ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

30 اپریل، 2015

ربڑ ------- از --------گل نوخیز اختر

یہ1978 ء کی گرمیوں کی بات ہے جب پہلی بار مجھے ایک بیش قیمت خواب آیا۔ میں ملتان کے ایم سی پرائمری سکول میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا جسے اُس دور میں ’’پکی جماعت‘‘ کہا جاتاتھا۔یہ وہ دور تھا جب صبح صبح گلیوں میں ’’ماشکی‘‘ بڑی سی مشک اُٹھائے چھڑکاؤ کیا کرتے تھے۔میرا سکول میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔میری ماں جی نے لنڈے سے ایک ڈبیوں والی پرانی پینٹ خرید کر مجھے اس کا بستا بنا کر دیا ہوا تھا‘ اِس بستے کی خوبی یہ تھی کہ اس میں دو جیبیں تھی اورجیبوں والا یہ بستہ مجھے بہت پسند تھا۔اُس دور میں وہی ’’سیٹھ کا بچہ‘‘ شمار ہوتا تھا جس کے بستے کی جیبیں زیادہ ہوتی تھیں۔ ہر بچے کو حکم تھا کہ وہ اپنے بیٹھنے کے لیے ’’چٹائی‘‘ گھر سے لے کر آئے‘ ابا جی چٹائی تو افورڈنہیں کر سکتے تھے تاہم انہوں نے مجھے کہیں سے جگہ جگہ پیوند لگی ایک چادر لا دی تھی جو سکول میں میرے بیٹھنے کے کام بھی آتی تھی اور میں اِس سے سلیٹ بھی صاف کرلیا کرتا تھا۔صبح کے چار بجے تھے جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے اردگرد ’’ربڑہی ربڑ‘‘بکھرے پڑے ہیں‘ میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا‘ اِدھر اُدھر ہاتھ مارا لیکن ہاتھ خالی تھے‘ میں نے جلدی سے پھر آنکھیں بند کرلیں اور اِسی حسین خواب میں پھر کھو جانا چاہا لیکن ’’ربڑ‘‘ اپنی ایک جھلک دکھلا کر غائب ہوچکے تھے۔میری نیند اُڑ گئی اور دل میں اپنی اوقات سے بڑھ کر ایک خیال اُبھرا کہ کاش میرے پاس بھی ایک ربڑ ہو اور میں بھی کچی پنسل سے کچھ غلط لکھ کر اُسے ربڑ سے مٹاؤں۔

سکول جانے کا وقت ہوا تو ماں جی نے بڑے سے پیالے میں چائے ڈال کر اُس میں پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال کر میرے سامنے رکھ دیے۔یہ میرا پسندیدہ ناشتہ تھا لیکن میرا دماغ تو کسی اور طرف ہی الجھا ہوا تھا۔ابا جی پاس ہی کچی زمین پر بیٹھے اپنی ہوائی چپل کو ایک مزید ٹانکا لگا رہے تھے‘ اس ہوائی چپل پر اتنے ٹانکے لگ چکے تھے کہ اب نیا ٹانکالگانے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں بچی تھی لیکن ابا جی کو شائد اِسی سے عشق تھا لہذا ہر دوسرے روز اس کی ’’بخیہ گری‘‘ میں لگ جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان کے پاس ایک خاکی رنگ کے پرانے سے بغیر تسموں کے بوٹ بھی تھے لیکن وہ بہت کم پہنتے تھے‘ لیکن مجھے وہ ہوائی چپل کی نسبت بوٹوں میں زیادہ اچھے لگتے تھے‘ لہذا کئی دفعہ فرمائش کرکے اُن کو زبردستی بوٹ پہنا دیا کرتا تھا‘ وہ کچھ دیر تک میری خواہش کے احترام میں بوٹ پہنے رکھتے‘ پھر یہ کہتے ہوئے اُتار دیتے کہ ’’یار۔۔۔ایہہ مینوں بہت چُبھدے نیں‘‘۔

میں نے کچھ دیراپنے خواب کے بارے میں سوچا ‘ پھر آہستہ سے کہا’’ابا جی! میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ابا جی نے چونک کر میری طرف دیکھا ‘ پھر مسکراتے ہوئے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور بولے’’تم تو ابھی تختی لکھتے ہو‘ ربڑ تو چوتھی جماعت کے بچے لیتے ہیں۔‘‘ میں نے پیالہ ایک طرف رکھا اور جھٹ سے ابا جی کی گود میں چڑھ گیا’’مجھے نہیں پتا۔۔۔میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ ابا جی نے کن اکھیوں سے ماں جی کی طرف دیکھا جو رات کے بچی ہوئی روٹی پر تھوڑا سا گھی لگا کر اُسے دوبارہ زندہ کر رہی تھیں‘ ماں جی شائد ابا جی سے نظریں ملانے کی متحمل نہیں ہورہی تھیں اس لیے جلدی سے دھیان چولہے کی طرف لگا لیا۔میں پھر مچلا’’ابا جی میں نے ربڑ لینا ہے۔‘‘ میرا جملہ سن کر وہ زور سے ہنسے ‘ پھر میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولے’’لے دوں گا‘ لیکن پہلے اچھی طرح ناشتہ کر‘‘۔یہ سنتے ہی میرے اندر پھلجڑیاں سی پھوٹ پڑیں‘ مجھے لگا جیسے میری لاٹری نکل آئی ہے‘ میں نے حکم کی تعمیل میں جلدی سے پیالہ ختم کیا اور داد طلب نظروں سے ابا جی کی طرف دیکھا۔ابا جی نے فخریہ انداز سے میرے کندھے تھپتھپائے اور بولے’’شاباش میراببر شیر پُتر‘‘۔یہ خطاب میرے لیے نیا نہیں تھا‘ ابا جی جب بھی مجھ سے خوش ہوتے تھے ایسے ہی کہتے تھے‘ لیکن اُس دن مجھے اِس خطاب کی نہیں‘ ایک ربڑ کی ضرورت تھی لہذا جلدی سے کہا’’ابا جی!اب ربڑ لینے چلیں؟‘‘ میرا جملہ سنتے ہی ابا جی کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گذر گیا لیکن انہوں نے فوری طور پر مسکراہٹ کا ازلی نقاب اوڑھ لیا اورحسبِ معمول میرے گال تھپتھپا کر بولے’’لے دوں گا یار‘ پہلے چوتھی جماعت میں تو آجاؤ ‘‘۔۔۔میری اُمیدوں پر پانی پھر گیا‘ وہ تو کہتے تھے کہ صبح کے وقت آنے والے خواب سچے ہوتے ہیں‘ پھر میرا خواب کیوں سچا ثابت نہیں ہورہا تھا؟ کیا میری صبح سچے خواب والی صبح نہیں تھی؟میں نے بے دلی سے بستہ اُٹھایا‘ تختی اور چادر سنبھالی اورڈھیلے قدموں کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔

سکول پہنچا تو ’’جیرے‘‘ نے بتایا کہ وہ ربڑ لایا ہے‘ مجھے یقین نہ آیا اور میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو‘ اُس نے یہ سنتے ہی جھٹ سے اپنا بستہ کھولا اور ایک استعمال شدہ ربڑ میری آنکھوں کے آگے لہرا دیا۔‘ میں جل بھن گیا‘ جیرا بھی تو پکی جماعت میں تھا‘ پھر اُس کے ابا جی نے کیسے اُسے ربڑ لے دیا؟
میں نے اُس کے ہاتھو ں سے ربڑ لے کر الٹ پلٹ کر دیکھا‘ وہ واقعی ایک ربڑ تھا‘ اصلی ربڑ۔میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جیرے نے جھٹ سے ایک کاغذ اور کچی پنسل نکالی‘ کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں ڈالیں اور بڑے فخر سے ربڑ پکڑ کر اِنہیں مٹانے لگ گیا۔میں حیرت سے گنگ بیٹھاربڑ کو لکیروں پر پھرتے دیکھ رہا تھا‘ جہاں جہاں ربڑ پہنچ رہا تھا‘ لکیریں اپنا وجود کھوتی جارہی تھیں‘ کلاس کے اور لڑکے بھی ہمارے سروں پر جمع ہوچکے تھے اور حسرت بھری نظروں سے جیرے کے ربڑ کو دیکھ رہے تھے‘ جیرا بڑے اطمینان سے سیٹی بجاتے ہوئے ربڑکو لکیروں پر پھیر رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا کاغذ ایسے صاف ہوگیا جیسے کبھی اُس پر کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو۔میری آنکھوں میں خون اُتر آیا‘ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ جھٹ سے جیرے کا ربڑ چھینا اور دانتوں تلے دبا کر ریزہ ریزہ کر دیا۔جیرے کی ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی اور کلاس میں جیسے طوفان سا آگیا‘ ربڑکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے فرش پر بکھرے پڑے تھے اور جیرا دھاڑیں مار مار کر ربڑ کی لاش پر ماتم کر رہا تھا۔

میرے دل میں ٹھنڈ سی اُترتی چلی گئی‘ کلاس کی چیخ وپکار سن کر ’’وڈی اُستانی‘‘ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی۔مجھے پتا تھاکہ اب میرے ساتھ کیا ہونا ہے لہذا جلدی سے بستہ ‘ چادر اورتختی اُٹھائی اور پوری قوت سے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔وڈی اُستانی نے چلا کر دوسری اُستانیوں کو خبردار کیا‘ ساری اُستانیاں میرے پیچھے دوڑیں لیکن میں نے چھلانگیں لگائیں اور سکول کے عقب میں واقع سلیکون کے کارخانے میں گھس گیا۔یہ کارخانہ ایک بھول بھلیاں تھا لہذا مجھے اطمینان تھا کہ یہاں مجھے کسی کا باپ بھی نہیں ڈھونڈ سکتا۔سارا دن میں گلیوں میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا اور چھٹی کے وقت گھر پہنچ گیا‘ وہاں میری ’’کاروائی‘‘ کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی‘لیکن ماں جی نے اپنے مزاج کے عین مطابق ہلکے پھلکے انداز میں ڈانٹ پلائی اور بات آئی گئی ہوگئی۔شام کو میں حسبِ معمول گلی میں ’’لُکن میٹی‘‘ کھیلنے نکلا تو مجھے احساس ہوا جیسے ہاتھوں پیروں سے جان نکلتی جارہی ہے‘ عجیب سی تھکن تھی جو مسلسل مجھے نقاہت میں مبتلا کر رہی تھی‘ میں واپس آگیا‘ چونکہ یہ خلاف توقع تھا اس لیے ابا جی کا ماتھا ٹھنکا‘ انہوں نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور کانپ گئے‘ میں نے سنا‘ وہ ماں جی کو کہہ رہے تھے کہ اِسے توسخت بخار ہے۔ رات تک سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر اعلان کر چکا تھا کہ مجھے خطرناک قسم کا ٹائفائیڈ ہوچکا ہے ۔میں بستر سے لگ گیا اورماں جی دیوانہ وار خدا سے دعائیں کرنے لگیں‘ ابا جی ہر نماز کے بعد مسجد کے نمازیوں سے پھونک مروا کے میرے لیے دم کیا ہوا پانی لاتے اور چند قطرے میرے منہ میں ٹپکا دیتے۔میرے اعصاب مسلسل شل ہوتے جارہے تھے‘ نیم غنودگی کے عالم میں مجھے ہر چیز اپنے قد سے بہت بڑی اور سلوموشن میں چلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔میرے روٹی کھانے پر پابندی تھی‘ دل نمکین چیز کو ترس گیا تھا‘ ایسے میں ایک دن میں نے ماں جی سے کہا کہ میں نے ’’کڑی ‘‘ کھانی ہے۔ماں جی نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھا‘پھر میری پیشانی چومی اور بولیں’’تم ٹھیک ہوجاؤ‘ پھر بنا دوں گی‘‘۔میں سمجھ گیا کہ ’’ہنوزکڑی دور است‘‘۔

یہ اُس روز کا ذکر ہے جب میرے ٹائیفائیڈ کو چھ روز ہوچکے تھے‘ میں بے جان سا ہوکر ابا جی کی گود میں بیٹھا ہوا تھا‘ ابا جی میرے بالوں میں انگلیاں پھیر تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’میرے ببر شیر۔۔۔دوائی تو کھا لو‘‘۔میں نے بیزاری سے نفی میں سر ہلادیا۔ابا جی نے پیار سے پوچھا’’چلو پھر بتاؤ کس چیز کو دل کر رہا ہے؟‘‘ میں نے چونک کر بے یقینی سے گردن گھمائی‘ ابا جی کی آنکھوں میں دیکھا اوردھیرے سے کہا ’’مجھے ربڑ لادیں‘‘۔ابا جی پہلے تو بے اختیارہنس پڑے ‘ پھر کسی سوچ میں گم ہوگئے‘ تھوڑی دیر بعد انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور بولے’’ربڑ لادوں تو ٹھیک ہوجاؤ گے؟‘‘ میں یکدم سیدھا ہوگیا’’ہاں ابا جی! اللہ میاں کی قسم‘ میں بالکل ٹھیک ہوجاؤں گا‘‘ میں نے خوشی اوربھرپور اعتماد سے جواب دیا۔‘‘ ابا جی مسکرائے’’تو پھرپکا وعدہ‘ تم ٹھیک ہوکر دکھاؤ‘ میں ربڑ لادوں گا‘‘۔ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آیا‘ میرا خواب سچ ہونے جارہا تھا‘ ایک لمحے میں میری ساری تھکن اُتر گئی‘ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹائیفائیڈ میرے ربڑ کا دشمن ہے لہذا اِس دشمن کو اب ہرحال میں شکست دینی ہے۔

آٹھویں روز جب میں ہشاش بشا ش ہوکر سکول جارہا تھا تو میرے بستے میں ایک نہیں دو ربڑ تھے ‘ کچھ عجیب سے تھے لیکن میں شرط لگا کر کہہ سکتا تھا کہ اتنے بڑے اور رنگیلے ربڑ اور کسی بچے کے پاس ہوہی نہیں سکتے تھے‘ مجھے ابا جی پر بہت پیار آیا‘ وہ صرف میری خاطر نجانے کہاں سے اتنے مہنگے ربڑ خرید لائے تھے‘ وہ بھی ایک نہیں‘ پورے دو۔۔۔!!!سکول میں جب میں نے ’’جیرے ‘‘ اور دیگر دوستوں کو اپنے ربڑ دکھائے تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں‘ جیرے نے میرا ربڑ دیکھنے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن میں نے جلدی سے ربڑ پیچھے کر لیا‘ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے ربڑ کا بدلہ ضرور لے گا۔میرے ربڑ بہت اچھے تھے ‘ عام ربڑ کی نسبت سائز میں دوگنے تھے لیکن پتا نہیں کیوں‘ جب میں اِن سے کاغذ پر ڈالی ہوئی کوئی لکیر مٹانے کی کوشش کرتا تو یہ ربڑ لکیر مٹانے کے ساتھ ساتھ کاغذ بھی پھاڑ دیتے۔

برسوں بعد ‘ جب میں خود باپ بن چکا تھا‘ ایک روز بچپن کی بات یاد آئی تو میں نے ابا جی سے پوچھ ہی لیا کہ آخر وہ ربڑ آپ کہاں سے لائے تھے‘ ابا جی نے بات گول کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اب ایک باپ کا مقابلہ ایک دوسرے باپ سے تھا جو تعلیم‘ تجربے اور پیسوں کے معاملے میں پہلے باپ سے بہت آگے تھا لہذا بات گول کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا‘ میں نے دوبارہ پوچھا تو ابا جی کی پلکوں کے کنارے بھیگ گئے‘ انہوں نے جلدی سے اپنی قمیض کی آستین سے آنکھیں صاف کیں اور دھیرے سے مسکرا کر بولے’’یار! وہ ہوائی چپل واقعی بہت پرانی ہوگئی تھی‘‘۔۔۔میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔کسی ربڑ کی طرح۔۔۔!!!

---------------------------------

12 اپریل، 2015

شانِ حضرت ابوبکر صدیقؓ

 

عبداللہ بن محمد، جعفی، وہب بن جریر، جریر، یعلی بن حکیم، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے مرض میں جس مرض میں آپ نے وفات پائی ہے، اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے، پھر اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو! ابوبکر سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں اور اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا، تو یقینا ابوبکر کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کی دوستی افضل ہے، میری طرف سے ہر کھڑکی کو جو اس مسجد میں ہے، بند کردو، سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔ 

 صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 458 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 14 متفق علیہ 9
  

6 اپریل، 2015

دھت تیرے کی۔۔۔!!!

  یہ ایک خالصتاً مردانہ محفل تھی، ہم پانچ دوست مختلف ایشوز پر بحث کر رہے تھے ، اچانک ایک زنانہ آواز آئی ’’آئی لو یو جان‘‘۔سب بے اختیار اچھل پڑے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر اُدھر دیکھا لیکن ٹی وی بھی بند تھا اوردور دور تک کوئی خاتون بھی نہیں نظر نہیں آئی۔ اتنے میں یہی آواز پھر ابھری اور عقدہ کھلاکہ یہ ایک دوست کے موبائل فون سے آرہی ہے۔دوست نے موبائل نکالا، کچھ دیر بات کی اور مسکراتے ہوئے فون بند کردیا۔ پتا چلا کہ موصوف نے اپنی بیگم کی آواز کو رِنگ ٹون بنا رکھا ہے۔ان کی بیگم کا جب بھی فون آتا ہے یہی پیار بھری ٹون بجنے لگتی ہے تاہم وہ جب بھی فون اٹینڈ کرتے ہیں دوسری طرف سے دانت پیسنے کی آوازیں چار گز دور بیٹھے بندے کو بھی سنائی دے جاتی ہیں۔پتا نہیں ایسے لوگوں کو کیا بیماری ہے، ایسی ایسی رِنگ ٹون لگاتے ہیں کہ سارا ماحول بدل کے رکھ دیتے ہیں۔پچھلے دنوں ایک جنازے میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال پیش آگئی، کندھا بدلتے ہوئے ایک صاحب نے کلمہ شہادت کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی ان کے موبائل سے آوا زآئی’’چٹیاں کلائیاں وے‘‘۔
اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مخصوص رِنگ ٹون اس لیے لگاتے ہیں تاکہ پتا چل جائے کہ کس کا فون آرہا ہے، میرے ایک محلے دار کے فون پر اکثر گدھے، بلی، اونٹ اور بھیڑیے کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ایک دفعہ راز پوچھا تو دانت نکال کر بولے ہر سسرالی رشتہ دار کے لیے مختلف رِنگ ٹون سیٹ کی ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ان کے موبائل سے خطرے کے سائرن کی آواز آئی، میں نے پوچھا یہ کس کا نمبر ہے؟ اطمینان سے بولے ’’دوکاندار کا۔‘‘
کئی لوگوں کے ایک نام والے کافی سارے لوگ ہوں تو وہ یاد دہانی کے لیے ان کا نمبر محفوظ کرتے وقت اکثر ان کا کریکٹر بھی ساتھ لکھ دیتے ہیں مثلاًاگر شہزاد نام کے ایک سے زیادہ لوگ ہوں تو ان کے نام کچھ یوں درج ہوں گے’’شہزاد ڈنگر، شہزاد چول، شہزاد بونگا، شہزاد منحوس، شہزاد بھوکا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جن لوگوں کو ہر نام کے ساتھ رنگ ٹونز لگانے کا شوق ہوتاہے وہ بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں ، میرے آفس بوائے نے بھی ہر نام کے لیے ڈھونڈڈھونڈ کر گانوں والی رنگ ٹونز لگائی ہوئی ہیں۔ اس کی والدہ کا فون آئے تو گانا بجتا ہے ’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘۔۔۔والد صاحب کا فون آئے تو آواز آتی ہے’’پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا‘‘۔ بھائی کا فون آئے تو ’’دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے‘‘ چل پڑتاہے۔ایک دفعہ وہ چائے بنا رہا تھا، میں نے اپنا سٹیٹس چیک کرنے کے لیے اسے بیل ماری تو آگے سے گانا چل پڑا’’گھوڑے جیسی چال ہاتھی جیسی دُم‘‘۔۔۔!!!
آپ نے یقیناًوہ لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو رِنگ ٹونز کے شیدائی ہوتے ہیں،ان کااولین شوق موبائل میں نئی نئی رنگ ٹونز بھروانا ہوتاہے ،یہ ہر دو گھنٹے بعد اپنی رِنگ ٹون بدل دیتے ہیں۔فارغ وقت میں ان کا بہترین مشغلہ اپنے ہی موبائل کی مختلف رِنگ ٹونز سننا ہوتاہے۔یہ کہیں بیٹھے ہوں تو اِن کے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز ساتویں محلے تک سنائی دیتی ہے تاہم یہ فوراً ہی کال رسیو نہیں کرتے بلکہ تیس چالیس سیکنڈ تک خود بھی ٹون سننے کا مزا لیتے ہیں اور اردگرد بیٹھے ہوؤں کو بھی ذہنی کوفت میں مبتلا کرتے ہیں۔کئی نیک لوگ مذہبی کلمات کو رنگ ٹون بنانا پسند کرتے ہیں ، میرے ایک دوست نے ’’بسم اللہ‘‘ کو اپنی رنگ ٹون بنا رکھا ہے، کئی دفعہ جب اس کی بیگم لڑائی کے دوران اس کے اوپر گرم گرم چائے پھینکنے لگتی ہے تو اتفاق سے کسی نہ کسی کا فون آجاتا ہے اور چائے گرنے سے پہلے آواز آتی ہے’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘۔اسی طرح ایک اور دوست ہیں جنہیں ہر وقت موت یاد رہتی ہے لہذا انہوں نے اپنی رنگ ٹون بھی اسی کے مطابق سیٹ کی ہوئی ہے۔موصوف نے پچھلے دنوں دوسری شادی کرلی، نکاح ہوگیا تو اچانک ان کے موبائل سے آواز آئی’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
اکثر لوگ میسج کی ٹون بھی مختلف رکھنا پسند کرتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ اتنی مختلف ہوجاتی ہے کہ ساتھ والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہوا کیا ہے۔ میں ایک دفعہ آفس آنے کے لیے لفٹ میں سوار تھا کہ اچانک کتے کے بھونکنے کی زوردار آواز آئی، لفٹ میں سوار ہر بندے کی ہاف چیخ نکل گئی۔پتا چلا کہ کونے والے صاحب کے موبائل پر میسج آیا ہے۔ اسی طرح آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بھری محفل میں اچانک دروازے پر دستک کی آواز آتی ہے، یہ بھی میسج کی ٹون ہوتی ہے۔میرے دفتر کے ہمسائے میں ایک صاحب نے میسج کی ٹون پر ایک خاتون کی کربناک چیخ لگا رکھی ہے ، سو کئی دفعہ ہوا کہ گاڑی چلاتے ہوئے انہوں نے شیشے کھولے،کوئی میسج آیا اورکسی قریبی راہگیرنے ان کی گاڑی کا نمبر نوٹ کرکے ون فائیو پر فون کر دیا۔تاہم پچھلے کچھ دنوں سے مجھے چیخوں کی آواز نہیں آئی تو پتا چلا کہ انہوں نے یہ رِنگ ٹون بدل دی ہے، میں نے وجہ پوچھی توکھسیانے ہوکر بات بدلنے کی کوشش کی، میں نے زور دیا تو شرمندہ ہوکربولے’’یار بس جمعہ پڑھنے گیاتھااور جلدی میں موبائل کو میوٹ پرکرنا بھول گیا۔۔۔!!!‘‘
موبائل کی ایک ٹون تو وہ ہوتی ہے جو آپ کی کال آنے پر آپ کے موبائل میں بجتی ہے، دوسری وہ ہوتی ہے جسے ’’کالر ٹون‘‘ کہتے ہیں، میں نے ایک دفعہ شوق شوق میں یہ ٹون لگا لی اور اس کے بعد عذاب میں پھنس گیا، دودھ والے کا بھی فون آتا تھا تو اسے میری طرف سے سنائی دیتا تھا’’بہت پیار کرتے ہیں تم کو صنم‘‘۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس ٹون سے چھٹکارا حاصل کر سکوں لیکن ناکام رہا، موبائل کمپنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک کوڈ بتایا کہ اِسے فلاں نمبر پر ایس ایم ایس کردیں آپ کی کالر ٹون ختم ہوجائے گی۔میں نے فوری طور پر ایسا ہی کیا اور چیک کرنے کے لیے پی ٹی سی ایل سے اپنے نمبر پر فون کیا تو آواز آئی’’گندی بات، گندی گندی گندی بات‘‘ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، جلدی سے موبائل کمپنی کی ہیلپ لائن پر دوبارہ کال کی، پینتیس منٹ تک تو کمپنی والے مجھے اپنی ریکارڈڈ آفرز سناتے رہے، بالآخر ان کے نمائندے سے بات ہوئی تو میں نے اپنی مصیبت بیان کی۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا کہ آپ کو کسی نے غلط گائیڈ کیا ہے، آپ یہ والا کوڈ ملائیں تو سکھی ہوجائیں گے۔ میں نے تہہ دل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک بار پھر نیا کوڈ ایس ایم ایس کرکے دھڑکتے دل سے دوبارہ اپنا نمبر ملایا۔ بہت خوشی ہوئی کہ کوئی گانا نہیں چلا البتہ کمپنی کا جوابی میسج آگیا کہ’’ آپ کی خواہش کے احترام میں آپ کی تمام کالر ٹونز ختم کردی گئی ہیں اور اس کے عوض آپ کے اکاؤنٹ سے مبلغ 30 روپے جھاڑ لیے گئے ہیں اگر آپ دوبارہ یہ عذاب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس میسج کے جواب میں کچھ بھی لکھ کر بھیج دیں، انشاء اللہ ہم آپ کی زندگی اجیرن بنانے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔‘‘میں نے فوری طور پر میسج کیا’’پلیز میں ایسا کچھ نہیں چاہتا ،میں پہلے ہی بہت تنگ ہوں آپ کی مہربانی مجھے معاف رکھیں‘ ‘۔ فوراً ہی جواب آیا’’آپ کا بہت شکریہ، آپ کی فرمائش پر آپ کی تمام سابقہ ٹونز بحال کردی گئی ہیں۔۔۔‘‘
--------------
گل نوخیز اختر