ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

24 ستمبر، 2014

لمحہ فکریہ


 پہلے قرآن سامنے ٹیبل پر رکھا ہوتا تھا، کوئی نہ کوئی پڑھ لیتا تھا ۔
پھر ایسا ہوا کہ ٹیبل کے پاس ٹی وی رکھ دیا ۔۔۔۔
سب ڈرامے فلمیں دیکھنے لگے تو قران پاک کی بے حرمتی ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایسا کیا کہ قران پاک کو بہت اونچا سٹینڈ لگا کر وہاں رکھ دیا ۔۔۔۔
اور سرکار !! پتا ہے اب قران بہت اونچی جگہ پر ہے، کسی کا ہاتھ بھی نہیں جاتا وہاں تک ۔۔۔۔۔
خیر سے ہم نے بےحرمتی سے بچا لیا




16 ستمبر، 2014

تقدیر کو تدبیر کے شاطر نے کیا مات


 اس فقرے کی گونج موجودہ تاریخ میں بار بار سنائی دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ علامہ اقبال نے بغیر کسی تجربے یا چوٹ کھائے ہوئے اپنے وجدان اور قرآنی علم کی روشنی میں اس دور کی جمہوریت کے کریہہ چہرے سے نقاب الٹا‘ اس آزادی کی نیلم پری کو دیو استبداد کہا جب کہ دنیا نئی نئی اس کے سحر میں گرفتار ہوئی تھی۔
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال کی عظیم اور معرکۃ الٓاراء نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس اور اس کے مشیروں کی گفتگو میں اس نظام کے غلیظ چہرے کو بے نقاب کیا گیا ہے وہ مغربی جمہوریت ہے جسے انسانی حقوق‘ آزادی اظہار اور عوام کی حکمرانی جیسے خوبصورت تصورات کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اقبال کی ایک اور نظم ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘ میں ابلیس اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ اب دنیا میں انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے میری ضرورت باقی نہیں رہی‘ اس لیے کہ
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
گمراہی کا جو پرچم ازل سے ابلیس نے اٹھا رکھا تھا‘ اقبال کے نزدیک اب اس کے پرچم بردار جمہوری نظام کے سیاست دان ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال اپنی طنزیہ شاعری میں بھی جمہوری نظام کا تمسخر اس طرح اڑاتا ہے۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ممبری‘ کونسل‘ صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
لیکن جس شعر نے اس مغربی طرز جمہوری کی اساس پر کاری ضرب لگائی اور اقبال کی روحانی پارلیمنٹ کا تصور دیا وہ دنیا کی کسی بھی جمہوری پارلیمنٹ پر صادق آتا ہے۔
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کار شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آئی
اس کا ترجمہ یوں ہے کہ طرز جمہوری سے پناہ مانگ اور کسی پختہ کار یعنی صاحب علم و کمال و تجربہ کا غلام بن جا۔ اس لیے کہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر برآمد نہیں ہو سکتی۔ یہ اس فرد کے خیالات ہیں جسے مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ جس کے خوابوں کی تعبیر یہ مملکت ہے جسے اس وعدے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اس مالک کائنات کا فرمان نافذ ہو گا۔ ورنہ جمہوری طور پر تو ایک ہندوستان میں بھی زندہ رہا جا سکتا تھا۔
مسلم لیگ کی پچاس ساٹھ سیٹیں بھی ہوتیں پارلیمنٹ میں‘ جماعت اسلامی بھی چند نشستوں پر کھڑے ہو کر ’’حق گوئی‘‘ کا فریضہ ادا کرتی‘ پیپلز پارٹی اور دیگر سیکولر جماعتیں بھی سیکولر کانگریس یا بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنا کر برسراقتدار آجاتیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے لوگ اپنے یو پی میں ہوتے اور بابری مسجد کے تحفظ کی تحریکیں چلاتے اور اس پارٹی کو ووٹ دیتے جو انھیں زیادہ مراعات دیتی۔ جمہوریت بھی مستحکم ہوتی اور اس کے ادارے بھی۔ ایک تسلسل بھی قائم رہتا۔ یہ ملک اسی لیے جمہوریت کے عالمی اصولوں کے منافی بنایا گیا تھا کہ ہمیں جمہوریت وارا نہیں کھاتی تھی۔
ہمارے لیے یہ جمہوریت ’’اکثریت کی آمریت‘‘ Tyranny of Majority بن جاتی جو آج بنی ہوئی ہے اور وہاں پاکستان سے بھی زیادہ مسلمان بستے ہیں لیکن سچر رپورٹ کے مطابق شودروں اور دلتوں سے بھی بدتر‘ محروم اور پسماندہ ہیں۔ یہ ہے اس جمہوریت کا پھل جو انھیں میسر ہے‘ وہاں تو تسلسل بھی ہے‘ الیکشن بھی شفاف ہوتے ہیں‘ فوج بھی تختہ نہیں الٹتی۔ سب کچھ بہترین‘ لیکن بیس کروڑ مسلمان جنھیں ’’پریشر گروپ‘‘ کہا جاتا ہے وہ آج بھی محکوم اور اکثریت کی آمریت کے ظلم کا شکار ہے۔
یہ سب مل کر اگر پچاس کروڑ بھی ہو جاتے تو ایک ارب ہندوئوں کی اکثریت کے سامنے ان کی کیا اوقات اور حیثیت ہوتی۔ اکثریت بھی وہ جو کارپوریٹ سرمائے کی جمہوریت پر استوار ہو‘ جسے متل‘ امبانی‘ ٹاٹا اور برلا کے سرمائے نے پالا ہو۔ کارپوریٹ سرمایہ جو سات ارب ڈالر اوباما‘ 14 ارب ڈالر سرکوزئی اور تین ارب ڈالر گورڈن برائون کی پارٹیوں کو ملتا ہے اور انھیں غلام بنا لیتا ہے۔ انھی سرمایہ داروں نے تیس ہزار ارب ڈالر امریکی ٹیکس حکام سے چوری کرنے کے لیے کیمن جزیرے میں رکھاہے لیکن کانگریس میں ایک آواز نہیں اٹھتی۔ کیوں؟ جمہوری تسلسل کے لیے پارٹی فنڈ ضروری ہیں‘ سرمائے سے چلنے والے میڈیا کی مدد چاہیے۔ یہ دونوں جو کوئی فراہم کریگا‘ جمہوری ارباب سیاست پتلیوں کی طرح اس کے اشاروں پر ناچیں گے۔
پچاس کروڑ مسلمان اگر اس سیکولر بھارتی جمہوریت میں ہوتے تو دنیا ان کی پسماندگی اور افلاس کی مثالیں دیتی۔ سیلاب میں ڈوبے بنگالی‘ ہندو مہاجن کے قرض میں جکڑے پنجابی اور سندھی‘ پسماندہ بلوچ جن کی ریاست قلات میں چند میل پکی سڑک تھی اور کوئٹہ سے کراچی تک صرف دو جگہ پانی میسر تھا۔ انھیں اس اکثریت کی آمریت میں صرف ایک ہی بات یاد آتی۔ ہم پر اس لیے ظلم کیا جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں‘ جس طرح آج کے بھارت کے مسلمان نہ خود کو پنجابی کہتے نہ گجراتی اور نہ بنگالی‘ اس لیے کہ سب پر جمہوریت کی اکثریت کا ان پر بحیثیت مسلمان ظلم یکساں ہے۔
اس فقرے کی گونج 1970ء کے الیکشن میں بدترین شکست کے بعد مولانا مودودی کے منہ سے سنائی دی تھی۔ میں اس عصر کی محفل میں موجود تھا جب انھوں نے کہا تھا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جمہوریت کے علاوہ اور بھی بہت راستے ہیں اور پھر انھوں نے راستے گنوانا شروع کر دیے۔ آج 44 سال بعد عوامی جرگے کے ناکام و نامراد لوٹنے کے بعد سراج الحق صاحب نے فرمایا۔ ’’اس طرز جمہوریت کو ایک نہیں تین طلاقیں‘‘۔ وجہ بتائی کہ سیاستدان کروڑوں لگا کر اربوں کماتے ہیں۔ طلاق کا اصول یہ ہے کہ اگر وہ کسی وجہ کے ساتھ منسوب کر دی جائے اور وہ وجہ قائم رہے تو شرعاً طلاق ہو جاتی ہے۔
معلوم نہیں کہ یہ طلاق قائم رہتی ہے یا حلالہ کی نوبت آ جاتی ہے۔ رضائے الٰہی کا حصول ہو یا اسلامی شریعت کا نفاذ‘ مغربی جمہوری نظام کا راستہ ہی اس سے مختلف ہے۔ کیا سید الانبیاء کی دعوت یہ تھی کہ اسلام قبول کر لو تمہیں تعلیم‘ صحت‘ روز گار اور بہتر زندگی کی سہولیات ملیں گی۔ سیکولر اور مذہبی جماعتوں کے منشور اٹھائیں‘ اوپر کے ورق پھاڑیں‘ سب کے اہداف ایک جیسے ہیں‘ صرف دینی جماعتوں نے ان میں قرآن کی آیات تحریر کر رکھی ہیں۔ یہ سب اس سرمایہ دارانہ‘ سودی نظام کے تحفظ کے راستے پر گامزن ہیں۔ جہاں یہ تصور کر لیا جائے کہ اللہ کی حاکمیت اسی وقت اس ملک پر قائم رہ سکے گی اگر اسے آئین کے چند صفحات تحفظ دیں تو اس سے بڑا شرک اور کیا ہو سکتا ہے۔ پھر اس شرک کے تسلسل کو پاکستان کے مستقبل سے وابستہ کیا جاتا ہے۔
یاد رکھو اگر اللہ چاہے گا تو یہ ملک سلامت رہے گا‘ خواہ آئین اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں کیوں نہ پھینک دیا جائے اور اگر اللہ نے ہمارے اعمال کی سزا کے طور پر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا تو سارے کا سارا دستور اسلامی بنا دو اور اس کی ایک شق پر بھی عمل نہ کرو تو یہ پاکستان نہیں بچ سکے گا۔ لیکن اس پاکستان نے رہنا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کی غیرت و حمیت اور سید الانبیاء کی بشارتوں کی علامت ہے۔ اگر اللہ کی غیرت و حمیت اور حاکمیت اعلیٰ پر کامل ایمان ہو تو پھر سسٹم کے تسلسل پر نہیں اللہ کی تقدیر پر یقین ضروری ہوتا ہے۔
تدبیر کے بندوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کے غلام ہوتے ہیں۔ لیکن حالات اب تاریخ کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔ یہ تو ابھی اسلام آباد پر بادل نمودار ہوئے ہیں‘ یہ کالی گھٹا بنیں گے‘ سیلاب جو بڑی بڑی عمارتوں کے مکینوں کو بہا کر لے جائے گا۔ قیامت کا سماں ہے۔ سورہ التکویر کی اس آیت کے مصداق کہ جب وحشی جانور اپنی وحشت بھول کر اکٹھے ہو جائیں گے۔ وہ باتیں‘ وہ نعرے‘ وہ مطالبے جو دھرنے میں کیے جا رہے ہیں اگر یہ ساری جماعتیں پارلیمنٹ کے ایوان میں کرتیں‘ ایک سال یہ ہنگامہ اس ایوان میں برپا رہتا تو کیا دھرنے کا کو جواز باقی رہتا۔ لیکن یہ تو صرف اور صرف تسلسل چاہتے ہیں۔
ایک فرعون کا اقتدار چار سو فرعون میں تقسیم کر کے اسے جمہوری تسلسل کا نام دینا چاہتے ہیں۔ سراج الحق صاحب‘ تین طلاق دے دیں کہ جسے آپ آزادی کی نیلم پری سمجھ کر بچانا چاہتے ہیں‘ وہ دیو استبداد ہے۔ اس اللہ سے امید استوار کریں جو نہ کسی تسلسل کا محتاج ہے اور نہ کسی نظام کا تابع۔ گھٹا چھانے والی ہے‘ سیلاب کی آمد ہے جو بڑے بڑے پُر غرور سروں کو ڈوبتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے ’’میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لایا‘‘۔