ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

طاہر القادری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
طاہر القادری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

1 اکتوبر، 2014

مولوی کی سیلفی کرکٹ

 مولوی کے استاد ہونے میں کیا شبہ۔ پیر کی شام دھرنے سے باہرآیا اور کرکٹ کھیلی۔ یہ سولو کرکٹ تھی۔ جیسے ادب میں مونو لاگ ہوتا ہے‘ ویسے ہی مولوی نے سولو کرکٹ متعارف کرا دی ہے‘ اسے سیلفی کرکٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود ہی باؤلنگ کی‘ خود ہی بیٹنگ کی اورچھوٹتے ہی چھکے لگائے۔ پہلی بال میں آؤٹ ہوگیا لیکن امپائر بھی خود ہی تھا اس لئے انگلی کھڑی نہیں کی بلکہ خود کو ناٹ آؤٹ قرار دے کر پھر سے باؤلنگ اور بیٹنگ شروع کر دی ۔ پتہ نہیں‘ ’’سیلفی‘‘ میں مزہ نہیں آیا ورنہ سنچری کرنا کیا مشکل تھا۔ ہو سکتا ہے‘ کنٹینر سے باہر کی ’’خوشبو دار فضا‘‘ نے مولوی کی ناک کھٹی کر دی ہو (محاورہ دانت کا ہے لیکن ناک حسب حال بلکہ حسب موقع ہے )اور مزید چھکّے لگانے کا دم نہ رہا ہو۔

سیلفی کرکٹ اچھا شغل ہے‘ بعض لوگ توقع کر رہے ہیں کہ دھرنوں کی شاندار ناکامی کے بعد مولوی کا یہی شغل ہمہ وقتی ہو جائے گا ۔یہ مولوی بھی خدا نے کیا شے بنائی ہے‘ سبحان اس کی قدرت ۔ کتابیں اس کے شاگرد لکھتے ہیں‘ انہیں پیسے دے کر اپنے نام سے چھپوا لیتا ہے لیکن کرکٹ میں دوسروں پر انحصار نہیں کرتا۔بطور باؤلر کسی دوسرے کو بیٹسمین اور بطور بیٹسمین کسی دوسرے کو باؤلر نہیں مانتا۔ دونوں کی ڈیوٹی اکیلا دیتا ہے۔ پتہ نہیں‘ دھرنوں کے نتیجے کے لئے کسی اور امپائر پر انحصار کیوں تھا۔ اس امپائر کے انتظار میں ڈیڑھ مہینہ گنوا دیا اور سبق یہ سیکھا کہ باؤلر بھی خود‘ بیٹسمین بھی خود‘ امپائر بھی خود ہونا چاہئے۔ یہ سبق پہلے ہی سیکھ لیا ہوتا تو شاید دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔


امپائر کا انتظار رنگیلے نیازی کو بھی تھا۔ انتظار کیا‘ دونوں کو یقین تھا کہ امپائرپاس ہی کہیں دھرنوں کی اوٹ میں کھڑا ہے اسی لئے تو رنگیلا نیازی ہر رات یہ اعلان کرتا تھا کہ انگلی کل کھڑی ہوگی اور مولوی ہر دوسرے دن انقلاب کی نئی حتمی تاریخ دیتا تھا۔ ایک بار تو ’’رانگ سگنل‘‘ ملنے کے بعد پارلیمنٹ پر ہلّہ بول دیا اور فیصلہ سنا دیا کہ اب کوئی اس کے اندر جا سکتا ہے نہ باہر آسکتا ہے۔ پھر صحیح سگنل ملنے پر حکم بدل دیااور ارکان پارلیمنٹ کو آنے جانے کی اجازت دیدی۔ جو لوگ کہتے ہیں پارلیمنٹ طاقتور ہے‘ انہیں ماننا چاہئے کہ پارلیمنٹ کی طاقت مولوی کی محتاج ہے۔ خود انصاف کیجئے‘ مولوی پارلیمنٹ میں آنے جانے کی اجازت نہ دیتا تو پارلیمنٹ اب تک سیلفی کرکٹ کا گراؤنڈ نہ بن چکی ہوتی۔ 


عبداللہ طارق سہیل  

14 اگست، 2014

خدارا کوئی تو قادری صاحب کو جا کر کہہ دے !


 خدارا کوئی تو قادری صاحب کو جا کر کہہ دے !
قاری حنیف ڈار 

 اورنگ زیب بادشاہ بہت نیک انسان تھا ، شنید ھے کہ اس کی تکبیرِ اولی کبھی فوت نہیں ھوئی تھی ، اس کے دربار میں ایک مسخرہ کوئی بہروپ بھر کے آیا ، بادشاہ نے اسے پہچان لیا ،، اور کہا کہ ھم تمہیں ھر بہروپ میں پہچان لیتے ھیں، اس پہ اس نے اورنگ زیب کو چیلینج دیا کہ اگر وہ بادشاہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ھو گیا تو پانچ سو ٹکہ انعام میں لے گا ،، اس وقت ایک ٹکہ برطانیہ کے 80 پاونڈ کے برابر ھوتا تھا !

بادشاہ مرھٹوں کے خلاف جہاد کے لئے نکل کھڑا ھوا ، 22 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد اس نے مرھٹوں کا زور توڑ کر رکھ دیا ، ان 22 سالوں میں وہ پلٹ کر اپنے دارلخلافے بھی واپس نہ آ سکا ،، اور وھیں جان، جانِ آفریں کے سپرد کر کے اورنگ آباد میں دفن ھوا !

اورنگ زیب صوفی منش مگر توحید پسند انسان تھا ، اس کی صوفیت کو شرک کا تڑکا نہیں لگا تھا ! دورانِ معرکہ مشکل پیش آ رھی تھی اور قلعہ فتح نہیں ھو رھا تھا ،، اس علاقے کے لوگوں نے اورنگ زیب کو بتایا کہ اس علاقے کی ایک غار میں ، ایک اللہ والا کئ سال سے بیٹھا ھے ، اور مستجاب الدعا ھے ،جسے دعا دیتا ھے ضرور قبول ھوتی ھے ، اس سے دعا کرانا چاھئے ،، بادشاہ اس فقیر کی خدمت میں پیش ھوا اور دعا کی درخواست کی، فقیر نے بے نیازی سے گردن ھاں میں ھلا دی !
اللہ کا کرنا ایسا تھا کہ اگلے چند دن میں وہ قلعہ فتح ھو گیا اور مرھٹوں نے ہتھیار ڈال کر قلعہ اورنگ زیب کو سونپ دیا ،، بادشاہ اگلے دن اس فقیر کی گپھا پہ حاضر ھوا ، اور اسے وہ قلعہ بمع پانچ سو دیہات کے لکھ کر دے دیا ،،مگر اس فقیر نے وہ دستاویز پکڑ کر پھاڑ دی اور بادشاہ کو اشارے سے نکل جانے کے لئے کہا !

اگلے دن اورنگ زیب وھاں سے کوچ کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ اسے بتایا گیا کہ گپھا والا فقیر اس سے ملاقات کرنا چاھتا ھے ،، بادشاہ بے حد خوش بھی ھوا اور حیران بھی ،، فقیر کو دربار میں بلوایا گیا ،، فقیر نے سلام دعا کے بعد بادشاہ سے کہا کہ نکالو میرا 500 ٹکہ ،، جو تم نے انعام میں دینے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ میں آپ کو دھوکا دینے میں کامیاب ھو گیا ھوں !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

اورنگ زیب نے حسبِ وعدہ اسے 500 ٹکہ دیا ،، مگر سوال کیا کہ کل میں تمہیں قلعہ بمع 500 دیہات انعام میں دے رھا تھا تو تم نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا اور آج 500 ٹکہ لینے آ گئے ھو ؟ اس نے جواب دیا ، بادشاہ سلامت میں نے جو بہروپ بھرا تھا ،، اس بہروپ کا تقاضہ یہی تھا کہ اسے قبول نہ کروں ،، میں اس مقام کو لوگوں کی نظروں سے گرنے نہیں دینا چاھتا تھا ، وہ بہروپ تھا مگر ایک مقدس امانت تھی ، میں اس میں خیانت نہیں کر سکتا تھا ،، جبکہ یہ ٹکہ میرا حق ھے ،،

نیز یہ میرا آخری سوانگ تھا ،، میں واپس اپنی گپھا میں جا رھا ھوں ،مگر اب اپنی حقیقت کے ساتھ - جس اللہ نے میرے بہروپ کی عزت رکھی ھے وہ میری حقیقت کا کتنا بڑا قدردان ھو گا !

کوئی قادری صاحب سے کہہ دے کہ اگرچہ یہ سوانگ بھی ھو ،، شکل دین داروں والی بنائی ھے تو خدارا اس مقام کا تو خیال کریں ! جھوٹ در جھوٹ اور کہہ مکرنیاں ؟


 

13 اگست، 2014

جب طاہر القادری میرے کلاسفیلو تھے


 جب طاہر القادری میرے کلاس فیلو تھے!
عطاء الحق قاسمی

مجھے مفتی نعیم صاحب کی اس بات سے اختلاف ہے کہ طاہر القادری صاحب کو ٹی وی چینلز’’علامہ‘‘ نہ کہیں کیونکہ وہ ایک بے علم آدمی ہیں اور خدائی احکام کے برعکس زمین پر فساد برپا کررہے ہیں، قبلہ مفتی صاحب کو شاید علم نہیں کہ پاکستان میں قادری صاحب نے قرآن پر حلف اٹھا کر کہا تھا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے 19برس عالم رویا)خواب(میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد انڈیا میں اسی طرح قرآن پر حلف اٹھاتے ہوئے انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی شاگردی میں چار سال تخفیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ ؒکے سامنے عالم رویا میں15 سال تک زانوئے تلمذ تہہ کیا تو جس شخص نے علم دین براہ راست امام ابوحنیفہؒ سے حاصل کیا ہو، مفتی نعیم صاحب ان کے علامہ ہونے پر کیسے اعتراض کرسکتے ہیں، میں نے یہ بات آج تک چھپا کر رکھی تھی تاہم آج انکشاف کررہا ہوں اور قادری صاحب کو شاید یاد ہو کہ امام ابوحنیفہؒ سے حصول تعلیم کے دوران میں ان کا کلاس فیلو تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اکثر بھری کلاس میں قادری صاحب کو مرغا بنا کر ان کی کمر پر علامہ طاہر اشرفی کو لاد دیا کرتے تھے جس پر ان کی چیخیںنکل جاتی تھیں۔ دراصل یہ جھوٹ بہت بولتے تھے اور کئی دفعہ بلاوجہ بھی بولتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ا مام ؒصاحب سے کہا کہ آپ کو علم ہے میں امام حسینؓ کی معیت میں یزیدی لشکر کے خلاف لڑا تھا اور شہادت کا درجہ پایا تھا۔ اس بار قادری صاحب کی یہ بات سن کر امام ابوحنیفہؒ غصے میں نہیں آئے بلکہ انہوں نے مسکرا کر کہا ’’شہادت کا درجہ پانے کے بعد پھر تم زندہ کیسے ہوئے‘‘ جس کا ترت جواب قادری صاحب نے یہ دیا’’آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی توقیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے‘‘ اس پر امامؒ نے ایک بار پھر قادری صاحب کو مرغا بننے کو کہا اور علامہ طاہر اشرفی کو ان کی کمر پر بٹھادیا۔

مگر اس کے باوجود قادری صاحب بزرگان دین سے اپنی بے تکلیفوںکا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیںاور ان کے سادہ لوح مرید ان کی خرافات پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ ان حضرت نے فرمایا کہ’’حضورنبی کریمؐخواب میں تشریف لائے اور یہ نوید سنائی کہ ’’طاہرالقادری تمہاری عمر63 برس ہوگی‘‘ جس کے جواب میں قادری صاحب نے کہا’’حضورؐ میں عمر میں بھی آپ سے برابری نہیں کرسکتا،لہٰذا میری عمر گھٹا دی جائے‘‘حضور اکرمؐ نے فرمایا’’ٹھیک ہے طاہر القادری تمہاری عمر میں سے ایک سال گھٹا دیتا ہوں، تم 63 نہیں 62 برس کی عمر میں وفات پائوگے‘‘ کوئی ہے جو پتہ کرے بلکہ کوئی اور کیوں برادرم جبار مرزا تحقیق کرکے بتائیں کہ ان کے 6 2 برس ہونے میں کتنے دن باقی ہیں یا کہیں انہوں نے عمر کے حوالے سے بھی نعوذ باللہ ،حضوراکرمؐ سے برابری یا برتری تو حاصل نہیں کرلی؟ ویسے نواز شریف کے ایک گزشتہ دور میں قادری صاحب نے خود پر قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا تھا اور اپنے گھر کی دیواروں پر بکرے کے خون کے چھینٹے بکھیر دئیے تھے، نواز شریف نے اس’’سانحہ‘‘ پر عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ عدالت میں پیشی کے دوران جج نے ’’علامہ صاحب سے پوچھا’’کیا حضورؐ کی بشارت کے مطابق آپ کی عمر 62 برس ہوگی؟‘‘ علامہ صاحب نے پورے یقین سے کہا ’’جی بالکل حضورؐ کی بات کیسے غلط ہوسکتی ہے؟‘‘ اس پر جج نے کہا’’تو پھر آپ اپنے ساتھ گن مین کیوں لئے پھرتے ہیں، کیا آپ کو نعوذ باللہ حضورﷺ کی بات پر یقین نہیں؟‘‘ اس پر علامہ صاحب خاموش ہوگئے۔ بہرحال ’’سانحہ‘‘ کی مکمل تحقیقات اور اصل صورتحال پوری طرح سامنے آنے کے بعد عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا’’طاہرالقادری ایک جھوٹا اور فریبی شخص ہے’’اللہ کرے اس جج کے جسم میں کیڑے پڑیں جس نے شیخ السلام قائد انقلاب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ صاحب کے حوالے سے یہ گستاخانہ کلمات تحریر کئے تاہم کوئی پتہ نہیں کہ اس جج کو بھی بشارت ملی ہو کہ اس شخص کے بارے میں یہ کلمات درج کرو،تاہم میں اس سلسلے میں واللہ اعلم بالصواب کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
 

مفتی نعیم صاحب سے معذرت کے ساتھ’’علامہ‘‘ طاہر القادری نے آج تک جتنے دعوے کئے ہیں ،کیا وجہ ہے کہ میرے جیسا حسن ظن رکھنے والا شخص بھی ان دعوئوں کے حوالے سے بدگمانی کا شکار ہوجاتا ہے، میرے خیال میں اللہ قادری صاحب کا امتحان لیتا ہے کہ اپنے دعوئوں پر یہ شخص کب تک قائم رہتا ہے۔قادری صاحب تو اپنے دعوئوں میں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضورﷺکی پاکستان آمد کے لئے پی آئی اے کے ٹکٹ ، کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور 22کورسزوالے کھانوں کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اپنے مریدوں سے کروڑوں روپے اینٹھے تھے تاہم اس سے قطع نظر ان کے کچھ دعوے بالکل ’’بے لوث‘‘ بھی ہیں، مثلاً یہ کہ ان کے والد بہت بڑے ڈاکٹر تھے اور ایک سعودی بادشاہ کے کامیاب علاج پر بادشاہ سلامت نے انہیں ایک مسند اور خلعت عطا کی تھی اور یہ دونوں چیزیں کہیں گم ہوگئیں ، ان کے والد بہت بڑے شاعر تھے، ان کے بیسیوں مجموعے ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں مگر افسوس ان میں سے ایک مجموعہ بھی دستیاب نہیں۔ تیسرے یہ کہ ان کے والد بہت بڑے صوفی بزرگ تھے اور ان کا مرتبہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے برابر تھا ،مگر اللہ نے ان کا یہ مرتبہ خلق خدا سے پوشیدہ رکھا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ قادری صاحب لکھ چکے ہیں ظاہر ہےایسے دعوئوں سے قادری صاحب کے مرحوم والد کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا، بے لوثی اسی کو تو کہتے ہیں۔
 

میں نے یہ سارا کالم ،سچی بات پوچھیں تو قادری صاحب کے مریدوں اور ان کے ملازموں کو دلاسا دینے کے لئے لکھا ہے، دراصل گزشتہ روز انہوں نے اپنی تقریر میں اپنے ادارے کے ملازموں اور سادہ لوح مریدوں کو یہ’’تڑی‘‘ لگائی کہ اگر تم میں سے انقلاب آنے سے پہلے اسلام آباد سے اٹھ کر چلا آئے تو اسے قتل کردیا جائے۔ قادری صاحب گزشتہ برس خود اسلام آباد کے دھرنے سے بھاگ آئے تھے اور انہوں نے اس کی پاداش میں خود کو قتل نہیں کیا تھا لہٰذا ملازمین اور مریدین بے دھڑک اسلام آباد جائیں ،وہاں جو کام کرنے ہیں یا دامن کوہ وغیرہ کی سیر کرنی ہے اس سے فراغت پاکر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئیں کیونکہ علامہ صاحب اپنے اس بیان سے مکر چکے ہیں اور کہا ہے کہ انہوں نے مذاق سے یہ بات کہی تھی اور ان کا اشارہ کارکنوں کی طرف نہیں بلکہ اپنے اور عمران خان کی طرف تھا۔ یوم شہداء پر ہنسی مذاق کی باتیں؟ یہ کام قادری صاحب ہی کرسکتے ہیں، دوسری یہ کہ ان کا عذربدتر از عذرکے زمرے میں آتا ہے، یعنی انہوں نے اپنے پیروکاروں کے قتل کا نہیں، عمران خان کو قتل کا حکم دیا ہے ،جیو قادری صاحب۔
 

اور قادری صاحب کی ایک اور ادا!قادری صاحب نے اپنے جلسے میں خود کو امام حسینؓ اور اپنے پیروکاروں کو حسینی لشکر تصور کرتے ہوئے کہا کہ شب عاشورہ کو امام عالی مقام نے دیا بجھا دیا تھا اور اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ تم میں سے جو جانا چاہے اور شرمندگی کی وجہ سے نہ جارہا ہو، وہ اس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نکل جائے۔ اس کے بعد قادری صاحب نے فرمایا’’یہ لیں، میں آنکھیں بند کررہا ہوں جس نے جانا ہو وہ چلا جائے‘‘ اور پھر حضرت نے چند لمحوں کے لئے آنکھیں بند بھی کرلیں۔اللہ کرے طاہر القادری صاحب کی ،اگر پہلے نہیں تو اب آنکھیں کھل جائیں کہ عوام ان کی کہہ مکرنیوں سے پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ میں انہیں یہ مشورہ ان کے ایک پرانے ’’کلاس فیلو‘‘کے طور پر دے رہا ہوںامید ہے وہ قبول فرمائیں گے، ورنہ میں ان کی جھنگ میں قیام کے دوران وقوع پذیر ہونے والے کچھ سچے واقعات سے بھی پردہ اٹھانے کا سوچ رہا ہوں۔ 
 

4 اگست، 2014

غزہ کی صورت حال پر طاہر القادری سے ایک صحافی کی گفتگو


صحافی: مولوی صاحب، اسرائیل نے سیکٹروں بچوں سمیت دو ہزارکے قریب لوگ شہیدکر دیئے ہیں سب لوگوں نے اس کی مذمت کی ہے لیکن آپ کی طرف سے ایک لفظ تک نہیں کہا گیا، اس کی کیا وجہ ہے؟
مولوی صاحب: اسرائیل خود مختار ملک ہے، اس کے اندرونی مسئلے پر مداخلت کا کوئی جواز نہیں۔
صحافی:لیکن وہاں مسلمان قتل ہو رہے ہیں۔
مولوی صاحب: اچھا؟ مجھے تو کسی نے بتایا تھا وہ کوئی فلسطینی وغیرہ ہیں۔
صحافی: فلسطینی مسلمان ہیں، آپ سب جانتے ہیں۔
مولوی صاحب: یہ بات ٹھیک ہے، میں ہی تو ہوں جوسب جانتا ہوں اور سب سے زیادہ جانتا ہوں۔
صحافی:پھر آپ نے بیان کیوں نہیں دیا۔
مولوی صاحب:آپ اخبار ٹی وی نہیں دیکھتے، میں تو دن میں چھ بار بیان دیتا ہوں کہ یہ حکومت نہیں رہے گی۔
صحافی: یاہو کی حکومت؟
مولوی صاحب:نہیں نواز شریف حکومت، اب اسے جانا ہوگا، پھر انقلاب آئے گا اور یا ہو نہیں میں گوگل استعمال کرتا ہوں۔
صحافی: لیکن فلسطین۔۔۔
مولوی صاحب:میں نے اپنا مؤقف دے تو دیا۔
صحافی: لیکن مذمت تو نہیں کی۔
مولوی صاحب:میں ہر روز چھ بار مذمت کرتا ہوں۔
صحافی: اسرائیل کی ؟
مولوی صاحب:نہیں نواز شریف کی۔
صحافی: لیکن آپ اسرائیل کی مذمت کیوں نہیں کرتے۔
مولوی صاحب:دہشت گردوں کے بارے میں میرا موقف میرے فتوے میں آچکا ہے۔ جو میں نے کینیڈا کی بابرکت، الہامی اور روحانی فضاؤں میں لکھا تھا، آپ وہ پڑھ لیں۔ منہاج کے دفتر سے خرید لیں یا امریکی سفارتخانے جا کر مفت پڑھ لیں۔
صحافی: لیکن مذمّت ؟
مولوی صاحب:میں نواز شریف کی شدید مذمت کرتا ہوں، میں شہباز شریف کی شدید مذمت کرتا ہوں، سن لیا، اب جاؤ۔ میرا موبائل بج رہا ہے، ’’تازہ الہام‘‘ آرہا ہے۔ آپ فوراً جاؤ،’’الہام‘‘ صرف خلوت میں سنا جاتا ہے۔

عبداللہ طارق سہیل

27 جولائی، 2014

علامہ پروفیسر طاہر القادری کا توہین رسالت پر موقف


 علامہ پروفیسر طاہر القادری کا توہین رسالت پر موقف
پاکستان اور ڈنمارک میں دیے گئے دو متضاد بیانات ، سنیں علامہ پروفیسر پاکستان میں کیا کہتے ہیں اور اپنے انگریز آقاؤں کے پاس جا کر کیا کہتے ہیں.
یہ ویڈیو متعدد بار فیس بک اور یوٹیوب سے ڈیلیٹ ہو چکی ہے، ،کئی قارئین کے اسرار پراس بار پھر ہم نے بلاگ پر پوسٹ کی ہے، دیکھتے ہیں کہ کتنے دن چلتی ہے.

جب ڈیلیٹ ہو گئی تو ہم پھر کر دیں دے :)



Allama professor tahir ul qadri statements regarding blasphemy law
it is applicable on non muslims?

24 جولائی، 2014

’ایویں رولا پاندا اے‘

 ’ایویں رولا پاندا اے‘ 
ابو نثر

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ:
’’کوئی طاقت انقلاب کو نہیں روک سکتی‘‘۔
علامہ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ ایسی ناطاقتی صرف زمینی طاقتوں کے حصے میں آئے گی یا جوشِ انقلاب میں اُنھوں نے تمام آسمانی طاقتوں کو بھی کھلا چیلنج دے مارا ہے۔ویسے انقلاب کے آنے کی نوید تو ہم جنوری 2013ء سے سن رہے ہیں جب علامہ صاحب اسلام آباد کے ’ڈی چوک‘ پر سخت سردی کے موسم میں گرما گرم کنٹینر کے اندر کافی پی پی کر انقلاب لانے پر تلے ہوئے تھے۔مگر اب تک جو انقلاب نہ آسکا تو آخر اِس کی کیا وجہ ہے؟کیا اس کی وجہ انقلاب کی اپنی ناطاقتی ہے؟ یا واقعی کوئی طاقت انقلاب کو آنے سے روکے کھڑی ہے؟ ابھی پچھلے ماہ یعنی جون 2014ء میں بھی علامہ صاحب ’انقلاب بذریعہ ہوائی جہاز‘ لے کر آرہے تھے۔ مگریہ بھی اﷲ ہی جانے کہ اُس انقلاب کی آمد کی راہ میں کون سی طاقت آڑے آگئی؟ سو،انقلاب کو آنا تھا نہ آیا۔ بلکہ انقلاب کی جگہ ماہِ صیام آگیا اور ’اﷲ کا مہینہ‘ یعنی ’رمضانِ کریم‘ انقلاب کا رستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ ابھی تک کھڑا ہے۔ اب علامہ صاحب بھی کھڑے انتظار کر رہے ہیں کہ ماہِ صیام کسی طرح رُخصت ہو تو اُن کا انقلاب بھی کسی طرح آئے۔ (ارے بھئی رمضان میں قید کر دیا جانے والا، اُن کا ’محرکِ انقلاب‘ ، اُن کا گڈو بٹ، رہائی پائے گا تو انقلا ب آئے گا نا!)
صاحبو! علامہ صاحب کا انقلاب، انقلاب نہ ہوا، ایک پرانی کہانی کے چرواہے کا شیر ہوگیا، جس کے متعلق چرواہا ہر روز صدا لگاتا تھا کہ۔۔۔’شیر آیا، شیر آیا دوڑنا‘۔۔۔صدا سن کر گاؤں کے لوگ کلھاڑے لے لے کر دوڑے چلے آیا کرتے۔ مگر اُنھیں کہیں شیر نظر آتا نہ شیر کی دُم۔ بالآخر ایک روزشیر آہی گیا۔ اُس روز بھی چرواہے نے بڑی آوازیں لگائیں۔ مگر گاؤں والوں نے کہا: ’’ایویں رولا پاندا اے‘‘۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ شیر چرواہے کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ ہم بھی سوچتے ہیں کہ علامہ کے صدا لگاتے لگاتے اگر کسی روز سچ مچ انقلاب آگیا تو ہم کنیڈا والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟
علامہ صاحب نے یہ بھی فرمایاہے کہ:’’کرپٹ پولیس اہلکار انقلاب کے رستے میں نہ آئیں‘‘۔
اس سے ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ شاید کرپٹ پولیس اہلکار ہی انقلاب کے رستے میںآکر کھڑے ہوگئے تھے۔انقلاب پولیس سے ڈر گیا اور مارے ڈر کے نہ آسکا۔ اب علامہ صاحب نے جو پولیس کو للکارا ہے تو اس پر ہمیں آغاحشر کاشمیری کی للکار یاد آگئی کہ:
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو، ہٹ جاؤ! دے دو راہ جانے کے لیے
اس سے ہمیں پتا چلا کہ کرپٹ پولیس اہلکاروں کی طرح، فلک پر گشت یا مٹر گشت کرتے ہوئے بادل بھی آغا صاحب کی ’آہ‘ کا رستہ روکے کھڑے تھے۔ وہ تو آغا صاحب مرحوم نے اُنھیں للکار، للکار کر ہٹایا تو ’آہ‘ کو فلک پر جانے کا رستہ ملا۔ تاہم، آغا صاحب کی ’آہ‘ فلک سے رحم لانے میں کامیاب ہوئی یا نہیں؟ اس باب میں اُردو زبان کے شیکسپیئر کے ڈراموں کی تاریخ خاموش ہے۔ مگر علامہ صاحب خاموش نہیں ہیں۔ اب تک نہ آنے والے انقلاب کے رستے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کرپٹ پولیس والوں کو للکارے چلے جارہے ہیں کہ:
انقلاب آتا ہے تم پر قہر ڈھانے کے لیے
پُلسیو، ہٹ جاؤ! دے دو راہ آنے کے لیے
اُردو محاورے کی ’رادھا‘ اپنے ناچنے کے لیے ’نومن تیل‘ فراہم کرنے کی شرط عائد کیا کرتی تھی، اس اطمینان کے ساتھ کہ۔۔۔ ’نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘ ۔۔۔ مگر علامہ کو اپنے انقلاب کے لیے ’دس لاکھ تعلیم یافتہ افراد‘ کا لشکر اقتدار بنانے کی حاجت ہے۔ آپ نے فرمایا :
’’ان کی فہرست ابھی سے تیار کرنا شروع کردی جائے گی‘‘۔
دس لاکھ افراد کی فہرست بنانے میں کم از کم، کم ازکم بھی سو، دوسو، دن تو لگ ہی جائیں گے۔پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق دو ڈھائی کروڑ تعلیم یافتہ افراد تو بیروزگار پھر ہی رہے ہوں گے۔علامہ نے تعلیم یافتہ افراد سے درخواستیں طلب فرما لی ہیں۔ درخواستیں جمع کروانے اور پھر ان کی اسکروٹنی کرکے اُن میں سے دس لاکھ افراد کی فہرست بنانے کا کام ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے کام سے بھی زیادہ دقت طلب کام ہے۔اب دیکھیے اس میں کتنا وقت لگتا ہے اور ہمارے اِس ٹیڑھے آنگن میں ناچنے کے لیے انقلاب کو دس لاکھ تعلیم یافتہ افرادکی فہرست کب تک میسر آتی ہے۔
رانا ثناء اﷲ صاحب کا کام اور اُن کا مقام آج کل رانا مشہود صاحب نے سنبھال رکھا ہے۔ سو اُنھوں نے بھی اُسی ۔۔۔ ’طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنا‘ ۔۔۔ شروع کردیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’کنٹینر والے بابا کنیڈا برانڈ انقلاب لے کر جلد اپنے وطن لوٹ جائیں گے۔مولانا مسلسل بیان بازی کرکے عوام کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔وہ رمضان المبارک میں اسلامی تعلیمات کی بجائے خود نُمائی کی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔اُن کی شعبدہ بازی اور مسلسل جھوٹ سے عوام زچ ہو چکے ہیں۔وہ لاشوں کی سیاست کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔
ہمیں رانا مشہود صاحب کے اِن خیالات سے قطعاً اتفاق نہیں ہے۔یہ غلط ہے کہ مولانا عوام کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔وقت وہ صرف اپنا ضائع کر رہے ہیں۔عوام کو تو اُن کے بیانات سے لطف اندوز ہو ہو کر اپنا وقت مزے سے گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔ عوام کا سارا وقت علامہ صاحب کے بیانات سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر اپنا ’روزہ بہلانے‘ میں صرف ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ داروں کی اس سے بڑھ کر دینی خدمت بھلا ہمارے علامہ صاحب اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ بھی درست نہیں ہے کہ اُن کی شعبدہ بازی وغیرہ سے عوام زچ ہو چکے ہیں۔عوام زچ نہیں ہوئے۔وہ آج بھی علامہ کے بیانات سے اتنے ہی لطف اندوز ہو رہے ہیں جتنا پہلے ہوتے تھے۔رہی یہ بات کہ وہ لاشوں کی سیاست کرنے میں کبھی کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ تو رانا مشہود صاحب ’خدا کے خوف سے ڈریں‘۔ لاشوں کی سیاست کی یہ کامیابی کم ہے کہ اب رانا ثناء اﷲ صاحب کی جگہ رانا مشہود صاحب آگئے ہیں۔ہمیں یقین ہے رانا مشہود صاحب بیان بازی میں رانا ثناء اﷲصاحب کے مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے، ہاں اُن کے انجام تک ضرور پہنچائے جاسکتے ہیں۔
اب آخر میں ایک بار پھر وہی بات۔ یعنی علامہ کی کہی ہوئی جس بات سے ہم نے آج کے کالم کا آغاز کیا ہے کہ ’’کوئی طاقت انقلاب کو نہیں روک سکتی‘‘۔ تو یااولی لابصار! یہ تو بڑے تکبر کی بات ہے۔ جس ذات نے علامہ کو طلاقتِ لسانی کی طاقت بخشی ہے،اُس ذات کی عزت و جلال کی قَسم، وہ انھیں ضرور دکھا کر رہے گی کہ کوئی طاقت اُن کے تکبر بھرے انقلاب کو روک سکتی ہے یا نہیں؟

26 جون، 2014

میرے مرشد پاک

 

میرے مرشد پاک

گل نوخیز اختر

میرے مرشد پاک’’ شیخ الاسلام آباد‘‘ کے بارے میں جو لوگ نازیبا کلمات استعمال کرتے ہوئے ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں میں ان سب کو تنبیہہ کرنا چاہتا ہوں کہ باز آجائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ کسی دن سو کر اٹھیں تو شکلیں ہی بدلی ہوئی ہوں۔گذشتہ دنوں میرے مرشد پاک ایمریٹس کی پرواز سے پاکستان تشریف لائے تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے‘ مرشد کو چونکہ بشارت ہوچکی تھی لہذا انہوں نے پانچ گھنٹے طیارے میں ہی قیام کا فیصلہ کیا اور انقلابِ عظیم کی خاطر عصر اور مغرب کی نمازیں بھی موخر کردیں۔مرشد چاہتے تو انہیں طیارے میں آنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ وہ چند کلمات پڑھ کر طیارے سے بھی زیادہ تیز سپیڈ سے پرواز کرتے ہوئے پاکستان میں آسکتے تھے لیکن انہوں نے قانونی راستہ اختیار کیا ۔کئی بدخواہ اور گنہگار یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ میرے مرشد ‘اعلیٰ اداروں کو فون ملاتے رہے لیکن ’’اُدھر‘‘ سے Not responding کی آواز آتی رہی ‘ یہ بھی جھوٹ ہے‘ اصل میں مرشد کینڈا سے پرواز کرنے سے قبل اپنے موبائل میں ایزی لوڈ کرانا بھول گئے تھے لہذا بیلنس کی کمی آڑے آگئی۔اتنی سی بات تھی۔۔۔!!!
میں اپنے مرشد کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں‘ انہوں نے تو میری زندگی ہی بدل دی‘مجھے یاد ہے آج سے دس سال پہلے میں ایک بہت برا انسان تھا‘ پینٹ شرٹ پہنتا تھا‘ گانے سنتا تھا‘ بالوں میں جیل لگاتا تھا‘ گاڑی چلاتے ہوئے گنگنایا کرتا تھا۔۔۔اور تو اور کئی دفعہ انڈیا کی کوئی فلم بھی دیکھ لیا کرتا تھا۔ لیکن پھر میری مرشد پاک سے ملاقات ہوئی اور مجھ میں انقلاب آگیا۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے کسی کا مرید ہونا بہت ضروری ہے‘ میں نے ان کی بات پر فوراً عمل کیا اور ’’رن مرید‘‘ ہوگیا۔ اِس پر مرشد پاک نے انتہائی ملائم لہجے میں مجھے سمجھایا کہ ’’ڈنگر انسان! رن مرید ی کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔۔‘‘ تب میں نے پہلی مریدی سے استعفیٰ دے کر مرشد پاک کی مریدی اختیار کی اوران کی نگاہِ روشن سے وہ اعلیٰ و ارفع مقام پایا کہ آج میں جدھر سے بھی گزرتاہوں انگلیاں سرو اٹھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں۔
میرے مرشد پاک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ خواب میں مجھے نبی پاکﷺ کا دیدار ہوا اور انہوں نے مجھے میزبانی کا شرف بخشتے ہوئے فرمایا کہ ’’طاہر میں اس شرط پر پاکستان رکوں گا کہ میرے کھانے پینے اور ٹکٹ کے اخراجات تم افورڈ کرو‘‘۔سبحان اللہ! ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ میں نے 15سال ایک مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی‘ اسی خواب کا ذکر ایک اور محفل میں کرتے ہوئے مرشد پاک نے 6 سال کم کردیے اور ربِ کعبہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ’’میں نے 9 سال تک اُس مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘ حریفوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ہی خواب کا بیان کرتے ہوئے 6 سالوں کا یہ فرق کیوں؟؟؟ کوئی اِن جاہلوں کو بتائے کہ مرشد پاک اِس تعلیمی سلسلے کے دوران ہفتہ اتوار کی چھٹی بھی تو کرتے رہے ہیں‘ چھوٹی بڑی عید‘ شب برات‘ 23 مارچ ‘ 14 اگست اور 25 دسمبر سمیت گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں اس کے علاوہ تھیں‘ وہ سب نکال کے باقی 9 سال ہی تو بچتے ہیں۔اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ عام طور پر ہم یہی کہتے ہیں کہ ایک طالبعلم نے دس سال سکول میں تعلیم حاصل کرکے میٹرک کیا‘ لیکن جب تفصیل میں جائیں گے تو دس سال کی چھٹیاں منہا کر دی جائیں گی۔یہی کچھ میرے مرشد نے بھی کہا۔۔۔کچھ غلط کہا؟؟؟
بحکمِ خدا۔۔۔میرے مرشد پاک انقلاب لانے کے لیے تشریف لاچکے ہیں‘ دو سال پہلے بھی وہ اسی سلسلے میں تشریف لائے تھے لیکن انقلابی زیادہ تھے اور ہیٹر ایک۔۔۔لہذا مرشد نے طے کیا کہ ہزاروں ہیٹر لگانے کی بجائے کیوں نہ انقلاب کا سیزن ہی بدل دیا جائے لہذا اب کی بار وہ گرمیوں میں تشریف لائے ہیں۔ سرکار نے ان کی آمد سے خوفزدہ ہوکر جہاز کا رخ اسلام آباد کی بجائے لاہور کی طرف موڑ دیا لیکن مرشد بھی دھن کے پکے تھے‘جہازہی میں نیت باندھ لی کہ وہ کسی حکومتی بندے کے ساتھ جہاز سے نہیں اتریں گے بلکہ صرف کسی فوجی جوان کے ساتھ ہی باہر تشریف لائیں گے لیکن سندھ کے گورنر نے جب انہیں فون پر یہ بتایا کہ غیر ملکی ائیر لائن والے ان پر تاحیات پابندی کا سوچ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پندرہ منٹ بعد وہ جہاز کا انجن آف کرکے اے سی وغیرہ بند کردیں گے تو مرشد پاک کو یہ سنتے ہی حالت مراقبہ میں چلے گئے اور ’’کرامت‘‘ یہ ہوئی کہ مرشد کے دوست گورنر پنجاب (جو یقیناًحکومت کا حصہ نہیں)نے فون کر دیا ورنہ مرشد آنے والی گرمی کے تصور سے ہی حواس باختہ ہورہے تھے‘ ۔اصل میں میرے مرشد کی پرابلم ہے کہ گرمی میں ان کا ذہنی توازن پونے تین سینٹی گریڈ نیچے آجاتاہے‘ ایک دفعہ سخت گرمی کے عالم میں مرشد کو نماز جنازہ پڑھانا پڑ گئی تھی‘ نماز ختم ہوئی تو مرشد لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر بھول گئے کہ وہ کہاں ہیں لہذا پوری قوت سے چلائے۔۔۔’’مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو‘‘
الحمدللہ !آج میرے مرشد واپس آچکے ہیں اور انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ اگلا الیکشن وہ خود کرائیں گے۔یقیناًاگلا الیکشن کرانے کا اختیار اب کسی حکومت‘ عدالت یا الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ میرے مرشد کا ہوگا اوروہ جسے چاہیں گے مسندِ اقتدار پر بٹھائیں گے کیونکہ اٹھارہ کروڑ عوام نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہے‘ نہ کسی مذہبی جماعت کے ساتھ بلکہ سو فیصد میرے مرشد کے ساتھ ہے۔ اس کے باوجود مرشد پاک ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آنے کو حرام سمجھتے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ کم ازکم ان کا اقتدار ووٹ کا محتاج نہیں۔۔میں چونکہ اپنے مرشد کا چہیتا ہوں لہذا مجھے امید ہے میرے مرشد پاک مجھے چیئرمین واپڈا یا وفاقی وزیر ضرور بنائیں گے۔مرشد پاک چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سب کو یکساں حقوق ملیں‘ کوئی گرم کنٹینر میں بیٹھ کر سرد عوام سے خطاب نہ کرے‘ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی بلٹ پروف گاڑی ہو‘ ہر بندہ چارٹر طیارے کے پیسے افورڈ کر سکے‘ ہر پاکستانی شہری کو کینیڈا کی نیشنیلٹی دلائی جائے۔ میرے مرشد تو برابری کے اس حد تک قائل ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے ہر مرید کو سکول کالج جانے کی بجائے خواب میں مقدس ہستیوں سے تعلیم دلائی جائے‘ اس مقصد کے لیے مرشد ’’کے سی ٹی‘‘(خواب کالج آف ٹیکنالوجی) کے منصوبے پر بھی غور فرما رہے ہیں ‘ انہوں نے اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں میرا نام بھی شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔میں اپنے مرشد کا نہایت شکر گذار ہوں کہ ان کی نظر کرم سے میری بگڑی مسلسل سنورتی جارہی ہے‘ جب سے میں نے مرشد کے نام کا ورد شروع کیا ہے میری گاڑی کا پٹرول چھ کلومیٹر زیادہ ایوریج دینے لگا ہے‘ اے سی ٹرپ ہونا بند ہوگیا ہے‘ گھر کے یو پی ایس کی بیٹری بھی اچانک سے ڈیڑھ گھنٹہ نکالنے لگ گئی ہے‘ شاور کے جن سوراخوں میں سے پانی آنا بند ہوگیا تھا وہ بھی’’ موسلادھار‘‘پرفارمنس دینے لگے ہیں۔۔۔اور تو اور میں کچھ دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں کہ میں جتنے مرضی سگریٹ پیتا جاؤں‘ میری ڈبی ختم نہیں ہوتی۔آئیے سب مل کر مرشد پاک کے انقلاب کی دعا کریں تاکہ ملک سے منحوس جمہوریت کا تصور تو ختم ہو۔