ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

13 دسمبر، 2012

اب کس بت کو پوجو گے؟؟؟؟؟




جب دسمبر 1979میں روس افغانستان میں داخل ہوا تھا تو یہ اس ملک کی سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے۔ وہ دیکھو سرخ پھریرا سرحد عبور کرنے والا ہے، تمہاری داڑھیاں نوچ لی جائیں گی اور سارا انقلاب ہوا کی طرح اڑا دیا جائے گا۔ کیسے کیسے مضمون لکھے گئے، کیسی کیسی نظمیں تحریر ہوئیں، سرحدوں پر انقلاب کے سویرے کی نوید سنائی گئی۔ لیکن ان سب کو کیا ادراک کہ پاکستان کے ساتھ ایک ایسی قوم بھی بستی ہے جو صرف اور صرف الله پر اعتماد کرتی ہے۔

پھر سوویت یونین کے ساتھ جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔ اس ملک ہی نہی پوری دنیا کی سڑکوں نے اس عالمی طاقت کو رسوا ہوتے دیکھا۔

اس کے بعد جس امریکا کو یہ کمیونسٹ پچھتر سال گالیاں دیتے رہے اسی کے دروازے پر بھیک کے لیے کھڑے نظر آنے لگے، اسی کی پوجا شروع کر دی۔ یعنی آقا تبدیل ہو گئے، وفاداریاں بدل گئیں۔ وہی گارنٹیاں جو یہ سوویت کو دیتے تھے اب امریکہ کو دینے لگے۔

انہیں ادراک ہی نہی تھا کہ ہونے کیا والا ہے۔ اس وقت یہ طاقت کے پجاری اور مادی وسائل کو خدا سمجھنے والے کہتے تھے کہ یہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے۔ افغان نہتے اور بے وسائل لوگ ہیں۔ یہ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح مارے جائیں گے۔ ایسے میں پورے ملک میں میرے جیسے چند
بیوقوف لوگ بھی تھے جو کہا کرتے تھے کہ دیکھو اس کائنات میں ایک اور طاقت بھی ہے جو اس کی فرمانروائے مطلق ہے اور جو کوئی صرف اور صرف اس پر بھروسہ کر لیتا ہے پھر یہ اس واحد و جبار کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے ذلت و رسوائی سے بچائے۔ آج موجودہ دنیا کی تاریخ میں واحد افغان قوم ہے جو سرخرو ہے۔ کسی قوم کے سینے عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے اتنے زیادہ میڈل نہی سجے جتنے اس قوم کے سینے پر آویزاں ہیں۔

اس کے بعد کی صورت حال بہت دلچسپ ہے، اور سوال بہت اہم کہ اب ان کا نیا آقا (امریکہ) بھی مار کھا کر بھاگنے کو تیار ہے۔ اللہ کے شیروں نے جو کام سوویت کے ساتھ کیا تھا وہی اب امریکہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔

ایسے میں ان صاحب سے اور ان جیسے تمام لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اب کس بت کو پوجو گے؟؟؟؟؟

1 comments: