ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

16 دسمبر، 2014

قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا


یہ تحریر دسمبرکے آخری دنوں میں لکھ رہاہوں وہ دسمبر جس کے آتے ہی زخم ہرے ہوجاتے ہیں ۔ انڈیاکی ننگی جارحیت نے مادرِ وطن کے دو ٹکڑے کردئیے۔ ایک بازو کاٹ کر رکھ دیا۔جسد ِملّت پرلگا ہوازخم اتنا گہراہے کہ قیامت تک نہ بھرسکے گا۔میں ٹین ایجر تھا جب میں نے اس سانحے پر بڑے معتبر اور باوقار لوگوں کو دیوانہ وار دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھا ۔ کیسے بھول جاوٴں کہ میں نے پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والے اپنے والد محترم کو دھاڑیں مار کرروتے دیکھا۔ محترمہ بشریٰ رحمن نے چند روز پہلے اپنے کالم میں اس دسمبر کاذکرکرتے ہوئے لکھا تھا ”یہ 16دسمبر1971ء کی شام تھی میں بچوں کو سینے سے لگاکر رو رہی تھی کیونکہ میرے بابا کی نگری لٹ گئی تھی، اتحاد کی نیّاڈوب گئی یقینِ محکم کی رسّی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔کون تھا جو نہیں رویا۔۔۔بابائے قوم کی سسکیاں میں نے خودسنیں آشیانے کے تنکے بکھر جانے پر پوری قوم تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔“

کیایہ تاریخ نہیں ہے۔۔۔۔تاریخ درست کرنے کے شوقین بتائیں کہ وہ تاریخ کے ان اوراق کو نئی نسل سے کیوں چھپانا چاہتے ہیں۔کیا وہ چاہتے ہیں کہ قائد کے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے والے مجر موں کی شناخت نہ ہو۔ان کے چہرے ڈھانپ دئیے جائیں، ان کے قصیدے پڑھے جائیں اور اُن کی پیروی کیاجائے۔کیا یہ تاریخ کاانمٹ نقش نہیں ہے کیا زندہ قومیں ایسے نقوش نئی نسل سے چھپاتی ہیں؟

جب سیاستدانوں کی مفادپرستی ‘ جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار اور دشمن کی فوجوں نے مل کر ارضِ پاکستان کا مشرقی بازوکاٹ دیا تواس کے چند مہینے بعد اس زخم خوردہ ملّت کے مفکّرِ اعظم اقبال کا یوم ولادت تھا۔ حسب ِروایت لاہور کی سب سے بڑی تقریب یونیورسٹی ہال میں منعقد ہوئی۔ ہال لاہور کی اشرافیہ، پروفیسرز، ڈاکٹرز،وکلاء ،علماء اورطلباء سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔ مجلسِ اقبال کے سیکرٹری آغا شورش کاشمیری نے معروف شاعر مشیر کاظمی کو نظم پڑھنے کی دعوت دی جنہوں نے مائیک پرآتے ہی بتایا کہ میں آج صبح علامہ اقبال کے مزارپرپھول چڑھانے گیا تھا وہیں سے آرہا ہوں۔نظم کے پہلے دو شعروں پرہی سامعین تڑپ اٹھے اوردھاڑیں مارکررونے لگے نظم کے چند شعرسن لیجئے :۔



پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
رُوح ِقائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
چاند تارے کے پر چم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہاتھا کہ اے تاجدارِ وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا تھا حصارِ وطن

پوری نظم نہ شاعر سنا سکانہ سامعین سن سکے شاعر کی آواز آہوں اورسسکیوں میں دب کر رہ گئی اورتقریب ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔
مگرملّت کے زخموں پرصرف آنسوؤں سے مرہم نہیں رکھا جاسکتا ،زندہ رہنے کا عزم اورولولہ رکھنے والی قومیں اپنے آنسوؤں کو خاک میں گُم نہیں ہونے دیتیں اور آنکھوں سے نکلنے والے موتیوں کی چمک میں اپنی منزل اور سمت تلاش کرلیتی ہیں۔ترآنکھیں تو ہوجاتی ہیں پرکیا لذّت اس رونے میں، جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا۔

نئے سال کی دعا: اے قادرِ مطلق! وہ افراد یا گروہ جن کی ڈوریاں بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہیں انہیں اہل ِوطن کے سامنے پوری طرح بے نقاب کردے اور پاکستان کے ریاستی امور میں ان کا ہرقسم کا کردار ختم کردے۔

تحریر: ذوالفقار احمد چیمہ 


 

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں