ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

28 دسمبر، 2012

شیخ الاسلام کی سادگی



بُرا ہو ان آلات کا، خیالات کا اور احساسات کا جو اک شخص کی معصومیت کو جانچ نہیں سکتے اور جانے کہاں کہاں کے گڑے مردے اکھاڑ کے شیخ الاسلام کی مرصع سادگی مجروح کرنے پر تل گئے ہیں۔ حالانکہ شیخ الاسلام جیسے سادہ منش !اللہ اللہ!!
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
خوش قسمت ہیں اس عہد کے عوام اور لکھنے بولنے والے کہ انھیں سادگی سمجھنے اور سمجھانے کو بطور مثال شیخ الاسلام میسر ہیں۔ورنہ اک میر تھا کہ جانے کن سے ملتا رہااورکہتا پھرا ؂
کوئی سادہ ہی تجھے سادہ کہے
مجھے تو لگے ہے تو عیار سا
مجھے آپ کے بھٹک جانے کا خطرہ ہے یعنی آپ خوش گفتاری، سلیقہ شعاری اور سادہ اطواری کے بجائے ممدوح محترم کی خوش لباسی اور کڑ اکے کے کرو فر کو لے بیٹھیں گے ، یعنی آپکے مہنگے اور جدیدتراش کے سوٹ ، وہ آپکی مسکراہٹوں سے جھلملاتے لاکھوں کے ہورڈنگز،وہ تیس تیس گاڑیوں کے جلو میں آپ کی بلٹ پروف آمد، وہ خطرناک عوام سے دور سیکیورٹی کیبن میں مقیدآپ کا خطاب ،ارے چھوڑئیے بھی ،یہ باطنی باتیں ہیں جنھیں ہم تم ظاہر پرست کیا سمجھیں،ارے وہ تو عہدِغالب کے وضعدار ہیں جوہم تم کی آزمائش کے لیے ،بہروپ بھرے پھرتے ہیں ۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اتنے فرق کے ساتھ کہ آپ نے فقیروں کا نہیں امیروں کا بھیس بھرا ہے ۔اللہ معاف فرمائے ، شروع شروع میں یہ خاکسار بھی علامہ صاحب (کہ تب آپ ابھی شیخ الاسلام نہ ہوئے تھے )کی سادگی بارے کوتاہ فہمی کا شکار تھا، تب آپ کے خوابوں کی بڑی شہر ت تھی ۔ ہر دوسرے خواب میں آپ کا رسول اللہؐ سے مکالمہ ہوتا ،سو ہم ایسے گنہگار اس قائم مقام صحابی سے خوفزدہ رہتے۔پھرایک کتاب ہاتھ لگی ، نام توجس کا سراسر گستاخانہ تھا،یعنی آپ کے نامِ نامی کے ساتھ ’’متنازعہ ترین‘‘ کی پخ لگا ئی گئی تھی،افسوس ہو اکہ جب ’متنازع ‘لگانے سے بات بن سکتی تھی تو ساتھ ’’ترین‘‘ کے اضافے کی کیا ضرور ت تھی؟ یہ کتاب نہ تھی ،آپ پر پورا انسائیکلو پیڈیا تھا ، لکھنے والوں میں ایسے ایسے نام کہ ’معتقد‘ ہوتے ہی بنی، پھرپتا چلا کسی عاقبت نا اندیش نے آپ پر قاتلانہ حملہ کر دیا ، ہائیکورٹ میں معاملہ پہنچا مگر کہاں علامہ صاحب کا مقام و مرتبہ کہ جنھوں نے عالم خواب میں رسول اللہ سے اپنا ادارہ بنانے ، سیاست میں حصہ لینے کی اجازت لی اور خواب ہی میں امام ابوحنیفہؒ کے حضور زانوئے تلمذبھی تہ کئے اورکہاں انگریز کا بنایا یہ ہائیکورٹ کا بے دین قانون، سو نتیجہ یہ نکلا کہ ہائیکورٹ کے فاضل جج نے اس حملے کو خود ساختہ اورآپ کے خون کو بکرے کا قرار دینے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا بھی کہا جونہ سادہ تھا اور نہ ہم ایسے ارادت مندوں کے سہنے کی چیز،آپ مگر با حوصلہ تھے سہہ گئے ۔