ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

11 اکتوبر، 2013

دیدئہ عبرت


وہ منظر دیدئہ عبرت سے دیکھنے والا تھا… ہوا یوں کہ میں حسبِ معمول کالج گیا۔ میں نے بی اے کی کلاس میں قدم رکھا… میرے سامنے گریجویشن کے مراحل طے کرنے والے طلباء بیٹھے تھے… میرا آج کا لیکچر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر تھا… میں ان طلباء کے روبرو کھڑا ہو گیا… ارادہ یہ تھا کہ ان کی معلومات کا جائزہ لوں تاکہ میں ان کا علمی معیار جانچ سکوں… میں نے ان سے پوچھا:

طلبائے عزیز! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سی چار بیویوں کے نام بتائو… اتنا آسان سوال میں نے شرماتے شرماتے ان کے گوش گزار کیا تھا… مبادا یہ کہیں: بھلا، بی اے کے طلباء سے یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال ہے؟ چالیس طلباء تھے… ان میں سے ایک طالب علم نے ہاتھ اٹھایا اور کہا: ڈاکٹر صاحب!… میں نے کہا: جی، بولیے!

اس نے کہا: خدیجہr … میں نے انگلیوں پر گننا شروع کیا اور کہا: شاباش! … وہ خاموش ہو گیا… اتنے میں دوسرے طالب علم نے ہاتھ اٹھایا: ڈاکٹر صاحب! عائشہ!… میں نے کہا: واہ، بہت خوب!… اب یہ نوجوان بھی خاموش ہو گیا… باقی سب انگشت بدنداں رہ گئے… چالیس کے چالیس طلبہ بالکل خاموش ہو گئے!!…ہاں! چالیس کے چالیس خاموش ہو گئے!!… میں نے اپنی اشکبار آنکھوں سے انھیں دیکھا… اور اپنے پاش پاش دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے کلماتِ تأسف ان کے سامنے دہراتا رہا… حیف ہے تم پر! کیا تم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ناآشنا ہو؟… کیا تم اپنی مقدس مائوں کو بھی نہیں جانتے؟… کیا تم واقعی بے خبر ہو!!… تمھارا کیا بنے گا؟

اتنے میں ایک اور طالب علم نے آواز دی: ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بیوی کا نام یاد آیا ہے۔
میں نے کہا: بتایئے!
کہنے لگا: آمنہ!! آمنہ… میں نے نہایت رنج و ملال سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور اس سے کہا: اے نادان نوجوان! سیدہ آمنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں تھیں… اللہ تجھے تیری ماں سے جدا کر دے!… وہ شرم کے مارے خاموش ہو گیا… ان میں سے ایک نوجوان نے سوچا کہ ایسا خوشنما اور حیران کن جواب دوں جس سے ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر چھائی ہوئی رنج و ملال کی گھٹا چھٹ جائے۔
کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب! مجھے ایک بیوی کا نام یاد آگیا ہے… میں نے کہا: بتائو! اُن کا اسم گرامی کیا ہے؟ وہ بولا: فاطمہ!!

کچھ طلباء ہنس پڑے… کچھ تعجب کے بحرِ بے کراں میں ڈوب گئے… تیسرا گروپ ان طلبا کا تھا جنھیں کچھ پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہوا ہے… کیونکہ وہ اسی جواب کو درست سمجھ رہے تھے… ان کی نظر میں فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کا نام تھا… استغفراللہ! میرے رنج و غم میں اور زیادہ اذیت ناک اضافہ ہو گیا… میں نے کہا: اے بے خبر! اللہ تجھے ہدایت دے… فاطمہرضی اللہ تعالٰی عنہا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں… اُس پر بھی سکوت طاری ہو گیا… بلکہ سب طلباء بالکل چپ ہوکر بیٹھ گئے

میں نے کہا: اچھا تم ایسا کرو مجھے فٹ بال کی کسی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کے نام بتائو… میں نے کسی قریبی ٹیم کا نام نہیں لیا بلکہ اس ٹیم کا نام لیا جس کے کھلاڑیوں کے نام میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ میرے اس سوال کے جواب میں بھی انگشت بدنداں رہ جائیں گے… میں نے کہا: مجھے برازیل کی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام بتائو

بس یہ سوال کرنے کی دیر تھی کہ کلاس روم ’’میں بتاتا ہوں… میں بتاتا ہوں‘‘ کی آوازوں سے گونج اُٹھا… اور پھر کھلاڑیوں کے نام دم بدم میرے دامنِ سماعت سے ٹکرانے لگے… رونا لدو… ٹیٹو… وغیرہ وغیرہ… میں نے ان ناموں کو شمار کرنے کے لیے اپنی انگلیوں پر گنتی شروع کر دی… گنتے گنتے ایک ہاتھ کی انگلیوں کی پوریں ختم ہو گئیں… پھر میں نے دوسرے ہاتھ پر گننا شروع کر دیا… اس ہاتھ کی پوریں بھی مکمل ہو گئیں… میں نے پھر دائیں ہاتھ سے دوبارہ گننا شروع کیا… جب وہ پندرہویں کھلاڑی تک پہنچے تو میں نے کہا: بس کرو! بس کرو! جہاں تک میں جانتا ہوں کسی ٹیم کے کھلاڑی گیارہ سے زیادہ نہیں ہوتے… پھر تم نے پندرہ کھلاڑیوں کے نام کیسے بتا دیے؟ وہ کہنے لگے: ہم نے احتیاطًا پرانے کھلاڑیوں کے نام بھی بتا دیے ہیں

ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ جب یہ طلباء کھلاڑیوں کے نام بتا رہے تھے اور میں اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گنتا اور ان کا نام زبان پر دہراتا جارہا تھا… اس دوران اگر میں بھول کر کوئی نام غلط لے بیٹھتا تو اس غلطی کو وہ میری جہالت سمجھ کر ہنسنے لگتے تھے کہ اسے تو کھلاڑیوں کا نام لینا بھی نہیں آتا… وہ دوبارہ نام لے کر مجھے بتاتے کہ جس طرح آپ نے نام لیا ہے، وہ غلط ہے… صحیح نام وہ ہے جو ہم بتا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
’’
کیا انھوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا؟ پس وہ اس کا انکار کرنے والے ہیں۔‘‘¡ المؤمنون 69:23۔

انھیں میرے چہرے پر نمودار ہونے والے غم اور پریشانی کے آثار کا اندازہ ہو چکا تھا، چنانچہ وہ معذرت کرنے لگے: ڈاکٹر صاحب! ہمیں ملامت نہ کیجیے… ہمارا کوئی قصور نہیں… ان کھلاڑیوں کو میڈیا والے مشہور کر دیتے ہیں… اس لیے ہمیں ان کے نام یاد ہوجاتے ہیں… اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ میں نے انھیں کہا: یہ جھوٹے عذر پیش نہ کرو… میڈیا کو کھلی اور چھپی خبریں بتانے اور منظر عام پر لانے کا اختیار حاصل ہے… مگر اسے یہ قدرت ہرگز حاصل نہیں کہ وہ تمھیں غیر مسلم کھلاڑیوں جیسی شکل و شباہت بنانے اور ان کے رویے اور رواج اپنانے پر مجبور کرے اور تمھیں حکم دے کہ تم ان کے نقش قدم پر چلو… اخبار کو ٹٹول ٹٹول کر ان کی خبریں تلاش کرو… ان کے نام یاد کرو… ان کے قصوں اور واقعات کا بار بار چرچا کرو… ذرائع اطلاعات و نشریات نے ہمیں اس بات پر تو مجبور نہیں کیا کہ ہم ان کھلاڑیوں کو اپنی روز مرہ کی گفتگو کا موضوع بنا لیں، اپنی مجلسوں میں انھی کے تذکرے کریں اپنا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، شکل و صورت، رنگ و ڈھنگ، کپڑوں کے ڈیزائن اور بودوباش حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی مبارک زندگی جیسی بنانے کے بجائے کافر کھلاڑیوں کی طرح بنائیں

کیا تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
’’
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھی میں شمار ہو گا۔‘‘¡ سنن أبي داود، حدیث: 4031۔

پھر میڈیا کے بہانے تمھارا عذر سراسر بے بنیاد ہے… کیونکہ جہاں کھیلوں، ڈراموں اور فلموں کو فروغ دینے والے عناصر موجود ہیں… وہیں ثقافتی، دینی، ادبی اور علمی تہذیب و تمدن کی نشرو اشاعت کے ذرائع بھی تو موجود ہیں… بلاشبہ عریانی اور فحاشی کے کلچر کے مقابلے میں دینی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے والے ذرائع کم ہیں، مثلاً: اچھے اور معیاری جرائد کی کمی ہے اور انٹرنیٹ کے بہت سے پروگرام گمراہ کن ہیں… مگر اس کے باوجود ہمیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا کہ ہم دینی تعلیم و تربیت کو چھوڑ کر ان کے نقش قدم پر چلیں جو خود بھی دین سے بے بہرہ ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی دین سے دوری کا سازو سامان مہیا کر رہے ہیں

ایک اور انوکھی بات سنو چند دن ہوئے… میں نے ایک بستی میں لیکچر دیا… میں دوبارہ بتاتا چلوں کہ وہ شہر نہیں بلکہ بستی تھی… لیکچر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر تھا… لیکچر کے اختتام پر میں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیکھنے اور اس کی مکمل پیروی کی کوشش کرنے کی اہمیت واضح کی… پھر میں نے انھیں وہی واقعہ سنایا جو میرے اور میرے طلباء کے درمیان گزر چکا ہے… میرے روبرو چند کمسن بچے بیٹھے تھے… ان کی عمریں 10سال سے زیادہ نہیں ہوں گی… وہ واقعہ بیان کرتے ہوئے میں نے انھیں بتایا کہ میں نے اپنے طلباء سے پوچھا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سی چار بیویوں کے نام بتائو… پھر میں نے وہ مکمل سرگزشت اسی طرح سنائی جس طرح عموماً ہر شخص بیان کرتا ہے… لیکن جب میں نے انھیں یہ بتایا کہ میں نے اپنے طلباء سے برازیل کے پانچ کھلاڑیوں کے نام پوچھے… تو میرے سامنے بیٹھے ہوئے سب بچوں نے چلا کر کہا: میں بتائوں… میں بتائوں… وہ بے چارے یہ سمجھے کہ میں نے خود انھی سے یہ سوال کر دیا ہے… اس پوزیشن اور صورت حال کو بھی محفوظ کرنے اور لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے میں نے اس موقع کو بھی بطور مثال غنیمت سمجھا… چنانچہ میں ان میں سے ایک بچے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے کہا: ہاں، اُوبدمعاش! چل تو ہی جواب دے… اس نے کہا: رونالدو… اور… وہ مزید نام بھی لینا چاہتا تھا مگر میں نے کہا: بس، اتنا ہی کافی ہے… میں نے اس سے پوچھا: ارے اُو مسخرے! تو کس کلاس میں پڑھتا ہے؟ اس نے بغیر ہچکچاہٹ کے مطمئن ہو کر جواب دیا: چہارم (حصہ ب) میں…!! اب میں دوسرے بچے کی طرف پلٹا اور پوچھا: ہاں تم بتائو، اس نے کہا: ٹیٹو… میں نے پوچھا: تو کس کلاس میں پڑھتا ہے؟ اس نے کہا: پنجم (حصہ ج) میں… قریب تھا کہ میرے آنسو ٹپک پڑتے…اور میں نے کئی لوگوں کودیکھا بھی ہے کہ یہ افسوس ناک واقعہ سن کر ان کی حسرت بھری آنکھیں اشکبار ہو گئیں… حق بھی یہی بنتا ہے کہ جب لوگ اپنے رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول کر ان لوگوں کی تقلید کرنے لگیں جن کا ہر ہر قول و فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور گستاخی پر مبنی ہے

اور جب مسلمانوں کے بچوں کا کردار غیر مسلموں کے کلچر کی عکاسی کرتا ہو… تو پھر آسمان کو پھٹ جانا چاہیے… زمین کو شق ہو جانا چاہیے… اور لوگوں کی آنکھوں سے آنسوں کے بجائے قُلزم خون بہنا چاہیے… جب میں نے مسلمانوں کے بچوں کو جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر ناآشنا اور بے گانہ دیکھا تو میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو پوری کائنات میں عام کر دیں…، پھر گلی گلی اور کوچے کوچے میں اگر صدا بلند ہو واقعات سنائے جائیں… کسی کو آئیڈیل بنایا جائے… اپنے معاشرے کی تطہیر اور تہذیب و تمدن کے لیے کسی کو نمونہ بنایا جائے تو صرف محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جائے… انھی کے نام کی محفلیں اور مجلسیں منعقد کی جائیں… اور اپنی ہر کمی کوتاہی کو ان کے ارشاد و عمل کی روشنی میں دور کیا جائے… ہر بچے کی زبان پر کھلاڑیوں کے بجائے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ہو… کیونکہ وہ ہمیں اپنے ماں باپ، بیوی بچوں اور پوری انسانیت بلکہ اپنی روحوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں




0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں