ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

8 اکتوبر، 2013

دو ہزار پانچ کا زلزلہ ذہن میں آج بھی تازہ

دو ہزار پانچ کا زلزلہ ذہن میں آج بھی تازہ

وہ اکتوبر دو ہزار پانچ کی ہی ایک دوپہر تھی جب مجھ سے کچھ فاصلے پر میرے بھانجے بھانجیاں کھیلنے میں مصروف تھے۔ایک چھ سالہ بچی دوپٹہ اوڑھے بیٹھی ہے، ایک چار سالہ بچہ آتا ہے اور ایک فرضی دروازے پر دستک دیتا ہے۔ بچی دروازہ کھولتی ہے اور اسے دیکھ کر خوشی سے گلے لگاتی ہے اور کہتی ہے ’میرا بچہ نہیں رہا لیکن شکر ہے بھائی صاحب آپ زندہ ہیں۔‘ بچہ اذیت اور امید بھرے لہجے میں کہتا ہے ’بہن جی میرے بچوں کی کوئی خبر‘؟؟؟

میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔ جو ہوا تھا بھولنا اتنا آسان نہیں تھا جب ایک ہنستی مسکراتی صبح قیامت میں تبدیل ہوگئی تھی۔
کشمیر میں آٹھ اکتوبر 2005 کو آنے والے بھیانک زلزلے سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے تھے۔ جہاں بڑی تعداد میں بچے اپنے سکولوں میں ہی دفن ہو گئے وہیں بچ جانے والے ننھے دماغوں پرگہرے نقوش ثبت ہو گئے۔ بچوں کے کھیل بھی زلزلے کی ہی کہانیوں کے اردگرد گھومنے لگے۔

ایک قیامت تھی جو آ کر گزر گئی تھی۔ لوگ سکتے کی کیفیت میں تھے۔ یقین آتا بھی تو کیسے؟ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یوں بھی کبھی ہوتا ہے کہ آن کی آن میں گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں خاک ہو جائیں؟ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستے معدوم ہو چکے تھے۔ میلوں پیدل دشوار راستوں پر سفر کر کے لوگ اپنے آبائی علاقوں تک جا رہے تھے کہ کسی اپنے کو زندہ سلامت دیکھ سکیں۔

کئی بچے سکولوں کے نام سے گھبرانے لگے۔ خوف کیسے نہ محسوس ہوتا اپنے ہی کئی ہم جماعتوں کو اپنے ارد گرد جس حال میں وہ دیکھ کر آئے تھے ان کے معصوم ذہنوں کے لیے وہ سب ناقابلِ قبول تھا۔

ایک نو عمر لڑکی اپنی ہم جماعت کے اُس پیغام کا بوجھ اٹھائے نڈھال تھی جو اس کے ہمراہ ملبے تلے دبی زندگی کی جستجو کرتے اس نے دیا تھا۔ جس میز پر وہ کتابیں رکھ کر پڑھا کرتی تھی اسی کا ایک کونہ اس کے پیٹ میں پیوست تھا۔ اس نے اپنے آخری پیغام میں اپنی سہیلی سے کہا تھا’ اگر میرے ماں باپ سے ملو تو انہیں بتانا میں بہت اذیت میں مری ہوں۔‘


کئی بچوں کو اس آفت نے وقت سے پہلے بڑا کر دیا ۔

مجھے یاد ہے وہ چودہ سالہ بچی جس کے ماں باپ زلزلے کی نذر ہو گئے اور اس پر پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ ضعیف نانی اور دادی دونوں کی ذمہ داری آن پڑی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے اور کمزور نہ پڑنے کی لگن بھی ہوتی۔

اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بعد اچھی خبر کو جیسے کان ترسنے لگے تھے وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کا ایک دوسرے سے حال احوال پوچھنے کا انداز بدلنے لگا ۔ پہلے لوگ ملتے تو پوچھتے زلزلے میں آپ کا کون گیا؟ لیکن اب کوئی شناسا چہرے دکھائی دیتا تو لوگ کہتے شکر ہے آپ زندہ ہیں۔

یہ شاید مثبت زندگی کی طرف پہلا قدم تھا۔ آج آٹھ برس بعد ان علاقوں میں جانے پر شاید ہی اس زلزلے کی کوئی یاد دکھائی دے۔ کیونکہ تعمیرِ نو کے بعد مظفرآباد سمیت کئی علاقے پہلے سے بہتر تعمیر ہو چکے ہیں۔ مگر ایک جگہ شاید آج بھی آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کا منظر پیش کر رہی ہے وہ ہے اس قدرتی آفت کو جھیلنے والوں کے دل اور دماغ جہاں آج بھی کئی کہانیاں ان کہی ہیں۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں