ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

5 دسمبر، 2012

خون آشام بلائیں


وہ فلم ڈراؤنی تو بہت تھی لیکن تھی کمال کی۔آپ میں سے بہت سے دوستوں نے بھی وہ فلم ضرور دیکھی ہو گی۔مجھے اس کا نام یاد نہیں۔میں آپ کو اس کی سٹوری سناتا ہوں۔

اس فلم کی کہانی کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ وہ انسانی شکلوں کی خون آشام بلائیں ہوتی ہیں۔آپ ان کو آپ ڈریکولاز کہہ سکتے ہیں۔
وہ لوگ چالیس پچاس کی تعداد میں ہوتے ہیں ان کا مسکن شہر سے دور ایک ویران عمارت کا تنگ و تاریک تہہ خانہ ہوتا ہے۔وہ لوگ گھپ اندھیری راتوں میں اس تہہ خانے سے نکلتے ہیں اور شہر میں پھیل جاتے ہیں۔وہ سب کے سب انتہائی خوش شکل اور خوش لباس ہوتے ہیں جس کے سبب لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں وہ لوگ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو بہلاتے پھسلاتے ہیں اور دھوکے سے اپنے ویران مسکن میں لے جاتے ہیں پھر سب اکٹھے اپنے اپنے شکار کی گردنوں میں اپنے دانت گاڑ کر ان کا خون پی جاتے ہیں۔

انسانی خون ان کے لئے ایک نشے کی حیثیت رکھتا ہے خون پینے کے بعد ان کے جسموں میں انتہا کی طاقت آ جاتی ہے۔ایک بڑی عجیب بات ہوتی ہے انسانوں کا خون پینے والوں کا آپس میں بہت اتفاق ہوتا ہے اور انتہا کی آپس میں محبت ہوتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اقلیت میں تھے اور اقلیت میں اتحاد انتہا درجے کا ہوتا ہے۔
ان کا ایک سردار بھی ہوتا ہے جو ایک ایسا جادو کیا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس شہر کے لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔اس لئے جب کوئی شخص شہر سے غائب ہوتا ہے تو شہر کے لوگ اس کے غائب ہونے کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔بلکہ کئی تو خوشی محسوس کرتے ہیں۔یوں ان کا شکار اور بھی آسان اور ہر قسم کے خطرے سے محفوظ ہوتا ہے۔ وہ لوگ روشنی سے انتہائی خوفزدہ رہتے ہیں اور اندھیروں سے محبت کرتے ہیں اندھیرا ان کی زندگی ہوتا ہے اور روشنی موت۔ان میں سے اگر کوئی غلطی سے سورج کی روشنی میں چلا جاتا ہے تو وہ مٹی کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔
قصّہ مختصر یہ کہ ایک بار ان کا سربراہ نفرت کا جادو کسی وجہ سے نہیں کر پاتا۔
اس رات اس کے ساتھی انسانوں کے شکار پر جاتے ہیں جب وہ اپنے شکار کو گھیر کر واپس لوٹتے ہیں تو کچھ لوگ ان کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کے مسکن تک پہنچ جاتے ہیں وہاں ان کا مقابلہ ان ڈریکولاز کے ساتھ ہوتا ہے جس میں انسان ان کی بے پناہ طاقت کی وجہ سے شکست کھا کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ادھر انسانوں کو کسی طرح اس راز کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ سورج کی روشنی ان کے لئے موت ہے۔چنانچہ وہ دن کی روشنی میں ان کے مسکن پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کے تہہ خانے کو تباہ کرتے ہیں سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے جس کے باعث وہ تمام کے تمام مٹی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔

مجھے پاکستان کی تاریخ دیکھ کر وہ فلم یاد آجاتی ہے۔
آزادی کے ساتھ ہی پاکستان کی جھولی میں بھی کچھ اسی طرح کے خون آشام جاگیردار اور سرمایہ دار خاندان آ گرے۔
یہ تمام خاندان آپس میں بہت متحد ہیں۔یہ باری باری اس قوم کی رگوں کا خون چوستے ہیں اور خون پی پی کر طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔یہ سب علم اور شعور کی روشنی سے سخت خوفزدہ ہیں۔قوم کو جہالت کے اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔علم اور شعور کی روشنی پھیلنے سے ان کے وجود مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے۔یہ تمام بہت متحد ہیں لیکن قوم کو تعصب کے جادو سے اِنہوں نے منتشر کر رکھا ہے۔ہماری آپس کی نفرت ہمیں ان کے خلاف متحد نہیں ہونے دیتی۔ جس کے باعث یہ کسی بھی خطرے سے محفوظ ہماری رگوں میں سے خون نچوڑ رہے ہیں۔
کب یہ نفرت پھیلانے والا جادو کرنا بھولیں گے؟
کب قوم متحد ہو گی؟
کب علم اور روشنی کا سورج طلوع ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔جس کی روشنی سے اِن کے وجود مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے؟

دیوانہ مجنوں۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں