ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

9 مئی، 2014

مسجد قرطبہ کو چرچ میں تبدیل کیا جا رہا ہے

 مسجد قرطبہ کو چرچ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔۔۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد پہلا خیال میرے ذہن میں یہ آیا کہ ان احباب کا ردعمل کیا ہے جو پاکستان کے نامساعد حالات میں حقوق انسانی کا علم پورے جذبے سے تھامے ہوئے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے مذہبی آزادیوں کی مالا یوں جپتے ہیں کہ گاہے آدمی کو ان پر رشک آنے لگتا ہے۔عالی مرتبت اعتزاز احسن، جناب قبلہ امتیاز عالم ، محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترمہ طاہرہ عبد اللہ، محترمہ ثمر من اللہ۔۔۔ فہرست بہت طویل ہے مگر سوال مختصر،حقوق انسانی اور احترام مذہب کے یہ جملہ علمبردار اس وقت رخصت پر کیوں چلے جاتے ہیں جب ظلم اور نا انصافی کا شکار مسلمان بن رہے ہوتے ہیں؟
میرے جیسا عامی سوچتا ہے، کیا یہ اتفاق ہے یا ان کی ملازمت کی شرطِ اول:
’’ اچھلو، کودو، چیخو، چلاؤ ۔۔۔ مگر خبردار مسلمانوں کے حق میں نہیں‘‘۔
سپین کی حکومت کا رویہ بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے لیکن سر دست وہ میرا موضوع نہیں۔ میرا موضوع اپنی داخلی فکری تقسیم ہے جو ایسی پستی کی جانب لڑھک چکی ہے کہ وجدان خراب ہوتا ہے۔ ہر دوسرا آدمی فیشن کے طور پر روشن خیال ہے۔ رواداری، برداشت، اقلیتوں کے حقوق، احترام مذہب اور نجانے کن کن ناموں سے صاحب لوگ این جی اوز چلا کر اس جاہل قوم کی ’’ اخلاقی تربیت ‘‘ کرنے میں مصروف ہیں۔ آدمی گاہے ساری حیرت کے ساتھ سوچتا ہے : کتنے عظیم اور عالی مرتبت لوگ ہیں ، ایک ناتراشیدہ سماج میں اعلی انسانی اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت ایک عام آدمی کو شدید حیرت ہوتی ہے جب غیر انسانی رویوں کا شکار مسلمان بنتے ہیں اور اعلی انسانی قدروں کے یہ سارے مبلغین کرام ’’ گونگے ، بہرے اور اندھے‘ بن جاتے ہیں۔
بے حسی اور بے شرمی کی ایک لہر ہے، یوں سمجھیے شہر کا شہر’ روشن خیال‘ ہوا پھرتا ہے۔ ایک نئی لغت وجود میں آ رہی ہے۔ عزت کا جنازہ نکلوا کر مسکراؤ تو روشن خیال ہو اور مزاحمت کرو تو جنونی، پاگل اور انتہا پسند ہو۔ چنانچہ چینلز پر بیٹھے یہ روشن خیال آپ کو یہ تو بتاتے ہیں کہ ناظرین بریکنگ نیوز آپ کو دیتے چلیں کہ کرینہ کپور نے سخت محنت کے بعد زیرو سائز حاصل کر لیا ہے لیکن یہ چلاتے اینکر، بل کھاتی اینکرنیاں اور اٹھلاتی سول سوسائٹی یہ نہیں بتائے گی کہ آج کشمیر میں دن کیسے گزرا۔ بے ہودہ اور واہیات پروگرامز تو نشر ہوں گے تا کہ روشن خیالی کی سند رہے لیکن اذان نشر نہیں ہو گی کہ کہیں جنونی اور شدت پسند نہ سمجھ لیا جائے۔
کارپوریٹ میڈیا نے سماج کی قدریں ہی نہیں ،منظور نظر مہمانان گرامی سے مل کر لغت ہی تبدیل کر دی ہے۔ ایک خاص سوچ مسلط کر کے ایک خاص نسل تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سیکولر انتہا پسند سماج کی تشکیل کی کوشش ہے جسے دھوکہ دینے کے لیے روشن خیال اور معتدل سوسائٹی کا نام دیا گیا ہے تاکہ سو جوتے اورسو پیاز کھانے کے بعد بھی ہمیں ہم اس بات کے محتاج ہوں کہ جوہی چاولہ آئے اور ہمیں بتائے کہ اب ہر کوئی گائے کے گن گائے۔

فرض کریں یہ واقعہ سپین کی بجائے طالبان کے افغانستان یا آلِ سعود کے عرب میں رونما ہوا ہوتا، اور فرض کریں کہ مسجد کو چرچ میں تبدیل کرنے کی بجائے چرچ کو مسجد بنایا جا رہا ہوتا۔ کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں اس صورت میں ہمارے ان روشن خیال احباب کا رد عمل کتنا شدید ہوتا۔ درد ان کی پلکوں میں جا بیٹھتا اور اب تک پندرہ بیس ٹاک شوز ہو چکے ہوتے۔ لیکن اب یہ کام سپین کی حکومت کر رہی ہے تو یہ حضرات چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے؛ بھئی یہ سپین کا مسئلہ ہے ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ بندہ پوچھے اگر مسجد قرطبہ محض سپین کا مسئلہ ہے تو بامیان میں بدھا کا مجسمہ صرف افغانستان کا مسئلہ کیوں نہ بن سکا۔ کیا بامیان میں آپ کے اب وجد مربعے چھوڑ گئے تھے کہ وہاں کے معاملات سے آپ لا تعلق نہ رہ سکے۔ طالبان نے کابل میں ٹی وی توڑے تو یہ ایسے روئے جیسے ان کا کوئی پیارا قتل ہو گیا ہو، قندھار میں لوگوں کو نمازیں پڑھوائی گئیں تو انہیں مذہبی رواداری یاد آ گئی اور ڈاکٹر نجیب کو ٹینک سے لٹکایا گیا تو انہیں حقوق انسانی ستانے لگ گئے۔۔۔ لیکن جب دوسری طرف ملا عبد القادر کو پھانسی دی گئی تو یہ لوگ گونگے بن گئے، مصر میں ڈاکٹر بدیع سمیت سینکڑوں لوگوں کو پھانسی گھاٹ کو بھیجنے کی تیاریاں ہیں لیکن یہ احباب بہرے بنے بیٹھے ہیں اور سپین میں مسلمانوں کی تاریخی مسجد خطرے میں ہے تو یہ سب اندھے ہوئے بیٹھے ہیں۔
غلطی مسلمانوں سے ہو جائے تو یہ لوگ شمشیر بکف نکل آتے ہیں جیسے یاجوج ماجوج کا کوئی لشکر امڈ آ یا ہو۔ لیکن جب مسلمانوں سے زیادتی ہو نے لگے تو یہ بے شرمی کی حد تک لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ اب ان رویوں سے چند سواالات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے:

1۔ کیا میڈیا موضوعات کے انتخاب میں آزاد ہے ؟یا کارپوریٹ میڈیا ان دیکھی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے کہ ایساا کچھ نہیں کرنا جس سے بعض ’ مالیاتی سر چشمے‘ ناراض ہو جائیں؟

2۔ کیا اپنے رجحانات کے اعتبار سے میڈیا واقعی آزاد ہے۔ یا اس کا فیصلہ کچھ نادیدہ قوتیں کرتی ہیں کہ کون سے واقعے کو اچھالنا ہے اور کس پر خاموش رہنا ہے؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کے حق میں کوئی مہم برپا نہیں ہوتی لیکن ان سے سرزد ہونے والی غلطی پر شاندار مہم کھڑی کر دی جاتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں پر تنقید نہ ہو، ہونی چاہیے اور بلاشبہ شدید ہونی چاہیے لیکن جب وہ مظلوم ہوں تو ان کے حق میں بات کرتے ہوئے ٹانگیں کیوں کانپ جاتی ہیں؟یہ اتفاق ہے یا۔۔۔؟

3۔ پاکستان میں حقوق انسانی اور اس طرح کے خوبصورت ناموں سے جو ادارے بنے ہوئے ہیں ان کا اصل مقصد کیا ہے۔ کیا وہ کسی خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں یا وہ اپنے مقاصد کے تعین میں آزاد ہیں اور ان سے مخلص بھی۔

4۔ بیرون ملک سے پیسے لے کر اگر حکومتیں آزاد نہیں رہتیں تو یہ ادارے کس طرح آزادانہ آپریٹ کر سکتے ہیں جن کی بقا کا دارومدار ہی باہر سے آنے والی امداد پر ہے؟
5۔ ایسے اداروں میں بلاشبہ خیربھی ہو گا۔ کامل شر کوئی نہیں ہوتا لیکن ریاست کا کام ہے کہ ایک چیک اینڈ بیلنس ضرور رکھے کہ آزادی رائے، صحافت اور حقوق انسانی کے نام پر بیرونی قوتوں کی نوکری کرنے والے بے حیا کون ہیں اور کتنے ہیں جو اس کام کو خلوص نیت سے کر رہے ہیں۔

ظلم مسلمان کریں یا غیر مسلم اس کی مذمت ہونی چاہیے۔ مظلوم غیر مسلم ہو یا مسلمان اس کا ساتھ دیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر ہم نے خوبصورت لفاظی اور آدرشوں کی آڑ میں صرف پیٹ کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ہے تو ہم سے بدتر آدمی کوئی نہیں۔



Tags: liberals, secular, media, muslim issues, dual standard, pakistan,
aasima jahangir, aitzaz ahsan, imtiaz aalim, tahira abdullah, samar minallah, human right, freedom, injustice,
afghanistan, spain,
masjid quraba church main tabdel, mosque,

1 comments:

  1. Sharm ani chahye in logon ko Islam k nam PR Islamic milk chla rhe hen or Islam k nam PR kha rhe hen or jab qorbani ki bari anti he to Latin men sub she pche nazr ate he

    جواب دیںحذف کریں