ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

26 جون، 2014

میرے مرشد پاک

 

میرے مرشد پاک

گل نوخیز اختر

میرے مرشد پاک’’ شیخ الاسلام آباد‘‘ کے بارے میں جو لوگ نازیبا کلمات استعمال کرتے ہوئے ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں میں ان سب کو تنبیہہ کرنا چاہتا ہوں کہ باز آجائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ کسی دن سو کر اٹھیں تو شکلیں ہی بدلی ہوئی ہوں۔گذشتہ دنوں میرے مرشد پاک ایمریٹس کی پرواز سے پاکستان تشریف لائے تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے‘ مرشد کو چونکہ بشارت ہوچکی تھی لہذا انہوں نے پانچ گھنٹے طیارے میں ہی قیام کا فیصلہ کیا اور انقلابِ عظیم کی خاطر عصر اور مغرب کی نمازیں بھی موخر کردیں۔مرشد چاہتے تو انہیں طیارے میں آنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ وہ چند کلمات پڑھ کر طیارے سے بھی زیادہ تیز سپیڈ سے پرواز کرتے ہوئے پاکستان میں آسکتے تھے لیکن انہوں نے قانونی راستہ اختیار کیا ۔کئی بدخواہ اور گنہگار یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ میرے مرشد ‘اعلیٰ اداروں کو فون ملاتے رہے لیکن ’’اُدھر‘‘ سے Not responding کی آواز آتی رہی ‘ یہ بھی جھوٹ ہے‘ اصل میں مرشد کینڈا سے پرواز کرنے سے قبل اپنے موبائل میں ایزی لوڈ کرانا بھول گئے تھے لہذا بیلنس کی کمی آڑے آگئی۔اتنی سی بات تھی۔۔۔!!!
میں اپنے مرشد کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں‘ انہوں نے تو میری زندگی ہی بدل دی‘مجھے یاد ہے آج سے دس سال پہلے میں ایک بہت برا انسان تھا‘ پینٹ شرٹ پہنتا تھا‘ گانے سنتا تھا‘ بالوں میں جیل لگاتا تھا‘ گاڑی چلاتے ہوئے گنگنایا کرتا تھا۔۔۔اور تو اور کئی دفعہ انڈیا کی کوئی فلم بھی دیکھ لیا کرتا تھا۔ لیکن پھر میری مرشد پاک سے ملاقات ہوئی اور مجھ میں انقلاب آگیا۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے کسی کا مرید ہونا بہت ضروری ہے‘ میں نے ان کی بات پر فوراً عمل کیا اور ’’رن مرید‘‘ ہوگیا۔ اِس پر مرشد پاک نے انتہائی ملائم لہجے میں مجھے سمجھایا کہ ’’ڈنگر انسان! رن مرید ی کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔۔‘‘ تب میں نے پہلی مریدی سے استعفیٰ دے کر مرشد پاک کی مریدی اختیار کی اوران کی نگاہِ روشن سے وہ اعلیٰ و ارفع مقام پایا کہ آج میں جدھر سے بھی گزرتاہوں انگلیاں سرو اٹھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں۔
میرے مرشد پاک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ خواب میں مجھے نبی پاکﷺ کا دیدار ہوا اور انہوں نے مجھے میزبانی کا شرف بخشتے ہوئے فرمایا کہ ’’طاہر میں اس شرط پر پاکستان رکوں گا کہ میرے کھانے پینے اور ٹکٹ کے اخراجات تم افورڈ کرو‘‘۔سبحان اللہ! ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ میں نے 15سال ایک مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی‘ اسی خواب کا ذکر ایک اور محفل میں کرتے ہوئے مرشد پاک نے 6 سال کم کردیے اور ربِ کعبہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ’’میں نے 9 سال تک اُس مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘ حریفوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ہی خواب کا بیان کرتے ہوئے 6 سالوں کا یہ فرق کیوں؟؟؟ کوئی اِن جاہلوں کو بتائے کہ مرشد پاک اِس تعلیمی سلسلے کے دوران ہفتہ اتوار کی چھٹی بھی تو کرتے رہے ہیں‘ چھوٹی بڑی عید‘ شب برات‘ 23 مارچ ‘ 14 اگست اور 25 دسمبر سمیت گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں اس کے علاوہ تھیں‘ وہ سب نکال کے باقی 9 سال ہی تو بچتے ہیں۔اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ عام طور پر ہم یہی کہتے ہیں کہ ایک طالبعلم نے دس سال سکول میں تعلیم حاصل کرکے میٹرک کیا‘ لیکن جب تفصیل میں جائیں گے تو دس سال کی چھٹیاں منہا کر دی جائیں گی۔یہی کچھ میرے مرشد نے بھی کہا۔۔۔کچھ غلط کہا؟؟؟
بحکمِ خدا۔۔۔میرے مرشد پاک انقلاب لانے کے لیے تشریف لاچکے ہیں‘ دو سال پہلے بھی وہ اسی سلسلے میں تشریف لائے تھے لیکن انقلابی زیادہ تھے اور ہیٹر ایک۔۔۔لہذا مرشد نے طے کیا کہ ہزاروں ہیٹر لگانے کی بجائے کیوں نہ انقلاب کا سیزن ہی بدل دیا جائے لہذا اب کی بار وہ گرمیوں میں تشریف لائے ہیں۔ سرکار نے ان کی آمد سے خوفزدہ ہوکر جہاز کا رخ اسلام آباد کی بجائے لاہور کی طرف موڑ دیا لیکن مرشد بھی دھن کے پکے تھے‘جہازہی میں نیت باندھ لی کہ وہ کسی حکومتی بندے کے ساتھ جہاز سے نہیں اتریں گے بلکہ صرف کسی فوجی جوان کے ساتھ ہی باہر تشریف لائیں گے لیکن سندھ کے گورنر نے جب انہیں فون پر یہ بتایا کہ غیر ملکی ائیر لائن والے ان پر تاحیات پابندی کا سوچ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پندرہ منٹ بعد وہ جہاز کا انجن آف کرکے اے سی وغیرہ بند کردیں گے تو مرشد پاک کو یہ سنتے ہی حالت مراقبہ میں چلے گئے اور ’’کرامت‘‘ یہ ہوئی کہ مرشد کے دوست گورنر پنجاب (جو یقیناًحکومت کا حصہ نہیں)نے فون کر دیا ورنہ مرشد آنے والی گرمی کے تصور سے ہی حواس باختہ ہورہے تھے‘ ۔اصل میں میرے مرشد کی پرابلم ہے کہ گرمی میں ان کا ذہنی توازن پونے تین سینٹی گریڈ نیچے آجاتاہے‘ ایک دفعہ سخت گرمی کے عالم میں مرشد کو نماز جنازہ پڑھانا پڑ گئی تھی‘ نماز ختم ہوئی تو مرشد لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر بھول گئے کہ وہ کہاں ہیں لہذا پوری قوت سے چلائے۔۔۔’’مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو‘‘
الحمدللہ !آج میرے مرشد واپس آچکے ہیں اور انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ اگلا الیکشن وہ خود کرائیں گے۔یقیناًاگلا الیکشن کرانے کا اختیار اب کسی حکومت‘ عدالت یا الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ میرے مرشد کا ہوگا اوروہ جسے چاہیں گے مسندِ اقتدار پر بٹھائیں گے کیونکہ اٹھارہ کروڑ عوام نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہے‘ نہ کسی مذہبی جماعت کے ساتھ بلکہ سو فیصد میرے مرشد کے ساتھ ہے۔ اس کے باوجود مرشد پاک ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آنے کو حرام سمجھتے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ کم ازکم ان کا اقتدار ووٹ کا محتاج نہیں۔۔میں چونکہ اپنے مرشد کا چہیتا ہوں لہذا مجھے امید ہے میرے مرشد پاک مجھے چیئرمین واپڈا یا وفاقی وزیر ضرور بنائیں گے۔مرشد پاک چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سب کو یکساں حقوق ملیں‘ کوئی گرم کنٹینر میں بیٹھ کر سرد عوام سے خطاب نہ کرے‘ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی بلٹ پروف گاڑی ہو‘ ہر بندہ چارٹر طیارے کے پیسے افورڈ کر سکے‘ ہر پاکستانی شہری کو کینیڈا کی نیشنیلٹی دلائی جائے۔ میرے مرشد تو برابری کے اس حد تک قائل ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے ہر مرید کو سکول کالج جانے کی بجائے خواب میں مقدس ہستیوں سے تعلیم دلائی جائے‘ اس مقصد کے لیے مرشد ’’کے سی ٹی‘‘(خواب کالج آف ٹیکنالوجی) کے منصوبے پر بھی غور فرما رہے ہیں ‘ انہوں نے اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں میرا نام بھی شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔میں اپنے مرشد کا نہایت شکر گذار ہوں کہ ان کی نظر کرم سے میری بگڑی مسلسل سنورتی جارہی ہے‘ جب سے میں نے مرشد کے نام کا ورد شروع کیا ہے میری گاڑی کا پٹرول چھ کلومیٹر زیادہ ایوریج دینے لگا ہے‘ اے سی ٹرپ ہونا بند ہوگیا ہے‘ گھر کے یو پی ایس کی بیٹری بھی اچانک سے ڈیڑھ گھنٹہ نکالنے لگ گئی ہے‘ شاور کے جن سوراخوں میں سے پانی آنا بند ہوگیا تھا وہ بھی’’ موسلادھار‘‘پرفارمنس دینے لگے ہیں۔۔۔اور تو اور میں کچھ دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں کہ میں جتنے مرضی سگریٹ پیتا جاؤں‘ میری ڈبی ختم نہیں ہوتی۔آئیے سب مل کر مرشد پاک کے انقلاب کی دعا کریں تاکہ ملک سے منحوس جمہوریت کا تصور تو ختم ہو۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں