ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

2 مئی، 2014

اب دیکھ ہم مردوں کو زندہ کیسے کرتے ہیں


میلوں کا سفر کرنے کے بعد تھکان کے آثار چہرے پر عیاں تھے مسافر اس وقت آرام کا طلبگار ایک بستی میں داخل ہوا، اجڑی ویران بستی جہاں زندگی کا وجود دور دور تک نظر نہیں آرہاتھا۔ ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ برسوں پہلے یہاں پر انسان آباد تھے مگر کسی حادثے یا عذاب کی وجہ سے انسان زندہ نہ رہے تھے۔گرے مکان،بوسیدہ کمرے اور کھلے دروازے یہی منظر پیش کررہےتھے۔ایک سفر کی تھکان دوسرا خالی اجڑی بستی دیکھ کر کچھ بات منہ سے نکال بیٹھا،

"اس ویران بستی کو الله کیسے آباد کرے گا"

سامنے ایک درخت نظر آیا اس کے نیچے آرام کے خیال سے کچھ لیٹنے کا ارادہ کیا۔ ایک طرف اپنے گدھے کو باندھا کھانے کا سامان سامنے اپنے پہلو میں رکھ لیا، اس غرض سے کہ تھوڑی دیر سستانے کے بعد اٹھ کر کھالوں گا۔ ابھی لیٹا ہی تھا ہوا کے نرم جھونکوں نے تھکاوٹ سے چور بدن کو آرام پہنچایا اور پھر پتہ ہی نہ چلا کہ نیند کب اس پر مہربان ہو گئی۔ جب آنکھ کھلی تو سورج ڈھل رہاتھا تھکے جسم کو آرام مل چکا تھا، اب بھوک نے بے چین کیا اپنے کھانے کو ویسا ہی تازہ پایا۔ مگر جب اپنے گدھے کی جانب دیکھا تو حیرت اور پریشانی سے منہ کھلا ہی رہ گیا، یہ کیا !! گدھا کہاں چلا گیا۔
ابھی حیرت سے باہر نہ آ پایا تھا کہ اپنے ارگرد نظر پڑی، کیا دیکھتا ہے لوگ آجا رہے ہیں دور دور تک آبادی ہی آبادی نظر آئی۔ ایک الجھن سے ابھی نکلا نہ تھا کہ دوسری الجھن سامنے تھی مگر الله تعالی یہ سب منظر دیکھ رہےتھے، اپنے بندے کو پکار کر کہا،

اے میرے بندے! کیا تمہیں معلوم ہے کہ کتنے عرصے تک سویا رہا۔ کہنے لگا؛

"اے الله! ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔"

مگر الله رب العالمین نے کہا: اے میرے بندے تو ایک دن نہیں بلکہ تو ایک سو برس سویا رہا۔ اپنے گدھے کو دیکھ اس کی ہڈیاں مٹی میں گل سڑ چکی ہیں جبکہ کھانا صیح سلامت ہے"

پھر فرمایا: اب دیکھ ہم مردوں کو زندہ کیسے کرتے ہیں، گدھے کی ہڈیاں جو مٹی میں مل چکی تھیں گوشت جو سڑ کر مٹی ہو چکا تھا مگر اپنے رحمان کا حکم ملتے ہی سب ہڈیاں اڑ اڑ کر دوبارہ جسم بنناشروع ہو گیا، گوشت ان ہڈیوں کو دوبارہ پہنا دیا گیا، گدھا اپنی اصلی حالت میں آگیا اور دوبارہ کھڑا ہو گیا۔

یہ معجزہ دکھا کر ﷲ تعالی نے تمام انسانیت کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ﷲ رب العالمین ہرچیز پر قادر ہے۔

قرآن کریم میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے ۔

2:259
 

ترجمہ:
"یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی سے ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی،وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد ﷲ تعالی اسے کس طرح زندہ کرےگا؟ تو ﷲ تعالی نے اسے ماردیا سو سال کے لیے پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پرگزری؟ کہنے لگا دن یا دن کا کچھ حصہ۔ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اپنے کھانے پینے کو دیکھ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو دیکھ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیتے ہیں تو دیکھ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ الله ہر چیز پر قادر ہے"۔

سورة البقرة- 259

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں