ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

30 جولائی، 2014

کس منہ سے کہیں تم سے، تمہیں عید مبارک


 کئی عیدوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ تقریباًہر عید الفطر پر ہمارے اہلِ وطن اس مخمصے میں پڑ جاتے ہیں کہ آج ہم عید منائیں یا اپنے پختون بھائیوں کو منائیں؟خیر یہ قصہ اور یہ قضیہ تو شاید ہمیشہ ہی چلتارہے گا۔ ابھی ابھی کسی نے (ہمارے کان پر) یہ نعرہ بھی مارا ہے کہ ۔۔۔جب تک صوبہ ’خیبر پختون خوا‘ رہے گا تب تک دو،دو چاند رہیں گے۔۔۔ (اور دو،دو عیدیں)۔۔۔ اگر مختلف ’قومیتوں‘ کے مطالبات پرملک میں کچھ زیادہ صوبے بن گئے تو کیا عجب کہ وطن عزیز پاکستان میں۔۔۔ہر روز، روزِ عید ہو، ہر شب، شبِ برات۔
سنتے آئے ہیں کہ عید کی سچی خوشی اُنھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنھوں نے رمضان بھر روزے رکھے، تراویح کی تمام نمازیں ادا کیں اورنمازِ عید سے پہلے پہلے اپنے اوپر واجب الادا صدقۂ فطر ادا کردیا۔ جو یہ سب کچھ نہ کرے کیا خاک اُس کی عید ہے؟ مسلمانوں کی زندگی کے غم ہوں یا خوشیاں سب کے سب کسی نہ کسی انداز میں’ عبادت‘ سے عبارت ہیں۔سو، رمضان کی عبادات کی کامیابی سے تکمیل کی خوشی منانے کا طریقہ یہ ٹھہرا کہ فرزندانِ توحید مارے خوشی کے عیدکے دن دو رکعت نماز زیادہ پڑھ آئے، ساتھ زائد چھہ تکبیروں کے۔
 

یہ تو ہوئیں عید کی حقیقی خوشیاں منانے والوں کی باتیں۔ مگر ہمارے یہاں عید کی مصنوعی خوشیاں منانے والے بھی بہت ہیں۔ عید کے دن ایسی بہت سی ’مصنوعات‘ کی آپ کو ہمارے ٹی وی چینلوں پر بھرمار نظر آئے گی۔عیدکے نام پر از سحر تابہ سحر مسلسل نشر ہونے والے اِن مصنوعی پروگراموں میں نہ رمضان کا ذکر آئے گا نہ روزے کا۔ سحری کی بات ہوگی نہ افطاری کی۔ تراویح کا تذکرہ ملے گا نہ جشنِ نزولِ قرآن کا۔ روزے کی مشق سے پیدا ہونے والے صبر اور ضبطِ نفس کی صفات کا جائزہ لیا جائے گا نہ خیراور خیرات میں سبقت لے جانے کا۔ ان سے کون پوچھے کہ تمھاری عید ہے کس بات کی عید؟ رمضان گزر جانے کی عید؟ کہ جس پر’جشن عید‘ مناتے ہوئے ٹھمکے پرٹھمکا لگا لگا کر اِس عزم کا اظہاراوراعلان کیا جائے گا کہ:
ایسی چال میں چلوں کلیجا ہِل جائے گا
کسی کی جان جائے گی، کسی کا دِل جائے گا
 

عید کی سب سے زیادہ خوشیاں مناتے ہوئے اور ناچتے گاتے ہوئے آپ کو وہی لوگ نظر آئیں گے ، جنھیں کچھ رمضان سے سروکار تھا نہ روزے سے۔مگر ناچنے دیجیے اُنھیں۔ کیوں کہ اگر آپ انھیں عید کی خوشی میں ناچنے نہیں دیں گے تو یہ مارے غصے کے اور ناچنے لگیں گے کہ اِس ملک میں ہمیں ناچنے بھی نہیں دیا جاتا وھاٹ اے کنٹری؟ کسی کو ناچنے نہ دینا اُس کی ’ آزادئ اظہار‘ سلب کرلینے کے مترادف ہے۔
’کنٹری‘ کا ذکر آیاتواِس پر ہمیں یاد آیاکہ لوگ کہتے ہیں۔۔۔’عید کی سچی خوشی تو دوستوں کی دید ہے‘۔۔۔مگر ہم نے دوست بھی امریکا جیسے’بے دید‘ پالے ہوئے ہیں۔کہ جس کی دوستی کے طفیل ہمارا ’کنٹری‘ نہ صرف مسلسل ڈرون حملوں کی زد میں رہتا ہے بلکہ ہماری قوم اور ہماری قوم کے سجیلے جوانوں کو بھی دہشت گردوں کے حملوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن سپوتوں کو اس قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اس لیے پالاتھا کہ وہ اﷲ، اُس کے رسولؐ اور ملکِ خداداد کے دشمنوں پر اﷲ کا قہر بن کر ٹوٹ پڑیں گے، اگر اُن میں جہاد کی جگہ جمود اور سکتہ و سکوت پیدا ہوجائے، وہ اﷲ اور اُس کے رسولؐ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان بھائیوں پر اﷲکے دشمن یہودیو ں کو ظلم ڈھاتے ہوئے دیکھیں اور نہ صرف ٹکر ٹکر دیکھیں بلکہ اُن کے ’صفِ اول کے اتحادی‘ بھی بن جائیں تو اﷲ اُن کی ہوا اِسی طرح اُکھاڑ دیتا ہے کہ اُن کو اپنی، اپنے دفتروں کی اور اپنی چھاؤنیوں کی بھی حفاظت کی فکرپڑ جائے۔ وہ دوسروں کی جان تو کیا بچائیں گے؟ اپنی جان بچانے کے لیے دیواریں بنائیں گے۔ رُکاوٹیں کھڑی اور سڑکیں بند کریں گے۔سن 2012ء کی وہ عید الفطر یہ قوم کیسے بھول سکتی ہے جب باقی پاکستان کی عید سے فقط دو دِن قبل شمالی وزیرستان میں عید منائی جارہی تھی تو امریکا نے ڈرون حملے کرکے بروزِ عید 12پاکستانی سپاہی شہید کردیے تھے۔یہ تھا ہمارے اتحادی اور ہمارے دوست امریکا کا’تحفۂ عید‘۔امریکی صدر اوباما صاحب ایک طرف تو امریکی عوام کی طرف سے ہمیں اور ہمارے وزیر اعظم کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں، دوسری طرف عید کے دن کے لیے، پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان کے مسلمان شہریوں اور ہمارے نوجوان سپاہیوں کی کم عمر بیواؤں اوراُن کے ننھے منے بچوں کو آہوں، آنسوؤں اور دِل پاش پاش کردینے والے غموں کے تحفے بھی مسلسل مل رہے ہیں۔ہر عید پر ہماری سوگوار قوم اور اِن سانحات سے سوگوار ہوجانے والے خاندانوں پر اقبالؔ کا یہ شعرصادق آتاہے کہ:
پیامِ عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے
 

ہماری عیدیں تواب ’شکوہِ ملک و دیں‘ بننے کی بجائے صرف ’ہجومِ مومنیں‘ بن کر رہ گئی ہیں۔ایسے میں ہم قوم کو عید کی مبارک باد کیسے دیں؟
  عید کے دِن نمازِ عید کے جو پُر ہجوم اجتماعات ہوں گے، اُن کی تصویریں اخبارات کی زینت بنیں گی۔خطیب حضرات یومِ عید کے فضائل و مناقب گِنوا گِنوا کر اسلام کی شان بیان کریں گے اور بڑے جوش وخروش سے بیان کریں گے۔ اُنھیں اِس ملک میں بس ’بیان‘ کرنے ہی کی اجازت ہے،اسلام کی شان بیان کرنے کی۔اسلام کی شان دکھانے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں۔ پھر بھی:
ملا کو جو ہے ’عید کے‘ سجدے کی اجازت
’لیڈر‘ یہ سمجھتا ہے کہ اِسلام ہے آزاد
 

اسلام تو اسلام، ہمیں تویہ آزادی بھی نصیب نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی زبان میں تعلیم دے سکیں۔اپنی قومی زبان کواپنے ملک کی سرکاری زبان بنا سکیں یا کم ازکم اس کی عملی کوشش ہی کرسکیں۔یاصدیوں سے اپنے دین کی تعلیم و تعلم میں مصروف دینی مدارس کو امریکا کے قرار دینے پر ’دہشت گردی‘ کے مراکز مان کر اُن پرنفرین بھیجنے کی بجائے دُنیا سے اُن کا تقدس اور اُن کی اہمیت تسلیم کرواسکیں ۔ یہ مثالی تعلیمی ادارے ملک کے مفلوک الحال بچوں میں نہ صرف خیر کثیر عطا کرنے والے علم کی دولت مفت تقسیم کرتے ہیں، بلکہ اُنھیں مفت رہائش اور مفت خوراک بھی فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران ایسا کریں تو کیسے کریں؟یہ حکام نہیں ’محکوم‘ ہیں، اور محکوم بھی طاغوت کے۔ اُنھیں اِن کاموں کی آزادی نصیب نہیں۔غنیمت ہے کہ اِس قدر محکوم قوم کو ابھی تک پُر ہجوم نمازِ عید ادا کرنے کی آزادی میسر ہے۔ مگر اقبالؔ ؒ نے کچھ غلط تو نہیں کہاتھا کہ:
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مومنیں
 

عید کے موقع پر۔۔۔ہرسال آپ پڑھتے ہی ہیں کہ۔۔۔ ہماری قوم کے (محکوم) حکمران بھی (اپنے ہی) دانت نکال نکال کر امریکی صدر کی طرح خود بھی قوم کو عیدکی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اور خود بھی عید کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ عید کے موقع پرقوم کو کمرتوڑ مہنگائی کا ’تحفۂ عید‘پیش کرتے ہیں۔ بے پناہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ سے قوم میں پیدا ہونے والی بے چینی اور مایوسی کا ’تحفۂ عید‘پیش کرتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور اِس کے نتیجہ میں ٹھپ ہوجانے والے صنعتی اداروں کے مزدوروں کو بے روزگاری کا ’تحفۂ عید‘ پیش کرتے ہیں۔ پھر ان تحفوں پر مستزاد بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا ’تحفۂ عیدبھی پیش کردیا جاتاہے۔ جب کہ اِن’ تحفوں‘ پر بندھے ہوئے ربن کے طورپر منہ زبانی ’عیدمبارک‘ کا ’تحفۂ عید‘ قوم کوپہلے ہی موصول ہو چکا ہوتا ہے۔اے صاحبو! کس منہ سے کہیں تم سے، تمھیں عید مبارک! 

ابو نثر  

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں