ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

islahi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
islahi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

11 اکتوبر، 2013

دیدئہ عبرت


وہ منظر دیدئہ عبرت سے دیکھنے والا تھا… ہوا یوں کہ میں حسبِ معمول کالج گیا۔ میں نے بی اے کی کلاس میں قدم رکھا… میرے سامنے گریجویشن کے مراحل طے کرنے والے طلباء بیٹھے تھے… میرا آج کا لیکچر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر تھا… میں ان طلباء کے روبرو کھڑا ہو گیا… ارادہ یہ تھا کہ ان کی معلومات کا جائزہ لوں تاکہ میں ان کا علمی معیار جانچ سکوں… میں نے ان سے پوچھا:

طلبائے عزیز! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سی چار بیویوں کے نام بتائو… اتنا آسان سوال میں نے شرماتے شرماتے ان کے گوش گزار کیا تھا… مبادا یہ کہیں: بھلا، بی اے کے طلباء سے یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال ہے؟ چالیس طلباء تھے… ان میں سے ایک طالب علم نے ہاتھ اٹھایا اور کہا: ڈاکٹر صاحب!… میں نے کہا: جی، بولیے!

اس نے کہا: خدیجہr … میں نے انگلیوں پر گننا شروع کیا اور کہا: شاباش! … وہ خاموش ہو گیا… اتنے میں دوسرے طالب علم نے ہاتھ اٹھایا: ڈاکٹر صاحب! عائشہ!… میں نے کہا: واہ، بہت خوب!… اب یہ نوجوان بھی خاموش ہو گیا… باقی سب انگشت بدنداں رہ گئے… چالیس کے چالیس طلبہ بالکل خاموش ہو گئے!!…ہاں! چالیس کے چالیس خاموش ہو گئے!!… میں نے اپنی اشکبار آنکھوں سے انھیں دیکھا… اور اپنے پاش پاش دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے کلماتِ تأسف ان کے سامنے دہراتا رہا… حیف ہے تم پر! کیا تم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ناآشنا ہو؟… کیا تم اپنی مقدس مائوں کو بھی نہیں جانتے؟… کیا تم واقعی بے خبر ہو!!… تمھارا کیا بنے گا؟

اتنے میں ایک اور طالب علم نے آواز دی: ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بیوی کا نام یاد آیا ہے۔
میں نے کہا: بتایئے!
کہنے لگا: آمنہ!! آمنہ… میں نے نہایت رنج و ملال سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور اس سے کہا: اے نادان نوجوان! سیدہ آمنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں تھیں… اللہ تجھے تیری ماں سے جدا کر دے!… وہ شرم کے مارے خاموش ہو گیا… ان میں سے ایک نوجوان نے سوچا کہ ایسا خوشنما اور حیران کن جواب دوں جس سے ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر چھائی ہوئی رنج و ملال کی گھٹا چھٹ جائے۔
کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب! مجھے ایک بیوی کا نام یاد آگیا ہے… میں نے کہا: بتائو! اُن کا اسم گرامی کیا ہے؟ وہ بولا: فاطمہ!!

کچھ طلباء ہنس پڑے… کچھ تعجب کے بحرِ بے کراں میں ڈوب گئے… تیسرا گروپ ان طلبا کا تھا جنھیں کچھ پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہوا ہے… کیونکہ وہ اسی جواب کو درست سمجھ رہے تھے… ان کی نظر میں فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کا نام تھا… استغفراللہ! میرے رنج و غم میں اور زیادہ اذیت ناک اضافہ ہو گیا… میں نے کہا: اے بے خبر! اللہ تجھے ہدایت دے… فاطمہرضی اللہ تعالٰی عنہا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں… اُس پر بھی سکوت طاری ہو گیا… بلکہ سب طلباء بالکل چپ ہوکر بیٹھ گئے

میں نے کہا: اچھا تم ایسا کرو مجھے فٹ بال کی کسی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کے نام بتائو… میں نے کسی قریبی ٹیم کا نام نہیں لیا بلکہ اس ٹیم کا نام لیا جس کے کھلاڑیوں کے نام میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ میرے اس سوال کے جواب میں بھی انگشت بدنداں رہ جائیں گے… میں نے کہا: مجھے برازیل کی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام بتائو

بس یہ سوال کرنے کی دیر تھی کہ کلاس روم ’’میں بتاتا ہوں… میں بتاتا ہوں‘‘ کی آوازوں سے گونج اُٹھا… اور پھر کھلاڑیوں کے نام دم بدم میرے دامنِ سماعت سے ٹکرانے لگے… رونا لدو… ٹیٹو… وغیرہ وغیرہ… میں نے ان ناموں کو شمار کرنے کے لیے اپنی انگلیوں پر گنتی شروع کر دی… گنتے گنتے ایک ہاتھ کی انگلیوں کی پوریں ختم ہو گئیں… پھر میں نے دوسرے ہاتھ پر گننا شروع کر دیا… اس ہاتھ کی پوریں بھی مکمل ہو گئیں… میں نے پھر دائیں ہاتھ سے دوبارہ گننا شروع کیا… جب وہ پندرہویں کھلاڑی تک پہنچے تو میں نے کہا: بس کرو! بس کرو! جہاں تک میں جانتا ہوں کسی ٹیم کے کھلاڑی گیارہ سے زیادہ نہیں ہوتے… پھر تم نے پندرہ کھلاڑیوں کے نام کیسے بتا دیے؟ وہ کہنے لگے: ہم نے احتیاطًا پرانے کھلاڑیوں کے نام بھی بتا دیے ہیں

ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ جب یہ طلباء کھلاڑیوں کے نام بتا رہے تھے اور میں اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گنتا اور ان کا نام زبان پر دہراتا جارہا تھا… اس دوران اگر میں بھول کر کوئی نام غلط لے بیٹھتا تو اس غلطی کو وہ میری جہالت سمجھ کر ہنسنے لگتے تھے کہ اسے تو کھلاڑیوں کا نام لینا بھی نہیں آتا… وہ دوبارہ نام لے کر مجھے بتاتے کہ جس طرح آپ نے نام لیا ہے، وہ غلط ہے… صحیح نام وہ ہے جو ہم بتا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
’’
کیا انھوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا؟ پس وہ اس کا انکار کرنے والے ہیں۔‘‘¡ المؤمنون 69:23۔

انھیں میرے چہرے پر نمودار ہونے والے غم اور پریشانی کے آثار کا اندازہ ہو چکا تھا، چنانچہ وہ معذرت کرنے لگے: ڈاکٹر صاحب! ہمیں ملامت نہ کیجیے… ہمارا کوئی قصور نہیں… ان کھلاڑیوں کو میڈیا والے مشہور کر دیتے ہیں… اس لیے ہمیں ان کے نام یاد ہوجاتے ہیں… اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ میں نے انھیں کہا: یہ جھوٹے عذر پیش نہ کرو… میڈیا کو کھلی اور چھپی خبریں بتانے اور منظر عام پر لانے کا اختیار حاصل ہے… مگر اسے یہ قدرت ہرگز حاصل نہیں کہ وہ تمھیں غیر مسلم کھلاڑیوں جیسی شکل و شباہت بنانے اور ان کے رویے اور رواج اپنانے پر مجبور کرے اور تمھیں حکم دے کہ تم ان کے نقش قدم پر چلو… اخبار کو ٹٹول ٹٹول کر ان کی خبریں تلاش کرو… ان کے نام یاد کرو… ان کے قصوں اور واقعات کا بار بار چرچا کرو… ذرائع اطلاعات و نشریات نے ہمیں اس بات پر تو مجبور نہیں کیا کہ ہم ان کھلاڑیوں کو اپنی روز مرہ کی گفتگو کا موضوع بنا لیں، اپنی مجلسوں میں انھی کے تذکرے کریں اپنا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، شکل و صورت، رنگ و ڈھنگ، کپڑوں کے ڈیزائن اور بودوباش حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی مبارک زندگی جیسی بنانے کے بجائے کافر کھلاڑیوں کی طرح بنائیں

کیا تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
’’
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھی میں شمار ہو گا۔‘‘¡ سنن أبي داود، حدیث: 4031۔

پھر میڈیا کے بہانے تمھارا عذر سراسر بے بنیاد ہے… کیونکہ جہاں کھیلوں، ڈراموں اور فلموں کو فروغ دینے والے عناصر موجود ہیں… وہیں ثقافتی، دینی، ادبی اور علمی تہذیب و تمدن کی نشرو اشاعت کے ذرائع بھی تو موجود ہیں… بلاشبہ عریانی اور فحاشی کے کلچر کے مقابلے میں دینی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے والے ذرائع کم ہیں، مثلاً: اچھے اور معیاری جرائد کی کمی ہے اور انٹرنیٹ کے بہت سے پروگرام گمراہ کن ہیں… مگر اس کے باوجود ہمیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا کہ ہم دینی تعلیم و تربیت کو چھوڑ کر ان کے نقش قدم پر چلیں جو خود بھی دین سے بے بہرہ ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی دین سے دوری کا سازو سامان مہیا کر رہے ہیں

ایک اور انوکھی بات سنو چند دن ہوئے… میں نے ایک بستی میں لیکچر دیا… میں دوبارہ بتاتا چلوں کہ وہ شہر نہیں بلکہ بستی تھی… لیکچر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر تھا… لیکچر کے اختتام پر میں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیکھنے اور اس کی مکمل پیروی کی کوشش کرنے کی اہمیت واضح کی… پھر میں نے انھیں وہی واقعہ سنایا جو میرے اور میرے طلباء کے درمیان گزر چکا ہے… میرے روبرو چند کمسن بچے بیٹھے تھے… ان کی عمریں 10سال سے زیادہ نہیں ہوں گی… وہ واقعہ بیان کرتے ہوئے میں نے انھیں بتایا کہ میں نے اپنے طلباء سے پوچھا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سی چار بیویوں کے نام بتائو… پھر میں نے وہ مکمل سرگزشت اسی طرح سنائی جس طرح عموماً ہر شخص بیان کرتا ہے… لیکن جب میں نے انھیں یہ بتایا کہ میں نے اپنے طلباء سے برازیل کے پانچ کھلاڑیوں کے نام پوچھے… تو میرے سامنے بیٹھے ہوئے سب بچوں نے چلا کر کہا: میں بتائوں… میں بتائوں… وہ بے چارے یہ سمجھے کہ میں نے خود انھی سے یہ سوال کر دیا ہے… اس پوزیشن اور صورت حال کو بھی محفوظ کرنے اور لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے میں نے اس موقع کو بھی بطور مثال غنیمت سمجھا… چنانچہ میں ان میں سے ایک بچے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے کہا: ہاں، اُوبدمعاش! چل تو ہی جواب دے… اس نے کہا: رونالدو… اور… وہ مزید نام بھی لینا چاہتا تھا مگر میں نے کہا: بس، اتنا ہی کافی ہے… میں نے اس سے پوچھا: ارے اُو مسخرے! تو کس کلاس میں پڑھتا ہے؟ اس نے بغیر ہچکچاہٹ کے مطمئن ہو کر جواب دیا: چہارم (حصہ ب) میں…!! اب میں دوسرے بچے کی طرف پلٹا اور پوچھا: ہاں تم بتائو، اس نے کہا: ٹیٹو… میں نے پوچھا: تو کس کلاس میں پڑھتا ہے؟ اس نے کہا: پنجم (حصہ ج) میں… قریب تھا کہ میرے آنسو ٹپک پڑتے…اور میں نے کئی لوگوں کودیکھا بھی ہے کہ یہ افسوس ناک واقعہ سن کر ان کی حسرت بھری آنکھیں اشکبار ہو گئیں… حق بھی یہی بنتا ہے کہ جب لوگ اپنے رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول کر ان لوگوں کی تقلید کرنے لگیں جن کا ہر ہر قول و فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور گستاخی پر مبنی ہے

اور جب مسلمانوں کے بچوں کا کردار غیر مسلموں کے کلچر کی عکاسی کرتا ہو… تو پھر آسمان کو پھٹ جانا چاہیے… زمین کو شق ہو جانا چاہیے… اور لوگوں کی آنکھوں سے آنسوں کے بجائے قُلزم خون بہنا چاہیے… جب میں نے مسلمانوں کے بچوں کو جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر ناآشنا اور بے گانہ دیکھا تو میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو پوری کائنات میں عام کر دیں…، پھر گلی گلی اور کوچے کوچے میں اگر صدا بلند ہو واقعات سنائے جائیں… کسی کو آئیڈیل بنایا جائے… اپنے معاشرے کی تطہیر اور تہذیب و تمدن کے لیے کسی کو نمونہ بنایا جائے تو صرف محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جائے… انھی کے نام کی محفلیں اور مجلسیں منعقد کی جائیں… اور اپنی ہر کمی کوتاہی کو ان کے ارشاد و عمل کی روشنی میں دور کیا جائے… ہر بچے کی زبان پر کھلاڑیوں کے بجائے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ہو… کیونکہ وہ ہمیں اپنے ماں باپ، بیوی بچوں اور پوری انسانیت بلکہ اپنی روحوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں




6 ستمبر، 2013

کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی



“So hot”
“wowwwwwwwwww kea lag rahi ho yar”
“so cuteeeeee, awesome”
“yar je chah raha hay k, k ,k…….”
“kea qatil ada cheez ho”
“taswer teri dil mera behla na sakay g”
“aap ke tareef k leay lafz nahi, mukammal hussan ho”
“I love u”

ٹھرکی ہم وطنوں کی اس بازاری جملے بازی نے سیلانی کو تین دہائی پہلے کے سعید بھائی یاد دلا دیے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سیلانی گول مٹول شرارتی بچہ ہوا کرتا تھا، تب اس کے نیکر پہننے پر کسی کو اعتراض تھا نہ محلے کے کسی گھر میں بلا جھجھک گھسنے پر کوئی ٹوکتا تھا، تب شہر بھی بانجھ نہ ہوا کرتے تھے، محلہ کلچر زندہ تھا اور پورا محلہ ہی گھر جیسا ہوا کرتا تھا، آج اگر گھر میں کریلے پکے ہیں تو رکابی لے کر ساتھ والے میر صاحب کے گھر چلے آئے، وہاں مونگ کی دال کا سن کر منہ بنا تو چوہدری صاحب کے گھر پہنچ گئے، وہاں بھی دال نہ گلی تو کشمیری چاچی کے پاس آ گئے اور یہ بے تکلفی سیلانی تک ہی محدود نہ تھی، اس کی سرحدوں میں پورا محلہ آتا تھا، سیلانی کے گھر میں آلو گوشت بنتا تو خوشبو سونگتے ہوئے چوہدری صاحب کی ناک سڑکاتی بیٹی آ جاتی کہ خالہ خالہ ایک بوٹی اور دو آلو ڈال دو۔

اس محلہ کلچر میں انسان رہتا تو اپنے گھر کی چاردیواری میں تھا، لیکن اقدار کی چاردیواری پورے محلے کو ایک گھر بنا کر رکھتی تھی، اس وقت سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے تھے اور بڑوں کا احترام ایسا کہ اگر محلے کا کوئی بڑا بوڑھا کسی غلطی پر کان کھینچ کر تشریف پر دو جوتے بھی لگا دے تو کسی میں ہمت نہ ہوتی کہ منمناتے ہوئے امی ہی سے کہہ دیں، دہلی کالونی کے اس محلے میں سیلانی بےبی باجی سے ٹیوشن پڑھنے جایا کرتا تھا، بے بی باجی بی اے کر رہی تھیں، دبلی پتلی سی بےبی باجی کی شکل پی ٹی وی کے ڈرامے انکل عرفی کی ہیروئن سے کافی ملتی تھی، وہ بال بھی اسی انداز کے بناتی تھیں اور خاصی خوش لباس بھی تھیں، اس وقت گھٹنوں سے اوپر تک چھوٹی قمیض اور بڑے بڑے پائنچوں والی شلوار کا رواج تھا، سیلانی کو یاد ہے کہ ایک بار باجی کپڑے سلوانے کے لیے سیلانی کو ساتھ لے گئیں، راستے میں نکڑ پر محلے کے وحید مراد سعید بھائی، جسم سے چپکی قمیض اور بیل باٹم پینٹ پہنے کھڑے تھے، سعید بھائی نے باجی کو آتے دیکھا تو فورا ہی جیب سے کنگھی نکال کر اپنی زلفیں سنوار لیں اور پوز مار کر کھڑے ہو گئے، سیلانی اور باجی پاس سے گزرے تو سعید بھائی نے مسکراتے ہوئے دبی دبی آواز میں جملہ اچھالا: آج تو لوگ قیامت ڈھا رہے ہیں۔

باجی نے ناگواری سے ایک نگاہ غلط ڈالی، البتہ کہا کچھ نہیں، سیلانی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ قیامت ڈھانا کیا ہوتا ہے، اس نے باجی سے پوچھا تو انہوں نے ڈانٹ دیا، باجی نے درزی کو کپڑے دیے اور واپس ہو لیں، واپسی پر وحید مراد صاحب اسی کھمبے کے ساتھ ٹیک لگائے منتظر تھے، انہوں نے بےبی باجی کو دیکھ کر ایک سرد آہ بھری اور پھر ایک گیت گنگنانے لگے، سیلانی نے سعید بھائی کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنی آنکھ کا گوشہ دبا دیا۔
   
گھر پہنچ کر سیلانی نے بے بی باجی کی بڑی بہن سے پوچھا: آپا! یہ قیامت کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: کیوں بیٹا! تمیں قیامت کہاں سے یاد آ گئی؟

مجھے نہیں یاد آئی، وہ سعید بھائی نے بے بی باجی کو دیکھا تو انھیں یاد آ گئی، وہ باجی کو کہہ رہے تھے کہ آج تو قیامت ڈھا رہی ہو.....
سیلانی نے معصومیت سے بتایا تو بڑی باجی نے ڈانٹ کر چپ کرا دیا، مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا، صحن میں لگے سنک پر غرغرے کرتے ہوئے بھائی جان سن چکے تھے، وہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے، انہوں نے اپنی ہاکی لی اور باہر نکل گئے، اس کے بعد وحید مراد صاحب پر قیامت ڈھ پڑی۔ اس قیامت میں ان کی طوطے جیسی خمیدہ ناک اور سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا، اس روز بھائی جان نے وحید مراد کے ساتھ خوب کھیلا، محلے کے لڑکوں نے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وحید مراد صاحب کئی ہفتے گنگنانا بھول کر کراہتے رہے، سعید بھائی کے والد صاحب بھلے آدمی تھے، انھیں جب پتا چلا تو انہوں نے باجی کے گھر آ کر معافی مانگی اور سینما والوں کو خوب بددعائیں دیں، جو نوجوان نسل کو لفنگا بنا رہے تھے۔ لیکن یہ اچھے وقتوں کی بات ہے، جب بہت کم گھروں میں ٹی وی لائونج نام کی جگہ ہوتی تھی، نوجوانوں کے اخلاق و کردار پر وی سی آر نے حملہ نہیں کیا تھا، پی ٹی وی کے خبرنامے میں نیوز کاسٹر تک دوپٹہ اوڑھ کر خبریں پڑھا کرتی تھیں، اب واہیات ابلاغیات نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
سیلانی کو آج فیس بک پر ایک خاتون کی خود نمائی اور ان کے دوستوں کی جانب سے دیے جانے والے داد و تحسین کے ڈونگروں نے سعید بھائی کی ٹوٹی ہوئی خمیدہ ناک کی یاد دلا دی، فیس بک پر شائد ہی کوئی ہو جو اپنی تصاویر، بیانات اور خیالات جاری نا کرتا ہو، مستورات بھی مختلف مواقع کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کر کے خود نمائی کے شوق کی تسکین کرتی ہیں، اس کام کے لیے یقینا خواتین اور ان سے وابستہ حضرات کو فراغ دل ہونا پڑتا ہو گا، وہ محترمہ بھی خاصی فراغ دل" واقع ہوئی ہیں، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ہونے والے فیشن شوز میں بلی کی چال چلنے والی بیبیاں عموما اس طرح کی حرکات و سکنات کرتے ہوئے تصویریں بنواتی ہیں، گویا درد قولنج میں مبتلا ہوں یا ابھی ابھی نیند سے جاگی ہیں اور انگڑائی لے کر بستر سے نیچے اترنے کا سوچ رہی ہیں..... اس بی بی نے بھی ایسی ہی ادائوں کے ساتھ اپنی تصاویر فیس بک پر جاری کر دیں اور اس تصویر کے نیچے جملے اچھالنے والوں اور پسند کرنے والوں کی قطار بندھ گئی، سیلانی حیران رہ گیا، جب اس نے دیکھا کہ سات سو افراد نے اس تصویر پر مہر پسندیدگی ثبت کی اور تین سو نوے نے واہیات ابلاغیات کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ یہ سب دیکھ کر سیلانی کو بے اختیار سعید بھائی یاد آ گئے، آج یقینا ان کے منہ میں دانت ہوں گے نا پیٹ میں آنت ہو گی، غالبا وحید مراد کی زلفوں کی جگہ چمکتی ہوئی چندیا لے چکی ہو گی، آنکھیں بھی چندھیا گئی ہوں گی اور خمیدہ ناک کے ساتھ ساتھ کمر بھی خمیدہ ہو چکی ہو گی، ہو سکتا ہے ان کا حافظہ بھی خاصہ کمزور ہو گیا ہو اور الله کرے کمزور ہو گیا ہو کہ وہ ہاکی کے ذریعے خود پر ڈھائی جانے والی قیامت بھول چکے ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ میں تو صرف بلاواسطہ ہی منمنایا تھا، یہاں تو گھر گھر میں لونڈے لپاڑے فیس بک کھولے ایسے ایسے جملے چست کرتے پھر رہے ہیں کہ زمین پھٹے اور بندہ سما جائے اور پھر یہ موقع انھیں کون دے رہا ہے؟ لڑکیاں بالیاں، خواتین خود حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی، میری ناک اور دانت تو سلامت رہتے.....

 سیلانی یہ سوچ رہا تھا کہ فیس بک پر میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ ایک خاتوں کی تصویر آ گئی، تصویر میں محترمہ دوپٹہ کمر کے گرد لپیٹے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے عاجزانہ منہ بنائے کھڑی تھیں، ساتھ ہی ان کی فیس بک کے دوستوں سے درخواست تھی: دعا کریں میری واشنگ مشین جلد ٹھیک ہو جائے۔ سیلانی نے لاحول پڑھی اور بڑبڑایا بی بی، واشنگ مشین سے زیادہ آپ کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے..... سیلانی بڑبڑاتے ہوئے بی بی کی میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، اور دیکھتا چلا گیا۔




10 مئی، 2013

سنہرے فیصلے




سنہرے فیصلے۔۔۔عبدالمالک مجاھد


دین اسلام میں عدل وانصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے،  جس کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ اور ایک ایسےصالح اسلامی معاشرے کا قیام ہے جس میں آقا سے لے کر غلام تک ہر شخص کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کی ضمانت دی جا سکے- زیر نظر کتاب ''سنہرے فیصلے'' میں مصنف نے نبی مکرم   ، صحابہ کرام، نامور مسلم حکمرانوں اور قاضیان کرام کے ان فیصلوں کو یکجا کر دیا ہے جن سے اطراف واکناف عالم میں عدل وانصاف کی سنہری روایات کی ترویج ہوئی ہے- کتاب میں بیان کردہ فیصلوں سے جہاں حکمرانوں، قاضیوں اور ججوں کو گرانقدر راہنمائی ملتی ہے وہیں ایک اسلامی معاشرے میں انفرادی واجتماعی عدل کی نوید بھی سنائی دیتی ہے- کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں مستند اور مصدقہ واقعات جمع کیے گئے ہیں اور حوالوں کا خصوصاً اہتمام کیا گیا ہے- اس کے علاوہ واقعات کے آخر میں شخصیات کا مختصر تعارف بھی شامل کر دیا گیا ہے جس سے کتاب کی علمی افادیت مزید دو چند ہوگئی ہے-
 
 
 
 
 
فہرست مضامین 

عناوین


صفحہ نمبر

عرض مؤلف

11
آخر تم کس بنیاد پر گواہی دے رہے ہو؟

15
بروقت فیصلہ

18
خلیفہ کے خلاف فیصلہ

22
یہودی کے حق میں قاضی شریح کا فیصلہ

25
میں کون ہوں

28
قاضی امیر حکم کی شہادت رد کرتا ہے

30
کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ

35
قاضی کی ذہانت

37
بدری صحابہ کے لیے بخشش کا پروانہ

41
گورنر کے سامنے اس کا بیٹاکوڑے کھاتا ہے

46
قاضی ابویوسف کی حق گوئی

48
عمر بن عبدالعزیزکی نگاہ میں مظلوم کی قدر

49
ایک گردن زدنی بدو کی ضمانت

51
خود کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ لیا

57
جاسوسی کا انجام قتل

59
ادنی مسلمان بھی پناہ دے سکتاہے

60
حضرت دانیال علیہ السلام کا فیصلہ

64
بدعہدی کا انجام

68
اللہ کا فیصلہ

70
قاصد کا تحفظ اور عہد وپیمان کا لحاظ

72
قانونی فیصلہ

77
خانہ کعبہ کی کنجی

79
ابووہب نیچے اترو

82
چور کی ہوشیاری

86
مسلمان کی عزت

88
جھوٹی قسم کھانے کا انجام

92
فریب کی بو

97
مجھ سے اپنا بدلہ لے لو

100
ہم نے بھی گواہی دی

103
رشوت کا اثر و کردار

108
ضمیر کا فیصلہ

110
آخری وقت میں معافی

113
مظلوم کی آہ سے بچو ورنہ

120
حکمران بیت المال کا محافظ ہے

122
بادشاہ انہیں بلے جیسا لگ رہا تھا

123
مجرم تلاش کرلیا

125
گردن زدنی مجرم

127
حجاج کے سامنے دندان شکن جواب

129
کنگھی کی مدد سے فیصلہ

130
اذان کا کرشمہ

131
حکومت کے زوال پذیر ہونے کاسبب

140
اس چھت کی کڑیوں کی تعداد کتنی ہے

141
عدل کا کرشمہ

142
چھ ماہ کے مولود کا فیصلہ

154
خائن سیکرٹری کا محاسبہ

157
مقروض بری

159
عدل ہی سے ملک قائم ہے

160
ذرا ان انگلیوں کی تعداد بتانا

162
قاضی کی ذہانت نے چور گرفتار کرادیا

164
خیانت کی قلعی کھل گئی

166
غلامی کی ٹوٹتی زنجیر

168
منصب قضا کا امتحان

171
مجرم کی گرفتاری کا اچھوتا انداز

173
فیصلہ کس کے خلاف ہے

175
جریر کا تقاضا برحق ہے

177
مظلوم کے دل کا ہر نالہ تاثیر میں ڈوبا ہوتا ہے

179
خون کا بدلہ خون

181
حاکم وقت کی گواہی مسترد

183
پہلی چوری

185
جب سعودی شہزادے کو نئی زندگی ملی

187
غصے میں فیصلہ نہ کریں

199
قاتل سے ہمدردی

200
ام سنان کی آزادانہ گفتگو

201
ایک چوکیدار کی فرض شناسی

205
خلیفہ منصور کے حق گو مشیر

206
اشاعت علم کی خاطرمنصب قضا سے انکار

207
ایک بیوہ کی آزادانہ فریاد

208
وزیر کی دور اندیشی

212
شرع اورادب کا حق

213
قرآنی سورتوں ے عوض شادی

219
نفع بحش سودا

222
صدقہ میں ہدیہ

224
مسلمان بھائی کو ندامت سے بچانا

226
مجرموں کی گرفتاری کا انوکھا انداز

228
علی رضی اللہ عنہ کی دور اندیشی

231
پاؤں پھیلانے والا ہاتھ نہیں پھیلا سکتا

234
ایفائے عہد کا بے مثال واقعہ

236
عیسائیوں کےجذبات کا پاس ولحاظ

239
شرائط کی پابندی

240
سلطان محمود کا بے مثال انصاف

242
بادشاہ کا بہنوئی قیدخانہ میں

243
اس عورت کو کس نے قتل کیا ہے

244
عادل امیر نے ہجوگرکو معاف کردیا

246
وفاداری اور بےوفائی کاانجام

248
آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے

252
کھانا آخری خواہش

254
اس قاضی کے لیے ہلاکت ہے

255
مشیت الہی کےمطابق آزادی کا پروانہ

258
بادشاہ وقت کی انصاف پسندی

260
بادشاہ کے سامنے ایک بیوہ کی بےباکی

263
بادشاہ کو کوئی گواہ نہیں مل سکا

265
انصاف کا ایک حیرت انگیز واقعہ

267
حق پسند اہل دربار

270
رشوت خور قاضی کی سزا

272
ایک قیدی کی حق گوئی

274
عمررضی اللہ عنہ کے خلاف ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ

276
جہنم کی آگ تمہیں جھلسا دیتی

278
میں تو لنگڑا ہوگیا

280
یہود کی حیلہ سازی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافیصلہ

282
کسی کا مذاق نہ اڑانا

285
جھوٹا مقدمہ

286
طاقت رکھنے کے باوجودعفوو در گزر

288
فیصلہ سنانے میں جلدی مت کرو

289
مال فدک کا قضیہ حجاج کے دربارمیں

290
کوڑے کھانا منظور ہےمنصب قضا منظور نہیں

294
وجود باری تعالی کی دلیل شہتوت میں

295
توجس باپ کا ہے وہ واقعی یتیم ہے

296
والی بصرہ کی معزولی

298
رعایا کی مصلحت کے لیے بیٹے کی قربانی

299
قاضی مندر کا لاجواب فیصلہ

302
چار قسم کے افراد

304
تجھ سا عرب نے نہیں جنا

305
 
 
 




Tags
Sunehray faislay by Abdul malik Mujahid download free direct link pdf urdu
door e nabowat, khilafat rashida our tareekh islam main adal o insaf kay darakhshan waqiat
عبدالمالک مجاہد