ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

6 جون، 2014

افغان باقی کہسار باقی


 ایک درخت سے توڑی ہوئی ٹہنی اور اس پر سفید جھنڈا، کچھ فقیر جن کے کاندھوں پر لٹکی بندوقیں اور ان کے ساتھ ایک امریکی فوجی۔
فضا میں روشنی کے گولے چھوڑتا ایک دنیا کا جدید ترین ہیلی کاپٹر اترتا ہے اور اس دنیا کی جدید ترین ترقی یافتہ کافر قوم کے کچھ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ پریشانی اور تناؤ کے عالم میں نکلتے ہیں، ان کی جسم کی حرکات بتاتی ہیں کہ وہ جلدی میں اور خوفزدہ ہیں۔
یہ ایک درخت سے توڑی گئی ٹہنی پر اپنا جھنڈا لگائے آگے بڑھتا اللہ تعالی کا مجاھد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یاد تازہ کرتا ہے۔۔ خیال آیا کیسے صحابہ قیصر اور کسری کے محلات میں بے خوف اور ان سے مرعوب ہوئے بغیر جاتے ہوں گے ۔
پھر خیال آیا اسی کافر قوم کا کوئی ایک سفید چمڑی والا کافر اس ملک پاکستان میں اگر آئے تو اس کے لیے کیسے استقبال کیے جاتے ہیں اور کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ کیسے احساس کمتری کا شکار اس ملک کے حکمران قیمتی سوٹ پہن کر ان کو ان کے معیار کے مطابق مرعوب کرنے کی بے وقعت کوششیں کرتے ہیں
خیر کس کا مقابلہ کس سے؟
ذہن میں کچھ تصویر ابھری
ایک تصویر جس نے میری زندگی کا رخ تبدیل کیا
کابل کا سقوط
اسی ملک جس کا یہ ہیلی کاپٹر اترا ہے، یہی فوجیں کابل میں داخل ہو رہی ہیں، ظلم کی وہ داستانیں لکھی جانے کو ہیں جس سے اس دنیا کا کلیجہ کانپے گا، پہاڑ بھی دہل جائیں گے، سمندر بھی خوں رونے کو ہیں ۔۔۔۔ اے افغان خون مسلم بہنے کو ہے اور اتنا بہے گا کہ تیرے سارے پہاڑ اس سے تر ہو جائیں گے
ان دنوں میں ٹی وی دیکھتا تھا ۔۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کابل پر قبضہ ہو گیا، احمد شاہ مسعود کے وحشی درندے کافروں کے ساتھ اس شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور قتل عام شروع ہے
اسی وقت ایک شخص جس کا نام پرویز مشرف ہے امریکہ میں کھڑا وہاں کے کافراعظم بش کے ساتھ پریس کانفرنس بھی کر رہا ہے
پھر ۔۔۔ بی بی سی کابل پہنچتا ہے ۔۔
یہ کیا
ایک ڈبل کیبن ہے اس میں پچھلی سیٹ پر تین جوان عرب ہیں اور ان کے مبارک چہروں کو کیمرہ کی طرف متوجہ کرنے کیلیے مارا جا رہا ہے ۔۔ اور ان کی داڑھیوں سے پکڑ کر کھینچ کر ان کو گندی گالیاں نکالتے ناردرن الاینس والے ان کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔۔۔ کیمرہ ان کے چہرے کی طرف مرکوز ہے اورمیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درمیان میں بیٹھا نوجوان حسرت، غصہ اور بے بسی سے جیسے میری آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا ہے ۔۔ میں بھی تو تیرا ہوں ۔۔۔ اللہ تعالی کی قسم اسی دن میری دنیا لٹ گئی
میں روتا روتا گھر کے باہر آ گیا اور آسمان کی طرٖف دیکھتا اپنے رب کو پکارنے لگا، اے میرے رب ۔۔ رحم ۔۔ رحم ۔۔ رحم ۔۔ میرے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے
اور میری دنیا لٹ گئی اور تبدیل ہو گی ۔۔۔ اور ظلم پر ظلم بڑھنے لگا اور ستم پر ستم ڈھانے کو تیار بدترین لوگ اس امت کے تاجداروں کو رسوا کرنے نکل پڑے
۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج میں اس نظارے کو دیکھتا ہوں اس فقیر مجاہد کا دلیری سے آنا ۔۔۔ اسے کسی کا خوف نہیں اس کا جسم اس کی گواہی دیتا ہے ۔۔ اس کے سامنے یہ کافر بے بس اس کو راضی کرنے خوشامدانہ انداذ میں اس سے ہاتھ ملاتے ۔۔ اس کے خوف سے بھاگتے اپنے فوجی کو لیکر اپنے ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے سے پہلے اپنے فوجی کی پوری تلاشی لیتے ہیں کہ شاید کہیں یہ بیلٹ باندھے ہوئے نہ ہو ۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے اپنے ان بہترین بندوں کو چنا اور ان کو تیار کیا اور ان کو فتح بخشی اور مومنین کے سینے ٹھنڈے ہوئے
کچھ لوگ کہتے تھے کہ اب یہ غاریں بھی انکو پناہ نہ دیں گی
آج آسمان، زمین اور ہوائیں بھی ان کے ساتھ مسکرا رہی ہیں
اے رب کریم ۔۔۔ دنوں کو تبدیل کر دینے والے جبار رب
تیرے بندے آج فتح یاب ہیں
اے سقوط کابل کے دن اپنی جوانی قربان کر دینے والے مجاھد تو کہاں ہے اس کا علم نہیں ۔۔ لیکن اللہ تعالی کی عزت کی قسم اس دل میں تو رہتا ہے، اسی دن سے کہ جس دن تیری آنکھوں نے مجھے وہ پیغام دیا ۔۔ مجھے رلا کر ذندہ کیا
اے گمنام مجاہدو ۔۔۔۔ تم عظیم ہو
اور اے میرے آباء کی زمین افغانستان ۔۔۔ تیرا وجود کتنا پاک اور کتنا قوی ہے
تجھ پر تیرے رب کی رضا برستی ہے ۔۔۔۔ تیرے پہاڑوں کو سلام ۔۔ دشت لیلی کو سلام ۔۔۔ تورابورا کے پتھروں کو سلام ۔ کنڑ کے دریا کو سلام ۔۔ تیرے ایک ایک ذرہ کو سلام ۔۔۔۔پکتیا کو سلام ۔۔۔ میرے آبائی وطن غزنی کو سلام
اے ملا عمر مجاھد ۔۔ اللہ تعالی تجھے تیری غیرت کے بدلے جنت میں محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ عطا فرمائے اور ہمیں تجھ سے محبت کی وجہ سے تیرا ساتھ ۔۔۔ اے عرب کے شہزادو ۔۔ اے قحطان کی نیک ترین روح ۔۔۔۔ تم سب عظیم ہو، میری عزت ہو میرا وقار ہو
آج میرے رب نے میرا دل ٹھنڈا کیا
کہاں ہیں اس دنیا کے وہ ظالم اور متکبر؟
اسلام باقی ہے ۔۔ اور باقی رہنے کوہے
ایک جماعت باقی ہے اور روز قیامت یعنی حکم کے قائم ہونے تک باقی رہے گی ان شا الله ۔۔ کبھی نہ مغلوب ہونے والی ۔۔ ناجیہ ۔۔ طائفہ منصورہ
اور ۔۔ اے میرے وطن تیرے لیے یہ کہنا کتنا درست ہے

افغان باقی کہسار باقی
الحکم للہ والملک للہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بشکریہ: Mhab Khan

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں