ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

16 دسمبر، 2013

رات تیرا اسکور کتنا رہا



بریگیڈیئر اے آر صدیقی، جو پاکستان کے معروف دفاعی تجزیہ نگار اور صحافی ہیں، مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور اس کے پاکستان سے علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بننے کے زمانے میں حکومت کا حصہ تھے اور اب انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کو بالآخر ’ایسٹ پاکستان۔ دی اینڈ گیم: این اونلُکرز جرنل‘ کے نام سے کتابی شکل دی ہے۔

بریگیڈیئر صدیقی کی کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس سے مشرقی پاکستان کے واقعات ہی نہیں بلکہ فوجکی سیاست میں ملوث ہونے اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی سوچ بھی واقعات کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ کس طرح یحیی خان اقتدار سنبھالنے سے ایک ماہ پہلے ہی ایوب خان کو ہٹا کر مارشل لا لگانا چاہتے تھے اور وہ سیاستدانوں کو بھیڑیے اور جوکرز قرار دیا کرتے تھے۔

بریگیڈیئر صدیقی نے بہت تفصیل سے نو ماہ تک ہونے والے فوجی کارروائی اور قتل و غارت کی کہانی بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح فوج کے بعض افسر بنگالیوں کو سبق سکھانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
اس ضمن میں انہوں نے اس وقت ڈھاکہ میں تعینات میجر جنرل محمد حسین انصاری کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں فوج کی زیادتیوں پر نالاں تھے اور ان سے کہتے تھے کہ ہمیں ہر عورت سے ہونے والے زنا بالجبر اور ہر قتل کا حساب دینا پڑے گا۔
اس کے برعکس مشرقی پاکستان میں فوج کے کمانڈر جنرل اے کے نیازی کے بارے میں صدیقی لکھتے ہیں کہ وہ جوانوں کے غیر انسانی اور بہیمانہ حرکتوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور اپنی آنکھوں میں شیطانی چمک کے ساتھ فوجی جوانوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ’شیرا کل رات تیرا اسکور کتنا رہا۔‘ یہاں اسکور سے مراد جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے والی عورتوں کی تعداد سے ہوتی تھی۔

بریگیڈیئر صدیقی لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی فوجیوں کی عورتوں کو بےحرمت کرنے کا دفاع کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ایک فوجی مشرقی پاکستان میں رہے ، لڑے اور مارا جائے اور جنسی عمل جہلم جاکر کرے۔‘

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں