ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 دسمبر، 2012

سیکولر ذہن کی سطح

سیکولر ذہن کی سطح (شاہنواز فاروقی)


پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقات نے تمام مذہبی لوگوں کو ”طالبان“ بنادیا ہے، اور طالبان بھی اپنی پسند کا۔ سیکولر اور لبرل عناصر کے طالبان انتہا پسند ہیں۔ دہشت گرد ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر وقت اسلحہ ہوتا ہے۔ وہ دستی بموں اور خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹس سے لیس ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں سے ہر وقت وحشت اور درندگی ٹپکتی رہتی ہے۔ وہ دائمی طور پر خون کے پیاسے ہیں۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ خود کو ”طالبان“ کہتے ہیں مگر پڑھنے لکھنے سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ علم، تعلیم، شعور، آگہی اور کتاب اور قلم کے دشمن ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی عورتوں کو گھروں میں قید کیا ہوا ہے۔ وہ انہیں دنیا کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔ پاکستان کے مذہبی لوگوں کی یہ تصویر سیکولر لوگوں نے بڑی محنت سے بنائی ہے اور وہ اس تصویر میں مسلسل رنگ بھرتے رہتے ہیں۔

ان لوگوں میں ایک نام ندیم فاروق پراچہ کا بھی ہے۔ ندیم فاروق پراچہ روزنامہ ڈان میں ہفتہ وار کالم تحریر کرتے ہیں۔ ان کی خاص بات صرف یہ نہیں ہے کہ وہ سیکولر اور لبرل ہیں، بلکہ ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انہیں حقیقی معنوں میں مذہبی لوگوں، مذہبی جماعتوں اور مذہبی خیالات سے نفرت ہے۔ ان کی نفرت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کے اکثر کالموں میں یہ نفرت شدت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ندیم فاروق پراچہ نفرت کے مسلسل اظہار سے نہ اکتاتے ہیں، نہ تھکتے ہیں۔ لیکن 16 دسمبر 2012ءکے کالم میں انہوں نے مذہبی لوگوں اور مذہبی خیالات سے نفرت کی ایورسٹ کو سر کیا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ندیم فاروق پراچہ نے کراچی میں ہونے والے تین روزہ عالمی میلہ کتب کا دورہ کیا تو انہیں یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ کتابوں کے عالمی میلے میں کتابوں کے اکثر اسٹالز پر مذہبی کتب فروخت ہورہی تھیں۔ یہاں تک کہ جن اسٹالز پر عام ادب اور موسیقی سے متعلق کتب فروخت کے لیے رکھی گئی تھیں ان پر بھی ایک حصہ مذہبی لٹریچر کے لیے مخصوص تھا۔ ندیم فاروق پراچہ نے لکھا ہے کہ کتب میلے کا ایک پہلو یہ تھا کہ اس میں ”ڈاڑھی والوں کی“ اکثریت تھی۔ یہ لوگ اپنی برقع پوش خواتین اور بچوں کے ہمراہ کتب میلے میں آئے ہوئے تھے اور دھڑادھڑ کتابیں خرید رہے تھے۔ مذہبی لوگوں کے بارے میں سیکولر لوگوں کے قائم کیے ہوئے ”امیج“ کو دیکھا جائے تو ندیم فاروق پراچہ کو کتب میلے کے مناظر سے خوش ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ کتب میلے میں مذہبی لوگ اسلحہ نہیں کتابیں خریدنے آئے تھے، اور وہ کتاب میلے سے ”اسلحہ بردار“ نہیں بلکہ ”کتاب بردار“ بن کر نکل رہے تھے۔

 
 بظاہر سیکولر اور لبرل لوگ یہی تو چاہتے ہیں کہ مذہبی لوگ بھی ان کی طرح ”لکھنے پڑھنے والے“ بن جائیں۔ مگر ندیم فاروق پراچہ کو اس پر خوشی نہیں ہوئی بلکہ وہ یہ دیکھ کر دکھ کے سمندر میں ڈوب گئے کہ کتاب میلہ اور وہ بھی بین الاقوامی کتاب میلہ مذہبی لٹریچر اور مذہبی لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ”مذہبی مرد“ اکیلے نہیں آئے ہوئے تھے، بلکہ ”روشن خیالی“ کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی کتاب میلے میں لے آئے تھے۔ اصولی اعتبار سے ندیم فاروق پراچہ کو مذہبی لوگوں کی اس ”کشادہ نظری“ پر خوش ہونا چاہیے تھا اور کہنا چاہیے تھا کہ چلیے دیر سے سہی مگر مذہبی لوگوں نے بھی عورتوں کو کتاب میلے میں لانے کے قابل تو سمجھا۔ مگر ندیم فاروق پراچہ یہ منظر دیکھ کر اذیت میں مبتلا ہوگئے۔ کتابیں علم اور تخلیقی صلاحیت کا حاصل ہوتی ہیں، اور یہ چیزیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ضد ہیں، چنانچہ کتاب میلے میں مذہبی ادب کی فراوانی سے صاف ظاہر ہے کہ مذہبی ذہن سیکولر اور لبرل ذہن سے کہیں زیادہ خلاّق ہوگیا ہے اور اپنی مذہبی کائنات کی تخلیق کے لیے وجود کی ساری توانائی صرف کررہا ہے۔

سیکولر اور لبرل خود کو علم دوست اور تخلیقی رجحانات کا پاسبان کہتے ہیں، چنانچہ ندیم فاروق پراچہ کو یہ دیکھ کر دلی مسرت ہونی چاہیے تھی کہ مذہبی لوگ علم اور تخلیق کے عاشق بن گئے ہیں اور انہوں نے ٹنوں کے حساب سے لٹریچر تخلیق کرڈالا ہے۔ لیکن ندیم فاروق پراچہ اس بات پر خوش ہونے کے بجائے سینہ کوبی کرتے ہوئے پائے گئے۔ ندیم فاروق پراچہ کتاب میلے میں ترکی کے اسٹال پر گئے مگر یہاں بھی ان کے لیے اذیت کا سامان مہیا تھا، کیونکہ ترکی کے اسٹال پر ترکی کے مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن صاحب کی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ مذہبی لوگوں سے ندیم فاروق پراچہ کی نفرت کا اشتہار ان کا یہ بیان ہے کہ میلے میں آئے ہوئے مذہبی لوگ لمبی لمبی ”ڈاڑھی والے “ تھے، عورتیں باپردہ تھیں اور ان کے ساتھ آئے ہوئے بچے پرشور یا ندیم فاروق پراچہ کے اپنے الفاظ میں “
Very Noisy” تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے سیکولر اور لبرل لوگوں کے بچے بہت ”خاموش طبع“ ہوتے ہیں۔ دنیا میں تہذیب کا جو بھی معیار متعین کیا جائے گا اس کے تحت بچوں کے شور شرابے کو کوئی بھی برا نہ کہے گا۔ اس لیے کہ بچے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ مگر ندیم فاروق پراچہ صاحب کی مذہبی لوگوں سے نفرت نے بچوں تک کو ”معاف“ نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کالم میں اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں بخشا۔

انہوں نے لکھا ہے کہ کتب میلے کے ایک ہال میں ایک صاحب مائک پر پوچھ رہے تھے ”پاکستان کا مطلب کیا؟“ اور بچے پوری قوت کے ساتھ اس کا جواب دے رہے تھے ”لا الہ الا اللہ“۔ تجزیہ کیا جائے تو ندیم فاروق پراچہ کو مذکورہ سوال ہی سے نہیں بلکہ مذکورہ سوال کے جواب سے بھی تکلیف ہوئی۔ وہ اس سلسلے میں اپنی شخصی، اجتماعی اور فکری تہذیب کو اس سطح تک لے گئے کہ انہوں نے یہ لکھنا ضروری سمجھا کہ جو بچے ”پاکستان کا مطلب کیا“ کا جواب ”لا الہ الا اللہ“ کہہ کر دے رہے تھے ان کے ہاتھ میں پاپ کارن، لالی پاپ اور جوسز کے ڈبے تھے، اور یہ بچے لا الہ الا اللہ تو کہہ رہے تھے مگر پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس کے ڈبے کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ یہ بات ندیم فاروق پراچہ نے اس طرح لکھی ہے جیسے ”لا الہ الا اللہ“ بچوں کو پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس پینے سے روکتا ہے۔ غالباً ندیم فاروق پراچہ کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس ”جدیدیت“ کی علامت ہیں اور لا الہ الا اللہ ”قدامت“ کی علامت ہے، اور ان دونوں میں ایک تضاد ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سیکولر اور لبرل لوگوں کی فکری سطح کتنی بلند ہے اور وہ جدیدیت اور قدامت کی کشمکش کو کتنی ”گہرائی“ میں اتر کر دیکھ اور بیان کررہی ہے۔

کتاب میلے ”ذہین“ اور”
Smart لوگوں کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ لیکن ندیم فاروق پراچہ کے کالم کے ساتھ ڈان کے ابڑو صاحب کی بنائی ہوئی جو Illustration شائع ہوئی ہے اس میں مذہبی عورتیں برقع میں چھپی ہوئی ہیں اور مذہبی لوگ کرتے، پاجامے اور ٹوپی میں دکھائے گئے ہیں۔ بیچاروں کی ڈاڑھیاں ہی نہیں پیٹ بھی بڑھے ہوئے ہیں، بلکہ عوامی زبان میں ان کی توندیں نکلی ہوئی ہیں۔ مطلب یہ کہ مذہبی لوگ کیا سمجھتے ہیں وہ کتاب میلے میں جائیں گے تو دنیا ان کو علم دوست، مہذب، ذہین اور Smart سمجھے گی؟ یہ ان کی بھول ہے۔ پاکستان کے سیکولر عناصر ان کو یہ ”امیج“ کبھی” Enjoy“نہیں کرنے دیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ندیم فاروق پراچہ کے کالم میں سب کچھ نفرت میں ڈوبا ہوا ہے۔ کالم کے آخری دو فقرے بہت اچھے ہیں۔ ان کا لطف انگریزی ہی میںہے۔ چنانچہ انہیں انگریزی ہی میں ملاحظہ کیجیے۔ ندیم فاروق پراچہ نے لکھا ہے:

Also never underestimate the myth of subliminal messaging. Guess which book i did end up buying at the fair: Islam in South East Asia.

مطلب یہ کہ میلے کی فضا کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں نے بھی میلے کے دورے کے اختتام پر اسلام سے متعلق کتاب خریدلی۔

28 دسمبر، 2012

شیخ الاسلام کی سادگی



بُرا ہو ان آلات کا، خیالات کا اور احساسات کا جو اک شخص کی معصومیت کو جانچ نہیں سکتے اور جانے کہاں کہاں کے گڑے مردے اکھاڑ کے شیخ الاسلام کی مرصع سادگی مجروح کرنے پر تل گئے ہیں۔ حالانکہ شیخ الاسلام جیسے سادہ منش !اللہ اللہ!!
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
خوش قسمت ہیں اس عہد کے عوام اور لکھنے بولنے والے کہ انھیں سادگی سمجھنے اور سمجھانے کو بطور مثال شیخ الاسلام میسر ہیں۔ورنہ اک میر تھا کہ جانے کن سے ملتا رہااورکہتا پھرا ؂
کوئی سادہ ہی تجھے سادہ کہے
مجھے تو لگے ہے تو عیار سا
مجھے آپ کے بھٹک جانے کا خطرہ ہے یعنی آپ خوش گفتاری، سلیقہ شعاری اور سادہ اطواری کے بجائے ممدوح محترم کی خوش لباسی اور کڑ اکے کے کرو فر کو لے بیٹھیں گے ، یعنی آپکے مہنگے اور جدیدتراش کے سوٹ ، وہ آپکی مسکراہٹوں سے جھلملاتے لاکھوں کے ہورڈنگز،وہ تیس تیس گاڑیوں کے جلو میں آپ کی بلٹ پروف آمد، وہ خطرناک عوام سے دور سیکیورٹی کیبن میں مقیدآپ کا خطاب ،ارے چھوڑئیے بھی ،یہ باطنی باتیں ہیں جنھیں ہم تم ظاہر پرست کیا سمجھیں،ارے وہ تو عہدِغالب کے وضعدار ہیں جوہم تم کی آزمائش کے لیے ،بہروپ بھرے پھرتے ہیں ۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اتنے فرق کے ساتھ کہ آپ نے فقیروں کا نہیں امیروں کا بھیس بھرا ہے ۔اللہ معاف فرمائے ، شروع شروع میں یہ خاکسار بھی علامہ صاحب (کہ تب آپ ابھی شیخ الاسلام نہ ہوئے تھے )کی سادگی بارے کوتاہ فہمی کا شکار تھا، تب آپ کے خوابوں کی بڑی شہر ت تھی ۔ ہر دوسرے خواب میں آپ کا رسول اللہؐ سے مکالمہ ہوتا ،سو ہم ایسے گنہگار اس قائم مقام صحابی سے خوفزدہ رہتے۔پھرایک کتاب ہاتھ لگی ، نام توجس کا سراسر گستاخانہ تھا،یعنی آپ کے نامِ نامی کے ساتھ ’’متنازعہ ترین‘‘ کی پخ لگا ئی گئی تھی،افسوس ہو اکہ جب ’متنازع ‘لگانے سے بات بن سکتی تھی تو ساتھ ’’ترین‘‘ کے اضافے کی کیا ضرور ت تھی؟ یہ کتاب نہ تھی ،آپ پر پورا انسائیکلو پیڈیا تھا ، لکھنے والوں میں ایسے ایسے نام کہ ’معتقد‘ ہوتے ہی بنی، پھرپتا چلا کسی عاقبت نا اندیش نے آپ پر قاتلانہ حملہ کر دیا ، ہائیکورٹ میں معاملہ پہنچا مگر کہاں علامہ صاحب کا مقام و مرتبہ کہ جنھوں نے عالم خواب میں رسول اللہ سے اپنا ادارہ بنانے ، سیاست میں حصہ لینے کی اجازت لی اور خواب ہی میں امام ابوحنیفہؒ کے حضور زانوئے تلمذبھی تہ کئے اورکہاں انگریز کا بنایا یہ ہائیکورٹ کا بے دین قانون، سو نتیجہ یہ نکلا کہ ہائیکورٹ کے فاضل جج نے اس حملے کو خود ساختہ اورآپ کے خون کو بکرے کا قرار دینے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا بھی کہا جونہ سادہ تھا اور نہ ہم ایسے ارادت مندوں کے سہنے کی چیز،آپ مگر با حوصلہ تھے سہہ گئے ۔خیر لوگ تواعتراض کرتے ہی رہتے ہیں جیسے ظاہر بین آپ کی ہزاروں کتابوں کو عمر کے لمحوں سے ضرب تقیسم کرکے دانتوں میں انگلیاں دبائے پھرتے ہیں، ان لوگوں کو اس برکت کا کیا علم جو ایسی وسیع النظر اور کثیر الوسائل شخصیت کو از خود میسرآنے لگتی ہے۔ وہ کیا جانیں کہ اس عہدِ جدید میں جب لوگ اپنی خوابگاہوں میں دبیز فوم کے گدے بچھائے کھجور کی مسنون چٹائی بھول چکے ہیں، آپ نے مولٹی فوم کے گدے پراتباع رسول میں کھجورکی چٹائی بھی بچھا رکھی ہے ۔ آپ اس بلا کے میزبان ہیں کہ رمضان میں انٹرویو دیتے صحافیوں سے پوچھنے لگے، ٹھندا لیں گے یا گرم؟ روزے دار صحافیوں نے اخبار میں چھاپ دیاکہ کیسے علامہ ہیں جنھیں رمضان کا بھی پتانہیں ، ارے بھائی وہ خاطرِ مہمان سے نمٹیں تو رمضان تک پہنچیں۔ایک بار آپ نے فرمایا رسول اللہ ؐ نے مجھے بتادیا ہے کہ میری عمر تریسٹھ برس ہوگی، اس کے فورا بعد آپ نے سکیورٹی گارڈ زرکھ لئے مبادا کوئی حملہ آور آکر فرمانِ رسول جھٹلا جائے۔
مجھے آپ کا ایک انٹرویوپڑھنے کا شرف ملا ، پتا چلا کہ آپ کے والدِ گرامی اردو میں غالب کے پائے کے اور فارسی میں حافظ شیرازیؒ کے درجے کے شاعر تھے مگر افسوس ان کا ایک بھی مصرع کسی انسان تک نہ پہنچ سکا ۔کاش آپ بطور نمونہ ایک آدھ شعر ہی محفوظ کر لیتے تو مثال دینے ہی کے کام آجاتا۔ علامہ صاحب کے بارے پڑھا کہ ڈپو کے دنوں میں پروفیسروں کے ہاں چینی کی تقسیم آپ کے سپر د تھی، آپ کی دیانت وغربت کا عالم یہ تھا کہ گھرمیں چینی کا دانہ تک نہ ہوتا تھااورمجبورا آپکو سیبوں کے مربے سے شیرہ نکال کے چینی کی جگہ برتنا پڑتا۔آہ آہ! کوئی ظاہر دار پوچھ سکتاہے کہ جو غربت آپ کو پاؤ بھرچینی خریدنے نہیں دیتی اس سے آپ کئی گنا مہنگا سیبوں کا مربہ کیسے خرید لیتے تھے؟ اور وہ بھی اتنا کہ جس کا شیرہ آپ کی جملہ چینی کی تلافی کر جاتا ہے؟مگر شکر ہم محب ہیں طاہر بین نہیں۔پچھلے دنوں آپ نے کینیڈا میں کسی کینیڈین ضرورت کے تحت ایک انٹرویو دیا،اور اہانتِ رسول کے سلسلے میں غیر مسلموں کو انگریزی میں سمجھایا ،کہ یہ جواسلام میں شاتمِ رسول کی سزا ہے ،یہ صرف مسلمانوں کیلئے ہے،غیر مسلموں پہ اس کا نفاذ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوچ کر کہ کہیں اس سے مسلمانوں کا دل نہ دکھے اردو انٹرویو میں وضاحت فرما دی کہ ’’ میرا مطلب تھا کوئی بھی ہو سب پہ اس کا اطلاق ہوتا ہے،سوشل میڈیا پہ یہ بات ہم ایسے معتقدوں تک تو کب کی پہنچ ہی چکی تھی ،بھلا ہو ایک نجی چینل کا جس نے افادۂ عام کے لئے اسے نشر بھی کر دیا۔صحافیوں کو اللہ ہدایت دے اگربھلادورانِ تقریرسادگی سے لاکھ کی جگہ بار بار آپ کے منہ سے ملین نکلتا رہا تو یہ زبانِ غیر کا قصور تھا، ہم ایسے معتقدوں کو بتانے اور رنج پہنچانے کی کیا ضرورت تھی؟ ان لوگوں نے تو آپ کے نعرے تک کو نہیں بخشا، یہ تو آپ کی سادگی ہے کہ آپ سیاست کے بغیر ریاست بچانے نکلے ہیں ،چلئے نکلے ہیں تو اس کا یہ جواب کہاں سے ہو گیاکہ سیاست وریاست کو چھو ڑ و اب تم اپنا ایمان بچاؤ، اللہ بچائے لوگوں سے جو بات کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں دراصل یہاں بھی اصل بات اوپری سطح پر نہیں، کسی اندرونی تہ میں ہے وگرنہ شیخ الاسلام کے سوا کون جانتا ہے کہ سیاستدانوں کے کر توت اور گھات میں رہنے والوں کے جھوٹ نے لفظِ سیاست کو کتنا ہی بدنام کیوں نہ کر دیا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے باوجود سیاست انبیاء کی سنت ہے، بخاری سمیت حدیث کی متعدد معتبر کتابوں میں موجودہے کہ بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، جب ایک نبی چل دیتاتو دوسرا اس کی جگہ سنبھال لیتا ، قصہ کوتاہ آپ کے معاملات کوظاہری نہیں باطنی یعنی خفیہ کے نکتۂ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔کو تاہ بینوں سے تو ہمیں شکوہ تھا ہی مگر یہاں ایک معتقد انہ گزار ش جناب شیخ الاسلام سے بھی کہ آپ نے ناحق اتنا روپیہ اور وقت اس مادی دنیا پہ صرف کر دیا مثلاً ایک اخبار کے مطابق پندرہ کروڑ تو صرف میڈیا کے لیے سخاوت ہوئی۔ جلسے کے ایک دن کیلئے ایک لاکھ صرف ایک دربار کے واش روم کے ٹھیکیدار کو دینا پڑے۔یعنی ہم عقل کے اندھوں کو وہ بتانے کے لیے جو بدقسمتی سے ہم پہلے ہی جانتے تھے، اب اگر یہی کسی غریب آبادی کی بیواؤںیا یتیم بچیوں کو ،سردی سے ٹھٹھرتے مفلوک الحالوں کو، سماج کے محتاجوں کو، جرمِ غریبی کے باعث شادی کو ترستی بیٹیوں کو، تنور پر روٹیاں لگاتے طالبعلموں کو،بوند بوند کو ترستے صحراکے باسیوں کو دے دیتے تو دنیا یوں سنورتی کہ میڈیا یوں ہاتھ دھو کے پیچھے نہ پڑتا اور نیت کے مطابق آخرت میں بھی کچھ مل ہی جاتا ، مگر اللہ رے آپ کی سادگی اور سادہ دلی اور ہم امید کے مارے عوام ؟
میر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہوئے جس کے سبب
اس عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں




27 دسمبر، 2012

غیر مشروط اطاعت


جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادے سے نکلے اور راستے میں روک لیے گئے۔ جب حضرت عثمان غنی کو گفتگو کے لیے بھیجا گیا۔ جب احرام پوش عثمان غنی سے کفارِ مکہ نے کہا:
 ’’عثمان تم آ ہی گئے ہو تو عمرہ کرلو‘‘۔

 اور جب عثمان غنی نے جواب دیا:

 ’’میرے رب نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ کا اشارہ کیا ہے، میں آپ کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوا۔ میرا عمرہ آپ کے عمرہ سے جڑا ہوا ہے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ سے روکا جاتا ہے تو میرا عمرہ کیسے قبول ہوگا‘‘۔

 کعبۃ اللہ سامنے ہے، دل طواف کو مچل رہا ہے، لیکن عثمان غنی جانتے ہیں ’’عمرہ‘‘ پتھروں کی چار دیواری کے طواف کا نام نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام ہے، غیر مشروط اطاعت کا۔

حضرت عمر طواف ِکعبہ کررہے ہیں۔ حجر اسود کو چومتے ہیں اور بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں: ’’اے کالے پتھر، میں تجھے کبھی نہ چومتا اگر میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا۔‘‘ حجر اسود نہیں، اطاعتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اہم ہے۔۔۔ غیر مشروط اطاعت۔

 اور ہمارا حال کیا ہے! پرویزمشرف۔۔۔ شراب میں ڈوبا ہوا، شباب کی رعنائیوں میں الجھا ہوا، ہوسِ اقتدار کا مارا، غیر ملکیوں کو ہی نہیں اپنے شہریوں کو بھی ڈالروں کے عوض بیچ ڈالنے والا۔۔۔ مردوں کو ہی نہیں عورتوں کو بھی، عافیہ کی بربادی کا ذمہ دار، لال مسجد میں بے شمار بچیوں کا قاتل۔۔۔ سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے: ’’مجھے کعبۃ اللہ کے اندر داخل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے‘‘۔ ارے جاہل یہ اعزاز تو ابوجہل کو بھی حاصل تھا۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کعبہ کے کلید بردار نے کہا: ’’نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اس فہرست میں شامل نہیں ہو جن کے لیے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھلتا ہے‘‘۔ تو کیا واقعی اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محروم تھے؟ اور وہ جن کے لیے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھلتا تھا  ’’فلاح یافتہ‘‘ تھے؟  ’’محترم‘‘ تھے؟ نہیں،  ہرگز نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو  کعبہ کے باہر بھی محترم تھے۔ اور ابوجہل کعبۃ اللہ کے اندر بھی ابوجہل ہی تھا۔ 

