ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 اپریل، 2013

وہ زہر جو دل میں اُتار لیا۔۔۔


وہ زہر جو دل میں اُتار لیا۔۔۔گلِ نوخیز اختر

آج کل ہر بندہ ٹینشن میں ہے ۔ کاروبار کی ٹینشن ….. نوکری کی ٹینشن …. مہنگائی کی ٹینشن ۔۔۔لوڈشیڈنگ کی ٹینشن ….. لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جانی باؤلے کو ان میں سے کوئی بھی ٹینشن نہیں ….. جانی باؤلے کو میں عرصہ بیس سال سے جانتا ہوں ….. عمر تقریباٌ 40 سال ہے ….. پہلے جوتیوں کے کارخانے میں کام کرتا تھا ….. آجکل چوبرجی چوک میں تیل کی شیشیاں پکڑے مالش کرتا ہے ۔ میری اس سے پہلی ملاقات بڑی دلچسپ تھی …..ہم لوگ نوائے وقت (فیملی میگزین) کے لیے مالشیوں پر فیچر تیار کر رہے تھے ، فیچر کرنے کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ آپ جن لوگوں پر فیچر کر رہے ہوں انہیں صحافی بن کے ملنے کی بجائے عام انسان کے روپ میں ملیں ۔ سو ہماری ٹیم بھی کھلے ڈلے حلیے میں چوبرجی چوک کے پارک میں لنگر انداز تھی۔ اتنے میں ایک مالشیاء قریب سے شیشیاں کھڑکاتا ہوا گذرا ….. میں نے اسے آواز دے کر بلایا اور مالش کے ریٹ پوچھے ….. کہنے لگا ’’پانچ سوروپے لوں گا ….‘‘
میں نے کہا ’’بھائی میرے ۔۔۔مالش کروانی ہے …..کسی کی ہتہیا نہیں کروانی‘‘
وہ بحث و تمہید کرنے لگا ….. ابھی ہماری گفتگو جاری ہی تھی کہ اچانک ایک طرف سے لمبے لمبے بالوں اور الجھی ہوئی داڑھی والا ایک ادھیڑ عمر آدمی تیزی سے لپکا اور قریب آکر بولا ….. ’’ صاحب جی مجھے حکم کریں ‘میں سوروپے میں مالش کردوں گا؟؟؟‘‘
میں نے غور سے اسکی طرف دیکھا ….. اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتا …… پہلے والے مالشیئے نے جلدی سے کہا …..’’صاحب جی ! اس کی بات پر نہ جائیں جی یہ تو باؤلا ہے اور …..‘‘
مالشیئے کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ دوسرے مالشیئے نے شیشیاں زمین پر رکھ کر اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ جڑ دیا ….. ذرا سی دیر میں وہاں جنگ کا سماں پیدا ہو گیا ۔ اس روز مجھے پتا چلا کہ لڑنے والا’’ جانی باؤلا‘‘ ہے اور یہاں کا سب سے پرانا مالشیا ء ہے ۔تین چار جماعتیں پاس ہے اور اٹک اٹک کر اخبار وغیرہ پڑھ لیتا ہے۔ماں باپ‘ بہن بھائی اور رشتے داروں سے محروم ہے ‘ جہاں جگہ مل جائے سو جاتا ہے اور جو مل جائے کھا لیتا ہے لیکن لڑاکا بہت ہے‘ اس کی دو ہی خوبیاں مشہور ہے‘ پیار کرنے والوں پر جان دینا اور نفرت کرنے والوں کی جان عذاب میں ڈال دینا۔جانی باؤلا ایک عجیب و غریب شخصیت کا مالک ہے ۔ اگر کوئی اس سے مالش نہ کروائے تو یہ زبردستی پر اتر آتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ مالش اور پالش کے بغیر انسان انسان نہیں لگتا ۔ میں نے پوچھا …..’’ تم اپنی مالش کیوں نہیں کرتے ‘ اپنی پالش کیوں نہیں کرتے ….. ؟؟؟وہ غلیظ غلیظ دانت نکال کر ہنسنے لگا ….. ’’کھی کھی کھی کھی ….. میں کیوں کروں اپنی مالش ….. میں کوئی پاگل ہوں؟؟؟‘‘
’’اس کا مطلب ہے مالش کروانے والے پاگل ہوتے ہیں‘‘ میں نے اسے گھورا۔۔۔!!!
’’ہاںںںںںںں …..‘‘ اس نے لمبی سی ہاں کے ساتھ مجھے آنکھ ماری۔
میں نے کبھی اس شخص کو ٹینشن میں نہیں دیکھا ۔ عزت اور خودداری کا یہ عالم ہے کہ تین تین دن بھوکا رہ لے گا ….. مانگے کی روٹی نہیں کھائے گا۔ ایک دفعہ میں جیرے کے ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا ….. سڑک سے جانی گذرا ….. میں نے چونک کرآواز دی …..’’ جانی بھائی ….. آؤ کھانا کھا لو ….. !!!‘‘میری آواز سن کر وہ چونکا ….. پھر قریب آکر نقاہت کے باوجود دانت نکال کر بولا ….’’ نہیں پاء جی! ….. ابھی دو دن پہلے تو ڈٹ کے کھایا ہے …..‘‘ اور میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔۔۔میں نے بڑی کوشش کی کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر ایک لقمہ ہی لگا لے‘ لیکن وہ بھی بڑا ڈھیٹ تھا‘ نہیں مانا۔ ہر دفعہ میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ جانی کسی دن میرے ساتھ کھانا کھائے ….. لیکن نہ جانے کیوں وہ ہر دفعہ کنی کترا جاتا ہے ۔ جب اور کچھ نہیں بن پاتا تو میں جانی سے کہتا ہوں کہ میرے سر میں تیل ہی لگا دو ….. یہ بات جانی کے لیے قابل قبول ہوتی ہے لہذا وہ آسانی سے میرے سوروپے روپے قبول کر لیتا ہے ۔ ….. میں نے ایک دن اس سے پو چھا کہ لوگ تمہیں باؤلا کیوں کہتے ہیں ؟
دانت نکال کر بولا …..’’ بچپن میں مجھے ایک کتے نے کاٹ لیا تھا ….. بعد میں کتا مر گیا ….. !!!‘‘
’’کتا مر گیا؟؟؟….. یہ کیا بات ہوئی؟؟؟‘‘ میں حیران ہو گیا۔
اس نے مزیددانت نکالے ’’ ہاں جی ….. کتا مر گیا ….. اور میں باؤلا ہو گیا …..‘‘
’’لیکن تم تو بالکل ٹھیک ہو …..‘‘
’’نہیں جی ….. میں ٹھیک نہیں ہوں …. باؤلا ہوں ….. لوگ کہتے ہیں مجھ میں زہر آگیاہے ….. ہوٹل والے نے بھی میرے برتن الگ کیے ہوئے ہیں ….. صاحب! ….. آپ نے میرے ساتھ کھانا کھا لیا تو آپ بھی باؤلے ہو جائیں گے۔۔۔‘‘
’’یہ کیا بکواس ہے ….. انسان زہریلا نہیں ہو تا …..’’ میں نے اسے حوصلہ دیا۔
’’اچھا جی ….. ؟؟؟ ‘‘وہ مبہوت رہ گیا ….’’ تو کیا یہ سب جھوٹ کہتے ہیں ؟؟؟‘‘
’’ ہاں ….. جھوٹ کہتے ہیں‘‘ میں نے اس کے کندھے تھپتھپائے …..’’ بالکل جھوٹ کہتے ہیں ….. آؤ آج اکٹھے کھانا کھاتے ہیں …..‘‘
’’نن ….. نہیں ….. آ ….. آج ….. آج نہیں ۔۔۔‘‘ وہ پھر ڈر گیا۔۔۔!!!
’’کیوں ….. آج کیوں نہیں ….. ؟؟؟‘‘
’’بس ….. آج نہیں …..‘‘
’’بھئی کوئی وجہ تو ہوگی ناں؟؟؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔۔۔!!!
’’آج ایک موت ہو گئی ہے ….. اس …. لیے ….. صاحب جی !جب کسی کی موت ہوتی ہے تو مجھ سے کھانا نہیں کھایا جاتا ‘‘۔اس نے دھیرے سے کہا اور چپ ہو گیا۔
’’موت؟؟؟ ….کس کی موت۔۔۔کون مرگیا ہے ….. ؟؟؟؟ میں پریشان ہوگیا۔
اس نے تھوڑی دیر سر نیچے رکھا ….. پھر اپنی بغل سے ایک مڑا تڑا اخبار نکالا ….. اسے کھولا اور میرے آگے کرتے ہوئے ایک تصویر پر انگلی رکھ دی۔ لکھا تھا ….. !!!
’’شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ ۔۔۔13بچے شہید ‘‘
میرا جسم یکدم سن ہو گیا ….. کچھ سوچنے سمجھنے کی تاب نہ رہی ….. ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے اور مجھے ایسا لگا جیسے میں بھی زہریلا ہو گیا ہوں!!!

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں