ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

8 مارچ، 2013

نئی نانی امّاں ۔۔۔ پُرانی کہانی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک ایسا بادشاہ حکومت کرتا تھا جسے نئے نئے محل بنانے اور طرح طرح کے لباس پہننے کا شوق تھا۔ بلکہ لباس کے اوپر لباس پہننے کا شوق تھا۔وہ ملک کا بادشاہ بھی تھا اور ایک پارٹی کا شریک چیئرمین بھی۔ اُسے دونوں لباس پہننے کا شوق تھا۔ وہ اپنے قومی خزانے کی ساری رقم اپنی آن، بان، شان اور اپنے لباس درلباس کی چمک دمک برقرار رکھنے پر خرچ کر ڈالتا۔ جب خزانہ خالی ہوجاتا تو امیر امیر ملکوں سے سودپر قرض لے لیتا اور اس قرض کی مع سود واپسی کے لیے اپنی رعایا پر مزید ٹیکس لگا دیا کرتا۔اُس کی رعایا یہ ٹیکس طوعاً و کرھاً دیتی ہی رہتی تھی۔بسوں، محفلوں اور دل میں گالیاں بک لیا کرتی تھی، مگرکبھی کوئی احتجاج نہیں کرتی تھی۔احتجاج نہ کرنے سے بادشاہ یہ سمجھتا تھا کہ رعایااُس کے محلات کی شان و شوکت اور اُس کے ڈبل ملبوسات کی چمک دمک دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے، اور اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بادشاہ کس قیمت پر اپنا یہ شوق پورا کر رہا ہے۔ رعایا کے متعلق اُس کے وزراء بھی اُسے یہی بتایا کرتے تھے کہ :
’’ سرکار!رعایا کے لیے آپ کے محلات اور آپ کاڈبل لباس کوئی مسئلہ نہیں۔، رعایا کے مسائل تو بھوک افلاس ، بیروزگاری، دہشت گردی، سی این جی کی بندش اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ وغیرہ ہیں۔‘‘


بادشاہ کے وزراء اور اہلِ دربار بھی ہروقت باشاہ کے محلات اور اُس کے ڈبل لباس کی شان میں قصیدے ہی پڑھتے رہتے تھے۔وہ بِچارے قصیدے نہ پڑھتے یا ’’بادشاہ کھپے‘‘ کے نعرے نہ لگاتے تواور کیا کرتے ؟ ارے بھئی بچو! اگروہ ایسا نہ کرتے تو اُن کا حال بھی رعایا جیساہی ہو جاتا۔اِس وجہ سے وہ بادشاہ، اُس کے محلات اور اُس کے ڈبل ملبوسات کی شان میں ’’ روز اِک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ‘‘ پڑھا کرتے جو اگلے روز کے اخبارات میں چھپ جاتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ سوئے فرنگ سے ایک وفد آیا۔وفد سے اور جو باتیں ہوئیں سو ہوئیں۔ مگر اِس وفد میں آئے ہوئے کچھ ماہر فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کو ایک جھانسا دیا۔ اُنھوں نے ڈبل لباس کے شوقین بادشاہ کو لالچ دیا کہ :
’’ یور ایکسی لینسی! ہم اپنی کاریگری دکھا کر آپ کے لیے ایسا دوہرا لباس تیار کریں گے کہ اسے زیب تن کرکے آپ کی شان وشوکت میں مزید اضافہ ہو جائے گا، شان وشوکت ہی میں نہیںآپ کی طاقت میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا۔طاقت ہی میں نہیں آپ کے دورِ حکومت میں بھی مزید اضافہ ہوجائے گا۔‘‘
یہ سن کرتو بادشاہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔اس نے کہا :’’سائیں! ہم کو ایسا لباس کھپے۔۔۔تم جو مانگو گے ’’مئیں‘‘ تم کو دوں گا‘‘۔
فرنگی جو جو کچھ مانگتے گئے، بادشاہ اُن کو دیتا چلا گیا۔گھر بار دیے۔ زمینوں کی زمینیں دے دیں۔اُن کوفوجی ٹھکانہ بنانے کے لیے اڈے دے دیے۔کراچی ائرپورٹ پر کمپاؤنڈ بنانے کی اجازت دے دی۔ محافظوں کی چوکیاں دے دیں۔ ملک کا سارا سوت کپاس دے دیا۔ عورتوں کی اوڑھنیاں دے دیں۔ بچوں کی کتابیں اور اُن کی تختیاں دے دیں۔یہاں تک کہ اُن کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں لوٹ مارکریں قتل و غارت کریں اوراپنے کرائے کے دہشت گردوں سے دھماکے بھی کروائیں۔ اُن کو روکا جائے گا ، نہ ٹوکا جائے گا ، نہ سرکاری پوچھ گچھ ہوگی۔اُلٹاہر دھماکے کا الزام طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی پرلگادیا جائے گا۔


فرنگی کاریگر اپنا کام دکھاتے رہے۔وہ بادشاہ کے لیے دوہرا لباس بناتے رہے۔باربار قین دلاتے رہے کہ اس لباس کو پہن کر بادشاہ کی شان وشوکت ، قوت و طاقت اورزمانۂ حکومت میں زبردست اضافہ ہوجائے گا۔بادشاہ نے اُن کو وہ کچھ بھی دینا شروع کر دیا جو اُنھوں نے ابھی مانگا بھی نہیں تھا۔وہ قرض اُتارے کہ جو واجب بھی نہیں تھے۔ ایک دن فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کے سامنے اُس شان وشوکت اور قوت و طاقت والے لباس کو پیش کردیا۔ لباس کی خوب تعریفیں کیں اور یہ انکشاف کیاکہ:
’’ یور آنر!آپ کے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت ہی نہیں، آپ کا لباس بھی، صرف اُنھی لوگوں کو دکھائی دے گا جو عقل و دانش اور فہم وفراست رکھتے ہیں۔احمقوں ، بے وقوفوں اور عقل سے پیدل لوگوں کو ان میں سے کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا‘‘۔
’’مئیں سمجھتا ہوں۔۔۔مئیں سمجھتا ہوں‘‘ ۔
بادشاہ نے کہا اور ملک بھر میں یہ اعلان کروا دیا کہ:
’’ میں اپنے نئے لباس میں قوم کو اپنا دیدار کرواؤں گا۔ سوائے احمقوں، عقل سے پیدل لوگوں اور سرکاری مناصب کے لیے نا اہل افراد کے،میرے دوہرے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت سب کو صاف نظر آئے گی۔‘‘
اور پھر وہ دن آیا۔۔۔ جب فرنگی کاریگروں کے ایما پر بادشاہ نے اپنے اس نام نہاد دوہرے لباس کو پہن کر اپنا(ہی) جلوس نکلوانے کا اہتمام کیا۔جس وقت فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کو غیر مرئی ’’شان وشوکت اور قوت و طاقت والا لباس‘‘ پہنایاتھاتو، نظر تو بادشاہ کو بھی کچھ نہ آیاتھا۔وہ ویسے کا ویسا تھا۔ بلکہ اپنے آپ کو بے لباس بھی محسوس کر رہا تھا۔ مگران فرنگی کاریگروں اور اپنے چاپلوس درباریوں کے سامنے خود بدولت کو احمق،عقل سے پیدل اورسرکاری منصب کے لیے نااہل کیسے ثابت کربیٹھتا؟سو، اُسے اپنے اس لباسِ بے لباسی ہی میں شان و شوکت، طاقت و قوت اور اپنی اہلیت سب کچھ نظر آنے لگی۔وہ ننگ دھڑنگ باہر نکل آیا۔
’’دیکھو میرا نیا لباس!‘‘
درباریوں اور وزراء میں سے بھی کسی کویہ سچ بولنے کی ہمت نہ پڑی کہ:
’’ سر کار ! فرنگیوں نے تو آپ کو بے لباس کرکے رکھ دیا ہے۔‘‘
بھلا کون یہ کہہ کراپنے آپ کو احمق، عقل سے پیدل اور اپنے منصب کے لیے نا اہل قرار دلواتا؟ایک غول کا غول تھا خوشامدیو ں کا جس نے بادشاہ کے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت کے قصیدے کورَ س کے انداز میں پڑھنے شروع کر دیے۔
’’ سبحان اﷲ! اس لباس کی کیاشان ہے‘‘۔
’’واہ واہ کیاہیبت ہے ، کیا شوکت ہے‘‘۔
’’کیارعب ہے، کیاطنطنہ ہے، کیا طاقت ہے‘‘۔
’’ کیا زور ہے، کیا قوت ہے‘‘۔
ننگے بادشاہ کا جلوس چلا جارہا تھا۔ کوئی یہ کہنے کی ہمت نہیں پارہاتھا کہ اُسے کوئی شان وشوکت نظر آرہی ہے ،نہ طاقت و قوت نہ بادشاہ کے تن پر کوئی لباس۔یکایک اپنے باپ کی گود میں ہُمکتے ہوئے ایک ننھے منے سے بچے نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اوربادشاہ کی طرف اُنگلی سے اشارہ کیا اور کلمۂ حق بلند کیا:
’’ ابو۔۔۔ ابو!۔۔۔ ہمار بادشاہ ننگا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی مجمع میں مکھیاں سی بھنبھنانے لگیں:
’’ ہاں واقعی، ذرا دیکھوتو سہی!‘‘
’’ہاں جی!ننگا تو مجھے بھی لگ رہاہے!‘‘
’’ بچہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، صاحب!‘‘
اس کے بعد تو پورا مجمع ہی کورَس کے انداز میں نعرے مارنے لگا:
’’ بادشاہ ننگا ہے ….. بادشاہ ننگا ہے ….. بادشاہ ننگاہے‘‘۔
بادشاہ کے پاؤں من من بھر کے ہوگئے۔ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔ اُس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ آگے پیچھے ہاتھ رکھ کر اور کسی ہوائی جہاز میں اُڑ کر کہیں سوئے فرنگ چلاجائے کہ وہاں ننگا رہنا کوئی عیب نہیں۔ مگر اُس نے دیکھا کہ خود فرنگی کاریگر بھی قہقہوں پر قہقہے مار رہے ہیں۔ وہ بھی سب کے ساتھ نعرے بازی کے اِس کورَس میں جوش وخروش سے شریک ہوگئے ہیں کہ:
’’ بادشاہ ننگا ہے ! ….. بادشاہ ننگاہے! ….. بادشاہ ننگاہے! …..‘‘

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں