ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

12 مئی، 2014

آخر تم کس بنیاد پر گواہی دے رہے ہو


نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ایک اعرابی(بدو) سے گھوڑا خریدا، اور اس سے جلدی چلنے کو کہا تا کہ گھر پہنچ کر اس کی قیمت ادا کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جلدی جلدی آگے بڑھ گئے جبکہ بدّو پیچھے رہ گیا۔ راستے میں لوگ بدّو کے پاس آتے اور اس کے گھوڑے کی قیمت لگاتے، انھیں معلوم نہیں تھا کہ پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ گھوڑا خرید لیا ہے۔ ایک آدمی نے گھوڑے کی قیمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی لگائی ہوئی قیمت سے زیادہ لگائی، چنانچہ بدو نے زور سے چلا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو آواز دی اور کہا:
"اگر آپ کو یہ گھوڑا خریدنا ہے تو خرید لیں، ورنہ میں اسے دوسرے کے ہاتھ بیچ دوں گا۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

"کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟؟؟؟"

اعرابی نے کہا: نہیں نہیں ابھی خرید و فروخت مکمل نہیں ہوئی۔

پھر اعرابی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے درمیان بحث ہونے لگی۔ یہ دیکھ کر لوگ ان کے پاس اکٹھے ہو گئے۔ اعرابی کہنے لگا:

"آپ اس بات پر کوئی گواہ پیش کریں کہ واقعی میں نے آپ کے ہاتھ اپنا گھوڑا بیچ دیا ہے۔"

جو مسلمان بھی ان کی گفتگو سن کر وہاں آتا وہ بدو سے کہتا: تیرا ناس ہو! کیوں ضد کرتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ بحث و مباحثہ کر رہا ہے، کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حق کے خلاف بھی کوئی بات کریں گے؟

اسی دوران حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ وہاں آن پہنچے، جہاں وہ بدّو بار بارایک ہی بات کی رٹ لگاۓ بیٹھا تھا، کہ اگر کوئی گواہ ہے تو پیش کرو، ورنہ مجھے گھوڑا نہیں بیچنا۔ جب حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور اعرابی کے درمیان بحث اور بدو کا یہ قول سنا کہ "آپ اس بات پر کوئی گواہی پیش کریں کہ واقعی میں نے آپ کے ہاتھ اپنا گھوڑا بیچ دیا ہے؟" تو وہ کہنے لگے

"میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا تو نے اپنا گھوڑا پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ہاتھوں پر فروخت کر دیا ہے!"

یہ سننا تھا، کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا:

"آخر تم کس بنیاد پر گواہی دے رہے ہو (جبکہ گھوڑے کی خرید و فروخت کے وقت تم ہمارے پاس موجود نہ تھے)؟"

حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! جب آپ ہمیں آسمان کی خبریں(وحی) سناتے ہیں تو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں، (کہ سچ کہا ہے آپ نے) تو پھر کیا میں آپ کے اس قول کی تصدیق نہیں کروں گا؟

ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عرش پر مستوی بلند و بالا ہستی جب فرش پر مقیم سرور کائنات کے پاس اپنے خصوصی نمائندہ حضرت جبرئیل کے ذریعے سے کوئی وحی بھیجتی ہے جس میں ماضی کی تاریخ اور مستقبل کی پیشن گوئیاں ہوتی ہیں، تو ہم (صحابہ کرام) بلا چون و چرا قبول کر لیتے ہیں اور آپ کی تصدیق کر کے پوری بات من و عن تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس خرید و فروخت میں، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قول کی تصدیق نہ کروں؟!

چنانچہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پیارے صحابی رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنتے ہی فرمایا،"اے خزیمہ تیری گواہی آج سے دو گواہوں کے برابر ہے"۔ اور انھیں ذوالشہادتین کا لقب دیا۔

ابو داؤد شریف، کتاب الآقضیہ، حدیث 3607
مسند احمد: جلد 5: حدیث 215

(حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ وہ بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے۔ فتح مکہ کے وقت اوسی قبیلہ حطمہ کا جھنڈا حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔)

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں