ جن لوگوں پر فیچر کر رہے ہوں انہیں صحافی بن کے ملنے کی بجائے عام انسان کے روپ میں ملیں ۔ سو ہماری ٹیم بھی کھلے ڈلے حلیے میں چوبرجی چوک کے پارک میں لنگر انداز تھی۔ اتنے میں ایک مالشیاء قریب سے شیشیاں کھڑکاتا ہوا گذرا ….. میں نے اسے آواز دے کر بلایا اور مالش کے ریٹ پوچھے ….. کہنے لگا ’’پانچ سوروپے لوں گا ….‘‘
میں نے کہا ’’بھائی میرے ۔۔۔مالش کروانی ہے …..کسی کی ہتہیا نہیں کروانی‘‘
وہ بحث و تمہید کرنے لگا ….. ابھی ہماری گفتگو جاری ہی تھی کہ اچانک ایک طرف سے لمبے لمبے بالوں اور الجھی ہوئی داڑھی والا ایک ادھیڑ عمر آدمی تیزی سے لپکا اور قریب آکر بولا ….. ’’ صاحب جی مجھے حکم کریں ‘میں سوروپے میں مالش کردوں گا؟؟؟‘‘
میں نے غور سے اسکی طرف دیکھا ….. اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتا …… پہلے والے مالشیئے نے جلدی سے کہا …..’’صاحب جی ! اس کی بات پر نہ جائیں جی یہ تو باؤلا ہے اور …..‘‘
مالشیئے کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ دوسرے مالشیئے نے شیشیاں زمین پر رکھ کر اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ جڑ دیا ….. ذرا سی دیر میں وہاں جنگ کا سماں پیدا ہو گیا ۔ اس روز مجھے پتا چلا کہ لڑنے والا’’ جانی باؤلا‘‘ ہے اور یہاں کا سب سے پرانا مالشیا ء ہے ۔تین چار جماعتیں پاس ہے اور اٹک اٹک کر اخبار وغیرہ پڑھ لیتا ہے۔ماں باپ‘ بہن بھائی اور رشتے داروں سے محروم ہے ‘ جہاں جگہ مل جائے سو جاتا ہے اور جو مل جائے کھا لیتا ہے لیکن لڑاکا بہت ہے‘ اس کی دو ہی خوبیاں مشہور ہے‘ پیار کرنے والوں پر جان دینا اور نفرت کرنے والوں کی جان عذاب میں ڈال دینا۔جانی باؤلا ایک عجیب و غریب شخصیت کا مالک ہے ۔ اگر کوئی اس سے مالش نہ کروائے تو یہ زبردستی پر اتر آتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ مالش اور پالش کے بغیر انسان انسان نہیں لگتا ۔ میں نے پوچھا …..’’ تم اپنی مالش کیوں نہیں کرتے ‘ اپنی پالش کیوں نہیں کرتے ….. ؟؟؟وہ غلیظ غلیظ دانت نکال کر ہنسنے لگا ….. ’’کھی کھی کھی کھی ….. میں کیوں کروں اپنی مالش ….. میں کوئی پاگل ہوں؟؟؟‘‘
’’اس کا مطلب ہے مالش کروانے والے پاگل ہوتے ہیں‘‘ میں نے اسے گھورا۔۔۔!!!
’’ہاںںںںںںں …..‘‘ اس نے لمبی سی ہاں کے ساتھ مجھے آنکھ ماری۔
میں نے کبھی اس شخص کو ٹینشن میں نہیں دیکھا ۔ عزت اور خودداری کا یہ عالم ہے کہ تین تین دن بھوکا رہ لے گا ….. مانگے کی روٹی نہیں کھائے گا۔ ایک دفعہ میں جیرے کے ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا ….. سڑک سے جانی گذرا ….. میں نے چونک کرآواز دی …..’’ جانی بھائی ….. آؤ کھانا کھا لو ….. !!!‘‘میری آواز سن کر وہ چونکا ….. پھر قریب آکر نقاہت کے باوجود دانت نکال کر بولا ….’’ نہیں پاء جی! ….. ابھی دو دن پہلے تو ڈٹ کے کھایا ہے …..‘‘ اور میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔۔۔میں نے بڑی کوشش کی کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر ایک لقمہ ہی لگا لے‘ لیکن وہ بھی بڑا ڈھیٹ تھا‘ نہیں مانا۔ ہر دفعہ میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ جانی کسی دن میرے ساتھ کھانا کھائے ….. لیکن نہ جانے کیوں وہ ہر دفعہ کنی کترا جاتا ہے ۔ جب اور کچھ نہیں بن پاتا تو میں جانی سے کہتا ہوں کہ میرے سر میں تیل ہی لگا دو ….. یہ بات جانی کے لیے قابل قبول ہوتی ہے لہذا وہ آسانی سے میرے سوروپے روپے قبول کر لیتا ہے ۔ ….. میں نے ایک دن اس سے پو چھا کہ لوگ تمہیں باؤلا کیوں کہتے ہیں ؟
دانت نکال کر بولا …..’’ بچپن میں مجھے ایک کتے نے کاٹ لیا تھا ….. بعد میں کتا مر گیا ….. !!!‘‘
’’کتا مر گیا؟؟؟….. یہ کیا بات ہوئی؟؟؟‘‘ میں حیران ہو گیا۔
اس نے مزیددانت نکالے ’’ ہاں جی ….. کتا مر گیا ….. اور میں باؤلا ہو گیا …..‘‘
’’لیکن تم تو بالکل ٹھیک ہو …..‘‘
’’نہیں جی ….. میں ٹھیک نہیں ہوں …. باؤلا ہوں ….. لوگ کہتے ہیں مجھ میں زہر آگیاہے ….. ہوٹل والے نے بھی میرے برتن الگ کیے ہوئے ہیں ….. صاحب! ….. آپ نے میرے ساتھ کھانا کھا لیا تو آپ بھی باؤلے ہو جائیں گے۔۔۔‘‘
’’یہ کیا بکواس ہے ….. انسان زہریلا نہیں ہو تا …..’’ میں نے اسے حوصلہ دیا۔
’’اچھا جی ….. ؟؟؟ ‘‘وہ مبہوت رہ گیا ….’’ تو کیا یہ سب جھوٹ کہتے ہیں ؟؟؟‘‘
’’ ہاں ….. جھوٹ کہتے ہیں‘‘ میں نے اس کے کندھے تھپتھپائے …..’’ بالکل جھوٹ کہتے ہیں ….. آؤ آج اکٹھے کھانا کھاتے ہیں …..‘‘
’’نن ….. نہیں ….. آ ….. آج ….. آج نہیں ۔۔۔‘‘ وہ پھر ڈر گیا۔۔۔!!!
’’کیوں ….. آج کیوں نہیں ….. ؟؟؟‘‘
’’بس ….. آج نہیں …..‘‘
’’بھئی کوئی وجہ تو ہوگی ناں؟؟؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔۔۔!!!
’’آج ایک موت ہو گئی ہے ….. اس …. لیے ….. صاحب جی !جب کسی کی موت ہوتی ہے تو مجھ سے کھانا نہیں کھایا جاتا ‘‘۔اس نے دھیرے سے کہا اور چپ ہو گیا۔
’’موت؟؟؟ ….کس کی موت۔۔۔کون مرگیا ہے ….. ؟؟؟؟ میں پریشان ہوگیا۔
اس نے تھوڑی دیر سر نیچے رکھا ….. پھر اپنی بغل سے ایک مڑا تڑا اخبار نکالا ….. اسے کھولا اور میرے آگے کرتے ہوئے ایک تصویر پر انگلی رکھ دی۔ لکھا تھا ….. !!!
’’شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ ۔۔۔13بچے شہید ‘‘
میرا جسم یکدم سن ہو گیا ….. کچھ سوچنے سمجھنے کی تاب نہ رہی ….. ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے اور مجھے ایسا لگا جیسے میں بھی زہریلا ہو گیا ہوں!!!

8 مارچ، 2013

نئی نانی امّاں ۔۔۔ پُرانی کہانی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک ایسا بادشاہ حکومت کرتا تھا جسے نئے نئے محل بنانے اور طرح طرح کے لباس پہننے کا شوق تھا۔ بلکہ لباس کے اوپر لباس پہننے کا شوق تھا۔وہ ملک کا بادشاہ بھی تھا اور ایک پارٹی کا شریک چیئرمین بھی۔ اُسے دونوں لباس پہننے کا شوق تھا۔ وہ اپنے قومی خزانے کی ساری رقم اپنی آن، بان، شان اور اپنے لباس درلباس کی چمک دمک برقرار رکھنے پر خرچ کر ڈالتا۔ جب خزانہ خالی ہوجاتا تو امیر امیر ملکوں سے سودپر قرض لے لیتا اور اس قرض کی مع سود واپسی کے لیے اپنی رعایا پر مزید ٹیکس لگا دیا کرتا۔اُس کی رعایا یہ ٹیکس طوعاً و کرھاً دیتی ہی رہتی تھی۔بسوں، محفلوں اور دل میں گالیاں بک لیا کرتی تھی، مگرکبھی کوئی احتجاج نہیں کرتی تھی۔احتجاج نہ کرنے سے بادشاہ یہ سمجھتا تھا کہ رعایااُس کے محلات کی شان و شوکت اور اُس کے ڈبل ملبوسات کی چمک دمک دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے، اور اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بادشاہ کس قیمت پر اپنا یہ شوق پورا کر رہا ہے۔ رعایا کے متعلق اُس کے وزراء بھی اُسے یہی بتایا کرتے تھے کہ :
’’ سرکار!رعایا کے لیے آپ کے محلات اور آپ کاڈبل لباس کوئی مسئلہ نہیں۔، رعایا کے مسائل تو بھوک افلاس ، بیروزگاری، دہشت گردی، سی این جی کی بندش اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ وغیرہ ہیں۔‘‘


بادشاہ کے وزراء اور اہلِ دربار بھی ہروقت باشاہ کے محلات اور اُس کے ڈبل لباس کی شان میں قصیدے ہی پڑھتے رہتے تھے۔وہ بِچارے قصیدے نہ پڑھتے یا ’’بادشاہ کھپے‘‘ کے نعرے نہ لگاتے تواور کیا کرتے ؟ ارے بھئی بچو! اگروہ ایسا نہ کرتے تو اُن کا حال بھی رعایا جیساہی ہو جاتا۔اِس وجہ سے وہ بادشاہ، اُس کے محلات اور اُس کے ڈبل ملبوسات کی شان میں ’’ روز اِک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ‘‘ پڑھا کرتے جو اگلے روز کے اخبارات میں چھپ جاتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ سوئے فرنگ سے ایک وفد آیا۔وفد سے اور جو باتیں ہوئیں سو ہوئیں۔ مگر اِس وفد میں آئے ہوئے کچھ ماہر فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کو ایک جھانسا دیا۔ اُنھوں نے ڈبل لباس کے شوقین بادشاہ کو لالچ دیا کہ :
’’ یور ایکسی لینسی! ہم اپنی کاریگری دکھا کر آپ کے لیے ایسا دوہرا لباس تیار کریں گے کہ اسے زیب تن کرکے آپ کی شان وشوکت میں مزید اضافہ ہو جائے گا، شان وشوکت ہی میں نہیںآپ کی طاقت میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا۔طاقت ہی میں نہیں آپ کے دورِ حکومت میں بھی مزید اضافہ ہوجائے گا۔‘‘
یہ سن کرتو بادشاہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔اس نے کہا :’’سائیں! ہم کو ایسا لباس کھپے۔۔۔تم جو مانگو گے ’’مئیں‘‘ تم کو دوں گا‘‘۔
فرنگی جو جو کچھ مانگتے گئے، بادشاہ اُن کو دیتا چلا گیا۔گھر بار دیے۔ زمینوں کی زمینیں دے دیں۔اُن کوفوجی ٹھکانہ بنانے کے لیے اڈے دے دیے۔کراچی ائرپورٹ پر کمپاؤنڈ بنانے کی اجازت دے دی۔ محافظوں کی چوکیاں دے دیں۔ ملک کا سارا سوت کپاس دے دیا۔ عورتوں کی اوڑھنیاں دے دیں۔ بچوں کی کتابیں اور اُن کی تختیاں دے دیں۔یہاں تک کہ اُن کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں لوٹ مارکریں قتل و غارت کریں اوراپنے کرائے کے دہشت گردوں سے دھماکے بھی کروائیں۔ اُن کو روکا جائے گا ، نہ ٹوکا جائے گا ، نہ سرکاری پوچھ گچھ ہوگی۔اُلٹاہر دھماکے کا الزام طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی پرلگادیا جائے گا۔


فرنگی کاریگر اپنا کام دکھاتے رہے۔وہ بادشاہ کے لیے دوہرا لباس بناتے رہے۔باربار قین دلاتے رہے کہ اس لباس کو پہن کر بادشاہ کی شان وشوکت ، قوت و طاقت اورزمانۂ حکومت میں زبردست اضافہ ہوجائے گا۔بادشاہ نے اُن کو وہ کچھ بھی دینا شروع کر دیا جو اُنھوں نے ابھی مانگا بھی نہیں تھا۔وہ قرض اُتارے کہ جو واجب بھی نہیں تھے۔ ایک دن فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کے سامنے اُس شان وشوکت اور قوت و طاقت والے لباس کو پیش کردیا۔ لباس کی خوب تعریفیں کیں اور یہ انکشاف کیاکہ:
’’ یور آنر!آپ کے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت ہی نہیں، آپ کا لباس بھی، صرف اُنھی لوگوں کو دکھائی دے گا جو عقل و دانش اور فہم وفراست رکھتے ہیں۔احمقوں ، بے وقوفوں اور عقل سے پیدل لوگوں کو ان میں سے کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا‘‘۔
’’مئیں سمجھتا ہوں۔۔۔مئیں سمجھتا ہوں‘‘ ۔
بادشاہ نے کہا اور ملک بھر میں یہ اعلان کروا دیا کہ:
’’ میں اپنے نئے لباس میں قوم کو اپنا دیدار کرواؤں گا۔ سوائے احمقوں، عقل سے پیدل لوگوں اور سرکاری مناصب کے لیے نا اہل افراد کے،میرے دوہرے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت سب کو صاف نظر آئے گی۔‘‘
اور پھر وہ دن آیا۔۔۔ جب فرنگی کاریگروں کے ایما پر بادشاہ نے اپنے اس نام نہاد دوہرے لباس کو پہن کر اپنا(ہی) جلوس نکلوانے کا اہتمام کیا۔جس وقت فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کو غیر مرئی ’’شان وشوکت اور قوت و طاقت والا لباس‘‘ پہنایاتھاتو، نظر تو بادشاہ کو بھی کچھ نہ آیاتھا۔وہ ویسے کا ویسا تھا۔ بلکہ اپنے آپ کو بے لباس بھی محسوس کر رہا تھا۔ مگران فرنگی کاریگروں اور اپنے چاپلوس درباریوں کے سامنے خود بدولت کو احمق،عقل سے پیدل اورسرکاری منصب کے لیے نااہل کیسے ثابت کربیٹھتا؟سو، اُسے اپنے اس لباسِ بے لباسی ہی میں شان و شوکت، طاقت و قوت اور اپنی اہلیت سب کچھ نظر آنے لگی۔وہ ننگ دھڑنگ باہر نکل آیا۔
’’دیکھو میرا نیا لباس!‘‘
درباریوں اور وزراء میں سے بھی کسی کویہ سچ بولنے کی ہمت نہ پڑی کہ:
’’ سر کار ! فرنگیوں نے تو آپ کو بے لباس کرکے رکھ دیا ہے۔‘‘
بھلا کون یہ کہہ کراپنے آپ کو احمق، عقل سے پیدل اور اپنے منصب کے لیے نا اہل قرار دلواتا؟ایک غول کا غول تھا خوشامدیو ں کا جس نے بادشاہ کے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت کے قصیدے کورَ س کے انداز میں پڑھنے شروع کر دیے۔
’’ سبحان اﷲ! اس لباس کی کیاشان ہے‘‘۔
’’واہ واہ کیاہیبت ہے ، کیا شوکت ہے‘‘۔
’’کیارعب ہے، کیاطنطنہ ہے، کیا طاقت ہے‘‘۔
’’ کیا زور ہے، کیا قوت ہے‘‘۔
ننگے بادشاہ کا جلوس چلا جارہا تھا۔ کوئی یہ کہنے کی ہمت نہیں پارہاتھا کہ اُسے کوئی شان وشوکت نظر آرہی ہے ،نہ طاقت و قوت نہ بادشاہ کے تن پر کوئی لباس۔یکایک اپنے باپ کی گود میں ہُمکتے ہوئے ایک ننھے منے سے بچے نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اوربادشاہ کی طرف اُنگلی سے اشارہ کیا اور کلمۂ حق بلند کیا:
’’ ابو۔۔۔ ابو!۔۔۔ ہمار بادشاہ ننگا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی مجمع میں مکھیاں سی بھنبھنانے لگیں:
’’ ہاں واقعی، ذرا دیکھوتو سہی!‘‘
’’ہاں جی!ننگا تو مجھے بھی لگ رہاہے!‘‘
’’ بچہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، صاحب!‘‘
اس کے بعد تو پورا مجمع ہی کورَس کے انداز میں نعرے مارنے لگا:
’’ بادشاہ ننگا ہے ….. بادشاہ ننگا ہے ….. بادشاہ ننگاہے‘‘۔
بادشاہ کے پاؤں من من بھر کے ہوگئے۔ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔ اُس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ آگے پیچھے ہاتھ رکھ کر اور کسی ہوائی جہاز میں اُڑ کر کہیں سوئے فرنگ چلاجائے کہ وہاں ننگا رہنا کوئی عیب نہیں۔ مگر اُس نے دیکھا کہ خود فرنگی کاریگر بھی قہقہوں پر قہقہے مار رہے ہیں۔ وہ بھی سب کے ساتھ نعرے بازی کے اِس کورَس میں جوش وخروش سے شریک ہوگئے ہیں کہ:
’’ بادشاہ ننگا ہے ! ….. بادشاہ ننگاہے! ….. بادشاہ ننگاہے! …..‘‘