ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

31 دسمبر، 2014

ان بیان ایبل از گل نوخیز اختر


 ہماری ایک معروف افسانہ نگارکی شادی کی عمر گذرتی جارہی تھی، موصوفہ تقریباًکسی سے بھی شادی کرنے پر راضی تھیں لیکن دوسری طرف سے کوئی بھی قانونی اقرارکرنے کو تیار نہیں تھا۔ بالآخر 35 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔ انہوں نے شادی میں کسی کو انوائٹ نہیں کیا، ایک دن ایک تقریب میں مل گئیں تو میں نے شکوہ کیا کہ آپ نے چپکے سے شادی کرلی اور بلایا بھی نہیں۔ خوشی سے شرمندہ ہوکر بولیں ’’اصل میں سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ کئی رشتہ داروں کو بھی نہیں بلاسکی‘‘۔ میں نے پوچھا’’ماشاء اللہ دولہا بھائی کرتے کیا ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی اٹھلا کر بولیں’’ان کی روٹیوں کی فیکٹری ہے‘‘ میری آنکھیں پھیل گئیں، بعد میں پتا چلا کہ دولہا بھائی کا ذاتی تنور ہے۔
ہمارے ہاں اپنی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا رواج اتنا زور پکڑ چکا ہے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ذکر کرنا بھی اپنی توہین سمجھنے لگے ہیں۔اوپر سے اللہ بھلا کرے انگریزی کا جس نے بہت سے کاموں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ہمارے ایک دوست کی شادی ہوئی تو سب نے پوچھا کہ سُسر صاحب کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے’’بزنس مین ہیں اور بائیو گیس کے لیے رامیٹریل فراہم کرتے ہیں‘‘۔ ہم سب بے حد متاثر ہوئے کیونکہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ کچھ عرصے بعد ایک آرٹیکل پڑھتے ہوئے بائیو گیس اور اس کے ’’میٹریل‘‘ کے بارے میں پڑھا اور تب سمجھ میں آیا کہ اگر انگلش ایک سائیڈ پر رکھ دی جائے تو اس کا ترجمہ ’’گوبر‘‘ بنتا ہے۔
کچھ لوگ بڑے آرام سے ایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ جب تک تفصیل کا نہ پتا چلے یہ جھوٹ بالکل سچ معلوم ہوتاہے۔ مثلاً میری ایک ’’سگی کلاس فیلو‘‘ کی منگنی ہوئی تو اس کی سادہ اور معصوم سی والدہ نے بتایا کہ لڑکا پہلے سٹیٹ بینک میں لگا تھا ، اب پان سگریٹ کا کھوکھا لگاتاہے۔میں نے اپنے کان کھجائے’’سٹیٹ بینک اور پان سگریٹ کے کھوکھے‘‘ کا تقابلی جائزہ لیااور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔کلاس فیلو سے پوچھا تو اس نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ بالآخر لڑکے والوں سے پوچھا گیاکہ لڑکا کب سٹیٹ بینک میں لگا تھا۔ جواب ملا’’پچیس اگست 1998ء کو رات پونے ایک بجے‘‘۔ یہ سنتے ہی لڑکی والے بوکھلا گئے کہ رات پونے ایک بجے سٹیٹ بینک میں کون سی جوائننگ ہوتی ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ لڑکے والوں نے جھوٹ نہیں بولا تھا، لڑکا اصل میں پہلے رکشہ چلا تا تھا، پچیس اگست کو اس کے رکشے کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ سیدھا ’’سٹیٹ بینک میں جالگا‘‘۔

اصل میں ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے بارے میں کچھ سچ بولا تو لوگ ہمیں کم تر سمجھیں گے، یہی خوف ہم سے پے درپے جھوٹ بلواتا چلا جاتا ہے اور بالآخر بیڑا غرق کروا کے چھوڑتاہے۔کیا حرج ہے اگر ہم بتادیں کہ ہمیں کافی کا ٹیسٹ پسند نہیں، کوئی زبردستی تو ہمارے حلق میں کافی نہیں انڈیل دے گا۔اپنی مثال اس لیے نہیں دوں گا کیونکہ مجھے کافی بہت پسند ہے بلکہ اب تو مجھے Cappuccino کے سپیلنگ بھی یاد ہوگئے ہیں ، میں جب بھی کافی منگواتا ہوں سب سے پہلے ختم کرتا ہوں، میرے دوستوں کو یقین ہے کہ میں کافی کا دیوانہ ہوں، یہ بات بالکل سچ ہے کیونکہ چائے اور کافی میں وہی فرق ہے جو تاش اور شطرنج میں ہے۔ لیکن میراکافی پینے کا اپنا ہی سٹائل ہے۔۔۔میں صرف ایسی جگہ پر کافی پینا پسند کرتا ہوں جہاں واش بیسن قریب ہو۔
 ہول آتا ہے یہ سوچ کر کہ اب گھروں میں مسی روٹیاں نہیں بنتیں،سوجی کی پنجیری نہیں تیار کی جاتی۔۔۔اپنے ایمان سے بتائیے گا کتنا عرصہ ہوگیا ہے آپ کو السی اور چاول کی پنیاں کھائے ہوئے؟ سونف اور گری باداموں والاگڑ کب کھایا تھا؟ گنے کے رس کی کھیر کب حلق میں اتاری تھی؟ گھی میں بنائی ہوئی مونگ اور چنے کی دال کا ’’دابڑا‘‘ کب چکھا تھا؟ بھینس کی ’’بوہلی‘‘ کھائے کتنا عرصہ بیت گیا ہے؟ پتا نہیں قارئین میں سے کتنے لوگ ’’بوہلی‘‘ کے نام سے واقف ہیں؟ یہ اُس بھینس کا پہلے دو تین دن کا دودھ ہوتاہے جو تازہ تازہ ماں بنتی ہے۔ یہ غذائیں ہمیں اس لیے بھی یاد نہیں کہ ان کے ذکر سے ہی پینڈو پن جھلکتا ہے۔ شہری لگنے کے لیے پیزا، برگر، شوارما، سینڈوچ، سلائس، اورنگٹس کھانا اور ان کے نام آنا بہت ضروری ہے۔
 پرانی چیزوں پر بھی انگریزی کا رنگ روغن اشد ضروری ہوگیا ہے، اب چوکیدار نہیں واچ مین ہوتاہے۔ منشی اب اکاؤنٹنٹ کہلاتاہے، پہرے دار کے لیے سیکورٹی گارڈ کا لفظ استعمال ہوتاہے، البتہ ایک’’وٹنری ڈاکٹر‘‘ ایسا نام ہے جسے بیرونی دنیا میں تو بہت عزت حاصل ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی تک اس کے لیے ’’وہی ‘‘ لفظ استعمال کیا جاتاہے۔۔انگلش کی ہی بدولت اب کم پڑھا لکھا مریض بھی ڈاکٹر کو اپنے مرض کی تفصیلات شریفانہ انداز میں بتانے کے قابل ہوگیا ہے ورنہ جب تک انگلش کے الفاظ مقبول نہیں ہوئے تھے مریض ڈاکٹر کے سامنے اپنی جملہ تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے ایسے ایسے ’ ’ان بیان ایبل‘‘ الفاظ استعمال کیا کرتا تھا جنہیں اب دہرایا جائے تو باقاعدہ بیہودگی کے زمرے میں آتے ہیں۔
 مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہر صورت دوسرے کو متاثر کرنے کا جنون ہوگیا ہے اور یہی جنون ہم سے اصل زندگی چھینتا چلا جارہا ہے۔کیامونگ مسور کی تڑکے والی دال کے آگے ’’پران‘‘ کی کوئی حیثیت ہے؟ کیا کوئی پیزا آلو کے پراٹھوں کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ کیا چلی ساس، پودینے کی چٹنی سے بہتر ہے؟گڑ کی ڈلی سے بہتر کس کینڈی کا ذائقہ ہے؟ مٹی کی ہانڈی میں پکے کھانے کا سواد کس فائیو سٹار ہوٹل کے شیف کے ہاتھ میں ہے؟سرسوں کے تیل سے زیادہ دماغ کو سکون کون سا لوشن دے سکتا ہے؟ کیا چاٹی کی لسی اور پینا کلاڈا کا کوئی جوڑ بنتا ہے؟؟؟ مکی کی روٹی اور ساگ کے برابر میں جیم اور سلائس رکھ کر دیکھیں خود ہی فرق معلوم ہوجائے گا۔ لیکن ہمیں یہ چیزیں اس لیے پسند نہیں کیونکہ جن لوگوں میں ہم رہتے ہیں اُنہیں یہ پسند نہیں۔ دوسروں کی پسند کا خیال رکھنے کی دوڑ میں ہمیں ہر وہ چیز بھولتی جارہی ہے جس کے ہم کبھی دیوانے ہوا کرتے تھے۔

اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں اپنا آپ مارنا پڑرہا ہے۔ہم نے کتنی محنت سے اپنے ذائقے تبدیل کر لیے، اپنے حلئے تبدیل کر لیے، اپنے رویے تبدیل کرلیے ۔۔۔اب ہم معمولی سی بات کو تھوڑا سا گھما کر بیان کرتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ سچ۔۔۔لیکن معاشرے میں ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔اب بے شک ہماری قمیض کی بغلیں پھٹی ہوئی ہوں، پیروں میں قینچی چپل ہو، بال الجھے ہوئے ہوں لیکن ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اصل میں ہم ’’رائل فیملی‘‘ سے بلانگ کرتے ہیں۔ہر کسی نے اپنے دو چار پڑھے لکھے اور امیر رشتے دار ایسے ضرور سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں جن کے نام وہ اکثر استعمال کرتے ہے تاکہ انہیں اپنے اِن رشتہ داروں کے طفیل اس معاشرے کے اہم ترین افراد میں شمار کیا جائے۔خود وہ کیاہیں۔۔۔ یہ اُنہیں بتانے کی ہمت ہے نہ سکت۔۔۔!!! 

 

29 دسمبر، 2014

دنیا والو!! کیا کریں؟

  ہم نے کہا اسلام چاہیئے، انہوں نے کہا جمہوریت ہے عوام سے ووٹ مانگو، پارلیمنٹ میں آؤ اور نافذ کرلو، مصر والے مان گئے، اخوان کو ووٹ دیئے، ابھی سال ہی ہوا تھا کہ فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، صدر کو قید کرلیا اور اب فوج اقتدار پر قابض ہے، اخوان نامی تنظیم پر مکمل پابندی ہے ۔۔۔ اور یہ ثابت کردیا کہ چاہے ہم جتنا بھی "اُن" جیسے ہو جائیں اور اپنے جائز حق یعنی اسلام کو لینے کی کوشش کریں جمہوریت میں ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔
  ہم نے پھر کہا کہ مانگنا نہیں سیدھا نافذ ہی کرنا ہے، افغانوں کی سمجھ میں بات آئی، طالبان نامی تنظیم بنائی جس نے دو سالوں میں پورے علاقے کو غیر جمہوری طریقے سے اپنے زیرِ اثر کرلیا، اسلامی احکام نافذ کرنے شروع کئے، دنیا نے نتائج دیکھے، پانچ سال لوگوں کے دلوں پر حکومت کی اور امارت قائم رہی لیکن "اُن" کو بلکل بھی نا بھائے، انہوں نے تابڑتوڑ حملے شروع کردئیے، امارت ختم ہوگئی اور مرتب کردہ نظام بھی ۔۔۔ ثابت یہ ہوا کہ اس طریقے سے بھی اسلام نافذ نہیں کرنے دیا جائے گا۔
  کچھ عرصہ بعد ایک گروہ اٹھا جس نے تمام طریقوں سے اختلاف کیا اور جبر کی راہ اپنائی، بنام دولتہ السلامیہ اس گروہ نے خلافت کے بھی قیام کا اعلان کردیا، اور صرف تین ماہ لگے عالمِ کفر متحد ہوکر آگیا کہ ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا، فضا سے بموں کی بارش کرکے  یہ بھی ختم کردیا ۔۔۔ یعنی ثابت یہ کہ پرتشدد راہ بھی اختیار نہیں کرنے دی جائے گی۔


  ہم پھر وہیں کھڑے ہیں، اسلام چاہتے ہیں، کیا کریں، دنیا والو ۔۔۔ بتاؤ  کیا کوئی طریقہ تمہیں قبول ہے ؟

27 دسمبر، 2014

بھینس کا علاج


 کہتے ہیں کہ کسی شخص کی بھینس بیمار ہوگئی۔ وہ اپنے دوست کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ جب تمھاری بھینس بیمار ہوئی تھی تو تم نے کیا کیا تھا؟ دوست نے کہا کہ میں نے اسے مٹی کا تیل پلایا تھا۔ یہ سُن کر وہ شخص فوراً پلٹا اور اپنے گھر پہنچ کر بھینس کو مٹی کا تیل پلا دیا۔ کچھ ہی دیر میں بھینس مرگئی۔ یہ دیکھ کر وہ بہت طیش میں آیا اور پھر دوست کے گھر جا پہنچا، اسے بتایا کہ میں نے بھینس کو مٹی کا تیل پلایا تو وہ مرگئی۔ دوست نے کہا میری بھینس بھی مر گئی تھی۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا’’تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں‘‘ دوست نے جواب دیا’’تم نے پوچھا کب تھا؟‘‘

ہمارے حالات بھی اسی نادان شخص کے مانند ہیں کہ کسی کا عمل دیکھ کر نتیجے کی پروا کیے بغیر ویسا ہی عمل شروع کر ڈالتے ہیں اور کچھ عرصے بعد پچھتا رہے ہوتے ہیں۔ یورپ، امریکا کے عوامل کی اندھا دھند تقلید کے نتیجے میں ہمارے بھینسوں کے باڑے کی بہت سی بھینسیں ہلاک ہوچکی ہیں لیکن حرام ہے جو ہم نے سبق سیکھا ہو۔ ہم باقی ماندہ بھینسوں کو بھی تقلید کا تیل پلا پلا کر ان کے دم نکلنے کے منتظر ہیں۔ پھر ایک روز ہم مغربی دنیا سے گلہ کریں گے، تو ہمیں جواب ملے گا کہ بھائی تم نے ہم سے پوچھا ہی کب تھا؟
اندھا دھند تقلید کا آغاز زمانہ جدید کی چکا چوند سے ہوا جب ہم نے یورپی مصنوعات کا استعمال شروع کیا۔ برصغیر پر قبضے کے بعد یورپی اقوام نے پہلے پہل یورپی اسلحے کا دیسیوں پر استعمال شروع کیا جس کے رعب میں آکر دیسی بھی اپنے ہم نسلوں پر یورپی اسلحے کا استعمال کرنا سیکھ گئے۔ دیسی لباس کی جگہ یورپی لباس اور دیسی زبان کی جگہ یورپی زبان قابل فخر عمل ٹھہری۔
انگریزوں نے بڑے پیمانے پر سب سے پہلے ہمیں چائے کا عادی بنایا جس کی تشہیری مہم میں بر صغیر میں پہلی بار نوجوان خواتین کو استعمال کیا گیا،جو ریلوے اسٹیشنوں پر مسافروں کو مفت میں

چائے پلا کر چائے کی فروخت میں اضافے کا باعث بنتی تھیں۔ چائے کی فروخت زیادہ ہوئی تو لسی اور دودھ کا استعمال کم ہوتا چلا گیا۔ موٹر سائیکل اور موٹر کار کی برصغیر میں آمد ذریعہ سفر میں ایک نئے دور کا آغاز تھا جس کے ساتھ ہی ریل اور ہوائی جہاز کی آمد نے سفر کو نیا رُخ عطا کیا۔ اب طرز تعمیر اور انداز بودو باش کی باری تھی۔ ہمیں یورپ سے آیا ہوا ہر تعمیری نقشہ قابل اعتبار معلوم ہوا اور ہم اپنی عمارات کی تعمیر بھی یورپی انداز میں کرنے لگے۔ اس تقلید میں ہم یہ بھی بھول گئے کہ یہ تمام انداز سرد ممالک کی ضرورت کے مطابق تیار کیے گئے ہیں جبکہ ہم شدید گرم علاقے کے باسی ہیں۔ بُرا ہو اندھی تقلید کا، ہم صحن کی نعمت اور کھلی ہوا میں سانس لینے سے بھی محروم ہوگئے۔
جدت اور ترقی ہر زمانے کا لازمی حصہ ہے۔ جدیدیت کوئی حرام شے نہیں جس سے ہر حال میں بچنا ہو۔ تقلید بُری نہیں بلکہ اندھی تقلید ہلاکت خیز ہے۔ کاش طبعی اشیا کی تقلید میں ہم نے اپنے زمان و مکاں کو مد نظر رکھ کر اپنی ضرورت کے مطابق جدت پیدا کرکے اشیا کو استعمال کیا ہوتا تو ہم بھی طبعی اشیا سے بہتر انداز میں فوائد حاصل کر پاتے۔ محض تقلید نے ہمارا مٹی کا مادھو ہونا آشکار کر دیا۔
طبعی اشیا اور ان کا استعمال اس قدر ضرر رساں نہیں۔ اصل ہلاکت خیزی تو اس وقت شروع ہوئی جب ہم نے معاشرتی میدان میں اندھی تقلید کی راہ اختیار کی۔ یورپی معاشرت کو برصغیر کے لوگوں نے حاکموں کی صورت میں تو دیکھ رکھا تھا یا کبھی کبھی انگریزی فلموں میں اس معاشرت سے واقفیت حاصل ہوتی تھی لیکن صورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب برصغیر میں ٹیلی ویژن کی آمد ہوئی۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کا قیام پاکستان کو دیے جانے والے پہلے بڑے امریکی پیکج کی لازمی شرط تھی۔ پہلے یورپی معاشرت کا مشاہدہ گھر سے باہر جاکر ہوتا تھا۔ اب یورپی معاشرت ہمارے گھر میں مشہود ہوئی اور ہم شاہد ٹھہرے۔
اس کو مہمیز اس وقت ملی جب ہمارے ہاں ڈش انٹینا اور کیبل نیٹ ورک کی آمد ہوئی۔ رہی سہی کسر انٹر نیٹ اور کمپیوٹرز کی فراہمی نے پوری کردی جو ہمارے بڑوں کے ذریعے بچوں کے ہاتھوں میں آگیا۔ اب ہم ایک نئے دور میں داخل ہوئے جِسے’’میڈیا کا دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ میڈیا کے حسن و قبح پر بحث اور اس کے حرام و حلال کے فیصلے کا حق بھی میڈیا ہی کے پاس ٹھہرا۔ میڈیا نے خود ہی رنگ برنگ موضوعات پر مباحث کا اہتمام کیا اور خود ہی اپنے حق میں فیصلے دے کر اپنے ہر قدم کے جواز کو سند عطا کی۔
میڈیا (یہ اصطلاح اب صرف الیکٹرانک میڈیا کے متبادل کے طور پر استعمال ہورہی ہے) کے مشاہدے کا آغاز صبح کی نشریات کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جسے عرف عام میں ’’مارننگ شو‘‘ کہا جاتا ہے۔ مارننگ شو میں پہلے پہل خواتین کے لیے کھانے پکانے اور سینے پرونے کے پروگرام پیش کیے گئے جس کے بعد اب ہر پروگرام کا لازمی حصہ رقص و موسیقی بن گیا۔ بہت سی خواتین و حضرات جنھیں ہم بہت عرصے سے دیکھتے چلے آرہے تھے اور وہ دیگر پروگراموں میں ہمیں خاصے سنجیدہ اور سلجھے ہوئے نظر آتے تھے۔ مارننگ شوز میں آکر چھچھورے رقاص ثابت

ہوئے۔ ان پروگراموں میں اس چھچھور پن کا آغاز شادی بیاہ کی نام نہاد رسموں سے ہوا جو بڑھ کر اب محض’’مجرے‘‘ بن کر رہ گئی ہیں۔ ہم نے جوان العمر سے لے کر اچھی خاصی عمر رسیدہ خواتین کو یہ مجرے کرتے دیکھا۔ یقین مانیے کہ سر شرم سے جھک گئے کہ نانی دادی کہلانے والی یہ خواتین کس ثقافت کی نمایندگی کررہی ہیں۔ رقص و موسیقی کے ہماری زندگی میں اس قدر دخیل ہونے کا کمال اس وقت سامنے آیا جب مسلم لیگ ق کی ایک انتخابی محفل میں چودھری شجاعت کے سامنے اسی قسم کا مظاہرہ کیا گیا جسے حاضرین نے خوب ڈھٹائی سے برداشت کیا اور داد بھی دی۔
میڈیا (یعنی الیکٹرانک میڈیا) میں ایک بد رسم کا آغاز ہوا ہے جسے بولڈ موضوعات پر گفتگو کا نام دیا گیا ہے۔ بولڈ ہونے کی آڑ میں زیادہ تر ان موضوعات کا انتخاب کیا جارہا ہے جن کا تعلق عائلی و ازدواجی زندگی اور جنسی معاملات سے ہے۔ وہ باتیں جو عقلاً بالغ اور مخصوص افراد کے درمیان ہونی چاہئیں اب کھلے عام کی جارہی ہیں اور کچے ذہنوں کو آلودہ کیا جارہا ہے۔ سکرین کے ایک کونے میں ’’PG‘‘ لکھ دینا یا’’بچے نہ دیکھیں‘‘ لکھ دینا اس بات کی ہرگز ضمانت نہیں کہ یہ پروگرام کون دیکھ رہا ہے۔ پیمرا نامی ادارہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے کہ میڈیا اس قدر منہ زور، منہ پھٹ اور طاقتور ہوگیا کہ ’’مافیا‘‘ کے انداز میں ایک دوسرے کو سہارا دے رہا ہے… زیارت ریذیڈنسی کے حوالے سے قائم ہونے والا مقدمہ اس کی مثال ہے جب اس ’’مافیا‘‘ نے زور ڈال کر حکومت سے مقدمہ واپس کروا دیا۔
کچھ عرصہ قبل اسی میڈیا پر ایک ایسی بحث پیش کی گئی جس میں فحش ویب سائٹس کے حوالے سے گفتگو پیش کئی گئی۔ حاصل کلام یہ تھا کہ آپ ان کو اب روک نہیں سکتے اور ساری دنیا میں یہ ویب سائٹس عام ہیں اگر ہمارے ہاں بھی ہیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اپنی تربیت اتنی بہتر کریں کہ نوجوان اس جانب متوجہ نہ ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ مغربی تقلید کے حامل شرکا مغرب سے بڑھ کر جواز پیش کررہے تھے۔ چند روز قبل برطانوی وزیر اعظم کا بیان نظر سے گزرا جس میں تجربے اور تجزیے کی بنیاد پر اس نے فحش مواد کے خلاف فیصلے لینے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مواد ہمارے بچوں کا بچپن تباہ کررہا ہے۔ جب مغرب اس مواد پر پابندی لگائے گا تو پھر ہمارے نام نہاد مفکرین کیا جواز پیش کریں گے۔
پڑھے لکھے پنجاب کے زمانے میں مغرب سے امداد کے بدلے ہمیں ’’مار نہیں پیار‘‘ کا نعرہ ملا۔ یہ نعرہ ہم نے ہر اسکول کے باہر اور اندر بورڈ پر لکھ کر لگایا۔ اس کے نیچے محکمہ تعلیم کے افسران کے ٹیلی فون نمبر دیے گئے تھے جن کو فون کر کے مار پیٹ کرنے والے ٹیچرز کے خلاف فوراً کارروائی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اس عمل سے فوائد تو نجانے کیا حاصل ہوئے لیکن ٹیچرز خوف زدہ اور طلبا خود سر ہوگئے۔ تعلیمی نظم و ضبط کمزور پڑگیا اور تعلیمی استعداد تنزلی کا شکار ہوگئی۔
1950ء کی دہائی تک برطانیہ و امریکا کے اسکولوں میں جسمانی سزا برائے اصلاح موجود تھی۔ ایک مشہور مقولہSpare the rod & spoil the child مغرب ہی کی پیش کش ہے۔ اُس زمانے میں بھی تعلیمی معیار تھا، ایجادات بھی ہورہی تھیں اور مغربی ممالک ترقی بھی کررہے تھے۔ ہم ابھی ترقی کی منازل سے فاصلے پر ہیں۔ معیشت بدحال ہے، تعلیم و تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے لیکن معاشرت میں مغرب کی برابری کی کوششیں ہورہی ہیں۔ یاد رکھیے کہ ہر چیز جو صدیوں سے آپ کی ثقافت کا جز ہے، ضروری نہیں کہ غلط ہو۔ معاشرت تبدیل کرنے سے پہلے سو بار

سوچیے کہ زیادہ تر صورتوں میں معاشرت کی تبدیلی ناقابل واپسی ہوتی ہے۔ بچوں کی اصلاحی سزا کے حوالے سے جان لیجیے کہ برطانیہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اصلاحی سزا کی اجازت دی جائے تاکہ ہماری اگلی نسل کو درست سمت میں تربیت دی جاسکے۔ تشدد کی تائید کوئی ذی عقل نہیں کرتا لیکن یاد رہے کہ سزا و جزا تربیتی عمل کا لازمی حصہ ہے۔ اور ہاں امریکا کی بھی سن لیجیے جہاں مار نہیں پیار کے نتیجے میں اسکولوں میں طلبہ کے بدمعاش گروہ پرورش پارہے ہیں۔ جن کی سرکوبی کے لیے مسلح محافظ تعینات کیے جاتے ہیں۔ امریکا

کے اسکولوں میں طلبا کے ایک دوسرے پر تشدد اور طلبہ کے ہاتھوں اساتذہ کے پٹنے کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ سنجیدہ امریکی طبقہ اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرا رہا ہے تاکہ صورت حال کو قابو میں کیا جاسکے۔ جب کہ ہم اس جانب جا رہے ہیں جہاں سے دوسروں کی واپسی ہورہی ہے۔ ہم اپنی ایک نہیں،کئی بھینسوں کو تیل پلا چکے ہیں۔
ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، اپنی غلطیوں کی اصلاح کیجیے۔ اپنی سمت کو درست کیجیے، اندھی تقلید سے بچیے اور بھینس کا صحیح علاج کیجیے۔اور ہاں! پڑوسی کی تقلید سے پہلے نتیجہ ضرور پوچھ لیجیے۔ 


پروفیسر محمدنعیم خان 

23 دسمبر، 2014

قصاص میں زندگی ہے


وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝ البقرہ ۱۷۹
ترجمہ: اور اے اہل عقل! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے کہ تم (قتل وخونریزی سے) بچو ۔

یہ نہایت فصیح و بلیغ جملہ ہے۔ جس پر عرب کے فصحاء عش عش کر اٹھے۔ کیونکہ اس مختصر سے جملہ میں دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔ یعنی قصاص بظاہر تو موت ہے۔ مگر حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ عرب میں جو فصیح محاورہ استعمال ہوتا تھا القتل انفی القتل یعنی قتل قتل ہی سے مٹتا ہے۔ مگر فی القصاص حیاۃ میں بدرجہا زیادہ لطافت، فصاحت، بلاغت ہے اور مضمون بھی بہت زیادہ سما گیا ہے۔


دور جاہلیت میں اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برسہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب بھر کا امن و سکون تباہ ہو چکا تھا۔ اس کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے قصاص کا عادلانہ قانون دے کر دنیا بھر کے لوگوں کو جینے کا حق عطا فرما دیا۔
 

آج بعض ملکوں میں قتل کی سز ا منسوخ کر دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سزا ظالمانہ اور بہیمانہ ہے۔ متقول تو قتل ہو چکا، اب اس کے عوض ایک دوسرے آدمی کو تختہ دارپر لٹکا دنیا بےرحمی نہیں تو کیا ہے۔
آپ خوفناک حقائق کو دلکش عبارتوں سے حسین بنا سکتے ہیں۔ لیکن نہ آپ ان کی حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ان کے برے نتائج کو رو پذیر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم قاتل کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کر پرنم ہو جائیں وہاں مظلوم و بےکس کا خدا ہی حافظ، وہ اپنے آغوش میں ایسے مجرموں کو نازو نعم سے پال رہا ہے جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسل کر رکھ دیں گے۔ وہ دین جو دین فطرت ہے، جو ہر قیمت پر عدل وانصاف کا ترازو برابر رکھنے کا مدعی ہے اس سے ایسی بےجا بلکہ نازیبا ناز برادری کی توقع عبث ہے۔
 

ہمارے ہاں بھی کچھ لنڈے کے انگریز جو خود کو لبرل کہلواتے ہیں اس سزا کے خلاف ہیں۔ نام نہاد "انسانی حقوق " کی تنظیموں اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کئی سال سے رکا ہوا تھا ۔ اور اس وقت پاکستانی جیلوں میں دہشتگری کے الزام میں سزا یافتہ 500 افراد سمیت قریباآٹھ ہزار افراد ایسے ہیں جنھیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
 

حالیہ واقعہ کے بعد جب حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا تو سب ایک بار پھر اپنی اپنی ڈفلی لے کر پہنچ چکے ہیں۔ الطاف حسیں کہتے ہیں کہ سزا صرف دہشتگردوں کو دی جائے اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرنے والے دہشتگرد تو ہرگز نہیں، بوری بند لاشیں پیک کرنے والے بھی دہشت گرد نہیں ۔ الطاف بھائی پر خود بھی کئی قاتل اور اقدام قتل کے مقدمات ہیں، وہ بھی دہشتگرد نہیں اس لیے اسے سزا نہ دی جائے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دوسری نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لنڈے کے انگریز بھی میدان میں آ چکے ہیں اس سزا کے خلاف۔
 

عجیب منطق ہے ان "انسانی حقوق" کی تنظیموں کی بھی، ایک مجرم کو سزا دینے سے تو ان کے مطابق انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں جبکہ بغیر کسی کا جرم ثابت کیے اس پر ڈرون اور میزائل مار کر اسے، اسکے گھر والوں کو ،اس کے بچوں کو، اسکے محلے اور پڑوس والوں سب کو مار دینے سے "انسانی حقوق "بالکل محفوظ رہتے ہیں۔کبھی آپ نے کسی "انسانی حقوق" کی لبرل تنظیم کو ڈرون حملوں کے خلاف بولتے نہیں دیکھا ہو گا۔
 

یہ تنظیمیں کسی طاقتور ملک کو بغیر کسی کا جرم ثابت کیے کسی ایک شخص کی "تلاش" میں کسی غریب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے، اس پر قالینی بمباری کرنے اور لاکھوں افراد کو قتل کرنے ، بچوں عورتوں اور بزرگوں کو وحشیانہ بمباری کر کے ان کے چیتھڑے اڑانے کی تو اجازت دیتی ہے لیکن کسی قاتل کو عدالتی کاروائی کے بعد جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔
 

قرآن کہہ رہا ہے کہ "تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے ۔"
 

اے اہل عقل اگر امن چاہتے ہو تو بلا تفریق تمام مجرموں کو سزا دو۔ چاہے وہ دہشتگردی کے جرم میں ہو، ٹارگٹ کلنگ میں یا ذاتی دشمنی کی بنا پر ۔ چاہے وہ ایم کیو ایم کے ہوں چاہے اے این پی کے یا چاہے فوجی۔چاہے الطاف بھائی ہو یا مشرف ۔ تمام مجرموں کو جب تک بلا تفریق سزا نہیں دی جاتی، امن محال ہے کیونکہ قصاص میں زندگی ہے۔

قصاص میں زندگی ہے۔

16 دسمبر، 2014

قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا


یہ تحریر دسمبرکے آخری دنوں میں لکھ رہاہوں وہ دسمبر جس کے آتے ہی زخم ہرے ہوجاتے ہیں ۔ انڈیاکی ننگی جارحیت نے مادرِ وطن کے دو ٹکڑے کردئیے۔ ایک بازو کاٹ کر رکھ دیا۔جسد ِملّت پرلگا ہوازخم اتنا گہراہے کہ قیامت تک نہ بھرسکے گا۔میں ٹین ایجر تھا جب میں نے اس سانحے پر بڑے معتبر اور باوقار لوگوں کو دیوانہ وار دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھا ۔ کیسے بھول جاوٴں کہ میں نے پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والے اپنے والد محترم کو دھاڑیں مار کرروتے دیکھا۔ محترمہ بشریٰ رحمن نے چند روز پہلے اپنے کالم میں اس دسمبر کاذکرکرتے ہوئے لکھا تھا ”یہ 16دسمبر1971ء کی شام تھی میں بچوں کو سینے سے لگاکر رو رہی تھی کیونکہ میرے بابا کی نگری لٹ گئی تھی، اتحاد کی نیّاڈوب گئی یقینِ محکم کی رسّی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔کون تھا جو نہیں رویا۔۔۔بابائے قوم کی سسکیاں میں نے خودسنیں آشیانے کے تنکے بکھر جانے پر پوری قوم تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔“

کیایہ تاریخ نہیں ہے۔۔۔۔تاریخ درست کرنے کے شوقین بتائیں کہ وہ تاریخ کے ان اوراق کو نئی نسل سے کیوں چھپانا چاہتے ہیں۔کیا وہ چاہتے ہیں کہ قائد کے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے والے مجر موں کی شناخت نہ ہو۔ان کے چہرے ڈھانپ دئیے جائیں، ان کے قصیدے پڑھے جائیں اور اُن کی پیروی کیاجائے۔کیا یہ تاریخ کاانمٹ نقش نہیں ہے کیا زندہ قومیں ایسے نقوش نئی نسل سے چھپاتی ہیں؟

جب سیاستدانوں کی مفادپرستی ‘ جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار اور دشمن کی فوجوں نے مل کر ارضِ پاکستان کا مشرقی بازوکاٹ دیا تواس کے چند مہینے بعد اس زخم خوردہ ملّت کے مفکّرِ اعظم اقبال کا یوم ولادت تھا۔ حسب ِروایت لاہور کی سب سے بڑی تقریب یونیورسٹی ہال میں منعقد ہوئی۔ ہال لاہور کی اشرافیہ، پروفیسرز، ڈاکٹرز،وکلاء ،علماء اورطلباء سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔ مجلسِ اقبال کے سیکرٹری آغا شورش کاشمیری نے معروف شاعر مشیر کاظمی کو نظم پڑھنے کی دعوت دی جنہوں نے مائیک پرآتے ہی بتایا کہ میں آج صبح علامہ اقبال کے مزارپرپھول چڑھانے گیا تھا وہیں سے آرہا ہوں۔نظم کے پہلے دو شعروں پرہی سامعین تڑپ اٹھے اوردھاڑیں مارکررونے لگے نظم کے چند شعرسن لیجئے :۔



پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
رُوح ِقائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
چاند تارے کے پر چم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہاتھا کہ اے تاجدارِ وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا تھا حصارِ وطن

پوری نظم نہ شاعر سنا سکانہ سامعین سن سکے شاعر کی آواز آہوں اورسسکیوں میں دب کر رہ گئی اورتقریب ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔
مگرملّت کے زخموں پرصرف آنسوؤں سے مرہم نہیں رکھا جاسکتا ،زندہ رہنے کا عزم اورولولہ رکھنے والی قومیں اپنے آنسوؤں کو خاک میں گُم نہیں ہونے دیتیں اور آنکھوں سے نکلنے والے موتیوں کی چمک میں اپنی منزل اور سمت تلاش کرلیتی ہیں۔ترآنکھیں تو ہوجاتی ہیں پرکیا لذّت اس رونے میں، جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا۔

نئے سال کی دعا: اے قادرِ مطلق! وہ افراد یا گروہ جن کی ڈوریاں بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہیں انہیں اہل ِوطن کے سامنے پوری طرح بے نقاب کردے اور پاکستان کے ریاستی امور میں ان کا ہرقسم کا کردار ختم کردے۔

تحریر: ذوالفقار احمد چیمہ 


 

8 دسمبر، 2014

بول


"بول"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بول" نام رکھنے سے 
جھوٹ کے اماموں کو 
سُولیوں کے موسم میں
بولنا نہیں آتا
سونے کے ترازو میں
زر خرید لوگوں کو 
عدل کے اُصولوں پر
تولنا نہیں آتا
"بول" سے تو اچھا تھا
"بولی" نام رکھتے تُم
بولیاں لگاتے ہو
میڈیا کی منڈی میں
کھنکھناتے سِکوں پر
جھوٹ رقص کرتا ہے
کھوٹ کی تجارت ہے
زر زمیں کے بُھوکے سب
دو ٹکوں کی لالچ میں
نظریے بدلتے ہیں
اِس لیے گزارش ہے
"بول" نام رکھنے سے 
جھوٹ کے اماموں کو 
سُولیوں کے موسم میں
بولنا نہیں آتا
سونے کے ترازو میں
زر خرید لوگوں کو 
عدل کے اُصولوں پر
تولنا نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

12 نومبر، 2014

اقبال کی اسلام سے والہانہ عقیدت


اقبال کی اسلام سے والہانہ عقیدت
........................................................
سب جانتے ہیں کہ اقبال نے وہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ، یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصا فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفہ تک کرچکے ہیں۔ جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں، یہ مرحوم اس کے سمندر پیے بیٹھا تھا۔ پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا جس طرح ہمارے ننانوے فیصد نوجوان دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگا کر تہہ تک اتر چکا تھا اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں لوگ اپنے دین و ایمان، اپنے اصول، تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہوجاتے ہیں حتٰی کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔

لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ جو کچھ سوچتا تھا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا۔ جوکچھ دیکھتا تھا، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے، اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امامِ فلسفہ اور اس ایم، اے، پی ایچ ڈی بار ایٹ لاء سے لگا کھاتا ہو۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کردیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجہ میں پہنچے تھے ، وہ یہ تھا کہ اصلی علم قرآن ہے، اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماری کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلواکر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے ساتھ ان کی عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی عقلیت کو رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ایک متاعِ حقیر کی طرح نذر کرکے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سُن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ “رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابِ ثلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی (ص) ایک صدیق (رض) اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا۔“ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آکر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں۔ مجازی طور پر نہیں بلکہ واقعی لرز اٹھتے ہیں۔

اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں اس کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے۔ اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برملا ان کی حمایت کرتا تھا، اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ اس کی ایک معمولی مثال سن لیجئے۔ ایک مرتبہ حکومتِ ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لیکر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں بے شک ایک گنہگار آدمی ہوں، احکام اسلام کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں۔ مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کرسکتا کہ محض آپ کا ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کے ایک حکم کو توڑدوں۔

قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے مگر آخیر زمانہ میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔

ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئے۔ ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور“سر صاحبان“ ہوتے ہیں، ویسے ہی وہ بھی ہوں گے، اور اسی بنا پر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلا تحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہِ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجئے، جس سے اس بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کرسکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کیلئے اقبال اور سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کیلئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پاکر معا ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں انہوں نے بورئیے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ اٹھے اور برابر غسل خانے میں جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کردیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اس غسل خانہ میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانہ ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے، جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہے؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔  (سید ابوالاعلیٰ مودودی)

28 اکتوبر، 2014

افسوس!! یہ گدھے کبھی نہ سمجھیں گے

جنگل کے بادشاہ اور رعایا کی ایک کہانی
 

tags
 یہ گدھے کبھی نہ سمجھیں گے
شیر اور گدھوں کی کہانی 
story of lion and donkeys, pakistan, urdu,

22 اکتوبر، 2014

21 اکتوبر، 2014

دریوزۂ خلافت (خلافت کی بھیک)


 "دریوزۂ خلافت"

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی

خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی

"مرا از شکستن چناں عار ناید
کہ از دیگراں خواستن مومیائی"

کلام بانگ -- علامہ محمد اقبال
----------------------------

مشکل الفاظ کے معانی
 

دریوزۂ خلافت -- خلافت کی بھیک
خلافت-- مسلمانوں کا طرز حکومت، جس کا سربراہ خلیفہ کہلاتا ہے
احکام حق-- الله کے احکام
آگہی -- واقفیت ، باخبری
گدائی-- بھیک مانگنا
لہو سے خریدنا- - یعنی باقاعدہ جہاد کر کے حاصل کرنا
ننگ- - ذلت کا باعث ، رسوائی
پادشائی -- بادشاہت، حکمرانی، حکومت


** آخری شعر فارسی میں ہے جس کا مفہوم ہے کہ

"مجھے ہڈی ٹوٹنے پر اتنی شرم نہیں آتی (اتنی تکلیف نہیں ہوتی) جتنی دوسروں(یا گھٹیا لوگوں) سے مومیائی مانگنے پر آتی ہے"

(مومیائی پہاڑ سے نکلی ہوئی ایک سیاہ رنگ دواکو کہتے ہیں جو اکثر سخت چوٹ یا ہڈی چٹخ جانے کے موقع پر پلائی جاتی ہے)


20 اکتوبر، 2014

دو میدانِ جنگ

اوریا مقبول جان
  تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک انتہائی خونریز جنگ برپا ہو گی اور اس کے بعد اللہ ایک ایسی حکومت قائم کر دے گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گی۔ تینوں اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس جنگ میں فتح کا سہرا کسی مسیحا کے ماتھے پر سجے گا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے لوٹ آنے پر ذرا مختلف انداز میں یقین رکھتے ہیں جب کہ مسلمانوں کے ہاں ایک امیر، خلیفہ یا رہنما یا امام کی صورت میں مہدی کا ظہور ہے جو مسیحِ دّجال سے جنگ کرے گا۔ دّجال کا مطلب جھوٹا ہوتا ہے اور مسلمان احادیث کی روشنی میں یہ تصور بھی رکھتے ہیں کہ اس جھوٹے مسیح یعنی دّجال سے آخری جنگ کے لیے اللہ حضرت عیسیٰ کو دوبارہ دنیا میں نازل فرمائے گا۔

جب کہ یہودیوں کے مسیحا کا تصور ان کی روایات کے مطابق ایک ایسے شخص کا ہے جسے اللہ دوبارہ اس دنیا میں یہودی عالمی سلطنت کے قیام کے لیے بھیجے گا۔ تینوں مذاہب ایک خوفناک جنگ کی تیاریوں میں مدتوں سے مصروف ہیں۔ لیکن ان میں دو مذاہب عیسایت اور یہودیت کے نزدیک میدانِ جنگ، بیت المقدس، یروشلم یا بیت اللحم اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کے نزدیک میدانِ جنگ دو ہیں۔ ایک یروشلم کے اردگرد شام، لبنان، اردن اور عراق جب کہ دوسرا میدانِ جنگ ہندوستان ہے۔ یہ دونوں ایک ہی وقت میں ظہور پذیر ہو گے۔ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا ’’تم میں سے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا۔

جس کو اللہ فتح دے گا۔ یہ لشکر ہند کے حکمرانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائے گا۔ اللہ اس لشکر کے گناہ معاف کر دے گا۔ پھر جب یہ لوگ واپس لوٹیں گے تو شام میں عیسیٰ ابنِ مریم کو پائیں گے۔ (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔ یہ حدیث دونوں جنگوں کا ایک ہی زمانے اور وقت میں ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ ان دونوں جنگوں کے میدان میں لڑنے والوں کے لیے بشارتیں بھی کتبِ احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ ’’حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت کی دو جماعتوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا ہے‘‘ ایک وہ جماعت جو ہندوستان سے جنگ کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ ابنِ مریم کے ساتھ ہو گی۔ (نسائی۔ کتاب الجہاد، مسندِ احمد)۔

اس مقدس جنگ کا سب سے پہلے آغاز پوپ اربن دوم نے25 نومبر1095ء کو کونسل آف کلیر مونٹ میں اپنی تقریر سے کیا۔ اس نے انتہائی جو شیلے انداز میں اعلان کیا کہ مسلمان ایک وحشی قوم ہے اور ان کو قتل کرنا ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔ یروشلم کو کافروں سے آزاد کرانا اور ایشائے کوچک کو اس ’’گند‘‘ سے صاف کرنا ہم پر فرض ہے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ یسوع کا مزار مسلمانوں کے قبضے میں ہے‘‘۔ اس کے صرف چھ ماہ بعد1096ء کے موسمِ بہار میں ساٹھ ہزار فوجیوں کے پانچ لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ایسے لگتا تھا پورا یورپ مسلمانوں سے جنگ کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔

اس کے بعد کی کئی صدیاں کشت و خون کی صدیاں ہیں۔ لیکن پوپ اربن کی تقریر کا ایک اور حصہ بہت عجیب ہے۔ اس نے یورپ کے تمام عیسائیوں کو پکارتے ہوئے کہا کہ ’’اگر باہر کا کوئی شخص تمہارے کسی رشتے دار کو قتل کر دے تو کیا تم اس کا انتقام نہیں لو گے۔ کیا تم اپنے خداوند، اپنے مصلوب یسوع کا انتقام نہیں لو گے‘‘۔ اس کی نیت یہودیوں پر حملہ کرنے کی نہیں تھی، لیکن اس سے پہلے کہ یورپ کے مسلمانوں کے لیے لشکر ترتیب دیتے وہ اپنے اندر بسنے والے یہودیوں پر ٹوٹ پڑے۔ صلیبی جنگجوؤں نے یہودیوں کا قتلِ عام کیا، سینا گو گوں کو مسمار کیا، تورات کے نسخوں کو جلایا اور انھیں ڈرایا کہ یا تو عیسایت قبول کر لو،، یا پھر موت قبول کر لو۔ ایسے میں پوپ کے کہنے پر بیشتر بشپوں نے یہودیوں کو گرجا گھروں میں پناہ دی۔ لیکن یہ حربے کچھ دیر تک ہی کامیاب رہے، پھر صلیبی جنگوں کے خاتمے پر پوپ نے سولہویں صدی میں یورپ میں یہودیوں کی نسل کشی کی حمایت کر دی۔

اس کے بعد کی تین چار صدیاں ایسی گزریں کہ یہودی کبھی ایک شہر سے نکالے جاتے اور کبھی دوسرے سے۔ ہر عیسائی اپنی تقریروں اور تحریروں میں اسپین میں ازابیلا اور فرڈینیڈ کی جنگ کا حوالہ دیتا۔ وہ اس معرکے کو عیسائی غلبے کی علامت سمجھتے، جس کے نتیجے میں اسپین کو مسلمانوں اور یہودیوں، دونوں سے پاک کر دیا گیا تھا۔ لیکن یورپ میں چرچ کے اقتدار نے جو مظالم عام آدمی پر ڈھائے، اور جس کے طرح ان کے مذہبی رہنماؤں نے اپنے ہی لوگوں کو کافر کہہ کر زندہ آگ میں جلایا، اس سے ایک ایسی نفرت پھوٹی جس نے مسیحی چرچ کے اقتدار کو زمین بوس کر دیا۔ انقلاب فرانس کے بعد ان کا اقتدار گرجا گھروں تک محدود ہو گیا۔ ایسے میں یہودی اپنی اس مقدس جنگ کو یاد کرنے لگے جو انھیں ارضِ مقدسہ واپس دلائے گی اور وہاں ان کی حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسی عالمی حکومت قائم ہو گی۔ صہیونیت ایک نظریہ بن کر ابھری اور اس نے جلد ہی پوری یہودی قوم کو جذباتی طور پر اپنا ہمنوا بنا لیا۔

باقی اقوام کو یہودی دانشوروں اور مفکروں نے سیکولر نظریات کی بنیاد پر رنگ، نسل، زبان اور علاقے میں ایسا الجھایا کہ وہ جو کبھی مسلمانوں اور یہودیوں کو قتل کر کے ان سے اس دنیا کو پاک صاف کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھے تھے آپس میں اس طرح لڑے کہ جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم میں کروڑوں لوگوں کا خون بہا کر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اس دوران معیشت اور میڈیا پر قابض یہودیوں کو ارض مقدس کی جنگ یاد آئی اور وہ آہستہ آہستہ وہاں جا کر آباد ہونے لگے: ان کا یورپ کے مسیحیوں سے ایسا گٹھ جوڑ ہوا کہ سب نے مل کر انھیں ایک ریاست تحفے میں دے دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر ایسی لکیریں بھی کھنچیں کہ وہ 51 ریاستوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ ان ریاستوں کی سرحدوں کو محترم اور مقدس بنا دیا گیا تا کہ یہ کبھی ایک ملت کی صورت اکٹھے نہ ہو سکیں۔

تینوں مذاہب آج بھی اس آخری جنگ کا انتظار کر رہے ہیں اور تیاری بھی۔ تقریباً 919 سال قبل جس آخری جنگ کی طرف پیش قدمی کا اعلان پوپ اربن نے کیا تھا اور 118 سال قبل جس عالمی ریاست کے قیام کے لیے ہزال نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اکٹھا کر کے مشہور عالم پروٹوکولز تحریر کیے تھے، اب یوں لگتا ہے اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دوران مسلمانوں کے مرکز کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنگ عظیم میں مسلمانوں کا خیمہ شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ’’الغوطہ‘‘ کے مقام پر ہو گا (سننن ابوداؤد، مستدرک)۔ اس ہیڈ کوارٹر پر فاتح مسلمان خراسان سے آئیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے تو ان کو کوئی چیز نہیں روک سکے گی حتیٰ کہ وہ ایلیا (بیت المقدس میں نصب کر دیے جائے گے (مسند احمد)۔ یہ جنگ تو برپا ہو چکی، اور اس کے لیے دنیا بھر سے لوگ وہاں پہنچ رہے ہیں۔

لیکن سب حیران ہیں کہ ایسے وقت میں جب افغانستان اور پاکستان کے وہ علاقے جو خراسان کہلاتے ہیں، وہاں سے لوگ اس آخری جنگ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ ادھر پورا یورپ اور امریکا ان کے خلاف متحد ہو رہا ہے اور بقول بارک اوباما، اس جنگ میں فتح بہت مشکل ہے، ہو سکتا ہے ہمیں تیس سال لگ جائیں۔ ایسے ماحول میں بھارت پاکستان کی سرحدوں پر حملہ آور کیوں ہے۔ یہ ہے وہ دوسرا میدانِ جنگ جس کی ہادی برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی ہے۔ نریندر مودی کی اٹھان بالکل ویسی ہی ہے جیسے جرمنی میں ہٹلر کی ہوئی تھی۔ جمہوری طور پر منتخب، نسلی تعصب کا علمبردار اور پڑوسی اقوام کو ختم کرنے کا عزم لیے ہوئے۔ ہٹلر کے اس جنون کی قیمت جرمنی کو بھگتنا پڑی تھی اور نریندر مودی کے جنون کی قیمت بھارت بھگتے گا۔ اس لیے کہ میرا ایمان ہے اور میرے ایمان کی وجہ ہے کہ اس جنگ میں فتح کی بشارت میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے۔ مجھے حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی تمام اقوام ان سے لڑنے کے لیے پر تول رہی ہیں، ان پر حملہ آور بھی ہیں، اور یہ سب وہ اپنی الہامی کتابوں کی رواتیوں پر یقین کر کے ایک ہزار سال سے کر رہی ہیں۔ ایسے میں ہم عزت کی زندگی نہیں ذلت کی موت چاہتے ہیں۔ 


 

1 اکتوبر، 2014

مولوی کی سیلفی کرکٹ

 مولوی کے استاد ہونے میں کیا شبہ۔ پیر کی شام دھرنے سے باہرآیا اور کرکٹ کھیلی۔ یہ سولو کرکٹ تھی۔ جیسے ادب میں مونو لاگ ہوتا ہے‘ ویسے ہی مولوی نے سولو کرکٹ متعارف کرا دی ہے‘ اسے سیلفی کرکٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود ہی باؤلنگ کی‘ خود ہی بیٹنگ کی اورچھوٹتے ہی چھکے لگائے۔ پہلی بال میں آؤٹ ہوگیا لیکن امپائر بھی خود ہی تھا اس لئے انگلی کھڑی نہیں کی بلکہ خود کو ناٹ آؤٹ قرار دے کر پھر سے باؤلنگ اور بیٹنگ شروع کر دی ۔ پتہ نہیں‘ ’’سیلفی‘‘ میں مزہ نہیں آیا ورنہ سنچری کرنا کیا مشکل تھا۔ ہو سکتا ہے‘ کنٹینر سے باہر کی ’’خوشبو دار فضا‘‘ نے مولوی کی ناک کھٹی کر دی ہو (محاورہ دانت کا ہے لیکن ناک حسب حال بلکہ حسب موقع ہے )اور مزید چھکّے لگانے کا دم نہ رہا ہو۔

سیلفی کرکٹ اچھا شغل ہے‘ بعض لوگ توقع کر رہے ہیں کہ دھرنوں کی شاندار ناکامی کے بعد مولوی کا یہی شغل ہمہ وقتی ہو جائے گا ۔یہ مولوی بھی خدا نے کیا شے بنائی ہے‘ سبحان اس کی قدرت ۔ کتابیں اس کے شاگرد لکھتے ہیں‘ انہیں پیسے دے کر اپنے نام سے چھپوا لیتا ہے لیکن کرکٹ میں دوسروں پر انحصار نہیں کرتا۔بطور باؤلر کسی دوسرے کو بیٹسمین اور بطور بیٹسمین کسی دوسرے کو باؤلر نہیں مانتا۔ دونوں کی ڈیوٹی اکیلا دیتا ہے۔ پتہ نہیں‘ دھرنوں کے نتیجے کے لئے کسی اور امپائر پر انحصار کیوں تھا۔ اس امپائر کے انتظار میں ڈیڑھ مہینہ گنوا دیا اور سبق یہ سیکھا کہ باؤلر بھی خود‘ بیٹسمین بھی خود‘ امپائر بھی خود ہونا چاہئے۔ یہ سبق پہلے ہی سیکھ لیا ہوتا تو شاید دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔


امپائر کا انتظار رنگیلے نیازی کو بھی تھا۔ انتظار کیا‘ دونوں کو یقین تھا کہ امپائرپاس ہی کہیں دھرنوں کی اوٹ میں کھڑا ہے اسی لئے تو رنگیلا نیازی ہر رات یہ اعلان کرتا تھا کہ انگلی کل کھڑی ہوگی اور مولوی ہر دوسرے دن انقلاب کی نئی حتمی تاریخ دیتا تھا۔ ایک بار تو ’’رانگ سگنل‘‘ ملنے کے بعد پارلیمنٹ پر ہلّہ بول دیا اور فیصلہ سنا دیا کہ اب کوئی اس کے اندر جا سکتا ہے نہ باہر آسکتا ہے۔ پھر صحیح سگنل ملنے پر حکم بدل دیااور ارکان پارلیمنٹ کو آنے جانے کی اجازت دیدی۔ جو لوگ کہتے ہیں پارلیمنٹ طاقتور ہے‘ انہیں ماننا چاہئے کہ پارلیمنٹ کی طاقت مولوی کی محتاج ہے۔ خود انصاف کیجئے‘ مولوی پارلیمنٹ میں آنے جانے کی اجازت نہ دیتا تو پارلیمنٹ اب تک سیلفی کرکٹ کا گراؤنڈ نہ بن چکی ہوتی۔ 


عبداللہ طارق سہیل  

24 ستمبر، 2014

لمحہ فکریہ


 پہلے قرآن سامنے ٹیبل پر رکھا ہوتا تھا، کوئی نہ کوئی پڑھ لیتا تھا ۔
پھر ایسا ہوا کہ ٹیبل کے پاس ٹی وی رکھ دیا ۔۔۔۔
سب ڈرامے فلمیں دیکھنے لگے تو قران پاک کی بے حرمتی ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایسا کیا کہ قران پاک کو بہت اونچا سٹینڈ لگا کر وہاں رکھ دیا ۔۔۔۔
اور سرکار !! پتا ہے اب قران بہت اونچی جگہ پر ہے، کسی کا ہاتھ بھی نہیں جاتا وہاں تک ۔۔۔۔۔
خیر سے ہم نے بےحرمتی سے بچا لیا




16 ستمبر، 2014

تقدیر کو تدبیر کے شاطر نے کیا مات


 اس فقرے کی گونج موجودہ تاریخ میں بار بار سنائی دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ علامہ اقبال نے بغیر کسی تجربے یا چوٹ کھائے ہوئے اپنے وجدان اور قرآنی علم کی روشنی میں اس دور کی جمہوریت کے کریہہ چہرے سے نقاب الٹا‘ اس آزادی کی نیلم پری کو دیو استبداد کہا جب کہ دنیا نئی نئی اس کے سحر میں گرفتار ہوئی تھی۔
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال کی عظیم اور معرکۃ الٓاراء نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس اور اس کے مشیروں کی گفتگو میں اس نظام کے غلیظ چہرے کو بے نقاب کیا گیا ہے وہ مغربی جمہوریت ہے جسے انسانی حقوق‘ آزادی اظہار اور عوام کی حکمرانی جیسے خوبصورت تصورات کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اقبال کی ایک اور نظم ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘ میں ابلیس اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ اب دنیا میں انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے میری ضرورت باقی نہیں رہی‘ اس لیے کہ
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
گمراہی کا جو پرچم ازل سے ابلیس نے اٹھا رکھا تھا‘ اقبال کے نزدیک اب اس کے پرچم بردار جمہوری نظام کے سیاست دان ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال اپنی طنزیہ شاعری میں بھی جمہوری نظام کا تمسخر اس طرح اڑاتا ہے۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ممبری‘ کونسل‘ صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
لیکن جس شعر نے اس مغربی طرز جمہوری کی اساس پر کاری ضرب لگائی اور اقبال کی روحانی پارلیمنٹ کا تصور دیا وہ دنیا کی کسی بھی جمہوری پارلیمنٹ پر صادق آتا ہے۔
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کار شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آئی
اس کا ترجمہ یوں ہے کہ طرز جمہوری سے پناہ مانگ اور کسی پختہ کار یعنی صاحب علم و کمال و تجربہ کا غلام بن جا۔ اس لیے کہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر برآمد نہیں ہو سکتی۔ یہ اس فرد کے خیالات ہیں جسے مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ جس کے خوابوں کی تعبیر یہ مملکت ہے جسے اس وعدے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اس مالک کائنات کا فرمان نافذ ہو گا۔ ورنہ جمہوری طور پر تو ایک ہندوستان میں بھی زندہ رہا جا سکتا تھا۔
مسلم لیگ کی پچاس ساٹھ سیٹیں بھی ہوتیں پارلیمنٹ میں‘ جماعت اسلامی بھی چند نشستوں پر کھڑے ہو کر ’’حق گوئی‘‘ کا فریضہ ادا کرتی‘ پیپلز پارٹی اور دیگر سیکولر جماعتیں بھی سیکولر کانگریس یا بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنا کر برسراقتدار آجاتیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے لوگ اپنے یو پی میں ہوتے اور بابری مسجد کے تحفظ کی تحریکیں چلاتے اور اس پارٹی کو ووٹ دیتے جو انھیں زیادہ مراعات دیتی۔ جمہوریت بھی مستحکم ہوتی اور اس کے ادارے بھی۔ ایک تسلسل بھی قائم رہتا۔ یہ ملک اسی لیے جمہوریت کے عالمی اصولوں کے منافی بنایا گیا تھا کہ ہمیں جمہوریت وارا نہیں کھاتی تھی۔
ہمارے لیے یہ جمہوریت ’’اکثریت کی آمریت‘‘ Tyranny of Majority بن جاتی جو آج بنی ہوئی ہے اور وہاں پاکستان سے بھی زیادہ مسلمان بستے ہیں لیکن سچر رپورٹ کے مطابق شودروں اور دلتوں سے بھی بدتر‘ محروم اور پسماندہ ہیں۔ یہ ہے اس جمہوریت کا پھل جو انھیں میسر ہے‘ وہاں تو تسلسل بھی ہے‘ الیکشن بھی شفاف ہوتے ہیں‘ فوج بھی تختہ نہیں الٹتی۔ سب کچھ بہترین‘ لیکن بیس کروڑ مسلمان جنھیں ’’پریشر گروپ‘‘ کہا جاتا ہے وہ آج بھی محکوم اور اکثریت کی آمریت کے ظلم کا شکار ہے۔
یہ سب مل کر اگر پچاس کروڑ بھی ہو جاتے تو ایک ارب ہندوئوں کی اکثریت کے سامنے ان کی کیا اوقات اور حیثیت ہوتی۔ اکثریت بھی وہ جو کارپوریٹ سرمائے کی جمہوریت پر استوار ہو‘ جسے متل‘ امبانی‘ ٹاٹا اور برلا کے سرمائے نے پالا ہو۔ کارپوریٹ سرمایہ جو سات ارب ڈالر اوباما‘ 14 ارب ڈالر سرکوزئی اور تین ارب ڈالر گورڈن برائون کی پارٹیوں کو ملتا ہے اور انھیں غلام بنا لیتا ہے۔ انھی سرمایہ داروں نے تیس ہزار ارب ڈالر امریکی ٹیکس حکام سے چوری کرنے کے لیے کیمن جزیرے میں رکھاہے لیکن کانگریس میں ایک آواز نہیں اٹھتی۔ کیوں؟ جمہوری تسلسل کے لیے پارٹی فنڈ ضروری ہیں‘ سرمائے سے چلنے والے میڈیا کی مدد چاہیے۔ یہ دونوں جو کوئی فراہم کریگا‘ جمہوری ارباب سیاست پتلیوں کی طرح اس کے اشاروں پر ناچیں گے۔
پچاس کروڑ مسلمان اگر اس سیکولر بھارتی جمہوریت میں ہوتے تو دنیا ان کی پسماندگی اور افلاس کی مثالیں دیتی۔ سیلاب میں ڈوبے بنگالی‘ ہندو مہاجن کے قرض میں جکڑے پنجابی اور سندھی‘ پسماندہ بلوچ جن کی ریاست قلات میں چند میل پکی سڑک تھی اور کوئٹہ سے کراچی تک صرف دو جگہ پانی میسر تھا۔ انھیں اس اکثریت کی آمریت میں صرف ایک ہی بات یاد آتی۔ ہم پر اس لیے ظلم کیا جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں‘ جس طرح آج کے بھارت کے مسلمان نہ خود کو پنجابی کہتے نہ گجراتی اور نہ بنگالی‘ اس لیے کہ سب پر جمہوریت کی اکثریت کا ان پر بحیثیت مسلمان ظلم یکساں ہے۔
اس فقرے کی گونج 1970ء کے الیکشن میں بدترین شکست کے بعد مولانا مودودی کے منہ سے سنائی دی تھی۔ میں اس عصر کی محفل میں موجود تھا جب انھوں نے کہا تھا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جمہوریت کے علاوہ اور بھی بہت راستے ہیں اور پھر انھوں نے راستے گنوانا شروع کر دیے۔ آج 44 سال بعد عوامی جرگے کے ناکام و نامراد لوٹنے کے بعد سراج الحق صاحب نے فرمایا۔ ’’اس طرز جمہوریت کو ایک نہیں تین طلاقیں‘‘۔ وجہ بتائی کہ سیاستدان کروڑوں لگا کر اربوں کماتے ہیں۔ طلاق کا اصول یہ ہے کہ اگر وہ کسی وجہ کے ساتھ منسوب کر دی جائے اور وہ وجہ قائم رہے تو شرعاً طلاق ہو جاتی ہے۔
معلوم نہیں کہ یہ طلاق قائم رہتی ہے یا حلالہ کی نوبت آ جاتی ہے۔ رضائے الٰہی کا حصول ہو یا اسلامی شریعت کا نفاذ‘ مغربی جمہوری نظام کا راستہ ہی اس سے مختلف ہے۔ کیا سید الانبیاء کی دعوت یہ تھی کہ اسلام قبول کر لو تمہیں تعلیم‘ صحت‘ روز گار اور بہتر زندگی کی سہولیات ملیں گی۔ سیکولر اور مذہبی جماعتوں کے منشور اٹھائیں‘ اوپر کے ورق پھاڑیں‘ سب کے اہداف ایک جیسے ہیں‘ صرف دینی جماعتوں نے ان میں قرآن کی آیات تحریر کر رکھی ہیں۔ یہ سب اس سرمایہ دارانہ‘ سودی نظام کے تحفظ کے راستے پر گامزن ہیں۔ جہاں یہ تصور کر لیا جائے کہ اللہ کی حاکمیت اسی وقت اس ملک پر قائم رہ سکے گی اگر اسے آئین کے چند صفحات تحفظ دیں تو اس سے بڑا شرک اور کیا ہو سکتا ہے۔ پھر اس شرک کے تسلسل کو پاکستان کے مستقبل سے وابستہ کیا جاتا ہے۔
یاد رکھو اگر اللہ چاہے گا تو یہ ملک سلامت رہے گا‘ خواہ آئین اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں کیوں نہ پھینک دیا جائے اور اگر اللہ نے ہمارے اعمال کی سزا کے طور پر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا تو سارے کا سارا دستور اسلامی بنا دو اور اس کی ایک شق پر بھی عمل نہ کرو تو یہ پاکستان نہیں بچ سکے گا۔ لیکن اس پاکستان نے رہنا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کی غیرت و حمیت اور سید الانبیاء کی بشارتوں کی علامت ہے۔ اگر اللہ کی غیرت و حمیت اور حاکمیت اعلیٰ پر کامل ایمان ہو تو پھر سسٹم کے تسلسل پر نہیں اللہ کی تقدیر پر یقین ضروری ہوتا ہے۔
تدبیر کے بندوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کے غلام ہوتے ہیں۔ لیکن حالات اب تاریخ کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔ یہ تو ابھی اسلام آباد پر بادل نمودار ہوئے ہیں‘ یہ کالی گھٹا بنیں گے‘ سیلاب جو بڑی بڑی عمارتوں کے مکینوں کو بہا کر لے جائے گا۔ قیامت کا سماں ہے۔ سورہ التکویر کی اس آیت کے مصداق کہ جب وحشی جانور اپنی وحشت بھول کر اکٹھے ہو جائیں گے۔ وہ باتیں‘ وہ نعرے‘ وہ مطالبے جو دھرنے میں کیے جا رہے ہیں اگر یہ ساری جماعتیں پارلیمنٹ کے ایوان میں کرتیں‘ ایک سال یہ ہنگامہ اس ایوان میں برپا رہتا تو کیا دھرنے کا کو جواز باقی رہتا۔ لیکن یہ تو صرف اور صرف تسلسل چاہتے ہیں۔
ایک فرعون کا اقتدار چار سو فرعون میں تقسیم کر کے اسے جمہوری تسلسل کا نام دینا چاہتے ہیں۔ سراج الحق صاحب‘ تین طلاق دے دیں کہ جسے آپ آزادی کی نیلم پری سمجھ کر بچانا چاہتے ہیں‘ وہ دیو استبداد ہے۔ اس اللہ سے امید استوار کریں جو نہ کسی تسلسل کا محتاج ہے اور نہ کسی نظام کا تابع۔ گھٹا چھانے والی ہے‘ سیلاب کی آمد ہے جو بڑے بڑے پُر غرور سروں کو ڈوبتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے ’’میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لایا‘‘۔ 


 

18 اگست، 2014

کھلا چیلنج


دنیا کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھیں اس کے مقدمے میں صاحب کتاب نے قارئین سے کتاب میں ممکنہ غلطیوں کوتاہیوں اور سہو پر پیشگی معافی مانگی ہے سوائے ایک کتاب کے جس کے شروع میں ہی اس کے مصنف کا فرمان ہے کہ:
"یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں"

اور پھر کتاب میں بار بار چیلنج ہے کہ اگر غلطی ڈھونڈ سکتے ہو تو ڈھونڈ کر دکھاؤ، اور اس چیلنج کو دیے چودہ صدیوں سے زائد کاعرصہ بیت چکا ہے۔
 

 أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے

سورة النساء 82 

 

14 اگست، 2014

خدارا کوئی تو قادری صاحب کو جا کر کہہ دے !


 خدارا کوئی تو قادری صاحب کو جا کر کہہ دے !
قاری حنیف ڈار 

 اورنگ زیب بادشاہ بہت نیک انسان تھا ، شنید ھے کہ اس کی تکبیرِ اولی کبھی فوت نہیں ھوئی تھی ، اس کے دربار میں ایک مسخرہ کوئی بہروپ بھر کے آیا ، بادشاہ نے اسے پہچان لیا ،، اور کہا کہ ھم تمہیں ھر بہروپ میں پہچان لیتے ھیں، اس پہ اس نے اورنگ زیب کو چیلینج دیا کہ اگر وہ بادشاہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ھو گیا تو پانچ سو ٹکہ انعام میں لے گا ،، اس وقت ایک ٹکہ برطانیہ کے 80 پاونڈ کے برابر ھوتا تھا !

بادشاہ مرھٹوں کے خلاف جہاد کے لئے نکل کھڑا ھوا ، 22 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد اس نے مرھٹوں کا زور توڑ کر رکھ دیا ، ان 22 سالوں میں وہ پلٹ کر اپنے دارلخلافے بھی واپس نہ آ سکا ،، اور وھیں جان، جانِ آفریں کے سپرد کر کے اورنگ آباد میں دفن ھوا !

اورنگ زیب صوفی منش مگر توحید پسند انسان تھا ، اس کی صوفیت کو شرک کا تڑکا نہیں لگا تھا ! دورانِ معرکہ مشکل پیش آ رھی تھی اور قلعہ فتح نہیں ھو رھا تھا ،، اس علاقے کے لوگوں نے اورنگ زیب کو بتایا کہ اس علاقے کی ایک غار میں ، ایک اللہ والا کئ سال سے بیٹھا ھے ، اور مستجاب الدعا ھے ،جسے دعا دیتا ھے ضرور قبول ھوتی ھے ، اس سے دعا کرانا چاھئے ،، بادشاہ اس فقیر کی خدمت میں پیش ھوا اور دعا کی درخواست کی، فقیر نے بے نیازی سے گردن ھاں میں ھلا دی !
اللہ کا کرنا ایسا تھا کہ اگلے چند دن میں وہ قلعہ فتح ھو گیا اور مرھٹوں نے ہتھیار ڈال کر قلعہ اورنگ زیب کو سونپ دیا ،، بادشاہ اگلے دن اس فقیر کی گپھا پہ حاضر ھوا ، اور اسے وہ قلعہ بمع پانچ سو دیہات کے لکھ کر دے دیا ،،مگر اس فقیر نے وہ دستاویز پکڑ کر پھاڑ دی اور بادشاہ کو اشارے سے نکل جانے کے لئے کہا !

اگلے دن اورنگ زیب وھاں سے کوچ کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ اسے بتایا گیا کہ گپھا والا فقیر اس سے ملاقات کرنا چاھتا ھے ،، بادشاہ بے حد خوش بھی ھوا اور حیران بھی ،، فقیر کو دربار میں بلوایا گیا ،، فقیر نے سلام دعا کے بعد بادشاہ سے کہا کہ نکالو میرا 500 ٹکہ ،، جو تم نے انعام میں دینے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ میں آپ کو دھوکا دینے میں کامیاب ھو گیا ھوں !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

اورنگ زیب نے حسبِ وعدہ اسے 500 ٹکہ دیا ،، مگر سوال کیا کہ کل میں تمہیں قلعہ بمع 500 دیہات انعام میں دے رھا تھا تو تم نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا اور آج 500 ٹکہ لینے آ گئے ھو ؟ اس نے جواب دیا ، بادشاہ سلامت میں نے جو بہروپ بھرا تھا ،، اس بہروپ کا تقاضہ یہی تھا کہ اسے قبول نہ کروں ،، میں اس مقام کو لوگوں کی نظروں سے گرنے نہیں دینا چاھتا تھا ، وہ بہروپ تھا مگر ایک مقدس امانت تھی ، میں اس میں خیانت نہیں کر سکتا تھا ،، جبکہ یہ ٹکہ میرا حق ھے ،،

نیز یہ میرا آخری سوانگ تھا ،، میں واپس اپنی گپھا میں جا رھا ھوں ،مگر اب اپنی حقیقت کے ساتھ - جس اللہ نے میرے بہروپ کی عزت رکھی ھے وہ میری حقیقت کا کتنا بڑا قدردان ھو گا !

کوئی قادری صاحب سے کہہ دے کہ اگرچہ یہ سوانگ بھی ھو ،، شکل دین داروں والی بنائی ھے تو خدارا اس مقام کا تو خیال کریں ! جھوٹ در جھوٹ اور کہہ مکرنیاں ؟


 

13 اگست، 2014

جب طاہر القادری میرے کلاسفیلو تھے


 جب طاہر القادری میرے کلاس فیلو تھے!
عطاء الحق قاسمی

مجھے مفتی نعیم صاحب کی اس بات سے اختلاف ہے کہ طاہر القادری صاحب کو ٹی وی چینلز’’علامہ‘‘ نہ کہیں کیونکہ وہ ایک بے علم آدمی ہیں اور خدائی احکام کے برعکس زمین پر فساد برپا کررہے ہیں، قبلہ مفتی صاحب کو شاید علم نہیں کہ پاکستان میں قادری صاحب نے قرآن پر حلف اٹھا کر کہا تھا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے 19برس عالم رویا)خواب(میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد انڈیا میں اسی طرح قرآن پر حلف اٹھاتے ہوئے انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی شاگردی میں چار سال تخفیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ ؒکے سامنے عالم رویا میں15 سال تک زانوئے تلمذ تہہ کیا تو جس شخص نے علم دین براہ راست امام ابوحنیفہؒ سے حاصل کیا ہو، مفتی نعیم صاحب ان کے علامہ ہونے پر کیسے اعتراض کرسکتے ہیں، میں نے یہ بات آج تک چھپا کر رکھی تھی تاہم آج انکشاف کررہا ہوں اور قادری صاحب کو شاید یاد ہو کہ امام ابوحنیفہؒ سے حصول تعلیم کے دوران میں ان کا کلاس فیلو تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اکثر بھری کلاس میں قادری صاحب کو مرغا بنا کر ان کی کمر پر علامہ طاہر اشرفی کو لاد دیا کرتے تھے جس پر ان کی چیخیںنکل جاتی تھیں۔ دراصل یہ جھوٹ بہت بولتے تھے اور کئی دفعہ بلاوجہ بھی بولتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ا مام ؒصاحب سے کہا کہ آپ کو علم ہے میں امام حسینؓ کی معیت میں یزیدی لشکر کے خلاف لڑا تھا اور شہادت کا درجہ پایا تھا۔ اس بار قادری صاحب کی یہ بات سن کر امام ابوحنیفہؒ غصے میں نہیں آئے بلکہ انہوں نے مسکرا کر کہا ’’شہادت کا درجہ پانے کے بعد پھر تم زندہ کیسے ہوئے‘‘ جس کا ترت جواب قادری صاحب نے یہ دیا’’آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی توقیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے‘‘ اس پر امامؒ نے ایک بار پھر قادری صاحب کو مرغا بننے کو کہا اور علامہ طاہر اشرفی کو ان کی کمر پر بٹھادیا۔

مگر اس کے باوجود قادری صاحب بزرگان دین سے اپنی بے تکلیفوںکا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیںاور ان کے سادہ لوح مرید ان کی خرافات پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ ان حضرت نے فرمایا کہ’’حضورنبی کریمؐخواب میں تشریف لائے اور یہ نوید سنائی کہ ’’طاہرالقادری تمہاری عمر63 برس ہوگی‘‘ جس کے جواب میں قادری صاحب نے کہا’’حضورؐ میں عمر میں بھی آپ سے برابری نہیں کرسکتا،لہٰذا میری عمر گھٹا دی جائے‘‘حضور اکرمؐ نے فرمایا’’ٹھیک ہے طاہر القادری تمہاری عمر میں سے ایک سال گھٹا دیتا ہوں، تم 63 نہیں 62 برس کی عمر میں وفات پائوگے‘‘ کوئی ہے جو پتہ کرے بلکہ کوئی اور کیوں برادرم جبار مرزا تحقیق کرکے بتائیں کہ ان کے 6 2 برس ہونے میں کتنے دن باقی ہیں یا کہیں انہوں نے عمر کے حوالے سے بھی نعوذ باللہ ،حضوراکرمؐ سے برابری یا برتری تو حاصل نہیں کرلی؟ ویسے نواز شریف کے ایک گزشتہ دور میں قادری صاحب نے خود پر قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا تھا اور اپنے گھر کی دیواروں پر بکرے کے خون کے چھینٹے بکھیر دئیے تھے، نواز شریف نے اس’’سانحہ‘‘ پر عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ عدالت میں پیشی کے دوران جج نے ’’علامہ صاحب سے پوچھا’’کیا حضورؐ کی بشارت کے مطابق آپ کی عمر 62 برس ہوگی؟‘‘ علامہ صاحب نے پورے یقین سے کہا ’’جی بالکل حضورؐ کی بات کیسے غلط ہوسکتی ہے؟‘‘ اس پر جج نے کہا’’تو پھر آپ اپنے ساتھ گن مین کیوں لئے پھرتے ہیں، کیا آپ کو نعوذ باللہ حضورﷺ کی بات پر یقین نہیں؟‘‘ اس پر علامہ صاحب خاموش ہوگئے۔ بہرحال ’’سانحہ‘‘ کی مکمل تحقیقات اور اصل صورتحال پوری طرح سامنے آنے کے بعد عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا’’طاہرالقادری ایک جھوٹا اور فریبی شخص ہے’’اللہ کرے اس جج کے جسم میں کیڑے پڑیں جس نے شیخ السلام قائد انقلاب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ صاحب کے حوالے سے یہ گستاخانہ کلمات تحریر کئے تاہم کوئی پتہ نہیں کہ اس جج کو بھی بشارت ملی ہو کہ اس شخص کے بارے میں یہ کلمات درج کرو،تاہم میں اس سلسلے میں واللہ اعلم بالصواب کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
 

مفتی نعیم صاحب سے معذرت کے ساتھ’’علامہ‘‘ طاہر القادری نے آج تک جتنے دعوے کئے ہیں ،کیا وجہ ہے کہ میرے جیسا حسن ظن رکھنے والا شخص بھی ان دعوئوں کے حوالے سے بدگمانی کا شکار ہوجاتا ہے، میرے خیال میں اللہ قادری صاحب کا امتحان لیتا ہے کہ اپنے دعوئوں پر یہ شخص کب تک قائم رہتا ہے۔قادری صاحب تو اپنے دعوئوں میں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضورﷺکی پاکستان آمد کے لئے پی آئی اے کے ٹکٹ ، کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور 22کورسزوالے کھانوں کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اپنے مریدوں سے کروڑوں روپے اینٹھے تھے تاہم اس سے قطع نظر ان کے کچھ دعوے بالکل ’’بے لوث‘‘ بھی ہیں، مثلاً یہ کہ ان کے والد بہت بڑے ڈاکٹر تھے اور ایک سعودی بادشاہ کے کامیاب علاج پر بادشاہ سلامت نے انہیں ایک مسند اور خلعت عطا کی تھی اور یہ دونوں چیزیں کہیں گم ہوگئیں ، ان کے والد بہت بڑے شاعر تھے، ان کے بیسیوں مجموعے ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں مگر افسوس ان میں سے ایک مجموعہ بھی دستیاب نہیں۔ تیسرے یہ کہ ان کے والد بہت بڑے صوفی بزرگ تھے اور ان کا مرتبہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے برابر تھا ،مگر اللہ نے ان کا یہ مرتبہ خلق خدا سے پوشیدہ رکھا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ قادری صاحب لکھ چکے ہیں ظاہر ہےایسے دعوئوں سے قادری صاحب کے مرحوم والد کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا، بے لوثی اسی کو تو کہتے ہیں۔
 

میں نے یہ سارا کالم ،سچی بات پوچھیں تو قادری صاحب کے مریدوں اور ان کے ملازموں کو دلاسا دینے کے لئے لکھا ہے، دراصل گزشتہ روز انہوں نے اپنی تقریر میں اپنے ادارے کے ملازموں اور سادہ لوح مریدوں کو یہ’’تڑی‘‘ لگائی کہ اگر تم میں سے انقلاب آنے سے پہلے اسلام آباد سے اٹھ کر چلا آئے تو اسے قتل کردیا جائے۔ قادری صاحب گزشتہ برس خود اسلام آباد کے دھرنے سے بھاگ آئے تھے اور انہوں نے اس کی پاداش میں خود کو قتل نہیں کیا تھا لہٰذا ملازمین اور مریدین بے دھڑک اسلام آباد جائیں ،وہاں جو کام کرنے ہیں یا دامن کوہ وغیرہ کی سیر کرنی ہے اس سے فراغت پاکر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئیں کیونکہ علامہ صاحب اپنے اس بیان سے مکر چکے ہیں اور کہا ہے کہ انہوں نے مذاق سے یہ بات کہی تھی اور ان کا اشارہ کارکنوں کی طرف نہیں بلکہ اپنے اور عمران خان کی طرف تھا۔ یوم شہداء پر ہنسی مذاق کی باتیں؟ یہ کام قادری صاحب ہی کرسکتے ہیں، دوسری یہ کہ ان کا عذربدتر از عذرکے زمرے میں آتا ہے، یعنی انہوں نے اپنے پیروکاروں کے قتل کا نہیں، عمران خان کو قتل کا حکم دیا ہے ،جیو قادری صاحب۔
 

اور قادری صاحب کی ایک اور ادا!قادری صاحب نے اپنے جلسے میں خود کو امام حسینؓ اور اپنے پیروکاروں کو حسینی لشکر تصور کرتے ہوئے کہا کہ شب عاشورہ کو امام عالی مقام نے دیا بجھا دیا تھا اور اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ تم میں سے جو جانا چاہے اور شرمندگی کی وجہ سے نہ جارہا ہو، وہ اس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نکل جائے۔ اس کے بعد قادری صاحب نے فرمایا’’یہ لیں، میں آنکھیں بند کررہا ہوں جس نے جانا ہو وہ چلا جائے‘‘ اور پھر حضرت نے چند لمحوں کے لئے آنکھیں بند بھی کرلیں۔اللہ کرے طاہر القادری صاحب کی ،اگر پہلے نہیں تو اب آنکھیں کھل جائیں کہ عوام ان کی کہہ مکرنیوں سے پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ میں انہیں یہ مشورہ ان کے ایک پرانے ’’کلاس فیلو‘‘کے طور پر دے رہا ہوںامید ہے وہ قبول فرمائیں گے، ورنہ میں ان کی جھنگ میں قیام کے دوران وقوع پذیر ہونے والے کچھ سچے واقعات سے بھی پردہ اٹھانے کا سوچ رہا ہوں۔ 
 

5 اگست، 2014

دنیا کے دو خیموں میں بٹنے کا وقت



 جو لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری ایک اچانک عمل ہے اور یہ چند دنوں تک جاری رہے گا اور پھر عالمی طاقتیں بیچ بچائو کروا دیں گی۔ اس دوران غزہ کے مسلمانوں کو کافی سبق سکھایا جا چکا ہو گا۔ ایسے افراد کو ایک دفعہ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران یہودی دانشوروں‘ سیاستدانوں اور خصوصاً صیہونی لٹریچر کا مطالعہ کر لینا چاہیے جو ان سالوں میں ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے شایع ہوتا رہا ہے۔ جن ’’عظیم‘‘ دانشوروں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اسرائیل دنیا میں موجود قومی ریاستوں کی طرح کی ایک ریاست ہے جس کی متعین حدود ہیں‘ اقتدار اعلیٰ ہے‘ جمہوری حکومت ہے تو انھیں بھی اس خوش فہمی کو دل سے نکال دینا چاہیے۔

یہودی دنیا بھر کے ممالک میں اگرچہ مطعون تھے‘ دو ہزار سال سے در بدر تھے‘ انھیں شدید نفرت کا سامنا تھا‘ اس کے باوجود وہ دنیا کے کاروبار‘ بینکاری اور میڈیا پر انیسویں صدی کے آخر تک چھا چکے تھے۔ اسپین میں ازابیلا اور فرڈنینڈ کی حکومت آنے پر یہودیوں کو خلافت عثمانیہ کے علاقوں میں امان بھی مل چکی تھی اور یورپ سے امریکا ہجرت کرنے والوں میں جہاں ہر ملک کے بدنام زمانہ لوگ شامل تھے وہیں کثیر تعداد میں یہودی تھے جنہوں نے جنگ عظیم اول سے پہلے ہی امریکی اقتدار کو اپنے شکنجے میں لے لیا تھا۔


1896ء میں جب صیہونیت کی داغ بیل ڈالتے ہوئے مشہور زمانہ پروٹوکولز لکھے گئے تو وہ تاج برطانیہ جو یہودی سودی سرمائے کا مقروض تھا اس نے انھیں ایک قوم تصور کرتے ہوئے بالفور ڈیکلریشن 1916ء میں جاری کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیوں کو پوری دنیا میں کوئی جائے پناہ میسر نہ تھی۔ تمام اتحادی ممالک اور امریکا کے دروازے ان کے لیے کھلے تھے۔ پھر وہ حیفہ اور تل ابیب جیسے بے آب و گیاہ علاقے میں کیونکر آباد ہوئے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد تو یورپ میں بھی ان کا غلبہ ہو چکا تھا۔ ان کے خلاف گفتگو کرنا بھی قابل سزا جرم بن چکا تھا۔ پھر وہ یورپ کے ’’جنت نظیر‘‘ اور پر امن ممالک کو چھوڑ کر ایک ایسے ملک میں کیوں آباد ہو گئے جہاں انھیں چاروں جانب سے دشمنوں کا سامنا تھا۔ انھیں اپنے دفاع کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑیں، حفاظت کے لیے اونچی اونچی دیواریں بنانا پڑیں، پوری قوم کو لازمی فوجی تربیت دینا پڑے۔


قومی ریاست کے تصور کے علمبردار اور سیکولر نظریے کے داعی اس سوال کا جواب نہیں دیتے۔ اس لیے کہ اس کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ یہودی ایک آخری عالمی جنگ کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ایسی جنگ کے نتیجے میں ان کے مذہبی ربیئوں کے نزدیک فتح نصیب ہوگی اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح کی عالمی حکمران حکومت قائم ہونی ہے جسے وہ Ruling state of the world کہتے ہیں۔


پوری دنیا کے یہودی اس جنگ کے لیے وسائل مہیا کرتے ہیں اور متحد ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی یہ جنگ مسلمانوں سے ہونا ہے۔ گزشتہ پندرہ سال سے یہودی مفکرین‘ مذہبی رہنما‘ یہاں تک کہ ان کے اہل تصوف بھی بار بار یہ تحریر کر رہے تھے کہ 2014ء اور 2015ء میں لگنے والے چار مکمل چاند گرہن اس وقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دنیا کا ہیڈ کوارٹر اب امریکا سے اسرائیل منتقل ہونا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں انھوں نے ایک مستقل منصوبہ بندی کے ساتھ امریکا اور اس کے حواریوں سے اپنے لیے راہ ہموار کروائی۔
 

عراق کی طاقت کا خاتمہ‘ عرب بہار کے نتیجے میں مسلم امہ میں انتشار جس کا نتیجہ یہ کہ مصر میں اخوان حکومتی تشدد کا شکار‘ حزب اللہ شام اور عراق میں اپنے ہی مسلمانوں کے خلاف لڑتی ہوئی‘ ایران جو آواز اٹھاتا تھا وہ سعودی عرب سے کشمکش اور داعش کے خطرے کی وجہ سے عراق میں الجھا ہوا‘ سعودی عرب اور عرب ریاستیں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امریکا کی دست نگر‘ ایسے میں یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں نے اپنی پیش گوئیوں اور منصوبہ بندی کے مطابق جنگ کا آغاز کر دیا۔ اب کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ جنگ انجام سے پہلے ختم کردی جائے گی۔
 

لیکن کیا مسلم امہ نے کبھی غور کیا کہ یہی وقت ہے جس کی بشارت سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے دی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں۔ اس لڑائی میں مسلمان یہودیوں کو قتل کردیں گے‘ یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائیں گے تو پتھر اور درخت یوں کہے گا۔ ’’اے مسلمان اللہ کے بندے ادھر آ میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے اس کو مار ڈال۔ مگر غرقد نہیں کہے گا کیوں کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔ (مسلم)۔ اسے دنیا بھر میں JEW TREE کہا جاتا ہے اور اسرائیل میں اس کی سب سے زیادہ شجرکاری کی گئی ہے۔

دنیا بھر سے یہودی اسرائیل کی سرزمین پر پکنک منانے یا کسی معاشی فائدے کے لیے جمع نہیں ہوئے بلکہ اس جنگ کے لیے جمع ہوئے ہیں جس کے بعد ان کے بقول ایک ایسی حکومت قائم ہونی ہے جو عالمی سپر پاور کی حیثیت رکھتی ہو۔ وہ اپنی کتاب ایزاخیل کی اس پیش گوئی پر یقین رکھتے ہیں۔ ’’اے صہیون کی بیٹی خوشی سے چلاو‘ اے یروشلم کی بیٹی مسرت سے چیخو‘ دیکھو تمہارا بادشاہ آ رہا ہے۔ وہ عادل ہے اور گدھے پر سوار ہے۔ خچر یا گدھی کے بچے پر۔ میں یو فریم سے گاڑی کو اور یروشلم سے گھوڑے کو علیحدہ کر دونگا۔ جنگ کے پر توڑ دیے جائیں گے۔ اس کی حکمرانی سمندر اور دریا سے زمین تک ہوگی۔ (زکریا9:9-10) اسی کتاب میں لکھا ہے’’اس طرح اسرائیل کی ساری قوموں کو ساری دنیا سے جمع کرونگا‘ چاہے وہ جہاں کہیں بھی جا بسے ہوں اور انھیں ان کی اپنی سرزمین میں جمع کرونگا، میں انھیں اس سرزمین میں ایک ہی قوم کی شکل دے دونگا‘ اسرائیل کی پہاڑی پر جہاں ایک ہی بادشاہ ان پر حکومت کرے گا۔ (ایزاخیل‘ 37:21-22)


انہی بشارتوں کے مکمل ہونے کے لیے وہ اس سرزمین پر جمع ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا حال بھی ویسا ہے جیسا آج ہمارے مسلمانوں کا ہے۔ اپنی مرضی کی آیت اٹھا کر اسے مکمل سمجھ لیتے ہیں۔ اسی کتاب ایزاخیل میں اس آخری جنگ کا وہی انجام درج ہے جو سید الانبیاء ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ایزاخیل کے 22 ویں باب میں لکھا ہے ’’پھر ایلی کہتا ہے کہ کیونکہ تم لوگ میرے نزدیک کھوٹے سکے ثابت ہوئے ہو۔ اس لیے تمہیں یروشلم میں جمع کرونگا جیسے سونا‘ چاندی‘ ٹن‘ لوہا اور کانسی کو آگ میں ڈالنے کے لیے جمع کرتے ہیں، اس طرح میں بھی تمہیں غصے اور غضب کے درمیان جمع کرونگا اور پھر تمہیں پگھلا دوں گا۔ میں تم پر اپنے غضب کی آگ بھڑکا دونگا اور تم پگھل جاؤ گے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے رب نے تمہارے اوپر اپنا غضب نازل کیا ہے۔ (22:19-22)
لیکن ان کی کتاب جرمیاہ (Jeramiah) میں تو اس آخری معرکے کے اختتام کا منظر ہولناک ہے۔ ’’ان کی تباہی اور سزا کے اعلان کے بعد جس کے بعد ان کی لاشیں کھلے آسمان تلے ڈال دی جائیں گی‘ جہاں گدھ اور کیڑے مکوڑے ان کو کھالیں گے حتی کہ ان کے بادشاہوں اور لیڈروں کی ہڈیاں بھی گل جائیں گی اور زمین میں کوڑے کرکٹ کی طرح پھیل جائیں گی‘‘۔ (8:3) لیکن کیا مسلم امہ اور خصوصاً عرب دنیا کو اس کا اندازہ ہے۔
اسرائیل جس جنگ کے لیے سات دہائیاں قبل قائم کیا گیا‘ جس کی تیاری پوری یہودی قوم 1896ء سے کر رہی ہے ہمیں اس کا احساس نہیں۔ ہم خصوصاً عرب اقوام ایک ایسے فتنے میں مبتلا ہیں جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک ایسا فتنہ ظاہر ہوگا جو سب عربوں کو لپیٹ میں لے لے گا۔ اس فتنے میں قتل ہونے والے جہنم میں جائیں گے۔ اس فتنے میں زبان کی کاٹ تلوار سے زیادہ ہوگی۔‘‘ (مسند احمد‘ ابی داؤد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ) کیا اس لمحے جب اسرائیل نے اپنی جنگ کا آغاز کردیا ہے‘ وہ سب لوگ جو مسالک کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو زبان کی کاٹ سے حکومتوں کی گدیوں پر بیٹھے یا منبروں پر براجمان امت کے گروہوں کو لڑنے پر اکسا رہے ہیں کیا ان کے سامنے سید الانبیاءﷺ کی جہنم کی وعید موجود نہیں۔


یہی وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ’’عرب کی تباہی‘‘۔ ابھی تو شامت اعمال کے دن ہیں کہ اس اندرونی فتنے سے جو بچ نکلے گا وہی ہو گا جس کے ہاتھ میں اللہ کی نصرت کا پرچم ہو گا۔ یہ بڑی جنگ جس کے آخر میں دجال کا ظہور ہو گا اس سے پہلے دنیا دو خیموں میں بٹ جائے گی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے‘ ایک اہل ایمان کا خیمہ جس میں بالکل نفاق نہیں ہو گا دوسرا منافقین کا خیمہ جن میں بالکل ایمان نہیں ہو گا۔ جب ایسا ہو تو دجال کا انتظار کرو کہ آج آئے یا کل‘‘۔ (ابوداؤد‘ مستدرک) ابتلا کا دور ہے‘ شامت اعمال ہے‘ صفائی کا موسم ہے‘ دنیا دو خیموں میں بٹنے کے نزدیک ہے۔ 


اوریا مقبول جان 





 

4 اگست، 2014

غزہ کی صورت حال پر طاہر القادری سے ایک صحافی کی گفتگو


صحافی: مولوی صاحب، اسرائیل نے سیکٹروں بچوں سمیت دو ہزارکے قریب لوگ شہیدکر دیئے ہیں سب لوگوں نے اس کی مذمت کی ہے لیکن آپ کی طرف سے ایک لفظ تک نہیں کہا گیا، اس کی کیا وجہ ہے؟
مولوی صاحب: اسرائیل خود مختار ملک ہے، اس کے اندرونی مسئلے پر مداخلت کا کوئی جواز نہیں۔
صحافی:لیکن وہاں مسلمان قتل ہو رہے ہیں۔
مولوی صاحب: اچھا؟ مجھے تو کسی نے بتایا تھا وہ کوئی فلسطینی وغیرہ ہیں۔
صحافی: فلسطینی مسلمان ہیں، آپ سب جانتے ہیں۔
مولوی صاحب: یہ بات ٹھیک ہے، میں ہی تو ہوں جوسب جانتا ہوں اور سب سے زیادہ جانتا ہوں۔
صحافی:پھر آپ نے بیان کیوں نہیں دیا۔
مولوی صاحب:آپ اخبار ٹی وی نہیں دیکھتے، میں تو دن میں چھ بار بیان دیتا ہوں کہ یہ حکومت نہیں رہے گی۔
صحافی: یاہو کی حکومت؟
مولوی صاحب:نہیں نواز شریف حکومت، اب اسے جانا ہوگا، پھر انقلاب آئے گا اور یا ہو نہیں میں گوگل استعمال کرتا ہوں۔
صحافی: لیکن فلسطین۔۔۔
مولوی صاحب:میں نے اپنا مؤقف دے تو دیا۔
صحافی: لیکن مذمت تو نہیں کی۔
مولوی صاحب:میں ہر روز چھ بار مذمت کرتا ہوں۔
صحافی: اسرائیل کی ؟
مولوی صاحب:نہیں نواز شریف کی۔
صحافی: لیکن آپ اسرائیل کی مذمت کیوں نہیں کرتے۔
مولوی صاحب:دہشت گردوں کے بارے میں میرا موقف میرے فتوے میں آچکا ہے۔ جو میں نے کینیڈا کی بابرکت، الہامی اور روحانی فضاؤں میں لکھا تھا، آپ وہ پڑھ لیں۔ منہاج کے دفتر سے خرید لیں یا امریکی سفارتخانے جا کر مفت پڑھ لیں۔
صحافی: لیکن مذمّت ؟
مولوی صاحب:میں نواز شریف کی شدید مذمت کرتا ہوں، میں شہباز شریف کی شدید مذمت کرتا ہوں، سن لیا، اب جاؤ۔ میرا موبائل بج رہا ہے، ’’تازہ الہام‘‘ آرہا ہے۔ آپ فوراً جاؤ،’’الہام‘‘ صرف خلوت میں سنا جاتا ہے۔

عبداللہ طارق سہیل

1 اگست، 2014

علمائے امت اور غزہ کے مسلمان

 کسی بھی تجزیہ نگار‘ دانشور‘ سیاست دان یہاں تک کہ اس امت کے علماء تک کی گفتگو‘ تحریر یا تقریر ملاحظہ کریں جو ان دنوں فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و تشدد اور بربریت کے جواب میں کی یا لکھی گئی ہو تو اس میں آپ کو ایک نکتہ مشترک ملے گا۔ ’’ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں‘‘۔ چوراہوں‘ سڑکوں‘ پریس کلبوں اور عالمی دفاتر کے سامنے پلے کارڈ اٹھائے‘ نعرے لگاتے اور موم بتیاں جلاتے لوگ نظر آئیں گے۔ یہ سب اس بات پر کسقدر مطمئن ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ ہم نے اپنا حصہ ڈال دیا۔

اب ہم دن بھر شاپنگ کریں‘ عیش و عشرت میں گم رہیں اور پھر رات کو مزے کی نیند سو جائیں‘ ہم مطمئن ہیں۔ یہ عالمی ضمیر ہے کیا چیز۔ کیا گزشتہ پندرہ سالوں میں ہر بڑے چھوٹے‘ بوڑھے جوان نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا؟ گیارہ ستمبر کے بعد اسی عالمی ضمیر نے نیویارک میں اکٹھے ہو کر چالیس سے زیادہ ممالک کو یہ اختیار دیا تھا کہ ایک ایسے ملک پر ٹوٹ پڑیں جو وسائل کے اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے کمزور ہے۔ اس کے پاس نہ رسد و رسائل کے ذرایع تھے اور نہ ٹیکنالوجی۔ لیکن اس کے باوجود بھی پہاڑوں‘ جنگلوں اور بیابانوںمیں آباد ان چرواہوں اور کسانوں کو انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن قرار دیا گیا۔


دنیا کے یہ اڑتالیس غنڈے اس ملک پر چڑھ دوڑے۔ اس عالمی ضمیر کا نمایندہ پاکستانی وفد جب ملا محمد عمر کے پاس گیا تو اس نے اور بہت سی باتوں کے علاوہ ایک بات ایسی کی جو اب سچ ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ اس نے کہا تھا ’’دیکھو یہ باری کی بات ہے‘ ہماری باری پہلے آ گئی ہے‘ کل تمہاری بھی آ جائے گی۔ ہمیں خاک ہونے کا ڈر نہیں کہ ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں‘ مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ ہم نے مٹی میں چلے جانا ہے۔ ان لوگوں کا کیا ہو گا جنہوں نے آسمان سے چھوتی عمارتیں تعمیر کر لی ہیں۔ آسائش کی زندگی اور تعیش کا سامان جمع کر لیا ہے۔ اللہ کا واسطہ باریاں مت لگاؤ‘‘۔ لیکن ہم سب نے اسی عالمی ضمیر کا ساتھ دیا۔
 

وہ سب جو آج غزہ کے ظلم پر چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ کوئی پڑوسی ان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ انھوں نے اس عالمی ضمیر کا ساتھ دینے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے دی۔ میرے ملک سے امریکی طیارے ستاون ہزار دفعہ اڑے اور انھوں نے اسی طرح افغان مسلمانوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے جس طرح آج غزہ میں اسرائیل کر رہا ہے۔ ایران نے نہ صرف بدترین خاموشی دکھائی بلکہ اس کے پاسداران کے سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر امریکی حملے کے دوران ہمارے جوان شمالی اتحاد کے ساتھ شانہ بشانہ نہ لڑ رہے ہوتے تو یہ فتح ممکن نہ تھی۔
 

تاجکستان نے کابل کی طرف پیش قدمی کا راستہ دیا۔ عالمی ضمیر مطمئن ہوگیا۔ دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ افغانستان فتح کر لیا گیا۔ کیا اس کے بعد کسی اور کی باری نہیں آئی۔ شاید ہم بھول گئے۔ اس کے بعد عراق تھا۔ اس کے لیے تو کسی نے نیویارک میں موجود عالمی ضمیر کی علامت اقوام متحدہ سے اجازت لینے کی ضرورت تک محسوس نہ کی۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنی فوجی قوت اور میڈیا کے پراپیگنڈے کے زور پر عراق میں داخل ہوئے۔ کونسا پڑوسی تھا جس نے اس ظلم پر احتجاج کیا۔ سب نے اس عالمی ضمیر کے سامنے سر جھکائے بلکہ سجدہ ہائے تعظیمی کیے۔
 

شام‘ اردن‘ کویت‘ قطر‘ سعودی عرب اور ایران سب کے سب کئی سال عراق کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتے رہے۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ ان کا ضمیر اس عالمی ضمیر نے خرید لیا ہے لیکن پھر ان دونوں ملکوں میں جب ان عالمی غنڈوں نے اپنی مرضی کے آئین تحریر کیے، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے اور اپنی کاسہ لیس حکومتیں قائم کیں تو ان تمام ممالک نے ان دونوں حکومتوں کو نہ صرف جائز تسلیم کیا بلکہ ان کے ہر ظلم پر بدترین خاموشی اختیار کی۔
 

یہ حکومتیں شہروں کے شہر اجاڑتی رہیں، لوگوں کو دہشت گرد، القاعدہ اور باغی کہہ کر قتل کرتی رہیں اور ان کے حکمرانوں کا تمام پڑوسی ملک اپنے ایوانوں میں استقبال کرتے رہے۔ وہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین تھے، وہ ریاض، تہران، اسلام آباد اور دمشق جیسے شہروں میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرتے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے۔ اس سب کو میڈیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی قرار دیا۔ جان پلیجر Jon Plijer کی وہ مشہور ڈاکومنٹری ”war you have not seen” (جنگ جو آپ نے دیکھی نہیں) ایسے تمام چہروں کو بے نقاب کرتی ہے جو اس عالمی ضمیر اور عالمی پراپیگنڈے کے سامنے سربسجود تھے۔
 

مسلمانوں نے اپنے گزشتہ دس سالوں میں اس عالمی ضمیر کو ایک نکتہ سمجھا دیا کہ ہم بے حس ہیں، بے ضمیر ہیں اور تم جس کو بھی دہشت گرد اور انسانیت کے لیے خطرہ تصور کر کے ان کے گھر بار، خاندان اور آبادی سب کو تباہ کر دو، ہم خاموش رہیں گے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو آج اسرائیل اور اس کے حواری بول رہے ہیں۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں، پلے کارڈ اٹھاتے ہیں، یوم القدس مناتے ہیں، دنیا بھر کے ہر فرقے کے علماء اس عالمی ضمیر سے فیصلہ کروانے سڑکوں پر نکلتے تھے۔
 

کیا انھوں نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی تھی ’’اے پیغمبر! کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لائے جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا، لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ اپنا معاملہ فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس کا کھل کر انکار کریں‘‘ (النسا 60)۔ تجزیہ نگار، دانشور، سیاست دان یہاں تک وہ علمائے کرام جنہوں نے اس آیت کو بار بار پڑھا ہوگا، اللہ کے اس حکم کو لوگوں کو سنایا ہو گا وہ بھی اپنا معاملہ اور اپنا فیصلہ طاغوت سے کروانا چاہتے ہیں اور کس قدر بھولے ہیں کہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔
 

کیا یہ سب نہیں جانتے کہ یہ دور فتن ہے۔ کیا ان سب نے احادیث کی کتب میں فتن کے ابواب اور ان میں درج احادیث نہیں دیکھیں۔ لیکن کسقدر بدقسمتی ہے کہ اس امت کے حکمران اور ان کے مسلکی علماء عراق اور شام میں ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تلواریں نکالتے ہیں، جیش تیار کرتے ہیں، کوئی ایک حکومت کو بچانے کے لیے فتویٰ دیتا ہے تو دوسرا اس کو گرانے کے لیے۔ کسی کو اینٹوں اور سنگ مر مر کے مزارات کے تحفظ کے لیے جان دینی عزیز ہے تو دوسرے کو ان مزارات کو گرا کر اپنے جہاد کا جھنڈا بلند کرنا ہے۔ لیکن کیا ان ستاون اسلامی ممالک میں کسی ایک کے علماء میں یکسوئی نہیں کہ وہ اعلان کریں کہ نہتے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر لڑنا فرض عین ہے۔
 

اس امت کی پچاس لاکھ سے زیادہ افواج ہیں، جو کیل کانٹے اور ایٹم بم سے لیس ہیں، کیا یہ ساری طاقت جو انھیں اللہ نے عطا کی ہے وہ قیامت کے دن ان سے حساب نہیں لے گا کہ تم نے اس امت کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات کے لیے صرف کی یا نہیں کی۔ جو جتنے بڑے منصب پر ہو گا اس کی اتنی ہی بڑی جواب دہی ہو گی۔ لیکن سب جانب خاموشی ہے، سکوت ہے، پلے کارڈ ہیں، بینرز ہیں، تبصرے ہیں، شاید یہی وہ زمانہ تھا جس کے بارے میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان میں پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا دور نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جن کو ملے وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کوئی مسلمان ایسا کہہ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! جن پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی (السنن الواردۃ فی الفتن)
 

کیا ستاون اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے کہ جو اسلامی ممالک کو دعوت دے کہ آؤ اپنے فیصلے طاغوت سے نہیں خود کریں، خود اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کریں۔ کیا ہمارے تمام مسالک کے علمائے امت سب کو اس ایک نکتے پر جمع کر سکتے ہیں اس کا علاج ریلیاں نہیں جہاد ہے لیکن اس ایک لفظ جہاد کو منہ سے نکالنے پر ہمیں جس قدر شرمندگی ہوتی ہے، شاید اس سے کئی گناہ زیادہ ہمیں روز قیامت شرمندگی ہو گی۔ 

 tags:
oria maqbool jan, ullama e ummat our ghaza kay musalman,
urdu article, israil, america, pakistan, muslim ummah, 
اوریا مقبول جان