خیر لوگ تواعتراض کرتے ہی رہتے ہیں جیسے ظاہر بین آپ کی ہزاروں کتابوں کو عمر کے لمحوں سے ضرب تقیسم کرکے دانتوں میں انگلیاں دبائے پھرتے ہیں، ان لوگوں کو اس برکت کا کیا علم جو ایسی وسیع النظر اور کثیر الوسائل شخصیت کو از خود میسرآنے لگتی ہے۔ وہ کیا جانیں کہ اس عہدِ جدید میں جب لوگ اپنی خوابگاہوں میں دبیز فوم کے گدے بچھائے کھجور کی مسنون چٹائی بھول چکے ہیں، آپ نے مولٹی فوم کے گدے پراتباع رسول میں کھجورکی چٹائی بھی بچھا رکھی ہے ۔ آپ اس بلا کے میزبان ہیں کہ رمضان میں انٹرویو دیتے صحافیوں سے پوچھنے لگے، ٹھندا لیں گے یا گرم؟ روزے دار صحافیوں نے اخبار میں چھاپ دیاکہ کیسے علامہ ہیں جنھیں رمضان کا بھی پتانہیں ، ارے بھائی وہ خاطرِ مہمان سے نمٹیں تو رمضان تک پہنچیں۔ایک بار آپ نے فرمایا رسول اللہ ؐ نے مجھے بتادیا ہے کہ میری عمر تریسٹھ برس ہوگی، اس کے فورا بعد آپ نے سکیورٹی گارڈ زرکھ لئے مبادا کوئی حملہ آور آکر فرمانِ رسول جھٹلا جائے۔
مجھے آپ کا ایک انٹرویوپڑھنے کا شرف ملا ، پتا چلا کہ آپ کے والدِ گرامی اردو میں غالب کے پائے کے اور فارسی میں حافظ شیرازیؒ کے درجے کے شاعر تھے مگر افسوس ان کا ایک بھی مصرع کسی انسان تک نہ پہنچ سکا ۔کاش آپ بطور نمونہ ایک آدھ شعر ہی محفوظ کر لیتے تو مثال دینے ہی کے کام آجاتا۔ علامہ صاحب کے بارے پڑھا کہ ڈپو کے دنوں میں پروفیسروں کے ہاں چینی کی تقسیم آپ کے سپر د تھی، آپ کی دیانت وغربت کا عالم یہ تھا کہ گھرمیں چینی کا دانہ تک نہ ہوتا تھااورمجبورا آپکو سیبوں کے مربے سے شیرہ نکال کے چینی کی جگہ برتنا پڑتا۔آہ آہ! کوئی ظاہر دار پوچھ سکتاہے کہ جو غربت آپ کو پاؤ بھرچینی خریدنے نہیں دیتی اس سے آپ کئی گنا مہنگا سیبوں کا مربہ کیسے خرید لیتے تھے؟ اور وہ بھی اتنا کہ جس کا شیرہ آپ کی جملہ چینی کی تلافی کر جاتا ہے؟مگر شکر ہم محب ہیں طاہر بین نہیں۔پچھلے دنوں آپ نے کینیڈا میں کسی کینیڈین ضرورت کے تحت ایک انٹرویو دیا،اور اہانتِ رسول کے سلسلے میں غیر مسلموں کو انگریزی میں سمجھایا ،کہ یہ جواسلام میں شاتمِ رسول کی سزا ہے ،یہ صرف مسلمانوں کیلئے ہے،غیر مسلموں پہ اس کا نفاذ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوچ کر کہ کہیں اس سے مسلمانوں کا دل نہ دکھے اردو انٹرویو میں وضاحت فرما دی کہ ’’ میرا مطلب تھا کوئی بھی ہو سب پہ اس کا اطلاق ہوتا ہے،سوشل میڈیا پہ یہ بات ہم ایسے معتقدوں تک تو کب کی پہنچ ہی چکی تھی ،بھلا ہو ایک نجی چینل کا جس نے افادۂ عام کے لئے اسے نشر بھی کر دیا۔صحافیوں کو اللہ ہدایت دے اگربھلادورانِ تقریرسادگی سے لاکھ کی جگہ بار بار آپ کے منہ سے ملین نکلتا رہا تو یہ زبانِ غیر کا قصور تھا، ہم ایسے معتقدوں کو بتانے اور رنج پہنچانے کی کیا ضرورت تھی؟ ان لوگوں نے تو آپ کے نعرے تک کو نہیں بخشا، یہ تو آپ کی سادگی ہے کہ آپ سیاست کے بغیر ریاست بچانے نکلے ہیں ،چلئے نکلے ہیں تو اس کا یہ جواب کہاں سے ہو گیاکہ سیاست وریاست کو چھو ڑ و اب تم اپنا ایمان بچاؤ، اللہ بچائے لوگوں سے جو بات کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں دراصل یہاں بھی اصل بات اوپری سطح پر نہیں، کسی اندرونی تہ میں ہے وگرنہ شیخ الاسلام کے سوا کون جانتا ہے کہ سیاستدانوں کے کر توت اور گھات میں رہنے والوں کے جھوٹ نے لفظِ سیاست کو کتنا ہی بدنام کیوں نہ کر دیا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے باوجود سیاست انبیاء کی سنت ہے، بخاری سمیت حدیث کی متعدد معتبر کتابوں میں موجودہے کہ بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، جب ایک نبی چل دیتاتو دوسرا اس کی جگہ سنبھال لیتا ، قصہ کوتاہ آپ کے معاملات کوظاہری نہیں باطنی یعنی خفیہ کے نکتۂ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔کو تاہ بینوں سے تو ہمیں شکوہ تھا ہی مگر یہاں ایک معتقد انہ گزار ش جناب شیخ الاسلام سے بھی کہ آپ نے ناحق اتنا روپیہ اور وقت اس مادی دنیا پہ صرف کر دیا مثلاً ایک اخبار کے مطابق پندرہ کروڑ تو صرف میڈیا کے لیے سخاوت ہوئی۔ جلسے کے ایک دن کیلئے ایک لاکھ صرف ایک دربار کے واش روم کے ٹھیکیدار کو دینا پڑے۔یعنی ہم عقل کے اندھوں کو وہ بتانے کے لیے جو بدقسمتی سے ہم پہلے ہی جانتے تھے، اب اگر یہی کسی غریب آبادی کی بیواؤںیا یتیم بچیوں کو ،سردی سے ٹھٹھرتے مفلوک الحالوں کو، سماج کے محتاجوں کو، جرمِ غریبی کے باعث شادی کو ترستی بیٹیوں کو، تنور پر روٹیاں لگاتے طالبعلموں کو،بوند بوند کو ترستے صحراکے باسیوں کو دے دیتے تو دنیا یوں سنورتی کہ میڈیا یوں ہاتھ دھو کے پیچھے نہ پڑتا اور نیت کے مطابق آخرت میں بھی کچھ مل ہی جاتا ، مگر اللہ رے آپ کی سادگی اور سادہ دلی اور ہم امید کے مارے عوام ؟
میر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہوئے جس کے سبب
اس عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں




4 comments:

  1. Boht AalAAaaa........... Iss Padri ko chittar parny waly hain... :P

    جواب دیںحذف کریں
  2. Weldon Sir!!!
    Yeh BayDeen Putla hy. Chand Paisoon aur sasti shuhrat k Aywaz Apni akhrat baech dali...
    Like Mera badmash = Tahir Kazzab = Amir Lanet ETC...``` Jago Pakistan k piyary logo, ab tu JAGOoooo.

    جواب دیںحذف کریں