ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

17 مئی، 2014

دین باختہ چینلوں اور اینکروں کا ’معافی‘ مانگنا!


کیا واقعتاً معاملہ اتنا ہی سادہ ہے کہ کسی دین دشمن پر خدا خدا کرکے جب کبھی ’گرفت‘ کی نوبت آئی تو اس نے یکدم پینترا بدلا اور کہا کہ اس نے استغفار کرلیا ہے لہذا اس کے منصب اور حیثیت پر ہرگز کوئی ہاتھ نہ ڈالا جائے!!!؟
ان ظالموں کی حیاباختگی پر تو اہل دین روز کوئلوں پر لوٹتے ہیں اور ان کا گھناؤنا کردار تو پوری قوم پر واضح ہے، آئیے آپ کو ایک ایسا واقعہ سنائیں جہاں ایک صالح آدمی سے محض نادانستگی میں ایک ایسا فعل سرزد ہوجاتا ہے جو قبلہ کے شایانِ شان نہ تھا۔۔۔ دیکھئے اس پر کس طرح ایکشن لیا جاتا ہے (مسئلہ خدا کی حرمتوں کی دھاک بٹھانا ہے)

یہ حدیث سنن ابی داوٗد ، صحیح ابن حبان اور دیگر کتب میں وارد ہوئی ہے، اور محدث البانی نے اس کی تحسین کی ہے

’’سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک قوم کی امامت کروا رہا تھا۔ اس آدمی نے قبلے کی طرف تھوکا جبکہ رسول اللہﷺ اُسے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ فارغ ہولیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اب یہ تم لوگوں کو نماز نہ پڑھائے۔ پھر جب اُس نے ان کو نماز پڑھانا چاہی تو انہوں نے اُسے روک دیا اور رسول اللہﷺ کا حکم سنایا۔ تب اُس آدمی نے رسول اللہﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اور غالباً یہ بھی فرمایا: ’’تم نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے‘‘

یعنی اس نیک آدمی کا مسلمانوں کی امامت پر فائز رہنا پھر بھی بحال نہیں ہوا۔

آخر کیوں؟

غزوہ تبوک میں رسول اللہﷺ کے حکم عام کی نافرمانی کر بیٹھنے والے تین برگزیدہ اصحاب سے رسول اللهﷺ کے حکم پر مسلسل پچاس روز تک اہل مدینہ کا بائیکاٹ رہا، باوجود اس کے کہ وہ نیک ارواح توبہ کر چکی تھیں، محض اس وجہ سے کہ آئین خداوندی کی ایک دھاک بیٹھ جائے، ورنہ اُن برگزیدہ ہستیوں سے محبت تو سبھی کر رہے تھے اور ان کی جگمگاتی سیرت اور سابقہ کردار ہر کسی سے تحسین پاتا رہا تھا۔

جب ایسا ہے تو پھر جن ظالموں کی پوری سیرت فحاشی اور بےحیائی کی ترویج سے پُر ہے، ان کے دعوائے معافی پر ہم ایک سیکنڈ میں سب کچھ بھول جائیں؟

’معافی‘ مانگنا بندے اور خدا کا معاملہ ہے۔ مگر معاشرے پر اسلامی حرمتوں کی دھاک بٹھا کر رکھنا ایک سماجی معاملہ ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں کہ آپ نے خدا کی حرمتوں کی سرعام پامالی کرکے ایک ’س۔و۔ر۔ی‘ بولا اور ہم نے آپ کو پھر سر آنکھوں پر بٹھا لیا اور آپ کے حق میں مولویوں کے فتووں کا تانتا بندھ گیا!!؟

بھائی تم نے معافی مانگ لی ہے تو بہت اچھا کیا۔۔۔ مگر ایسے کرو کہ اپنی اس پوزیشن سے ہٹ جاؤ۔ مسلمانوں کو ’آگہی‘ اور ’راہنمائی‘ دینے کے اس منصب سے سبکدوش ہوجاؤ۔ یہ بھی ایک طرح سے معاشرے کی امامت ہی ہے، اور تم کبھی بھی اس کے اہل نہیں رہے۔ اب اگر مسلمانوں کی گرفت میں تم تھوڑا بہت آئے ہو، تو تمہاری معافی تمہارے اور خدا کے مابین ہوگی، مسلمان تمہیں اس پوزیشن پر بہرحال نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ تمہارا چینل بند کردیا جانا پھر بھی ان شاء اللہ ایک نہایت راست اور موافق شریعت اقدام ہوگا۔

مسلمان ہمت کرکے ان بدزبانوں کو لگام ڈال لیں تو ان شاء اللہ اہل الحاد کے حوصلے پست اور اہل شریعت کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور دیگر بدزبانوں کی جانب بڑھنا بھی کچھ نہ کچھ آسان ہوجائے گا۔

بنابریں۔۔۔ ’معافی‘ کی بات ہرگز مسلمانوں کو اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹانے کا باعث نہیں ہونا چاہئے
۔
آئندہ بھی کوئی موذی اہل بیت اور صحابہ کا گستاخ اپنی ’لائیو معافی‘ کا ڈھول پیٹے تو اسے یہی کہا جائے کہ برخوردار معافی مانگنا بہت اچھی بات ہے لیکن تمہیں اپنی پوزیشن سے بہرحال اترنا ہوگا
۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں