ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

21 دسمبر، 2013

Disposable America soldiers


 

 “قابل تلف”("Disposable")امریکن فوجی!
 مریم عزیز
 
بات کچھ تفصیل طلب ہے مگر ہم تلخیص کیے دیتے ہیں۔ڈسپوزبل کا لفظ دراصل ٹشو پیپر جیسی چیزوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔مغرب میں کئی چیزیں اسی مقصد کیلئے بنائی جاتی ہیں کہ ایک بار استعمال کے بعد ردی کردی جائے تاکہ ’maintenance‘ یعنی دیکھ بھال کے ’اخراجات‘ میں کمی لائی جاسکے۔پنٹاگون کے بتائے گئے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق امریکی فوجیوں میں ذہنی امراض میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ہر دس میں سے ایک امریکی فوجی دماغی امراض کیلئے ہسپتال میں داخل ہے۔امریکی سیکریٹری آف ڈیفنس رابرٹ گیٹس کے الفاظ میں امریکی فوجیوں کے نفسیاتی مسائل کے علاج معالجے پرآنے والے اخراجات ”دفاعی محکمے کو سالم نگل رہے ہیں“!۔امریکی فوج نے حال ہی میں ایسے فوجیوں کے علاج پر”تین ہزار ڈالر روزانہ“کے خرچے کا رونا رویا۔ 
قارئین کرام، بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی بات یہاں سے شروع ہوتی ہے ان طریقوں کی جن کو استعمال کرکے امریکی دفاعی محکمہ ’خرچے کم‘کرنے کی کوشش کررہا ہے۔جیویش ٹائمز نامی اخبار میں مصنفہ جوائس ایس اینڈرسن ؛دی نیشن نامی میگزین میں جوشوا کورزکے چھپنے والے مضامین کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی وجہ سے شور تو بہت اٹھا تھا مگرمعاملے کودبا دیا گیا۔مضامین کا عنوان تھا“Disposable Soldiers!” ۔جن میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2001ء سے اب تک ساڑھے بائیس ہزار امریکی فوجیوں کو یہ کہہ کر فوج سے بے دخل کردیا گیا ہے کہ وہ ’پہلے سے‘ذہنی مریض تھے اور فوج کیلئے بے کار ہیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ فوجی داخلے کے وقت صحتمند قرار دیے گئے تھے مگر جب جنگ کے دوران کھائی جانے والی مرئی و غیر مرئی چوٹوں(جیسے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سر کا یاجسم کاشدید درد، کانوں میں سماعت کے مسائل،بینائی کے مسائل وغیرہ)کیلئے علاج کیلئے درخوست گزار ہوئے تو ان کو خبطی ،پہلے سے دماغی امراض کا شکاراور ڈرامہ باز قرار دے کر فوج سے رخصت کردیا گیا۔
 ایسی رخصت کے نتیجے میں پھر نہ صر ف ان کو علاج کی سہولت سے محروم کردیا گیا بلکہ دیے گئے بونس میں سے موٹی رقم کی واپسی بھی اس میں شامل ہے۔چنانچہ قابل تلف معمولی استعمال کی اشیاءکی طرح ان امریکی فوجیوں کودیکھ بھال کے اخراجات میں کمی کیلئے ’ردی ‘کردیا گیاہے۔ایک دو تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں مگر انہوں نے بھی مہینوں بعد فیصلہ سنایا کہ فوج کے ڈاکٹروں کی تشخیص صحیح تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ تحقیق کے لئے ان میں سے کسی فوجی سے براہ راست کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق اب بھی اس نظام میں تبدیلی نہیں لائی گئی ہے اوراسی طرح کئی ہزارامریکی فوجی عضو معطل کی طرح کاٹ پھینکے جاتے ہیں! اپنی طرز حکومت اور ویلفیر سوسائٹی کے ماڈل کو بزور قوت دنیا میں نشر کرنی والی سپر پاور کا جو حشر ہو رہا ہے وہ دنیا کے لئے ایک تازیانہ ہے۔خوش حالی میں حقوق انسانی کا راگ الاپنا اور غریب ممالک کو انسانیت کا سبق سکھانا بہت آسان ہے۔ لیکن کسی کے ظرف کو ناپنے کا پیمانہ برے وقت میں اس کا طرز عمل ہوتا ہے۔

 

19 دسمبر، 2013

جنرل صاحب نے یہ کیا کہہ دیا؟ اوریا مقبول جان




میڈیا کےکیمرے اس سیمینار میں نہیں تھے۔ اسلام آباد کے سرد موسم میں دسمبر کی ایک صبح مشہور زمانہ لال مسجد اور مرحوم جامعہ حفصہ کے قریب ایک ہوٹل کے زیر زمین حال میں شہر کے لوگوں کا جم غفیر تھا۔ تنظیم اسلامی نے دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا۔ دو مقررین کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے تھا اور وہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے اہم ستون یعنی بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز رہ چکے تھے۔

تیسرے مقرر پرویز مشرف کے دست راز ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر متمکن تھے، ایک ایسا عہدہ کہ جب اس ملک سے افغانوں پر حملے کرنے کے لیے مکمل مدد فراہم کی جا رہی تھی، اس عہدے کی آنکھیں ان تمام واقعات کی گواہ بنتی رہیں۔ دسمبر 2003 سے اکتوبر 2005 تک وہ لاہور کے کور کمانڈر رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیرمین بنے۔ یوں تو اس دور میں بہت سے لفٹیننٹ جنرل رہے لیکن اپنے ضمیر کی خلش سے بیقرار ہو کر اور خاموشی توڑ کر کتاب صرف جنرل شاہد عزیز نے لکھی۔ اس کتاب میں لکھا جانے والا سچ اس قدر کڑوا تھا کہ اس نے بھونچال کھڑا کر دیا۔ ان کی کتاب "یہ خاموشی کب تک" پر بہت عرصہ اخباروں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں تبصرہ ہوتا رہا ۔ پرویز مشرف نے غصے میں لال بھبھوکا ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہد عزیز کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سیمینار میں قبائلی امور کے باقی دونوں ماہرین اور خود قبائلی پس منظر رکھنے والے اعلیٰ بیوروکریٹس نے بہت سی ایسی باتیں کیں جنھیں اس ملک کا میڈیا بیان نہیں کرتا اور شاید مدتوں نہیں کرے گا۔ سیمینار میں جنرل شاہد عزیز نے ایک حیران کن انکشاف کیا اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے سوات کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہ یہ میڈیا پر نشر ہوتی ہے اور نا ہی اسے کوئی سیاستدان، دانشور یا تبصرہ نگار بیان کرنے کی جرات کرتا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے، جو اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور جس کی ریکارڈنگ تنظیم اسلامی کے پاس موجود ہے اور ہو سکتا ہے چند دنوں میں وہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہو، کہا :

"سوات میں امن معائدہ حکومت اور فوج نے امریکہ کے دباؤ پر توڑا اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیا"۔

یہ فقرہ ایسا تھا جس سے پورے کا پورا ہال سناٹے میں آ گیا۔ اس فقرے کی گونج میں اگر ہم میڈیا پر گزشتہ پانچ سال کی گرجتی برستی آوازوں اور دانشوروں کے قلم سے نکلے ہوئے زھرخند جملوں کو یاد کریں تو یوں لگتا ہے کہ کئی سال پوری کی پوری قوم ایک جھوٹ کے الاؤ میں جلتی رہی۔ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت، جو سوات آپریشن کے وقت برسراقتدار تھی، میں سے کسی بیان یا ٹی وی پر تبصرہ نکال کر دیکھ لیں، ایسے لگے گا جیسے یہ لوگ امن کی فاختائیں اڑا رہے تھے اور طالبان کی طرف سے انھیں ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہ اس قدر صابر تھے کہ انہوں نے امن کی ہر کوشش کی لیکن اسے طالبان نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ اس سوال کا جواب تو شاہد عزیز ہی دے سکتے ہیں کہ فوج کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ امن جو مزاکرات کی میز پر وقوع پذیر ہو گیا تھا اسے ایک فوجی آپریشن میں کیوں بدل دیا گیا جس کے آج تک ہم زخم چاٹ رہے ہیں۔ آج بھی دبی دبی آوازیں سوات کے بازاروں میں سنائی دیتی ہیں اور صرف ایک وقت کا انتظار ہے کہ جب قصبوں، محلوں اور دیہاتوں میں سنائی جانے والی کہانیاں میرے ملک کے طول و عرض میں بیان ہونے لگیں گی؛ پھر کوئی معافی، غلطی کا کوئی اعتراف ان زخموں کو مندمل نہ کر سکے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میں جو تھیٹر میڈیا پر سجا اور آج بھی سجا ہوا ہے اس نے قوم کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔ آج بھی دلیل یہ دی جاتی ہےاور کتنے زوروشور سے دی جاتی ہے کہ طالبان پر بھروسہ کیسے کریں، وہ تو سوات میں معائدہ توڑ دیتے ہیں۔ طالبان کو جس طرح میڈیا میں گالی بنایا گیا وہ صرف سوات کے امن معائدے کے ایک واقعے سےنہیں بلکہ اس میڈیا نے ہر اس قتل کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر دوکان سجائی جو کہیں کسی اور جگہ بھی ہوتا رہا۔ سوات ہی کی مشہور گلوکارہ غزالہ جاوید جب اپنے باپ کے ہمراہ قتل ہوئی تو کتنے دن میڈیا یہ ماتم کرتا رہا کہ شدت پسندی اور طالبان کی سوچ نے اس خوبصورت گلوکارہ کی جان لے لی۔

[گلوکارہ غزالہ جاوید کا قاتل اس کا سابق شوہر تھا، جسے ابھی دو دن قبل ہی عدالت نے دو بار سزائے موت اور 7 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے: خبر ]

ابھی سوات میں لڑکی کے کوڑوں والی ویڈیو ٹی وی کی سکرینوں پر نہیں آئی تھی کہ اس سے تقریبا دو ہفتے قبل ایک پروگرام میں انسانی حقوق کی ترجمان ثمر من الله نے کہا کہ دیکھنا کچھ عرصے بعد ایک ویڈیو سامنے آنے والی ہے جو طالبان کی حقیقت آشکار کر دے گی۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر طالبان سے اس قدر دشمنی کیوں ہے؟ اس ملک میں اور بھی تو شدت پسند گروہ بستے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والے تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے تو کراچی میں بھی کسی کو چین سے بسنے نہیں دیتے ۔ ایسی ایسی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن کی ہڈیوں میں ڈرل سے سوراخ کیا گیا ہوتا ہے، ناخن کھینچے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ یہ لاشیں دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ ان کے پیاروں نے زندگی کے آخری لمحے کس اذیت سے گزارے ہوں گے۔پھر بھی میڈیا پر صرف ایک ہی شدت پسند گروہ کے "ترانے" کیوں گئے جاتے ہیں۔ یہ مرض بہت پرانا ہے، یہ حربہ اور ہتھکنڈا بہت پراثر ہے اس لیے کہ اس کا ہدف طالبان نہیں اسلام ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں میں سے اکثریت پر سیکولر ڈکٹیٹر برسر اقتدار تھے، ان کا اسلام یا اس کے اصول زندگی سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن دنیا بھر کے اخبارات یا ٹی وی پروگرام اٹھالیں، انھیں سیکولر ڈکٹیٹر نہیں مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ کسی نے جرمنی کے ہٹلر، سپین کے فرانکو یا فلپائن کے مارکوس کو آج تک عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہا اور نا ہی لکھا ۔

اسلام کو اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر جس قدر تسکین دنیا بھر کے میڈیا اور میرے ملک کے "عظیم" دانشوروں کو ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف کسی نیوز روم میں بیٹھ کر لگا سکتے ہیں، وہ نیوز روم جہاں کسی دھماکے، قتل یا ایسے کسی جرم کی خبر آ چکی ہو اور ٹی وی پر چل بھی رہی ہو متلاشی نظریں اور کان بےچینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، تجسس میں ایک دوسرے سے سوال کیے جاتے ہیں:

"طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ابھی تک؟ پتا تو کرو، عالمی میڈیا کو دیکھو، کسی ویب سائٹ پر ڈھونڈو" اور اگر ذرا بھی تاثر مل جائے تو پھر دیکھیں اگلے چوبیس، اڑتالیس یا بہتّر گھنٹے کی نشریات کے لیے موضوع مل جاتا ہے۔ خبر چلاؤ اور رگڑ دو شرعی قوانین کو، اسلام کی شرعی حیثیت کو اور خود اسلام کو۔

اوریا مقبول جان
ربط: روزنامہ دنیا


tags:
oria maqbool jaan, Lieutenant-General Shahid Aziz, Tanzeem e islami,
sawat, aarmy operation, video, sawat peace deal, who broke,
ghazala javaid, taliban, secular, media, islam, pakistan,

18 دسمبر، 2013

پاکستان کو دولخت کس نے کیا



16دسمبر پر بہت سے قومی رہنماؤں اور دانشوروں نے کہاہے کہ بھارت نے ہمارا ملک دو ٹکڑے کیا۔
کیا یہ ٹھیک ہے؟ تاریخ کہتی ہے کہ نہیں۔ پاکستان کو دو ٹکڑے بھارت نے نہیں کیا۔ یہ کام یحییٰ خاں نے کیا، ٹکا خان نے کیا، نیازی  نے کیا اور بھٹو  نے کیا۔ یحییٰ نے ٹکا اور نیازی جیسے سفّاک، انسانیت دشمنوں کو بنگالیوں کا صفایا کرنے کا ’’فریضہ ‘‘ ادا کرنے کو کہا اور ان دونوں نے یہ فریضہ یحییٰ خاں کی توقع سے بڑھ کر ادا کیا۔ ٹکا خاں کہتا تھا، بنگال کو بنگالیوں سے پاک کر دوں گا، نیازی نے کہا بنگالیوں کی نسل خراب کر دوں گا۔ بھارت نے حملہ بعد میں کیا، ان دونوں حضرات نے اپنے عزم پہلے پورے کر لئے، بھارت نے تو پھر آنا ہی تھا۔ع
نہ تم مسکراتے نہ یہ بات ہوتی۔
دونوں اپنے باس اور اس کے ہم شریک بھٹو کے منصوبے کے تحت چھ کروڑ بنگالیوں کو پاکستان کا باغی پہلے ہی بنا چکے تھے۔
___________________________
ایک بیان چھپا ہے پوچھا گیا ہے کہ کیا ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق سیکھا۔ جواب ہے کہ نہیں سیکھا۔ 16دسمبر کو اخبارات میں یہ خبر چھپی ہے کہ6لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی لاشیں ڈیرہ بگٹی سے ملیں۔ انہیں ٹکا خانوں اور نیازی خانوں نے کئی دن پہلے لاپتہ کیا، مسلسل تشدّد کرکے ہڈیاں توڑ دیں، پھر گولیوں سے چھلنی کرکے مسخ شدہ لاشیں ڈیرہ بگٹی پھینک گئے۔

عبد الله طارق سہیل 

ہم درآمدی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ بلاول زرداری


پیپلزپارٹی کے شیر خوار چیئرمین (کچھ لوگ انہیں چیئرپرسن لکھتے ہیں پتہ نہیں یہ املاکی غلطی ہے یا خیال کی ) بلاول علی بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم درآمدی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ (حوالہ )
 
درآمدی اسلام ؟ اسلام تو ہے ہی درآمدی۔ عربستان سے آیا۔ قرآن وہیں پر نازل ہوا تھا اور رسول عربی ؐ بھی وہیں کے تھے۔ بلاول کیا کہنا چاہتے ہیں، وہ کوئی دیسی اسلام بنائیں گے یا پہلے سے موجود کسی دیسی مذہب کو ترویج دیں گے۔ دیسی مذہب اس علاقے میں چار چار ہیں جس میں پاکستان واقع ہے ہندومت، سکھ مت، بدھ مت اور جین مت۔ آخری دو مذہب تو ہندو مت نے نگل لئے۔ جین مذہب یہیں کہیں گم گما گیا، بدھ مذہب پہاڑوں کے پار تبّت نکل گیا اور وہاں سے گھومتا گھماتا چین، جاپان اور مشرق بعید کا بڑ ا مذہب بن گیا۔ سکھ مذہب البتہ نیا ہے اور اس بات کے لئے تیار نہیں کہ ہندو توا اسے نگل جائے۔
 
بلاول ان میں سے کس دیسی مذہب کو پسند کرتے ہیں؟ یا پھر وہ کسی نئے دھرم کی گھڑنت کرنے والے ہیں،اور اس نومولود کا نام کیا ہوگا؟ زرداری مت؟ یا سب سے بھاری مت؟ عیسائیت کو تو وہ مانیں گے نہیں کہ وہ بھی درآمدی ہے۔
 
اور اسلام صرف یہیں درآمد نہیں ہوا، عربستان سے نکلا تو سارے شمالی افریقہ، ایران، ترکستان اور وسط ایشیا اور افغانستان سے لے کر شمالی ہندوستان کے سارے خطے کو تسخیرکرتا چلا گیا۔۔ اور مشرق بعید تک پھیلا۔ حیرت ہے، اتنے سارے علاقوں میں کسی شخص یا گروہ کو خیال نہیں آیا کہ وہ درآمدی اسلام نہیں مانیں گے، اپنا اسلام بنائیں گے۔ یہ خیال اس سے پہلے بھی کسی کو آیا تو اسی برصغیر میں آیا یعنی مرزا غلام احمد کو۔ اس نے اپنا اسلام بنایا لیکن جزوی طور پر۔ بلاول کا کیا ارادہ ہے۔ سارا نیا نکورہوگا یا مرزا کی طرح ملا جلا۔

ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔



’ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔ ‘

 ابو نثر

نیویارک سے خوشی کی ایک خبر ملی ہے، جس کی سرخی ہے:
’’امریکا میں جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے پہلے بندر کی پیدائش‘‘
ہماری طرف سے امریکا کو اِس نومولود کی ولادت بہت بہت مبارک ہو۔ہمیں خوشی ہے کہ اب امریکا میں بھی جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ بندر پیدا ہونے لگے ہیں۔سو، اگرپیدائش کا یہ دعویٰ درست ہے توامریکا کو معلوم ہو کہ یہ بندرِ عزیزفقط امریکاہی کا پہلا بندر ہوگا۔ ورنہ ہمارے یہاں تو اِس قسم کے(جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے) بندر بہت پہلے پیدا ہوچکے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں پیداہوچکے ہیں۔سب کے سب ماشاء اﷲ خوب اچھی طرح جینیاتی طورپر تبدیل شدہ ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی چینل کی گُھنڈی گھمائیے۔ مکے لہرا لہرا کر۔۔۔ اورپونچھ پٹک پٹک کر ۔۔۔اُچھلتے ،کودتے، ناچتے:
گرتے ،سنبھلتے، جھومتے
مائک کے منہ کو چومتے
آپ کو یہ جینیاتی دانشوربندر نظرآجائیں گے۔(مگریہ ’’جینیاتی‘‘ ہونے سے پہلے تو ایسے نہ تھے)۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ ہمارے اصلی بندر بالکل فطری بندر ہیں۔جب کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کی ہرچیز بدلی بدلی ۔۔۔ مرے سرکار!۔۔۔ نظر آتی ہے۔نظریں تک بدل جاتی ہیں۔ اُن کا لباس، اُن کا رہن سہن، اُن کا اُٹھنا بیٹھنا، اُن کا حال چال، اُن کی بول چال، اُن کی چال ڈھال، اُن کا چھلانگیں مارنااور اُچھل اُچھل کر ایک پارٹی سے دوسری کی طرف پھلانگنا اوراسی طرح کی مستقل ’’آنیاں جانیاں‘‘ فرماناپھراِس پر اُن کا آپس میں اورباہم خوخیانا۔۔۔ سبھی کچھ اصلی اور نسلی بندروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کا چہر ہ بھی ہمارے سیدھے سادے معصوم دیسی بندروں کے چہروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ’’بندرانہ‘‘ ہوتا ہے۔ ’’قِردۃً خاسئین‘‘ جیسا۔ مگر واضح رہے کہ یہ اپنے آپ کو ’بندر‘ کبھی نہیں کہتے۔ ’’منکی‘‘ ۔۔۔ بلکہ ’’مونکی‘‘ کہتے ہیں۔ اور اِس بات پر(غلط سلط) انگریزی میں فخربھی کرتے ہیں کہ:
’’مِرا مزاج لڑکپن سے منکیانہ تھا‘‘
ہر اصلی چیز کی طرح اب ہمارے یہاں کے اصلی بندر بھی رفتہ رفتہ آثارِ رفتگاں کی طرح معدوم ہوتے جارہے ہیں۔اب یہاں جو بھی بندر ہیں وہ ہماری دھرتی کے بندر نہیں بلکہ ’’جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بندر‘‘ ہیں۔جینز بدل جائیں تو سب کچھ بدل جاتاہے۔خیالات بدل جاتے ہیں، نظریات بدل جاتے ہیں، لب و لہجہ بدل جاتا ہے، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی بدل جاتاہے۔ہمارے بندر کو تو اگر کہیں سے ہلدی کی گانٹھ بھی مل جاتی تھی تو وہ اُسی پر صبر شکر کرکے پنساری بن جاتا تھا۔ مگریہ’’ جینیاتی طورپرتبدیل کیے گئے بندر‘‘ تو ہلدی کی گرہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے، اورمحض پنساری بننے پربھی اکتفا نہیں کرتے، سرکاری قرضہ لے کر ہلدی کا پورا کارخانہ لگالیتے ہیں۔
حاضرین، ناظرین، سامعین، اور قارئین کو معلوم ہو کہ اب یہ بندر صاحبان ’کیلا‘نہیں کھاتے۔ ’’بنانا‘‘ کھاتے ہیں۔اور ملک کو بھی ’’بنانا ری پبلک‘‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ اپنے بچوں کے لیے اٹلی سے پیزا(Pizza) منگواتے ہیں۔ اورجب وہ پنجیری کی جگہ پیزا کھانے کے اچھی طرح عادی ہوجاتے ہیں تو اُنھیں امریکا ۔۔۔( نہیں بلکہ ’’اسٹیٹس‘‘)۔۔۔ چھوڑ آتے ہیں۔ اب خوبی قسمت سے اُن کے ہاتھ ناریل نہیں لگتا۔ اگر ہاتھ لگتا ہے توکوالالمپور سے ’’کوکونٹ‘‘اِمپورٹ کرنے کا لائسنس لگ جاتا ہے۔وہ زمانہ بھی لد گیا جب کہا جاتا تھا کہ :
’’بندر کیا جانے ادرک کاسواد؟‘‘
اب تو جس بندر کو دیکھیے وہ آنکھیں میچ کر کہتا ہوا ملے گاکہ:
’’سواد آگیا بادشاہو!‘‘
ہمارے اصلی ونسلی بندرتو مداری کی تربیت اور اُس کی سخت محنت کے بعد ڈگڈگی کی آواز پر ناچا کرتے تھے۔ خود محنت، مشقت کرنے کے بعد اپنا پیٹ پِیٹ پِیٹ کر حقِ محنت مانگا کرتے تھے۔ مگر جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کے لیے دیر تک ڈگڈگی بجانے کی قطعاً ضرورت نہیں پڑتی۔اُن کے جین میں (بلکہ جنین میں) کچھ ایسے خلیات داخل کردیے گئے ہیں کہ یہ ٹیلی فون کال کی محض پہلی گھنٹی پر ہی ناچنے لگتے ہیں۔ ڈالروں کی توصرف جھلک دیکھ کر ہی ناچ اُٹھتے ہیں۔ اس پر یہ گانا مستزاد۔۔۔ جو اِن پر ’حال‘ طاری کردتیا ہے:
’’ناچ میرے بندر ڈالر ملے گا ۔۔۔‘‘
اوراگرڈالر ملنا بند ہوجائیں تو بھنّا بھنّا کرمزید ناچنے لگتے ہیں کہ آخر ہمیں ڈالر کیوں نہیں مل رہے ہیں؟
ہمارے کچھ بندر جینیاتی طورپر کیا تبدیل ہوئے، ہرچیزتبدیل ہو گئی۔سب سے پہلے ۔۔۔ بلکہ بندر سے بھی تیز تیز۔۔۔ بندریا بدل گئی۔ بندریا بدلی تو ظاہر ہے کہ مسٹر اور مسز بندر کے بچے بھی بدل گئے۔بندروں کاسارا معاشرہ یعنی پوری کی پوری ’’بندرگاہ‘‘ہی تبدیل ہو گئی۔حتیٰ کہ ہمارے شہر کراچی کی ’’بندرروڈ‘‘ تک وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔اُس وقت تو ہم لہک لہک کر یہ گایا کرتے تھے کہ:
’’بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر!‘‘
مگر جب اُسی فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے ہم نے یہ تماشا دیکھا کہ اُلٹی گنگا بہ رہی ہے۔ یعنی ’’کیماڑی سے بندر روڈ کی طرف‘‘۔ اور بندرگاہ کی طرف سے ایک قطار بنائے ہوئے اونٹ گاڑیاں چلی آرہی ہیں جو پشت پرامریکی گندم لادکر لا رہی ہیں۔نیز ہر اونٹ کی گردن میں \”Thank You America\” کاقلادہ بھی لٹک رہا ہے۔۔۔ تو ہم بالکل ہی فٹ پاتھ پر ہوگئے۔ امریکی گندم ہماری رگ و پے میں اُتر گیا اور تب سے اب تک ہم فٹ پاتھ پر ہی کھڑے ہیں۔آگے نہیں بڑھ سکے۔
قصہ مختصر یہ کہ سب کے سب بدل گئے اور پل کے پل میں سب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئے۔تعلیم ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔۔۔ تہذیب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئی ۔۔۔ معیشت ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔۔۔ سیاست ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔ حتیٰ کہ حکومت بھی ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔باہر سے جین لا لاکے ہماری خاطر ’’جینیاتی وزیراعظم‘‘ بھی بنائے گئے۔ کھلائے گئے۔ پلائے گئے اورپھرسرپٹ بھگائے گئے۔اوراِن تمام ’’جینیاتیوں‘‘ کے ہاتھوں ہم سب بندروں کی طرح نچائے گئے۔
کہاجاتا ہے کہ: ’’جس کابندر وہی نچائے‘‘۔ سو وہ ان بندروں کو نچاتاتو وہی رہا ، جس نے ان کو بندر بنایاتھا۔ مگر باقیوں کو خود بندروں نے نچایا۔ نچایا اور خوب خوب نچایا۔بلکہ سچ پوچھیے تومحض ایسا نہیں ہوا کہ لوگ ایک ہی دفعہ ناچ کر رہ گئے ہوں۔نچانے والوں نے تو ایسا نچایا ۔۔۔کر تھیاتھیا۔۔۔ کہ ناچ ختم ہوگیا مگر ہم اب تک ناچے ہی جارہے ہیں۔یہ گیس کا ناچ ہے، وہ بجلی کاناچ ہے۔ یہ روٹی کا ناچ ہے، اُدھر دال ناچ رہی ہے۔ اِدھر ساری کی ساری سبزیاں الگ الگ ناچ رہی ہیں۔ مچھلی، گوشت، مرغی اور تازہ پھلوں کے توکیاکہنے۔۔۔ کیاکہنے۔۔۔ انھیں دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا۔۔۔ آسمان پر پریاں ناچ رہی ہیں!


17 دسمبر، 2013

تلاش گمشدہ- لبرل و سیکولر حضرات




مُلاعبدالقادر کی پھانسی کے ہنگام میرے کچھ محترم مہربان اور عزیز دوست، جو حقوق انسانی مشغلہ کرتے ہیں، لاپتہ ہو گئے ہیں۔ سوچتا ہوں احباب اپنی کچھ خبر دیں گے یا مجھے ماما قدیر اور آمنہ مسعود جنجوعہ سے درخواست کرنا پڑے گی کہ اپنی تلاش گمشدہ میں ہماری ان معتبر شخصیات کو بھی شامل کر لیں؟ جناب آئی اے رحمان، محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترمہ طاہرہ عبداللہ، محترمہ حنا جیلانی، محترمہ فرزانہ باری، جناب اعتزاز احسن، جناب اطہر من اللہ! ہمیں آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے،آپ ہمیں اپنی سلامتی سے مطلع کریں گے یا ہم یہ سمجھ کر چپ رہیں کہ آپ کو بھی کوئی ’ خفیہ ہاتھ‘ لے اڑا؟

سیکولر احباب کا تعصب ،غیظ و غضب اور فکری بددیانتی دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کیا واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے۔ صبح شام یہ حضرات حقوق انسانی کی مالا چبتے ہیں، قیمتی ملبوسات زیب تن کر کے اور مہنگا میک اپ تہہ در تہہ تھوپ لینے کے بعد جب انہیں فراغت کے اوقات بتانا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ حقوق انسانی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔وقت بھی گزر جاتا ہے اور بیرون ملک شناخت کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔شاید پیٹ کے مسائل بھی حل ہو جاتے ہوں کیونکہ اشرافیہ کے پیٹ کو صرف ڈالر راس آتے ہیں، یہ ننھے اور نازک معدے روپوں کی کثافت برداشت نہیں کر پاتے۔ ان کے ہاں کتوں بلیوں لومڑوں اور گدھوں تک کے حقوق کا تصور موجود ہے، یہ ان کے غم میں رو رو کے جان ہلکان کر لیں گے لیکن جب بات کسی مسلمان گروہ کی آئے تو یہ گونگے بہرے اور اندھے بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاں ظلم کا اپنا ایک تصور ہے۔ یہ صرف اس ظلم کی مذمت کرتے ہیں جو ان کی تعریف پر پورا اترے۔ ان کے نزدیک ظلم صرف وہ ہے جو مسلمان کریں اور مظلوم صرف وہ ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنے۔

اس سیکولر گروہ کو آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ عافیہ صدیقی کے حق میں آواز اٹھا لے کیونکہ اس کا ایمان ہے:’’ امریکہ جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے‘‘۔ اب سیکولر احباب کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ جماعت اسلامی کے کسی آدمی پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائیں۔ چنانچہ ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ یہ احباب اٹھتے بیٹھتے ہمیں بتائیں گے کہ قصاص کا قانون ٹھیک نہیں ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ سزائے موت ختم کی جائے، ان کا دعوی ہے کہ یہ غیرانسانی سزا ہے،لیکن جب یہ سزا کسی ایسے آدمی کو دی جائے جس کا تعلق اسلامی تحریک سے ہو تو ان کے سینے میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے، انہیں سارے تصورات بھول جاتے ہیں اور یہ بوتل میں گردن دے کر کہتے ہیں:’’ سانوں کی‘‘۔

یہی سزا اگر بنگلہ دیش کی بجائے افغانستان میں طالبان نے دی ہوتی، ملا عبدالقادر کی جگہ ٹام ہیری اور ڈک ہوتا یا کوئی ایسا مسلمان جو ان احباب کے بقول ’’ نان پریکٹسنگ مسلم‘‘ ہوتا تو پھر آپ ان کا اچھلنا کودنا دیکھ دیکھ حیران ہوتے۔ یہ تو توہین رسالت جیسے گھناؤنے جرم میں بھی ریاست کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ سزائے موت کا نفاذ کرے لیکن جب بات ملا عبدالقادر کی ہو تو انہیں اپنے تصورات یاد نہیں آتے۔ اس سے بڑا بغض، اس سے شرمناک تعصب اور اس سے غلیظ خبثِ باطن اور کیا ہو سکتا ہے؟



Tags:
Mullah Abdul Qadir, death, hanged,
I A rehman, Aasma Jahangir, Tahira Abdullah, Hina jeelani,
Farzana Bari, Aitzaz Ahsan, Athar Minallah, Lapata afraad,
secular, liberal, dollar, Human rights,

16 دسمبر، 2013

رات تیرا اسکور کتنا رہا



بریگیڈیئر اے آر صدیقی، جو پاکستان کے معروف دفاعی تجزیہ نگار اور صحافی ہیں، مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور اس کے پاکستان سے علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بننے کے زمانے میں حکومت کا حصہ تھے اور اب انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کو بالآخر ’ایسٹ پاکستان۔ دی اینڈ گیم: این اونلُکرز جرنل‘ کے نام سے کتابی شکل دی ہے۔

بریگیڈیئر صدیقی کی کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس سے مشرقی پاکستان کے واقعات ہی نہیں بلکہ فوجکی سیاست میں ملوث ہونے اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی سوچ بھی واقعات کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ کس طرح یحیی خان اقتدار سنبھالنے سے ایک ماہ پہلے ہی ایوب خان کو ہٹا کر مارشل لا لگانا چاہتے تھے اور وہ سیاستدانوں کو بھیڑیے اور جوکرز قرار دیا کرتے تھے۔

بریگیڈیئر صدیقی نے بہت تفصیل سے نو ماہ تک ہونے والے فوجی کارروائی اور قتل و غارت کی کہانی بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح فوج کے بعض افسر بنگالیوں کو سبق سکھانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
اس ضمن میں انہوں نے اس وقت ڈھاکہ میں تعینات میجر جنرل محمد حسین انصاری کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں فوج کی زیادتیوں پر نالاں تھے اور ان سے کہتے تھے کہ ہمیں ہر عورت سے ہونے والے زنا بالجبر اور ہر قتل کا حساب دینا پڑے گا۔
اس کے برعکس مشرقی پاکستان میں فوج کے کمانڈر جنرل اے کے نیازی کے بارے میں صدیقی لکھتے ہیں کہ وہ جوانوں کے غیر انسانی اور بہیمانہ حرکتوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور اپنی آنکھوں میں شیطانی چمک کے ساتھ فوجی جوانوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ’شیرا کل رات تیرا اسکور کتنا رہا۔‘ یہاں اسکور سے مراد جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے والی عورتوں کی تعداد سے ہوتی تھی۔

بریگیڈیئر صدیقی لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی فوجیوں کی عورتوں کو بےحرمت کرنے کا دفاع کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ایک فوجی مشرقی پاکستان میں رہے ، لڑے اور مارا جائے اور جنسی عمل جہلم جاکر کرے۔‘

14 دسمبر، 2013

ھائے ! یہ رُسوائی، یہ بے بسی اور یہ بےچارگی


" میدان کے عین درمیان میں لکڑی کی سادہ سی میز رکھی ھے جسکے دونوں طرف بھارتی فوج اور سپاہی الگ الگ قطار میں کھڑے ھیں ، میز کے گرد پہلے جنرل اروڑا بیٹھتے ھیں اور ان کے برابر جنرل نیازی بیٹھ جاتے ھیں۔

یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ ذلّت آمیز لمحہ ھے ، مسّودہ میز پر رکھا ھے، جنرل نیازی کا ہاتھ آگے بڑھتا ھے اور ان کا قلم مسودے پر اپنے دستخط ثبت کر دیتا ھے ۔۔۔ پاکستان کا پرچم سر زمین ڈھاکہ میں سرنگوں ھو گیا ۔۔ جنرل نیازی اپنا ریوالور کھولتے ھیں اور گولیوں سے خالی کر کے جنرل اروڑا کے ہاتھ میں تھما دیتے ھیں ۔۔ جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سر عام اتارے جاتے ھیں ۔ ۔ ۔ ۔

ھجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ھوتی ھے ۔۔ جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف آتے ھیں جسکا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کر رکھا ھے۔۔۔

" قصاب، بھیڑیے اور قاتل" کا شور اُٹھتا ھے ، جنرل نیازی اپنی گاڑی میں بیٹھنے والے ھیں، ایک آدمی محاصرہ توڑ کر آگے بڑھتا ھے ، اور اُن کے سر پر جوتا کھینچ کر مارتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھائے! یہ رُسوائی، یہ بے بسی اور یہ بےچارگی، یہ ذلّت اور یہ ہزیمت، ھماری تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔۔"

( سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک )

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب




مسلم دنیا کی تاریخ کے تین بڑے سانحے ہیں: سقوطِ بغداد، سقوطِ دلّی اور سقوطِ ڈھاکا۔ لیکن ان سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ سقوطِ ڈھاکا ہے۔ اس کی چار وجوہ ہیں:
(1) سقوطِ بغداد اور سقوطِ دلّی داخلی کمزوری کا نتیجہ نہیں تھے لیکن سقوطِ ڈھاکا میں مقامی آبادی دشمن کے ساتھ کھڑی ہوگئی یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا گیا۔
(2) سقوطِ ڈھاکا میں مسلم فوجوں نے تقریباً لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔
(3) سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے دشمن کی قید میں طویل مدت گزاری۔
(4) اس کے باوجود کہ پاکستان کا مغربی بازو پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود رہا، تاہم 42 سال گزرنے کے باوجود نہ سقوطِ ڈھاکا کے ذمے داروں کا تعین ہوا اور نہ اس سلسلے میں کسی کو سزا دی گئی۔

لیکن یہ کہانی شروع کہاں سے ہوتی ہے؟
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب وغریب پہلو یہ ہے کہ ملک اقلیتیں توڑتی ہیں۔ وہ اکثریت کی شکایت کرتی ہیں اور ملک سے الگ ہونے کے لیے کوشاں ہوتی ہیں۔ لیکن مشرقی پاکستان میں اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی، حالانکہ یہ اکثریت برصغیر میں مسلمانوں کے مفادات کے لیے سب سے پہلے آواز بلند کرنے والی اور تحریکِ پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگا دینے والی اکثریت تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ دلّی‘ لاہور‘ کراچی یا پشاور میں نہیں 1906ء میں ڈھاکا میں قائم ہوئی تھی اور اُس کے بانیوں میں بنگالی قائدین کی اکثریت تھی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگال میں انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر کا احساس شدید تھا اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بنگالی مسلمانوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند تھی۔ بنگالیوں کا یہ سیاسی شعور تحریکِ پاکستان میں پوری طرح بروئے کار آیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن بنگالیوں نے 1947ء میں پاکستان بنایا تھا وہ قیام پاکستان کے محض 24 سال بعد پاکستان سے الگ ہونے پر کیوں مائل ہوگئے؟

پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قائداعظم کی اہمیت یہ تھی کہ وہ پاکستان بنانے والے تھے۔ پورے ملک کے عوام پر ان کا گہرا اخلاقی اور تاریخی اثر تھا اور عوام کی عظیم اکثریت ان سے محبت کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم پاکستان کی وحدت و سلامتی کی علامت تھے۔ وہ ہر طرح کی تقسیم سے بلند تھے اور ملک کے تمام طبقات ان پر بھروسا کرتے تھے۔ صرف قائداعظم میں یہ جرأت تھی کہ وہ ڈھاکا میں کھڑے ہوکر کہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ عام طور پر جماعتیں رہنمائوں کے بعد ان کا نعم البدل بن جاتی ہیں، مگر مسلم لیگ کی حالت خستہ تھی اور قائداعظم کے بعد ان کی جگہ لینے کے لیے نہ کوئی شخصیت موجود تھی نہ جماعت۔ لیکن قائداعظم کی عدم موجودگی سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا، 1948ء سے 1971ء تک اسے حقیقت بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی، بلکہ اس کے برعکس ملک کا اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جو سیکولر تھے، لبرل تھے اور جن کو مذہب سے رتی برابر دلچسپی نہیں تھی۔چنانچہ مغربی اورمشرقی پاکستان کے درمیان قربت اور یگانگت کا وہ احساس پیدا ہی نہیں ہوسکا جو اسلام پیداکرتا ہے اور جس نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو نسل، زبان، جغرافیہ اور فرقہ و مسلک سے بلند ہونے پر مائل کیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی کہانی ایک فقرے میں بیان کی جاسکتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان مذہب کی قوت نے بنایا تھا اور مذہب کی قوت کی عدم موجودگی نے پاکستان کو دولخت کردیا۔ لیکن اس کا ذمہ دار مذہب نہیں وہ حکمران طبقہ ہے جس نے پاکستان میں اسلام کو اپنے امکانات ظاہر ہی نہیں کرنے دیے۔ اسلام دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرسکتا تھا تو وہ اس ریاست کو سپر پاور بھی بناسکتا تھا۔ ریاست مدینہ کیا خلافتِ عثمانیہ تک اس کی ٹھوس مثال ہے۔ بعض لوگ مذہب کی اہمیت پر اس اصرار کو ’’مبالغہ آمیز‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں کا مذہب سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو صرف عقائد و عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور جب ا سلام پر عمل ہوتا ہے تو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا پورا سانچہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسلام کا تصورِ عدل ہے جس کے بغیر اسلامی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمیں کہیں بھی عدل نظر نہیں آتا۔

مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اسی اعتبار سے پاکستان کے معاشی اور سماجی کیک سے حصہ فراہم ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان کے لوگوں سے کہا گیا کہ تمہیں مساوات یا Parity کے اصول کو تسلیم کرنا ہوگا اور وسائل میں تمہارا حصہ 54 فیصد نہیں صرف 50 فیصد ہوگا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے اس اصول کو تسلیم کرنا آسان نہ تھا لیکن حسین شہید سہروردی نے پاکستان کی وحدت کے لیے اس اصول کو تسلیم کرنے کی مہم چلائی اور وہ اپنی مہم میں کامیاب رہے۔ لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مساوات کے اصول پر بھی عمل نہ کیا۔ یہاں تک کہ حسین شہید سہروردی کی عزیزہ شائستہ اکرام اللہ نے اپنی کتاب ’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ میں شکایت کی ہے کہ حسین شہید سہروردی نے مساوات کے اصول کے حق میں مہم چلا کر اپنے سیاسی کیریئر کو دائو پر لگایا لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی اُن کی اس خدمت کا اعتراف کرنا تک پسند نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں معاشی استحصال کی شکایات عام ہوگئیں۔ ان شکایات کو عملی زندگی کے تجربات سے تقویت فراہم ہوتی رہی۔ مثال کے طور پر بنگالی‘ آبادی کا 54 فیصد تھے لیکن برّی فوج میں ان کی موجودگی صرف آٹھ دس فیصد تھی۔ فضائیہ میں ان کی موجودگی زیادہ تھی مگر یہ بھی پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان ہجرت کرنے والے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان میں 50 تھانے تھے تو صرف پانچ چھ تھانوں کے سربراہ بنگالی تھے۔ باقی تھانوں کے ایس ایچ اوز پنجابی‘ پٹھان یا مہاجر تھے۔ پاکستان کی نوکر شاہی کا معاملہ بھی یہی تھا۔ بیوروکریسی میں بنگالیوں کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ یہ صورت حال بنگالی 24 سال تک اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، چنانچہ اُن میں مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف ردعمل پیدا ہونا فطری بات ہے۔ جنرل یحییٰ خان نے فوج میں بنگالیوں کی کمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، مگر اُس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور جنرل یحییٰ کے اضافے سے بھی بنگالیوں کا فیصد برّی فوج میں دس سے بڑھ کر پندرہ بیس فیصد ہوجاتا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے پاکستان‘ اس کی فوج‘ اس کی پولیس اور اس کی بیوروکریسی پنجابیوں‘ پٹھانوں اور مہاجروں کو ’’جہیز‘‘ میں ملی تھی اور اس جہیز میں بنگالیوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم کاز کے لیے بنگالی 1906ء سے جدوجہد کررہے تھے جبکہ پنجاب میں1946ء تک یونینسٹوں اور صوبہ سرحد پر سرحدی گاندھی کا قبضہ تھا۔ لیکن ناانصافی سے بھی زیادہ افسوس ناک چیز بنگالیوں کی تذلیل اور تحقیر تھی۔

اس تحقیر کا ایک پہلو ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ تھا جس کے تحت صرف چھ فٹ کے جوان فوج کے لیے موزوں سمجھے جاتے تھے، جبکہ بنگالی پستہ قد تھے، چنانچہ وہ پنجابیوں‘ پٹھانوں اور مہاجروں کے برابر ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ تحقیر مغربی پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص فوجیوں میں اوپر سے نیچے تک موجود تھی۔ ایم ایم عالم پاک فضائیہ کے بے مثال شاہین تھے۔ انہوں نے 1965ء کی جنگ میں دو منٹ میں بھارت کے چار جہاز گرائے تھے اور یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ چند سال پہلے وہ اے آر وائی پر انٹرویو دیتے ہوئے بتارہے تھے کہ جنرل ایوب کو جب میرے کارنامے کی اطلاع دی گئی تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ کارنامہ انجام دینے و الا بنگالی ہے تو اُن کا چہرہ سرخ سے سیاہ ہوگیا۔ یعنی انہیں یہ بات پسند نہ آئی۔ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ سقوطِ ڈھاکا سے کافی عرصہ پہلے ڈھاکا پہنچے تو ہوائی اڈے پر ایک بنگالی نے ان کے لیے قلی کا کام انجام دیا۔ صدیق سالک نے اس بنگالی کو کچھ پیسے دینے چاہے تو ان کو ہوائی اڈے پر “Recieve” کرنے والے فوجی افسر نے کہا: ’’سر، ان حرام زادوں کا دماغ خراب نہ کریں‘‘۔ یعنی ہمارے فوجی افسر کے لیے ایک عام بنگالی ’’حرام زادہ‘‘ تھا۔ جنرل رائو فرمان علی مشرقی پاکستان کا ایک اہم کردار تھے۔ انہوں نے کئی برس پہلے ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران میرے گھر میں کام کرنے والی ماسی نے مجھ سے کہا کہ صاحب آپ ’’غداروں‘‘ کا سر کچل دیں۔ یعنی بنگالیوں کے غدار ہونے کی داستان ان کے ’’غدار‘‘ بننے سے پہلے ہی عام کردی گئی تھی اور اس غداری کی اطلاع ’’ماسیوں‘‘ تک کو ہوگئی تھی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بنگالیوں کی تذلیل کا کیسا سلسلہ مدتوں سے جاری تھا۔ اسلام نسل‘ رنگ‘ جغرافیے اور زبان کے جن بتوں کو توڑتا ہے پاکستان کے حکمران طبقے کے اراکین مشرقی پاکستان میں ان تمام بتوں کی پوجا کررہے تھے۔


مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ تھا مگر اس کے باوجود مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے یہ تصور عام کیا ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں وہ فوجی قوت موجود ہی نہ تھی جو مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ناگزیر تھی۔ اس پہ طرہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں تعینات فوجی مشرقی پاکستان کو اپنا گھر ہی نہیں سمجھتے تھے۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ میں ڈھاکا پہنچا تو مجھے میرے فوجی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ رہنے کے لیے بھاری سامان نہ خریدنا کیونکہ پتا نہیں ہمیں کس وقت یہاں سے جانا پڑ جائے۔ چند برس پہلے جنرل (ر) حمیدگل سے ایک انٹرویو کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ ہماری فوج کا ڈسپلن بڑا زبردست ہے، یہ ٹوٹتا نہیں ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ کیسا ڈسپلن ہے کہ ملک ٹوٹ جاتا ہے مگر ڈسپلن نہیں ٹوٹتا! جنرل (ر)   حمیدگل نے ہمارا سوال سنا تو کہنے لگے کہ آپ کے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس مثال کو مشرقی پاکستان کے حالات پر منطبق کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہتھیار ڈالنے والے 90 ہزار فوجیوں میں ایسے دس پندرہ ہزار فوجی تو ضرور ہونے چاہیے تھے جو کہتے کہ ہمارا ملک ٹوٹ رہا ہے اس لیے ہم مرجائیں گے مگر دشمن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ لیکن ادھر جی ایچ کیو سے ایک حکم آیا اور اُدھر تمام فوجیوں نے ڈسپلن کی پاسداری کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ بلاشبہ دس پندرہ ہزار فوجیوں کے ہتھیار نہ ڈالنے سے کچھ نہ ہوتا، لیکن ایک مثال تو قائم ہوتی اور ہم آج فخر سے کہتے کہ ہمارے کچھ فوجیوں نے مشرقی پاکستان کا دفاع ٹھیک اس طرح کیا جس طرح مادرِ وطن کا دفاع کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر کا دفاع کیا جاتا ہے۔

جمہوریت کا اصول اکثریت ہے اور 1970ء کے انتخابات میں اکثریت شیخ مجیب الرحمن کو حاصل ہوگئی تھی، چنانچہ انہیں ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اقتدار منتقل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہ بھٹو نے اُن کی اکثریت کو تسلیم کیا، نہ جنرل یحییٰ نے۔ لیکن اس صورتِ حال کے اصل ذمے دار جنرل یحییٰ تھے۔ فوج ان کے ہاتھ میں تھی، اکثریت کا اصول ثابت ہوچکا تھا، چنانچہ اگر وہ بھٹو سے کہتے کہ شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرو تو بھٹو کے پاس اُن کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا، بالخصوص اس صورت میں جب کہ بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان شیخ مجیب کے چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر اتفاقِ رائے کی خبر گرم تھی۔ لیکن جنرل یحییٰ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ لوگ کہتے ہیں سقوطِ ڈھاکا کے ذمے دار تین لوگ ہیں: اندرا گاندھی، بھٹو اور یحییٰ۔ لیکن اگر ایسا ہے تو بھٹو اور یحییٰ پر کبھی ملک توڑنے کے الزام میں مقدمہ کیوں نہیں چل سکا؟ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو ایک شخص کے مشتبہ مقدمے میں سزائے موت دے دی لیکن ان پر سقوطِ ڈھاکا میں ملوث ہونے کا الزام کبھی نہیں لگایا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ جنرل ضیاء الحق بھٹو پر ملک توڑنے کا مقدمہ چلاتے تو پھر ان کے فوجی بھائیوں کا کردار بھی ضرور سامنے آتا۔ بلاشبہ بھارت کی مداخلت کے بغیر مشرقی پاکستان الگ نہیں ہوسکتا تھا مگر بھارت کی مداخلت کے لیے سازگار حالات ہمارے حکمرانوں نے خود پیدا کیے تھے۔ بھارت پہلے دن سے پاکستان کی تاک میں تھا اور مشرقی پاکستان میں ہندوئوں کی بڑی آبادی تھی، چنانچہ ہمیں مشرقی پاکستان کو زیادہ محبت‘ زیادہ انصاف اور زیادہ مہربان بن کر چلانا چاہیے تھا، لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس کے برعکس طریقے سے مشرقی پاکستان کو چلایا۔ المناک بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں خلیج حائل تھی اورہمارے ذرائع ابلاغ مشرقی پاکستان میں سب ٹھیک ہے کا سرکاری راگ الاپ رہے تھے، چنانچہ سقوطِ ڈھاکا ہوا تو مغربی پاکستان کے لوگ حیران رہ گئے۔

لیکن سقوطِ ڈھاکا کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس کہانی کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو اس طرح فراموش کیا جیسے 16 دسمبر 1971ء کو ملک نہ ٹوٹا ہو، قمیض کا بٹن ٹوٹا ہو۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو متحدہ پاکستان کی جنگ صرف جماعت اسلامی نے لڑی۔ اس کے رہنمائوں اورکارکنوں نے ملک بچانے کے لیے 1971ء میں بھی قربانیاں دیں اور اس کے بعد فوج کا ساتھ دینے کے طعنے سہے، یہاں تک کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں آج بھی پاکستان کے تحفظ کی جنگ کی قیمت ادا کررہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس کے رہنمائوں پر جھوٹے مقدمات چلارہی ہے اور خود ساختہ عدالتیں انہیں موت اور عمرقید کی سزائیں سنا رہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اور حکومت جس طرح 1971ء میں جماعت اسلامی کو تنہا چھوڑ کر فرار ہوئی تھیں اسی طرح آج حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ اظہارِ ہمدردی تک کی توفیق فراہم نہیں۔ یہ سقوطِ ڈھاکا کا تسلسل نہیں تو اور کیا ہے؟

شاہنواز فاروقی