ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

3 مئی، 2014

داستان ایک متکبر کی

اس کا نام جبلہ بن الایہم تھا ۔ وہ غسان کا بادشاہ تھا...... اس کے دل میں ایمان کی شمع جگمگا اٹھی۔ اس نے اسلام کے بارے میں سنا، اس پر غور و فکر کیا، پھر اسلام قبول کر لیا۔
یہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کی بات ہے۔ مسلمانوں کو اس کے اسلام لانے کی خبر ملی تو بہت خوش ہوئے۔ جبلہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ مدینہ طیبہ آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ اسے اجازت دے دی گئی کہ تم مدینہ طیبہ آ سکتے ہو،  
"تمھارے لیے وہی کچھ ہے جو ہمارے لیے ہے اور تم پر وہی کچھ واجب ہے جو ہم پر واجب ہے۔"
 

جبلہ غسان سے روانہ ہوا، اس کے جلو میں پانچ سو گھڑسوار تھے۔ وہ مدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے شاہی لباس پہنا جس کے دامن پر سونے کی دھاریاں تھیں، پھر اس نے ہیروں اور جواہرات سے مرصع تاج سر پر رکھا۔ اس کے گھڑسواروں نے بھی بہترین لباس پہنے۔ جب وہ مدینہ میں داخل ہوا تو اہل مدینہ یہ منظر دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے۔
جب وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے اس کی عزت افزائی کی، اس کا پرتپاک استقبال کیا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔
اسی دوران حج کے دن آ گئے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حج کے لیے روانہ ہوئے، جبلہ بھی ان کے ساتھ تھا۔ جبلہ نے بیت الله شریف کا طواف شروع کیا۔ بنو فزارہ کا ایک مسکین شخص طواف کر رہا تھا کہ اتفاق سے اس کا پائوں جبلہ کی چادر پر آ گیا۔ جبلہ کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے اسے ایسا زوردار تھپڑ مارا کہ اس کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔

فزاری کو بھی سخت غصہ آیا مگر وہ جوابی کاروائی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے فورا اپنا مقدمہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کر دیا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جبلہ کو بلوایا اور جواب طلبی  کی کہ تم نے دوران طواف اپنے مسلمان بھائی کو تھپڑ کیوں مارا؟ تم نے تو تھپڑ رسید کر کے اس کی ناک ہی توڑ ڈالی۔ آخر تم نے ایسا کیوں کیا؟
جبلہ نے بڑے غرور سے کہا کہ اس نے میری چادر کو اپنے پیروں سے مسل دیا، اسکی یہ مجال! اگر مجھے مقدس گھر کی حرمت اور عزت کی پرواہ نہ ہوتی تو میں اسکی گردن اڑا دیتا۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبلہ! تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے کہ واقعی تم نے اسے تھپڑ مارا ہے، اب تمہاری نجات کے لیے ایک ہی حل ہے کہ کسی طریقے سے اسے راضی کرو ورنہ.......
جبلہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اس سے بھی بدلہ لیا جا سکتا ہے۔ اس نے فورا پوچھا: ورنہ کیا ہوگا؟
ارشاد ہوا کہ اس فزاری سے کہا جائے گا کہ وہ آگے بڑھے اور تمھارے منہ پر ویسا ہی تھپڑ مار کر اپنا بدلہ لے لے!
جبلہ کہنے لگا: اچھا! تو کیا وہ مجھ سے بدلہ لے گا؟ .... میں ایک بادشاہ ہوں اور وہ ایک ادنٰی سا بے حیثیت آدمی!
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اسلام نے سب کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ تم اور فزاری دونوں برابر ہو۔ اسلام کی نظر میں صرف وہی شخص افضل و اعلیٰ ہے جو تقویٰ کے لحاظ سے بہتر ہے۔[سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف]

جبلہ کو اس قسم کے مساوی سلوک کا وہم و گمان بھی نہ تھا ۔ اس نے کہا کہ میں اس صورت میں دوبارہ عیسائی بن جاتا ہوں۔
ارشاد ہوا: جو شخص اپنے دین، یعنی اسلام سے پھر جائے، اسلام کی رو سے اسکی سزا موت ہے۔
جبلہ کہنے لگا : امیر المومنین اس صورت حال پر غور کرنے کے لیے مجھے کل تک کی مہلت عطا فرمائیں۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مہلت دے دی۔
رات کا کچھ حصہ گزرا تو جبلہ اپنے ہمرائیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکل بھاگا۔۔ وہ قسطنطنیہ پہنچا جہاں اس نے دوبارہ عیسائیت قبول کر لی۔
زمانہ بیت گیا..... اسکی جوانی کا رنگ اڑ گیا... نقوش ماند پڑ گئے، شان و شوکت دھندلا گئی۔ اسے اسلام کے ایام یاد آ گئے۔ نماز اور روزے کی لذت بیدار ہونے لگی... اسے اسلام چھوڑنے پر ندامت ہوئی .... زیادہ ندامت اس بات پر ہوئی کہ میں اسلام میں داخل ہونے کے بعد دوبارہ مشرک ہو گیا۔ اس إحساس کے باوجود وہ آخری عمر تک عیسائیت پر قائم رہا۔ اس نے آخری عمر میں کچھ اشعار کہے جن کا مفہوم یہ ہے:
"شریف خاندان کے ایک چشم و چراغ نے ایک تھپڑ کے بدلے تھپڑ کھانے میں سبکی محسوس کی جس کی وجہ سے اسلام سے برگشتہ ہو کر عیسائی بن گیا، حالانکہ تھوڑا سا صبر کر لینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ کاش! میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا، کاش! میں عمر رضی اللہ عنہ کی بات مان لیتا۔ کاش! شام میں میری معیشت کا ادنٰی سا سامان بھی ہوتا تو میں اپنی قوم کے افراد کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا۔ اب تو میری سماعت بھی ختم ہو رہی ہے اور بصارت بھی۔
مگر اس احساس کے باوجود اس نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول نہیں کیا۔ اسے شرک اور کفر ہی کی حالت میں موت آئی۔
 

الاستقصا    لاخبار دول المغرب الاقصى / احمد بن خالد الناصري 83/1
سنہرے نقوش: 332

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں