ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

30 نومبر، 2012

دو سو گدھوں کی عقل مل کر انسانی عقل کے برابر نہیں ہوسکتی

گریز از طرزِ جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمے آید
 علامہ اقبال
--------------------------------------------------
” جمہوری نظام سے دور بھاگواور کسی صاحب ِ کردار، صاحب ِعلم وعمل پختہ کار کو اپنا رہبر بناﺅ ۔ کیونکہ دو سو گدھوں کی عقل مل کر انسانی عقل کے برابر نہیں ہوسکتی“
------------------
Flee from the Mechanizations of democracy, follow an experienced sage

For the brains of two hundred donkeys cannot produce the wisdom of one man
 


28 نومبر، 2012

اتنے گھاٹے کی ’چوائس‘بھی کر لو گے کیا؟


چوائس‘Choice
تم جو بے چارگی کی حدوں سے پرے 
بے ضمیری کے قدموں کو چھونے لگے 
جب لٹیرے دریچوں تلک آ گئے
تم نے بھائیوں کی گردن کو آگے کیا 
اپنےبوٹوں‘ پہ گرد آ نہ جائے کہیں 
آنچلوں کو دوپٹوں کو صافی کیا!
تم یہ کہتے ہو چوائس‘  بچی ہی نہ تھی 
میں یہ کہتا ہوں چوائس‘کبھی بھی نہ تھی! 
(بیچ ایمان اور کفر کے، کوئی چوائس بھی ہے؟) 

اے بھلے مانسو!
رک کے سوچو ذرا!
باب تاریخ میں ہم نے اکثر پڑھا
قوم کی زندگی میں کسی موڑ پر 
ایسے لمحے آ چکے بارہا
جب کہیں کوئی چوائس‘بھی بچتی نہی!
جیسے گھر میں تمھارے جو ڈاکو گھسیں 
اور تم کو سرِ  بابآرڈر یہ دیں 

اک ذرا ہٹ رہو 
(ساتھ بلکہ ہمارا بھی دو!)
ہم نے اس گھر کو تاراج کرنا ہے اب
آنچلوں کو بھی ہاں_______نوچ ڈالیں گے ہم 
جس کو چاہیں گے اس کو اٹھا لیں گے ہم

نوکِ خنجر پہ ہی پھر وہ تم سے کہیں 
 ایک لمحہ بچا ہے کہ چوائس کرو
 تم____یا گھر یہ تمہارا____ذرا سوچ لو!؟
پھر بتاؤ مجھے_____ اے کہ دانشورو!
اپنے بھائیوں کی گردن
 بہن کی ردا
اپنے قاتل کو تم پیش کر دو گے کیا؟
ذلتوں کے عوض_____ اپنی جاں کی اماں 
اتنے گھاٹے کی چوائس‘بھی کر لو گے کیا؟

٨ اکتوبر ٢٠٠١ جب ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ امریکہ کی صلیبی یلغار کا حصّہ بن گیا اور افغانستان کی اسلامی امارت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلم ممالک پر کفار کے عملی قبضے کے ایک نئے تاریک باب کا آغاز ہو گیا!
کتاب: تمہارا مجھ سے وعدہ تھا!
عنوان: سقوطِ کابل
شاعر: انجینئر احسن عزیز شہید 

27 نومبر، 2012

ملالہ پر حملہ! تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو(ویڈیو+ کالم )


Video documentary: Conspiracy Behind Attack on Malala Yousufzai

English translation of this article with English version of documentary

ملالہ پر حملہ … تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

شاہنواز فاروقی


٩ اکتوبر 2012 ء کو ملالہ یوسف زئی اور اس کی دو ساتھیوں پر حملہ ہوا تو یہ قتل کی ان ہزاروں ’’عام وارداتوں ‘‘میں سے ایک واردات تھی جو گزشتہ 25 سال سے پاکستان میں ’’معمول‘‘ بنی ہوئی ہیں اورجن کے نتیجے میں اب تک 50 ہزار سے زیادہ پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ لیکن چند ہی گھنٹوں میں ملالہ پر حملے کی خبر پاکستان کیا دنیا کی ’’سب سے بڑی خبر‘‘ بن گئی اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملالہ پر نہیں امریکہ کے صدر پر قاتلانہ حملہ ہوگیا ہے جس نے پاکستان‘ امریکہ اور دیگرمغربی ملکوں کی سیاست اور معیشت میں ایک زبردست بحرانی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ملالہ پر حملے کا یہی وہ پہلو ہے جس نے چند ہی گھنٹوں میں پورے واقعے کو مشتبہ بنا کر اس کی ’’تعبیر‘‘ کو بدل ڈالا ہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ملالہ کے واقعے نے اس شعر کو جس طرح ’’مجسم‘‘ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس وقت ملالہ پر حملہ ہوا اس وقت کہا جاسکتا تھا کہ اس واقعے میں کوئی بھی ملوث ہوسکتا ہے لیکن اس واقعے پر جس طرح کا ردعمل سامنے آیا اسے دیکھ کر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملالہ اور اس کی دو معصوم ساتھیوں کو امریکہ اور اس کی مقامی ایجنٹ ایجنسیوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر کے اپنی گولیوں کا نشانہ بنالیا ہے اور اب وہ اس واقعے کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے بروئے کار لانے کے یے کوشاں ہیں۔ لیکن اس دعوے کی دلیل کیا ہے۔

اس واقعے کی دلیل یہ ہے کہ جیسے ملالہ پر حملے کی خبر آئی تو صدر امریکہ بارک حسین اوباما نے واقعے کی مذمت فرمائی اسے بدمزہ کرنے والا واقعہ قرار دیا  اور کہا کہ امریکہ ملالہ کے علاج معالجے کے لیے ہرممکن مدد کے لیے تیار ہے۔ اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر امریکہ اتنا ’’فارغ‘‘ ہے کہ وہ پاکستان میں تین بچیوں پر حملے کی مذمت کے لیے دستیاب ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی صدر امریکہ ہے جس نے پاکستان کے سلالہ ایئربیس پر امریکہ کے حملے اور وہاں دو درجن پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر اظہار افسوس سے بھی صاف انکار کردیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ وہی صدر امریکہ ہے جس نے ریمنڈڈیوس جیسے مجرم کی باعزت امریکہ واپسی کا اہتمام کرتے ہوئے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کو پامال کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ تو کیا زخمی ملالہ امریکہ کے صدر کے لیے دو درجن پاکستانی فوجیوں سے زیادہ قیمتی ہوگئی ہے؟ اور کیا ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے اور سلالہ پر حملے کی مذمت کرنے والا صدر امریکہ دو مختلف افراد سے عبارت ہے؟ لیکن یہ تو ملالہ پر حملے کے حوالے سے ہونے والے سیاسی اور ابلاغی تماشے کی محض ابتداہے۔

9
اقوام متحد ایک عالمی تنظیم ہے اور اس کے پاس کرنے کے لیے ہزاروں کام ہیں۔ دنیا میں روزانہ ہزاروں بے گناہ افراد جرائم پیشہ عناصر کا نشانہ بنتے ہیں مگر اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل ان کا نوٹس تک نہیں لیتا یہاں تک کہ اس کے پاس فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کا ’’نوٹس‘‘ لینے کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ لیکن ملالہ پر حملہ ہوتے ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون بھی متحرک ہوگئے۔ انہوں نے ملالہ پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ تعلیمی حقوق سے متعلق ملالہ کی مہم سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ بان کی مون کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ ملالہ سے برسوں سے واقف تھے اور ’’گہری نظر سے‘‘ ملالہ کی جدوجہد کا ’’مشاہدہ‘‘ و ’’مطالعہ‘‘ کررہے تھے۔ اور کیوںنہ کرتے ،ملالہ نے لڑکیوں میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے جو جدوجہد کی ہے اس کی کوئی مثال گزشتہ سو سال میں سامنے نہیں آسکی ہے؟ امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی ملالہ پر حملے کی مذمت کی اور اسے افسوسناک قرار دیا۔
امریکہ کے سابق صدر جارج بش کی اہلیہ لارا بش ملالہ پر حملے سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے امریکہ کے ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک پورا مضمون اس حوالے سے لکھ ڈالا اس مضمون میں انہوں نے فرمایا کہ ملالہ انہیں کیا پوری دنیا کو Inspireکررہی ہے۔ آدمی کو کسی سے Inspire ہونے کے لیے دہائیاں یا کم از کم دوچا ربرس درکار ہوتے ہیں۔ مگر لارا بش ملالہ سے اس پر حملے کی خبر سنتے ہی Inspire ہوگئیں۔ لارا بش سے پوچھا جاسکتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی جنگ میں مارے جانے والے 30 ہزار پاکستانیوں سے وہ کتنا Inspireہیں؟ اگر وہ زخمی ملالہ کے لیے ایک مضمون لکھ سکتی ہیں تو 30ہزار پاکستانیوں کے لیے تو انہیں اب تک انسائیکلوپیڈیا مرتب کردینا چاہیے تھا۔ مگر ہم نے آج تک اس سلسلے میں ان کی جانب سے ایک لفظ کو بھی منظر عام پر آتے نہیں دیکھا۔ نیویارک سے امریکی سینٹ کی رکن کرسٹین گلی برینڈ نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ملالہ سے بہت متاثر یا Inspire ہیں اور ملالہ نے ایک فرد کی قوت کو ظاہر کیا ہے۔ عمران خان کی سابق شریک حیات جمائماخان نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملالہ پر حملہ کرنے والے طالبان نامی قصائیوں کی سب ہی کو مذمت کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سوسان رائس بھی ملالہ پر حملے کے حوالے سے چیخ اٹھیں اور انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل ملالہ سے وابستہ ہے امریکی کانگریس کی رکن سوسات ڈیوس نے فرمایا کہ آج ہم سب ملالہ بنے ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا کی سینیٹ کی رکن کرسٹین مل نے فرمایا کہ بچیوں کے عالمی دن کے موقع پر آیئے ہم سب ملالہ کی تکریم کریں۔ امریکہ کے ممتاز اخبار نیویارک ٹائمز نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے پورا اداریہ سپرد قلم کیا ہے اور کہا کہ پاکستان کا اگر کوئی مستقبل ہے تو ملالہ اس کی علامت ہے۔ امریکہ کے ممتاز Forbes میگزین نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمت اور اخلاقی جرأت کی علامت ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کی ممتاز گلوکارہ میڈونا بھی پاکستان پر اتنی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ جیسے ہی ملالہ پر حملہ ہوا انہیں اس کی اطلاع ہوگئی۔ اس وقت وہ ایک کنسرٹ میں تھیں اور انہوں نے اپنا ایک گیت ملالہ کے نام کردیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ملالہ زندہ ہے لیکن امریکہ کی جنگ میں 30 ہزار پاکستانی مارے جاچکے ہیں مگر افسوس میڈونا کو ان میں سے کوئی پاکستانی بھی اس لائق محسوس نہ ہوا کہ وہ اپنا ایک گیت اس کے نام کردیتیں۔

یہ ملالہ کے حوالے سے مغرب میں سامنے آنے والے ردعمل کی محض ایک ’’جھلک‘‘ہے اور اس جھلک سے ظاہر ہے کہ جو کچھ ہوا امریکی سی آئی اے اوربلیک واٹر کی منصوبہ بندی سے ہوا۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ 65 برسوں پر محیط ہے ان 65 برسوں میں کیا نہیں ہوا۔ بھٹو صاحب جیسے لیڈر کو پھانسی ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ بے نظیر بھٹو جیسی مقبول رہنما دن دہاڑے قتل کردی گئیں، یہاں تک کہ 1971 ء میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا مگر امریکہ اور دیگر اہل مغرب کو پاکستان یا کسی پاکستانی کے لیے اس طرح تڑپتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ لیکن ملالہ کے حوالے سے صرف مغرب کا ردعمل ہی اہم نہیں۔

ملالہ پر حملے نے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کو بھی ’’ہلاکر‘‘ رکھ دیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی ملالہ کے زخمی ہونے سے اتنے ’’غم زدہ‘‘ ہوئے کہ وہ ملالہ کی خیریت معلوم کرنے اور اس کے علاج معالجے کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے بہ نفس نفیس اسپتال پہنچے۔ امریکہ کے ڈرون حملوں سے اب تک ہزاروں پاکستانی اور درجنوں بے گناہ اور معصوم بچے اور عورتیں شہید ہوچکی ہیں۔ مگر جنرل پرویز کیانی ان شہیدوں کے گھر تو کیا جاتے انہوں نے شہداء کے ورثاء کے نام ایک تعزیتی خط تک نہیں لکھا۔ یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ملالہ کے ساتھ دو اور معصوم بچیاں بھی زخمی ہوئی ہیں۔ جنرل کیانی ان کی بھی عیادت کرلیتے توان کا کیا بگڑ جاتا مگر تماشے کا اہتمام تو معصوم ملالہ کے حوالے سے ہوا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملالہ کے حوالے سے امریکی سی آئی اے ‘بلیک واٹراور آئی ایس آئی ایک ہی دائرے میں رقص کناں ہیں۔

ملالہ پر حملے کے حوالے سے راجہ پرویز اشرف اور ان کی حکومت جو ’’زندہ درگور‘‘ کا منظر پیش کررہی تھی اچانک ’’چھلانگ‘‘ مار کر سامنے آگئی۔ راجہ پرویز اشرف نے سیاست دانوں کی ایک فوج کے ساتھ ملالہ کی عیادت کی اور فرمایا کہ یہ پاکستان ’’ملالہ‘‘ کا پاکستان ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو اقبال اور قائداعظم کا کیا بھٹو کا پاکستان بھی نہیں بناسکے، وہ کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ملالہ کا پاکستان ہے؟ راجہ پرویز اشرف کو یہ بات کہنے سے پہلے بتانا چاہیے کہ انہوں نے دو سال مسلسل آنے والے سیلاب سے ہلاک اور بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ بے یارو مددگار چھوڑے اور انہوں نے پاکستان کو لاکھوں بے گناہ لوگوں کا پاکستان کیوں نہیں بنایا؟ انہوں نے پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والے 25ہزار عام شہریوں اور 5 ہزار فوجیوں کا پاکستان کیوں نہیں بنایا؟ انہوں نے امریکہ کے ڈرونز سے شہید ہونے والے ہزاروں پاکستانیوں کی موت کو محض ’’رجسٹر‘‘ بھی کیوں نہیں کیا؟

اس حوالے سے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی اکھاڑے میں کود پڑے۔ انہوں نے فرمایاکہ علما یا تو ملالہ پر حملہ کرنے والوں کی مذمت کریں ورنہ ایم کیو ایم انہیں “Expose” کردے گی۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ ایسے اماموں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں جو ملالہ پر حملے کی مذمت نہیں کرتے۔ اہم با ت یہ ہے کہ یہ باتیں ایک ایسا رہنما کررہا ہے جس پر کراچی میں 20ہزار انسانوں کے قتل کا جواب واجب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سارے تماشے کا سبب کیا ہے؟9 اکتوبر کو ملالہ پر حملہ ہوا اور 12 اکتوبر کو پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہ اکہ شمالی وزیرستان میں موجود طالبان اتنے گھنائونے ہیں خہ وہ مذاکرات کے لائق نہیں ہیں اور 13 اکتوبر کو یہ اطلاع آگئی کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا حتمی فیصلہ ہوا ہے مگر یہ فیصلہ فارمیشن کمانڈروں کی دو روزہ کانفرنس میں کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کے اس بیان میں بڑی صداقت ہے کہ سوات آپریشن سے پہلے ایک ویڈیو آئی تھی جس میں نامعلوم طالبان ایک لڑکی کو کوڑے مارتے دکھائے گئے تھے۔ بعد میں ویڈیو کا جعلی ہونا ثابت ہوگیا مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے اس ویڈیو کی بنیاد پر طالبان کے خلاف ملک میں ایک فضا تیار کردی۔ ٹھیک یہی صورتحال اس وقت ہے۔ پاکستان کی فوجی اور سول قیادت شمالی وزیرستان میں مجاہدین کے خلاف امریکہ کی ہدایت پر فوجی آپریشن کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اسے ایک ایسی فضا درکار ہے جس میں وہ شمالی وزیرستان میں جو چاہے کریں۔ اس کام کے لیے امریکہ اور اس کے مقامی آلۂ کاروں نے معصوم ملالہ کو ڈھال بنالیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ملالہ بچیوں کی تعلیم کے لیے بہت کام کررہیت ھی اور وہ ملک میں بچیوں کی تعلیم کی علامت تھی لیکن کراچی اور پورے ملک میں ایسے ایک درجن علمائ‘ دانشوروں اور صحافیوں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جنہوں نے ملک میں علم ‘ تعلیم اور شعور کو عام کرنے کے لیے زندگی وقف کی ہوئی تھی مگر وہ ’’نامعلوم افراد‘‘کے ہاتھوں مارے گئے اور ان کے قتل نے ملک کے کسی اخبار میں شہہ سرخی بھی تخلیق نہ کی۔ لیکن ملالہ 9 اکتوبر 2012 ء سے تادم تحریر یعنی 13 اکتوبر 2012 ء تک قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر چھائی ہوئی ہے کیا اس فرق کا مفہوم واضح نہیں؟ کیا یہ فرق باشعور لوگوں کو کچھ بھی سوچنے پر مجبور نہیں کررہا؟

پاکستان کے حکمران کہہ رہے ہیںکہ طالبان بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اس بیان کی تصدیق یا تردید کے لیے طالبان کا کوئی مستند نمائندہ دستیاب نہیں۔ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے مگر اس کے باوجود پاکستان کے 60 فیصد لوگ جن میں خواتین کی اکثریت ہے ناخواندہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا سبب بھی ’’طالبان‘‘ ہیں؟ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے مگر پاکستان کی70 فیصد آزادی خط غربت سے نیچے کھڑی ہے۔ کیا اس کی وجہ بھی ’’طالبان‘‘ ہیں؟ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے اورپاکستان کے 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس کے ذمے دار بھی طالبان ہیں۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے مگر پاکستان کی 70  فیصد آبادی کو علاج معالجے کے لیے ایک سند یافتہ ڈاکٹرمیسر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کارنامہ بھی طالبان نے انجام دیا ہے؟ پاکستان کے جرنیل بھارت اور امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم کو فتح کرتے ہیں مگر اس کے باوجود قوم کے بجٹ کا 50 فیصد ہڑپ کرجاتے ہیں کیا اس کا سبب بھی ’’طالبان‘‘ ہیں؟ آخر پاکستان کا حکمران طبقہ کس منہ سے طالبان کو بڑا خطرناک اور دقیانوسی ثابت کررہا ہے؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ طالبان نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے بلکہ حکومت نے تو دعویٰ کردیا ہے کہ اس نے حملہ آوروں کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ طالبان ایک زیر زمین تحریک ہے اور ایسی تحریکوں کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان کا حقیقی ترجمان اور حقیقی نمائندہ کون ہے۔ جو طاقتیں جھوٹ کی بنیاد پر بڑی بڑی جنگ ایجاد کرتی ہیں ملک توڑتی اور بناتی ہیں ان کے لیے ’’جعلی طالبان ‘‘تخلیق کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ البتہ امت مسلمہ کا اجتماعی شعور اور اجتماعی ضمیر جن طالبان کو خوب پہچانتا ہے وہ ‘ وہ ہیں کے جن کے امیر ملا عمر نے بدترین خانہ جنگی کی شکار افغانستان میں امن قائم کیا۔ انسانی جان کی حرمت بحال کی۔ سادگی اور قناعت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ امت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اور اجتماعی شعور ان طالبان کو خوب جانتا ہے جنہوں نے 11 ستمبر کے بعد وقت کی واحد سپر پاور امریکہ سے خوفزدہ ہونے سے صاف انکار کردیا‘ یہ وہ وقت تھا جب عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت پاکستان کے حکمران ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کررہے تھے اور ملا عمر علامہ اقبال کے اس شعر کی زندہ مثال بنے کھڑے تھے کہ
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

امت مسلمہ کا اجتماعی شعور اور اجتماعی ضمیر ان طالبان کو بھی خوب پہچانتا ہے جنہوں نے افغانستان میں مٹھی بھر مجاہدین کی طاقت کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کیا۔ یہاں تک کہ طالبان کو وحشی اور درندے کہنے والا امریکہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگتا نظر آیا۔ طالبان کے تصور دین میں نقص ہوسکتا ہے۔ ان کی فکر میں خامی اور کمی ہوسکتی ہے لیکن طالبان پر تنقید کے لیے ایک ایسی بلند اخلاقی اور عالمی سطح درکار ہے جو پاکستان کے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کے پاس نہیں ہے۔ ملالہ اور اس کی دو دیگر ساتھیوں کا دکھ بجا ہے ان کے ساتھ جتنی ہمدردی کی جائے کم ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے 12 اکتوبر کو جاری ہونے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بلوچستان میں ایجنسیوں کی مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت مل گئے ہیں اور بلوچستان میں 300 ’’ملالائیں‘‘ غائب ہیں۔ پاکستان کے اخبارا ت اور پاکستان کے ٹیلی وژن ان 300ملالائوں کے غم میں کب دن رات ایک کریں گے؟ اب تک تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے ان ’’ملالائوں‘‘ کا ایک فیصد غم بھی نہیں منایا ہے۔ حالانکہ ان ’’ملالائوں‘‘ کو غائب ہوئے مہینوں ہوگئے ہیں۔ جہاں تک مغرب کے ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو ان کا ’’ریکارڈ‘‘ یہ ہے کہ یورپ کے قلب میں موجود بوسنیا ‘ہرزیگووینامیں سرب درندوں نے ساڑھے تین سال میں ہزاروں ’’ملالائوں‘‘ کی عصمتوںکو تار تار کیا اور ان میں سے بہت سوں کو مار ڈالا مگر امریکہ اور یورپ کے ذرائع ساڑھے تین سال میں ایک ’’ملالہ‘‘ کے ساتھ ہونے والے ظلم کو بھی رپورٹ نہ کرسکے۔ کشمیر میں گزشتہ 25 سال کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹی اور بڑی عمر کی ’’ملالائیں‘‘ بھارتی فوجیوں کی ہوس کا نشانہ بن گئیں مگر ان میں سے ایک ’’ملالہ‘‘ کبھی مغربی ذرائع ابلاغ میں جگہ نہ پاسکی۔ اسرائیل نے چند سال پہلے چھ ماہ کے دوران غزہ میں اسکول جاتے ہوئے ڈھائی سو بچوں اور بچیوں کو گولی مار کر ہلاک کیا مگر ان میں سے بھی تو کوئی بھی ’’ملالہ‘‘ نہ بن سکی۔ آیئے گزشتہ سطور میں لکھے گئے شعر کو پھر دہرائیں۔

خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو



Tags:
Malala, yousafzai, drama, exposed, shahnawaz farooqi, video, conspiracy attack, 

Conspiracy Behind Attack on Malala Yousufzai


Conspiracy Behind Attack on Malala Yousufzai

By: Shahnawaz Farooqui






On 9th October, 15-year old Malala Yousufzai and her two friends were attacked in Swat valley. Then within few hours, this news became biggest news story of the world.... and it seemed as if this attack was not carried out on Malala, rather US president was attacked.

As the report of attack on Malala surfaced, the President Barrack Obama condemned the act... and said that America was ready for every possible help for the treatment of Malala... this reaction shows that the US president is so free that it is just round the corner to condemn the attack on three girls in Pakistan...

This is the same Obama who had categorically refused to say sorry at deaths of over two dozen Pakistani soldiers in US attack on our Salala chekpost... this is the same American president who did not feel a bit embarrassment in trampling the freedom and sovereignty of Pakistan by making efforts for the safe return of CIA agent Raymond Davis...What does it mean? Is wounded Malala more valuable than the lives of 25 Pakistani soldiers?... but...this is beginning of the show....

United Nation is an international organisation and it has several tasks to performs on daily basis... thousands of innocent people across the world become victim of criminal elements daily.... but the UN Secretary General, Ban ki moon, never took notice of those incidents.... even he doesn’t have time to take notice of serious issues like Palestine and Kashmir... however, as the attack is carried out on Malala, Ban ki moon, too, becomes active.....

He condemned the attack and said that he was inspired by the Malala’s so-called campaign for the rights of education, especially girls education... this statements indicates that he had been familiar with Malala for several years and had been observing with keen eye.... but why??....Was Malala doing such a struggle that has no match or example in history of hundreds of years...

The US Secretary of States, Hillary Clinton, has also decried the attack on Malala...and has termed it as awful.... Former US President George Bush’s wife Lara Bush became so stirred with the attack that she wrote a full length essay on the incident in the Washington Post, saying that Malala was not only a source of inspiration of her but for the entire world as well...

We think a person needs at least two to four years to get inspired by someone..... but, Lara Bush, as soon as she heard the news, got inspired...that’s amazing, Lara Bush can be asked that how much was she inspired by the deaths of thirty thousand Pakistanis in Unites State’s so-called war on terror after 9/11?....If she can write a column on wounded Malala, then she should have compiled an encyclopaedia on those thirty thousand Pakistanis....

Commenting on attack on Malala, Pakistani politician Imran Khan’s former wife Jamamia khan said that.... everyone must denounce cruel Taliban who attacked Malala.

A well-known US newspaper New York Times penned down a whole editorial in this regard.... and said that if Pakistan has a future, then malala is it’s symbol... even the US noted signer Madonna, too, has deep observation on Pakistan that as soon as Malala was attacked, she got to know about it.... she was at a concert that time... she got a Malala tattoo and dedicated a song to her struggle... thank God Malala is alive!!... though, over thirty thousand Pakistani people have died in the US war but, regrettably, none qualified for Madonna’s concerns... that she could dedicate her song to them... this whole progression shows that whatever happened.... was as per planning of the CIA and Black Water....

In Pakistan, a leader like Zulfiqar Ali Bhutto was hanged... General Zia ul Haq died in a plane crash... noted leader Benazir Bhutto was killed in broad daylight... even Pakistan disintegrated in 1971.... But, US and the whole Europe was never seen worrying for Pakistan or any Pakistani....

The attack on Malala has shaken military and the civil leadership.... army chief General Ashfaq Pervez Kayani was so moved with the grief over injuries of Malala that he himself visited the hospital to inquire her health... and inspect the matters of treatment....

Thousand of Pakistanis and dozens of innocent children and women have been martyred in drone attacks.... but, not to talk of Kayani’s visit to their homes.... he even never bothered to write a single condolence letter to the heirs of those martyrs.....

Moreover, in a great hurry, he even forgot that two other girl students were also injured besides Malala... this proves that CIA, Black Water and ISI are on the same page about this issue.


Following the Malala attack, Prime Minister Raja Parvez Ashraf and his fragile government sprang into the scenario all of sudden...

Parvez Ashraf along with the army of politicians visited Malala to inquire her health and said...this Pakistan is Malala’s Pakistan... the question arises here is that those who failed to make this country, the Pakistan of Quaid-e-Azam, Allama Iqbal or even that of Zulfiqar Ali Bhutto, how can they say that this is Malala’s Pakistan?

Before issuing these remarks, Parvez Ashraf should tell the nation that why he left millions of people helpless who lost their homes in two-year consecutive floods...??? Why didn’t he make this Pakistan, a Pakistan of those innocent people? Why dint he make it a Pakistan of those twenty five thousand civilians and five thousand soldiers died in US war? Why didn’t he even register the deaths of thousands of Pakistanis killed in drone attacks??

MQM chief Altaf Hussain, too, jumped into the arena... He notified the ulema that they should condemn the attackers of malala..... Otherwise, MQM would expose them... he asked people not to offer prayers behind those imams who don’t condemn the attack...

It is pertinent to mention here that all this says the man who himself is answerable for the killings of two thousand people in Karachi.

Malala was attacked on October 9, and Interior Minister Rahman Malik said on October 12 that Taliban in North Waziristan are so notorious that they don’t deserve dialogues... and October 13th, this report surfaced that final decision of a military operation in north Waziristan had been taken in a two-day conference of formation commandos..... if we see, in this context, then there is truth in Jamaat-e-Islami Pakistan Amir Syed Munawar Hassan’s statement... that a video appeared before Swat operation showing unknown Taliban flogging a girl.... later on, the video was proved fake.... but, Pakistani military and civil leadership on the basis of this video, successfully created a situation against Taliban....

Exactly the same situation emerges today... Pakistani military and civil leadership is bent upon launching operation in South Waziristan on the behest of US... for this purpose, the US and its local allies have made innocent Malala their shield.

It is said that Malala was the symbol of girls’ education in the country, but dozens of ulems, intellectuals, and journalists can be namedropped who had dedicated their lives for the promotion of education in the country, but they were killed by unknown assailants, and their deaths did not even create a headline in newspapers... but, Malala has pervaded international media.... Does this difference compel the conscious minds to think something?

Pakistani leaders are saying that Taliban are against girls’ education.... but the whole world knows that it has been sixty five years since the independence of Pakistan, but despite this... 70% of Pakistani people, a majority of women, are still illiterate... are the Taliban responsible for that? Today 70% Pakistani population lives below the poverty line... are the Taliban responsible for it?.... Today, after 65 years, more than 70% people do not have access to clean drinking water.... 70% of the people don’t have a single doctor within reach for treatment.... Does this credit also goes to Taliban? Pakistani generals, surrender to India and US...and conquer their own country....In spite of this, they devour 50% of national budget....Are the Taliban responsible for this?.....

On what pretext does Pakistan governing class proves the Taliban as the most dangerous and backward ones?

Some say that Taliban have claimed responsibility of attack on Malala...while the government claimed that the attackers have been captured...Actually, Taliban is an underworld organisation and no one knows about these organisations; who are their real spokespersons, or representatives.

Those world powers which can fabricate big war on the basis of falsehood, break and form countries... how can creating fake Taliban group be a difficult task for them?..... However, the Taliban whom the conscience of Muslim Ummah is well aware are those whose chief Mullah Umar forged peace during the worst civil war in Afghanistan. Who restored the dignity of human life... who set best example of simplicity and contentment. Our conscience knows those Taliban who candidly refused to get frightened by the only super power of the time, the US, after September 11. Who defeated the US, NATO forces and their allies.....

Moreover, the US, who termed Taliban wild brutes, was seen begging the Taliban for negotiations when the first of the Islamic world and world’s seventh atomic power Pakistani leadership handed over the Pakistan to the US on a single call... There can be defects in the school of thought of Taliban, but to criticise them needs a high moral and international level, which Pakistani rulers and media lack....

The grief of Malala and her friends is valid.... they deserve utmost sympathies.... but, the Supreme Court in its verdict on 12th October, said that there are undeniable proofs of the involvement of agencies in Balochistand... and that over three hundred Malalas have been missing in Balochistan for several months.....when will Pakistani newspapers and television channels wake up and raise voice in their grief?... as far as the European media is concerned,...... it is their track record that in Bosnia Herzegovina, situated in centre of the Europe, Serb wild beasts, during three-and-a-half year period, rapped thousands of Malalals... and killed many of them....but American and European media did not report the atrocities mated out those malalas...

During 25 years in Kashmir, more than five thousand young and old Malalas fell prey to Indian forces’ lust..... but, not a single Malala could grab the spotlight in Western media.....

Few years back, Israeli troops sprayed with bullets the bodies of over two hundred children on their way to schools, but none of them could become Malala.... (The End)


21 نومبر، 2012

سستی کتاب اور مہنگا جوتا


اس قوم کو علم و حکمت کی کیا قدر جو مہنگا جوتا خریدنے میں فخر اور سستى کتاب لینے میں دقت محسوس کرے- ایسا کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس قوم کو کتابوں سے زیادہ جوتوں کی ضرورت ہے!!


20 نومبر، 2012

دسمبر آنے والا ہے، اُسے کہنا وہ لوٹ آئے

دسمبر آنے والا ہے، اُسے کہنا وہ لوٹ آئے 
عجب یخ بستہ تنہائی کو آ کر پھر سے گرمائے
اُسے کہنا بناؤں گا میں اپنے ہاتھ سے چائے
مگر کہنا چھوہارے، مونگ پھلی، پستہ وہ ساتھ لے آئے 

16 نومبر، 2012

ہمارا خون پانی ہے۔۔ سیلانی کے قلم سے



ہمارا خون پانی ہے
سیلانی کے قلم سے

سیلانی نے دائیں دیکھا پھر بائیں دیکھا، دوبارہ دائیں بائیں دیکھا اور آگے بڑھ آیا، بڑے سے پھاٹک کے ساتھ چوٹی سی کوٹھری یقینی طور پر اس عمارت کے سیکیورٹی گارڈوں کی تھی، سیلانی توقع کر رہا تھا کہ اسے وہاں اونگتے جمائیاں لیتے یا پھر افسروں کی برائیاں کرتے پولیس اہلکار دکھائی دیں گے لیکن وہاں سنتری بادشاہ کیا ان کی جمائیاں تک نہ تھیں، ایک چوکیدار تشریف فرما تھا جو انہماک سے داڑھی میں کنگھی کر رہا تھا، اس نے سیلانی کی جانب نظر اٹھا کر دیکھا اور سوالیہ نظروں سے آنے کا سبب پوچھنے لگا۔
مفتی صاحب سے ملنا ہے
 اندر چلے جاؤسیلانی بڑے سے پھاٹک سے اندر داخل ہو گیا۔ کسی نے اسے روکا نہ ٹوکا، جیکٹ کی جیب تھپتھپا کر تلاشی لی نہ پتلون کی جیبیں اُلٹوائیں وہ اندر چلا آیا وہاں دو تین باریش نوجوان بیٹھے تھے سیلانی نے ان سے بھی عرض کیا مفتی صاحب سے ملنا ہے
وہ تو ابھی سو رہے ہیں، آپ مولانا منصور سے مل لیں، وہ سامنے بیٹھے ہیں
مولانا منصور دائیں جانب برآمدے میں تخت پر بیٹھے ہوئے تھے سیلانی ان کے پاس چلا آیا اور اپنا تعارف کروایا اور مفتی صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی انہوں نے نفی میں سر ہلاتےہوئے کہا کہ حضرت ابھی سو رہے ہیں بارہ بجے تک اٹھ جائیں گے تب ملاقات ہو سکے گی۔ سیلانی نے سیل فون کی سکرین پر وقت دیکھا ساڑھے گیارہ تو ہو رہے تھے، وہ وہیں بیٹھ گیا اور مولانا منصور سے گپ شپ کرنے لگا۔
بات چیت میں آدھے گھنٹے کا پتا ہی نہی چلا اور دروازہ کھلا اور سفید براق لباس میں ملبوس ایک دراز قامت لحیم شحیم سرخ و سپید بارعب شخص برآمد ہوا اور برآمدے میں ایک نمایاں نشست پر براجمان ہو گیا، یہ معروف عالم دین مفتی زرولی تھے، جامعہ عربیہ احسن العلوم کے مہتمم، یہ وہی جامعہ احسن العلوم ہے جس کے چھ طالب علموں کو گزشتہ روز مدرسے کے قریب ایک ہوٹل پر چائے پیتے ہوئے بےدردی سے قتل کر دیا گیا تھا، وہ پاکباز نوجوان اپنی آنکھوں میں حیرت لیے تڑپ تڑپ کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ گئے کہ ان کا رشتہ تو قرآن حدیث سے تھا کسی سیاسی جماعت سے واسطہ نہ کسی بھتہ خور گروپ سے وابستگی، پھر انھیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ زیادہ نہ سوچ سکے ہوں گے ان کا سرخ خون بدقسمت کراچی کی زمین میں جذب ہو گیا، اس واقعہ کو پانچ روز تو ہو چکے تھے، یہ ایک بڑا واقعہ تھا ایک ہی جگہ ایک ہی مدرسے کے چھ طالب علم شہید کر دیے جائیں، کوئی سیاسی جماعت یا لسانی گروہ ہوتا تو ان کا لیڈر ان کی لاشوں پر کھڑا ہو کر سیاست کر کے اپنا قد بڑھا لیتا لیکن جامعہ احسن العلوم والوں نے کوئی احتجاج کیا نہ کوئی سڑک بلاک کی، کسی گاڑی پر پتھر اچھالا نہ کوئی ٹائر جلا کر نعرہ لگایا۔
سیلانی نے مفتی زرولی خان صاحب سے سلام کلام کے بعد عرض کیا حضرت سانحے کے بعد کتنی موبائلیں دی گئی ہیں؟
زرولی صاحب مسکرا دیے ایک سپاہی بھی نظر آ رہا ہے؟ عبد الرحمان ملک صاحب کا فون آیا تھا تعزیت کر رہے تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جامعہ کی سیکیورٹی کے لیے ایک پولیس موبائل کی پکی ڈیوٹی لگا دیں گے ابھی تک تو وہ ڈیوٹی لگی نہی
حیرت ہیں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا بچوں کے ذہنوں پر کتنا برا اثر پڑا  ہو گا دکھاوے کے لیے ہی سہی یہاں کچھ قریب الریٹائر پولیس والے ہی زنگ آلود بندوقوں کے ساتھ بھیج دیے جاتے سیلانی نے دکھ کا اظہار کیا اور ساتھ ہی دبے دبے لفظوں میں کہا کہ اس معاملے پر علما کرام کو احتجاج تو ریکارڈ کروانا چاہیے تھا۔
آج اسلام آباد میں وفاق المدارس کا اجلاس تو ہو رہا ہے
یہ بھی خوب ہے کہ بچے کراچی میں مارے جائیں اور اجلاس اسلام آباد میں ہو سیلانی کچھ دیر حضرت کے پاس بیٹھا رہا پھر وہاں سے گلستان جوہر میں واقع جامعہ اشرف المدارس کی طرف روانہ ہو گیا، پہلوان گوٹھ میں واقع اشرف المدارس کے ارد گرد بھی کوئی پولیس موبائل گشت کرتی دکھائی نہی دی، سیلانی نے دیدے پھاڑ پھاڑ کر آس پاس کا سارا علاقہ دیکھ لیا ایک سپاہی بھی نظر نہ آیا، اس نے مدرسے کے گیٹ پر چوکیدار سے کہا کہ کسی ذمےدار سے ملوا دیں۔ اس نے کچھ دیر انتظار کروایا اور پھر فون پر کسی صاحب سے بات کروا کر سیلانی کو ایک نوجوان کے پاس بھیج دیا اس نے سیلانی سے آنے کا مقصد پوچھا اور زاہد صاحب کے پاس بھیج دیا، زاہد صاحب جامعہ کے ایڈمنسٹریٹر ہیں، ان سے جامعہ کی سیکیورٹی پر بات کی، انہوں نے بتایا کہ اپنے طور پر چند سیکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے ہیں، لیکن ظاہر ہے وہ ایک حد تک ہی کارآمد ہو سکتے ہیں، سیلانی نے وقت کے ولی حکیم اختر صاحب کے فرزند اور ان سب معاملات کے نگران مولانا مظہر سے ملنا چاہا۔ زاہد صاحب نے فون پر رابطہ کیا وہ گھر جا چکے تھے، سیلانی نے عرض کیا فون پر ہی بات کروا دیں، اگر وہ ابھی تھوڑا سا وقت دے دیتے ہیں تو ملاقات ہو جائے گی، اس وقت گاڑی میرے پاس ہے
زاہد صاحب نے مولانا سے عرض کیا وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں آپ کریں گے؟
دوسری جانب سے اجازت دے دی گئی تو فون کا ریسیور سیلانی کے ہاتھ میں آ گیا، سیلانی نے اپنا تعارف کروایا اور ایک دو ملاقاتوں کا حوالہ دے کر ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مولانا غالبا مصروف تھے انہوں نے بے اعتنائی سے عصر کے بعد آنے کے لیے کہا۔ بہرحال جو اس نے دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا، وہاں ایک پولیس اہلکار بھی نہی تھا، یہاں سے سیلانی یونیورسٹی روڈ پر واقع جامعہ دراسات پہنچا، جامعہ دراسات والے خاصے ڈاڈے ہیں۔ انہوں نے اپنے طور پر سیکیورٹی کا معقول انتظام کر رکھا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سرکار کیا کر رہی ہے؟ وہ یہ سوال لے کر جامعہ دراسات میں ناظم طلبا امور ابوالخیر صاحب کے سامنے بیٹھ گیا، نرم لہجے میں بات کرنے والے ابوالخیر صاحب نے کہا جب ہمارا کوئی پروگرام ہوتا ہے تو پولیس آ جاتی ہے، ویسے مدرسے کی سیکیورٹی کے لیے کبھی انہوں نے زحمت نہی کی، ہم نے اپنے طور پر ہی انتظام کر رکھا ہے
برادر ابوالخیر کراچی کے حالات پر بہت دل گرفتہ اور پریشان تھے، انہوں نے بتایا کہ کراچی کے حالات کی وجہ سے اب اندرون ملک سے لوگ اپنے بچے بھیجنے سے ڈرتے ہیں، داخلوں کی شرح میں کمی ہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم طلبا کو مدرسے سے باہر جانے نہی دیتے، یہاں کینٹین ہے جو کھانا پینا ہے یہاں ہی مل جاتا ہے۔
جامعہ دراسات کے بعد سیلانی کی منزل جامعہ بنوری سائٹ تھی، مفتی نعیم صاحب دبنگ اور منہ پھٹ آدمی ہیں وہ تو سیلانی کے سامنے پھٹ پڑے "حکومت فیل ہو چکی ہے، جو اپنا دفاع نہ کر سکے وہ ہمیں کیا سیکیورٹی دیں گے۔۔۔"

جامعہ بنوریہ کے لیے کتنی نفری ہے؟
جا کر دیکھ لیں دو سپاہی ہیں جو اونگتے اور سوتے رہتے ہیں، اب پانچ ہزار طلباء کے لیے دو سپاہی اور یہاں بنات کا مدرسہ بھی ہے ایک ہزار طالبات ہوتی ہیں اور انتظام یہ ہے اب کس سے کہیں
پھر آپ نے کیا کیا ہے؟
کرنا کیا ہے اپنے طور پر ہی کر رہے ہیں جو لڑکے مضبوط ہیں ان کی ڈیوٹیاں لگا دیں، اسلحہ بھی خریدیں گے اور لائسنس بھی بنوائیں گے، اس کے بنا چارہ بھی کیا ہے۔ مفتی صاحب سے ملنے کے بعد سیلانی مدرسے میں چلا گیا۔ حفظ کی کلاسوں میں طلباء گردان کر رہے تھے سبق یاد کر رہے تھے سنا رہے تھے، ان میں مقامی طلباء بھی تھے اور مسافر بھی، سیلانی ایک بچے کے پاس بیٹھ گیا
کہاں رہتے ہو 
بلدیہ ٹاؤن
حفظ میں ہو؟ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ سیلانی نے اس طرح تھوڑی دیر باتیں کیں اور جب اجنبیت ذرا کم ہو گئی تو پوچھا آدھی چھٹی میں کیا کرتے ہو؟
کچھ نہی مدرسے میں ہی کھیلتے ہیں، پہلے باہر چلے جاتے تھے، سموسہ، رول کھا لیتے تھے اب ڈر لگتا ہے کہ کوئی گولیاں نہ مار دے اور امی ابو بھی منع کرتے ہیں کہ باہر نہ جایا کرو، ہمیں بہت ڈر لگتا ہے یہ تیرہ چودہ سالہ لڑکے کے تاثرات تھے۔ وہاں موجود طلباء نے کہا کہ گھر جاتے ہوئے ذرا سی دیر ہو جائے تو امی ابو پریشان ہو جاتے ہیں، ایک طالب علم کافی دیر سے سیلانی کو دیکھے جا رہا تھا کہنے لگا اگر جامعہ احسن العلوم کے شہید طلباء کسی انگریزی سکول کے طالب علم ہوتے تو میڈیا ایک ہفتے تک چیختا رہتا، ان پر رپورٹیں بناتا، اخباروں میں مضامین آتے کالم لکھے جاتے، این جی اوز احتجاج کرتی، کوئی موم بتیاں جلاتا کوئی اس جگہ پر پھول رکھتا، یہ سب ہمارے لیے کیوں نہی ہوا؟ کیا انگریزی سکولوں اور بی بی سی کو خط لکھنے والے ہی انسان ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
سیلانی کا سر جھک گیا۔ طالب علم کا شکوہ بجا تھا، کہاں ہے سول سوسائٹی، کہاں ہیں این جی اوز، کہاں ہے عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد ، خوش بخت شجاعت اور ٹیلی وژن چینلوں کے چرب زبان اینکر جو مائیک لے کر ایک گھنٹہ بولنے کے حیران کر دینے والا معاوضہ لیتے ہیں، جامعہ احسن العلوم کے شہید طلباء پر کسی نیوز چینل نے کوئی پروگرام کیوں نہی کیا؟ کسی این جی او نے پریس کلب کے سامنے ان شہید طلباء کے لیے مظاہرہ کیوں نہی کیا، کسی نے جامعہ احسن العلوم کے گیٹ پر پھول کیوں نہی رکھے، کسی نے جامعہ بنوریہ کے طلباء کے خوف کو اپنے کالم کا عنوان کیوں نہ دیا، کسی نے جامعہ دراسات کے استاد ابوالخیر کی پریشانی پر قلم کیوں نہی اٹھایا..... سیلانی سر جھکا کر جامعہ سے باہر آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور جاتے جاتے جامعہ بنوریہ کے کھلے پھاٹک سے بلا روک ٹوک آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔۔۔۔۔