26 دسمبر، 2012

شیخ الاسلام

عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے میرے آقاؐ جب کہیں جانے کے لیے گھر سے نکلتے توکوئی حفاظتی دستہ ساتھ نہ ہوتاصرف حضرت بلالؓ اپنے ہاتھ میں ایک لمبا ڈنڈا لے کر آپؐ کے آگے آگے چلتے ۔خُلفائے راشدین نے بھی اسی سُنتِ رسولؐ کی ہمیشہ پیروی کی ۔ اگر حضرت عثمانؓ چاہتے تو اپنے گرد دس حفاظتی حصار قائم کر لیتے اور شر پسند کبھی اُن تک پہنچ نہ پاتے لیکن اُنہوں نے شہادت قبول کر لی لیکن پیروئ رسولؐ سے مُنہ نہ موڑا ۔حضرت عمرؓ کی زندگی کا ایک رُخ تو یہ تھا کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں اُن کی ہیبت سے لرزہ براندام تھیں۔ اور دوسری طرف بدن پر موٹے کھدر کا کُرتہ ، پھٹا ہوا عمامہ اور پھٹی جوتیاں پہنے کبھی کاندھے پر مشکیزہ اُٹھائے بیوہ کے گھر پانی پہنچاتے نظر آتے اور کبھی آٹے کی بوری ۔تھک جاتے تو مسجد کے کسی کونے میں خاک کے فرش پر سو جاتے ۔ایک بار قیصرِ روم نے ایلچی بھیجا ۔مدینے پہنچ کر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟۔لوگوں نے کہا ہمارا بادشاہ تو کوئی نہیں ایک امیر ہے جو شہر سے کہیں باہر ہے ۔ایلچی ایک صحابیؓ کو ساتھ لے کر تلاش کے لیے نکلا تو دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک درخت کے نیچے سو رہے ہیں ۔ایلچی نے بے ساختہ کہا ’’عمرؓ عدل کرتے ہیں اس لیے بے خوف ہیں ، ہمارا بادشاہ ظلم کرتا ہے اور خوف زدہ رہتا ہے‘‘ ۔
حاکمانِ وقت کا تو ذکرہی کیا کہ تو اقتدار کے نشے نے اُن کی سُدھ بدھ گنوا دی ہے لیکن آج ایک ایسے شخص کو زرق برق لباس اور تیس حفاظتی گاڑیوں کے حصار میں اِس شان سے جلسہ گاہ کی طرف جاتے دیکھا کہ آگے پیچھے ایلیٹ فورس اور درمیان میں تین بُلٹ پروف گاڑیاں جن میں سے کسی ایک میں وہ سوار تھے اور ہمارے تیز ترین الیکٹرانک میڈیا کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کس گاڑی میں ہیں ۔یہ تھے ہمارے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب جو پاکستان میں ’’خلافتِ راشدہ‘‘ لانے کے دعوے دارہیں ۔اُنہوں نے اپنے استقبال کو لازوال بنانے کی خاطر اشتہاری مہم پر لگ بھگ ایک ارب روپیہ صرف کیا اور کروڑوں جلسے پر ۔ جلسہ گاہ پہنچنے کے بعد مولانا بُلٹ پروف کیبن میں بیٹھ گئے اور وہیں بیٹھے بیٹھے اُنہوں نے سوا دو گھنٹے تک خطاب فرمایا ۔خطاب کے دوران اذانِ عصر ہوئی تو شیخ الا سلام نے فرمایا کہ میں نماز پڑھ چُکا اس لیے خطاب جاری رہے گا ۔شاید اُنہیں احساس ہو کہ ’’وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘‘ اور اسی وقت کی تنگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اُنہوں نے دھاڑتے ہوئے حاکمانِ وقت کو اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے صرف اٹھارہ دن کی مہلت مرحمت فرمائی ۔حیرت ہے کہ مولانا صاحب کو یہ ساری خرابیاں نہ تو ’’مشرفی آمریت ‘‘کے دور میں نظرآئیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے ساڑھے چار سالہ دور میں ۔شاید کینیڈا میں بے پناہ مصروفیات کی بنا پر اُنہیں وقت ہی نہ ملا ہو ۔اُنہوں نے ایک اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ چھ سو صفحات کے فتویٰ کے علاوہ لگ بھگ ایک ہزار کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ کے مختلف اداروں میں ذمہ داریوں کی طویل فہرست اور لیکچرز اِس کے علاوہ ہیں ۔شیخ الاسلام لگ بھگ 2900 دن کینیڈا میں مقیم رہے ۔گویا وہ تقریباََ تین دنوں میں ایک ضخیم کتاب لکھ لیا کرتے تھے۔ یہ کارنامہ گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھے جانے کے قابل ہے ۔
اپنے خطاب کی ابتدا میں اُنہوں نے تین حلف اُٹھائے اور پورے خطاب کے دوران اللہ اور قُرآنِ مجید کی بیس مرتبہ قسمیں اُٹھائیں ۔اس سے پہلے ذوالفقار مرزا صاحب ’’قُرآنی پریس کانفرنس‘‘ اور قائدِ تحریک الطاف حسین ’’قُرآنی خطاب‘‘ فرما چکے ہیں جن کی دیکھا دیکھی ملک ریاض نے بھی قُرآن ہاتھ میں اُٹھا کر پریس کانفرنس کر ڈالی ۔اب یہ ایک سال میں چوتھا موقع ہے جب قوم نے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب کو بے تحاشا قسمیں اُٹھاتے دیکھا ۔کہتے ہیں کہ ’’زیادہ قسمیں اُٹھانے والا مسلمہ جھوٹا ہوتا ہے ‘‘ پھر بھی ہمارا حسنِ ظن ہے کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب جیسی برگزیدہ ہستی جھوٹ نہیں بول سکتی ۔سوال مگر یہ ہے کہ اُنہوں نے کہا کیا ؟۔ سوا دو گھنٹے تک ہم ہمہ تن گوش رہے لیکن جب عالمِ محویت سے باہر آئے تو ادراک ہوا کہ اُنہوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا اور جو انکشافات وہ فرما رہے تھے اُن سے تو ملک کا بچہ بچہ واقف ہے ۔لکھاری اس پر ہزاروں کالم لکھ چکے ہیں اور اینکرز سینکڑوں ٹاک شوز کر چکے ۔اب عالمِ مایوسی میں ہماری آتشِ شوق بحرِ منجمد شمالی میں دفن ہو نے کو ہے اورحالت یہ ہے ۔
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
جب شیخ الاسلام نے اپنے پیروکاروں کو پچاس لاکھ کے مجمعے کا ٹارگٹ دیا تو میری اہلیہ نے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا کہ اگر واقعی پچاس لاکھ مریدین اکٹھے ہو گئے تو کروڑ سوا کروڑ کی آبادی والے لاہور میں یہ سمائیں گے کہاں؟۔ اور اگر سما گئے تو ’’لاہوریے ‘‘ جائیں گے کہاں ؟۔میرے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا لیکن مولانا نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے ٹارگٹ پچاس سے پچیس لاکھ کر دیااور اس مجمعے کو پچیس میل تک پھیلا بھی دیا ۔دراصل اُن کے ایک پیروکار نے اُن کے کان میں کہہ دیا کہ مجمع مرید کے تک پھیلا ہواہے ۔ ظاہر ہے کہ مرید کے کم و بیش مینارِ پاکستان سے پچیس میل دور تو ہے۔ انہوں نے تو ابتدا ء میں داتا دربار تک ہی اکتفا ء کر لیا تھا لیکن مریدین نے اسے مرید کے تک پہنچا دیا ۔پولیس اور خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق مجمع ستّر ہزار سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان تھا ۔ بہرحال جتنا بھی تھا انتہائی متاثر کُن تھا اوراگر مریدکے تک تھا تو پھر دو ، چار ملین سے بھی کہیں زیادہ ہو گا۔شاید اسی لیے ایک دفعہ مولانا نے ’’سینکڑوں ملین‘‘ کا مجمع بھی کہا ۔مولانا کے ہم جیسے پیروکار تو خوش ہیں کہ اب تحریکِ انصاف والے کم از کم یہ تو نہیں کہہ سکیں گے کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ ۔ویسے یہ عجیب اتفاق ہے کہ تحریکِ انصاف ہو ، تحریکِ استقلال یاعوامی تحریک جلسے سبھی کے بہت کامیاب اور رہنما بھی بہت مقبول لیکن انتخابات میں پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے کہ انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیتے ہیں ۔ماضی میں محترم اصغر خاں کے ہاتھ کچھ آیا نہ محترم عمران خاں اور شیخ الاسلام کے ۔البتہ شیخ الاسلام صاحب کو کینیڈا کی باغ و بہار فضاؤں نے یہ سمجھا دیا کہ پاکستان کی فضول سیاست میں اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا اس لیے بہتر ہے کہ قسمت آزمائی کے لیے کوئی اور روزن تلاش کیا جائے ۔شاید اسی لیے مولانا عین اُس وقت پر پاکستان تشریف لے آئے جب تمام سیاسی جماعتیں انتخابی بخار میں مبتلا ہو چکی ہیں ۔ مولانا صاحب بھی فرماتے ہیں کہ وہ انتخابات کے خلاف نہیں لیکن جتنی کڑی شرائط اُنہوں نے عائد کر دی ہیں اُس کے بعد تو مزید دو تین عشرے انتظار کرنا ہو گا ۔یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ایک مولانا صاحب اپنے وعظ میں حسبِ عادت مسلمانوں کو ڈرانے کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے ۔اچانک ایک دیہاتی اٹھا اور مسجد سے باہر کی طرف چل دیا ۔مولانا نے ڈانٹ کر پوچھا ’’کہاں جا رہے ہو‘‘؟۔دیہاتی نے پلٹ کر جواب دیا ’’آپ کی شرطیں سُن کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں خواہ کچھ بھی کر لوں مجھے جنت نہیں ملنے والی اس لیے میں یہاں بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کیوں کروں ۔شیخ الاسلام نے بھی جو شرائط عائد کی ہیں اُنہیں سُن کر تو ہمیں بھی یقین ہو چلا ہے کہ کوئی خواہ کچھ بھی کر لیں الیکشن نہیں ہونے والے۔ مولانا صاحب کے شاندار ماضی پر پھر کبھی ۔۔۔


طاہر القادری صاحب سے 15سوال



عجب دلچسپ دور آگیا ہے، پہلے لیڈر عوام کو بیوقوف بناتے تھے، اب عوام لیڈروں کو بیوقوف بناتی ہے۔ہر لیڈر کے جلسے میں میدان لوگوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ووٹ ڈالتے وقت پتا نہیں عوام کدھر گم ہوجاتی ہے۔23 دسمبر کی شام مینار پاکستان کے سائے تلے لوگوں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر دیکھ کر دل خوش ہوگیا،ٹھیک ایک سال بعد ا س میدان کو دوبارہ ایک بہت بڑا جلسہ نصیب ہوگیا، یہ پتا نہیں کہ شرکاء نئے تھے یا پرانے۔تاہم اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ کسی پارٹی کا پرچم دیکھنے کو نہیں ملا، ہر طرف پاکستان کے پرچم لہرا رہے تھے، غور کرنے کی بات ہے کہ ایسی کون سی پارٹی ہے جس کا جھنڈا قومی پرچم ہے؟؟؟ خیر چھوڑیں، شیخ الاسلام کی تقریر کی طرف آتے ہیں، حسبِ معمول جوش خطابت سے لبریز اور چونکا دینے والے الفاظ نے سننے والوں پر سحر طاری کر دیا، میڈیا کا شکریہ کہ انہوں نے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ مہم کا ایک ایک لفظ براہ راست دکھایااور سنایا۔قادری صاحب نے حکومت کو 10 جنوری تک کی مہلت دی ہے، پہلے لوگ 21 دسمبر کے خوف سے سہمے ہوئے تھے، اب 10 جنوری تک انتظار کی سولی پر لٹکے رہیں گے ۔سوالات تو بہت سے ہیں لیکن چیدہ چیدہ پندرہ سوالات ذہن میں کھلبلی مچا رہے ہیں، طاہرالقادری صاحب یا ان کے کوئی ترجمان اِن کے جوابات عنایت فرما دیں تو ممنون رہوں گا۔
 
سوال نمبر1 ۔ آپ نے فرمایا کہ الیکشن اگر 90 دن سے لیٹ بھی ہوجاتے ہیں تو آئین اِس کی اجازت دیتا ہے لہذا بے شک دیر ہوجائے لیکن الیکشن کے لیے بہترین ماحول اور بہترین لوگوں کو آگے لانا چاہیے۔ذرا رہنمائی فرمائیے کہ کیا آئین کی تشریح کا اختیار آپ کا ہے یا آپ سپریم کورٹ کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟نیز اگر90 کی بجائے 190 دن بعد بھی بہترین ماحول اور بہترین لوگ تلاش نہ کیے جاسکے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟؟؟
 
سوال نمبر2 ۔آپ نے فرمایا کہ نگران سیٹ اپ کے لیے دو پارٹیوں کا ’’مک مکا‘‘ قبول نہیں لہذا فوج اور عدلیہ کو بھی سٹیک ہولڈرز کے طور پر نگران سیٹ اپ میں شامل کیا جائے۔ ذرا آگاہ کیجئے کہ جس آئین پر عمل کے لیے آپ اتنی تگ و دو کر رہے ہیں، اُسکے کون سے آرٹیکل کے تحت نگران سیٹ اپ میں یہ دونوں ادارے شامل ہوسکتے ہیں؟؟؟
 
سوال نمبر3 ۔یہ بھی فرمائیے گا کہ آئین کے مطابق اُس شخص کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے جو کسی آئین شکن ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم میں ’’ہاں‘‘ کر چکا ہو؟؟؟
 
سوال نمبر4 ۔آپ نے 14جنوری کو اسلام آبادکی طرف مارچ کی دھمکی دی ہے، ذرا فرمائیے گا کہ پانچ سال کے دوران آپ کو اس کا خیال کیوں نہیں آیا، اب جبکہ دو تین ماہ میں حکومت خود ہی جانے والی ہے تواِس لانگ مارچ کا کیا جواز ہے؟
 
سوال نمبر5 ۔آپ نے اپنے خطاب میں لاپتہ افراد، ایبٹ آباد اٹیک، مہران بیس اٹیک، جی ایچ کیو اٹیک ، کامرہ اٹیک اور اصغر خان کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔۔۔کوئی خاص وجہ؟؟؟
 
سوال نمبر6 ۔آپ نے نیک ، ایماندار، باکرداراور امن پسند لوگوں کے ذریعے انتخابی اصلاحات کی بات کی ہے، کیا ایم کیو ایم اس کے لیے مناسب نہیں رہے گی؟
 
سوال نمبر7 ۔جب آپ 14 جنوری کو ریاست بچانے کے لیے 4 ملین لوگوں کو لے کر اسلام آباد روانہ ہوں گے تو آپ کا مقصد کیا ہوگا؟؟؟
 
سوال نمبر8 ۔آپ بار بار آئین کی بات کرتے ہیں،کیا موجودہ حکومت غیر آئینی ہے؟؟؟ کیا نگران سیٹ اپ کے لیے بڑی پارٹیوں کی آپس کی مشاورت خلافِ آئین ہے؟؟؟
 
سوال نمبر9 ۔جو باتیں آپ نے کی ہیں ، لگ بھگ تمام سیاسی پارٹیوں کا یہی منشور ہے، پھر تضاد کہاں ہے؟عملی طور پر جو پارٹی آپ نے بنائی تھی وہ تو ناکام ہوگئی تھی؟؟؟
 
سوال نمبر10 ۔جب آپ پارلیمنٹ کا حصہ تھے،کیا اُس وقت الیکشن صاف شفاف ہوئے تھے؟کیااُ س وقت سب ٹھیک تھا؟؟؟
 
سوال نمبر11 ۔کہا جاتا ہے کہ آپ کے پاس کینیڈا کی نیشنلٹی ہے اور الطاف حسین کے پاس انگلینڈ کی۔آپ کے خیال میں آپ دونوں میں سے کون پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے؟
 
سوال نمبر12 ۔آپ کے جلسے میں ایم کیو ایم کے وفد نے بھی شرکت کی، کیا آپ بھی ایم کیوایم کے کسی جلسے میں شامل ہوں گے؟؟؟
 
سوال نمبر13 ۔آپ نے بطور خاص دوبڑی پارٹیوں کا ذکر کیا جس سے مراد یقیناًپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہے،حالانکہ ایم کیوایم بذات خود پیپلز پارٹی کی بہت بڑی اتحادی ہے اور نگران سیٹ اپ کے لیے یقیناًاس کا مشورہ بھی شامل حال ہوگا، تو کیا آپ ایم کیو ایم اور اے این پی کو بھی اِس ’’مک مکا‘‘ کا حصہ سمجھتے ہیں؟؟؟
 
سوال نمبر14 ۔جس تبدیلی کا نعرہ آپ نے لگایا ہے وہی عمران خان کا بھی منشور ہے، تو کیا آپ تحریک انصاف کو سپورٹ نہیں کریں گے؟؟
 
سوال نمبر15 ۔ نیک نیت ، باکردار ، ایماندار اور محب وطن نگران سیٹ اپ کے لیے اگر آپ سے مشورہ کیا جائے توکیا آپ کوئی سے 10 نام بتانا پسند فرمائیں گے؟؟؟
 
اِن سوالات کے جوابات مل جائیں تو قادری صاحب کے ایجنڈے کی بہت سی باتیں سمجھ آجائیں گی کیونکہ فی الحال تو انہوں نے ساری باتیں مبہم انداز میں کی ہیں، وہ ریاست تو بچانا چاہتے ہیں لیکن کس انداز سے، یہ سمجھ نہیں آرہا۔اگر وہ ملکی سیاست میں کسی کردار کی تلاش میں ہیں تو یہ کردار سوائے الیکشن کے انہیں کوئی نہیں دلا سکتا تاہم اگر ان کے پاس دوہری شہریت ہے تو وہ الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے۔یہ جو اچانک عین الیکشن سے پہلے اُن کے دل میں ریاست کی محبت کا درد اٹھا ہے اس کے عقب میں نہایت خوفناک عزائم جھانکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں انہوں نے جو پوجا پاٹ کی تھی وہ ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی۔ایک طویل عرصے کے بعد وہ اچانک ہی ’’روحانی طاقتوں‘‘ کی بدولت پُراسرار طریقے سے پاکستان میں ظاہر ہوئے ہیں اورسب کو حیران کر دیا ہے۔ اُن کی تقریر کی ساری باتیں سچی ہیں، جو فرمایا بجا فرمایا، لیکن ایسی سچی باتیں تو روز ہی سننے کو ملتی ہیں، ہر بندہ سچ کا پیامبر بنا ہوا ہے۔شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کے بارے میں کیا خوب کہا تھا کہ ’’باتیں تو سچی کر رہا ہے لیکن ہے جھوٹا‘‘۔

ربط