ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

9 جولائی، 2018

اصلی مساوات


سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور اس کے ارد گرد قحط سالی ہو گئی۔ ہوا چلتی تو ہر طرف خاک اڑتی نظر آتی ۔ چنانچہ اس سال کو ”عام الرمادة “ یعنی خاک اڑنے کا سال کہا گیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ گھی، دودھ اور گوشت اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک لوگ پہلے جیسی زندگی پر نہ لوٹ آئیں۔ایک دفعہ بازار میں گھی کا ایک ڈبہ اور دودھ کا کٹورا بکنے کے لیے آیا۔کسی خادم نے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے لیے یہ چیزیں چالیس درہم میں خرید لیں اور عرض کیا: امیر المومنین! الله نے آپ کی قسم پوری فرما دی ہے ۔ الله تعالیٰ آپ کو زیادہ اجر سے نوازے! ہم نے آپ کے لیے یہ اشیائے خوردنی خریدی ہیں قبول فرمائیے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! تم نے میرے لیے اتنے مہنگے داموں یہ چیزیں کیوں خریدیں؟ جاؤ! انہیں صدقہ کر دو۔ میں کھانے میں اسراف ہرگز پسند نہیں کرتا، پھر فرمایا: مجھے عوام کے دکھ کا اس وقت تک صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا جب تک خود میں بھی انہی حالات سے نہ گزروں جن حالات سے عوام گزر رہے ہیں۔

پھر ایک موقع ایسا آیا کہ مہنگائی ہو گئی۔خاص طور پر گھی مہنگا ہو گیا۔لوگوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، عام لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بھی گرانی کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے گھی کھاناموقوف کر دیا۔ عام خوردنی تیل پر گزارا کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں ان کا پیٹ خراب ہو گیا۔ ایک دفعہ پیٹ سے گڑ گڑ کی آواز آئی تو پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا: 
"تم گڑگڑ کرو یا خاموش رہو، تم گھی مانگتے ہوگے۔ الله کی قسم! جب تک سب میری رعایا کے لوگ گھی نہ کھا سکیں گے تجھے بھی میسر نہیں ہو گا۔" 
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ آپ کی بات سن کر وہاں سے نکل آئے۔ آپ روتے جاتے اور کہتے جاتے: 
”اے عمر ! تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے، تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے(یعنی آپ جیسی متوازن اور مثالی شخصیت کہاں سے لائیں گے۔) “
(مناقب امير المؤمنين لابن الجوزي: ص 101)
(الطبقات الکبریٰ: 218/3)


بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے

ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکرنے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں ۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں ۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ 
میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو ۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی آیت 

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ
 النمل27:62
 ترجمہ: بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو

 یعنی اللہ ہی ہے جو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہاہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کو ٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔

 تفسیر ابن کثیر: سورة النمل، آیت 62

اپنی جیب کی حفاظت کیجیے


آپ نے اکثر عوامی ہوٹلوں میں یہ فقرہ لکھا ہوا دیکھا ہوگا کہ ’’اپنی جیب کی حفاظت کیجیے‘‘۔زیادہ محتاط لوگ یہ فقرہ دیکھتے ہی اس نصیحت پر شکر گزار ہوکر ہوٹل سے پلٹ آتے ہیں۔جو نہیں پلٹتے اور کچھ کھاپی بیٹھتے ہیں تو انھیں بل ادا کرتے وقت اس فقرے کی معنویت کا احساس ہوتا ہے۔ مگر۔۔۔ اب پچھتائے کا ہوت جب خود ہی چُگ گئے جیب۔جن ہوٹلوں کے پروپرائٹر صاحبان محتاط گاہکوں کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں، وہ اسی فقرے کو یوں لکھتے ہیں کہ ’جیب کتروں سے ہوشیار رہیں‘۔سو گاہک بڑی ہوشیاری سے چوکنا بیٹھا اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا کھاتا پیتا رہتا ہے۔مگر جیب اُس کی بھی کاؤنٹر پر کتر لی جاتی ہے اور وہ دیکھتا کا دیکھتا ہی رہ جاتاہے۔ سارا چوکنا پن وہاں پہنچ کر ہوا ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جیب خالی اور چوکنا پن ختم کرکے کسی لدھڑ کی طرح بھاری بھاری قدم گھسیٹتا ہوا باہر نکلتاہے۔

جیب شاید ایجاد ہی اس لیے کی گئی ہے کہ وہ کتری جائے۔ صبح ہزار روپئے جیب میں ڈال کر نکلیے۔ شام کو واپس آئیں گے تو شاید اُس ہزار روپئے کی کچھ کترنیں ہی جیب میں بچی ہوں گی۔ دن بھر میں اچھی خاصی جیب کتری جاچکی ہوگی۔
 یہ روپیہ پیسہ بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ جب تک آپ کے پاس رہے گا، آپ ایک ایک چیز کو ترستے رہیں گے۔جب آپ کے پاس سے دفع ہو گا تو آپ کو کچھ ملے گا۔ پھر بھی لوگ جیب کی حفاظت جان سے زیادہ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک محافظِ جیب کو راستے میں لٹیروں نے آلیا۔بندوق دکھاکر بولے کہ: ’’بولو! جان دوگے یا پیسا؟‘‘
 انھوں نے گھگھیا کرکہا: 
’’بھائی میرے! جان لے لو۔پیسا تو آڑے وقتوں کے لیے بچا کر رکھا ہے‘‘۔ 
لٹیروں نے دیکھا کہ اُن کا داؤ خالی جا رہا ہے، کیوں کہ بندوق کی جیب بھی خالی ہے۔۔۔’گولی وولی کوئی نہیں اس میں‘۔۔۔تو ایک لٹیرے نے آگے بڑھ کر سمجھایا:
 ’’میاں! جان پر نہ کھیلو۔ جیب میں جتنے پیسے ہیں، نکال دو۔ بھلا اِس سے زیادہ آڑا وقت اور کب آئے گا؟‘‘ 

جان پر کھیلنے کا ایک سچا واقعہ بھی سن لیجیے۔ نیویارک کے اُس علاقے میں جو نیگرو لٹیروں کا گڑھ تھا، ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک مردِ کہستانی جانکلے۔ اُن گلیوں میں جانے والوں کو تجربہ کار لوگ یہ نصیحت کرکے بھیجا کرتے تھے کہ: 
’’ جیب میں ایک آدھ ڈالر ضرور ڈال لینا۔ اگر جیب سے کچھ نہ نکلے تو طیش میں آکر یہ کالے مار پیٹ پر اُتر آتے ہیں‘‘۔

پر ہمارے خان صاحب سے جب اُن کالوں نے جیب خالی کرنے کا مطالبہ کیا تو یہ خود طیش میں آکر مار پیٹ پر اُتر آئے۔ بلکہ کراچی والوں کی اصطلاح میں ۔۔۔ ’دے مار ساڑھے چار‘ ۔۔۔ مچا دی۔ پورے گینگ کو’ ہٹ ہٹ کے مارنا‘ شروع کردیا۔بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا۔ مگر کب تک کرتے؟ یہ اکیلے تھے وہ چار پانچ۔ بالآخر پٹ پٹا کر ہانپتے ہوئے کالوں نے کسی طرح ان پر قابوپا کرزمین پر لٹالیا۔جیب کی تلاشی لی تو فقط پچاس سینٹ برامد ہوئے۔مگر جتنی پٹائی ہوچکی تھی اُس کی ’معاشی قدر‘ یقیناًپچاس سینٹ سے ہزار گُنا زیادہ ہوگی۔ 
خیر، خان صاحب کی بہادری کی قدر کرتے ہوئے اُنھیں مع اُن کے پچاس سینٹ کے چھوڑ دیاگیا۔ مگر لٹیروں نے اپنے گینگ کے ممبروں کے نام ایک ’منہ زبانی‘ سرکلر جاری کردیا کہ: ’’آئندہ ان شلوار قمیض پہننے والے پاکستانیوں سے بالکل پنگا نہ لیا جائے۔یہ لوگ پچاس سینٹ کی خاطر بھی جان پر کھیل جاتے ہیں‘‘۔ لیکن اُنھیں کیا معلوم کہ یہ پچاس سینٹ کی بات نہ تھی۔ بات یہ تھی کہ ۔۔۔ ’غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں‘ ۔۔۔تاہم خان صاحب کی بدولت خاصے عرصے تک پاکستانیوں کو یہ ’استثنیٰ‘ حاصل رہا۔ اس واقعے کے بعد پاکستانی بھائی ایک دوسرے کو یوں نصیحت کیا کرتے تھے:
 ’ ’اُس علاقے میں جاؤ تو شلوار قمیض پہن کر جاؤ‘‘۔ 
جیب کے معاملے میں ہر انسان بڑا حساس ہوتاہے۔اگر کوئی آپ کی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے تو جیب میں کچھ نہ ہونے کے باوجود آپ گھبرا کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیں گے۔ہاسٹل کے زمانے کی بات ہے۔ایک تبلیغی دوست تمام ساتھیوں کو فجر کی نماز کے لیے جگانے آتے تھے۔ اُن کے آتے ہی، جو ساتھی جاگ رہے ہوتے تھے وہ بھی سوتے بن جاتے تھے۔ مگر یہ سب کی جیبوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر گہری نیند سونے والوں کو بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ حالاں کہ سوتے وقت بھلا جیب میں ہوتاہی کیا ہے؟ 
یوں تو آپ کی جیب آپ کے جانتے بوجھتے بھی کتر لی جاتی ہے، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بل آپ کی جیب میں ڈال کر۔ مگر جیب کتروں کی معروف قسم وہ ہوتی ہے جو بھیڑ بھاڑ میں آپ کی جیب اتنی مہارت سے کتر کر چل دیتے ہیں کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا۔ایسے ہی ایک جیب کترے کی ’جیب کتری‘ کا نہایت دلچسپ قصہ ریاض (سعودی عرب) سے ابوالخطاب محمد طاہر صدیقی نے بھیجا ہے، گیان پرکاش ویویک کے ایک مختصر افسانے کی صورت میں۔گیان پرکاش کا یہ افسانہ آپ بھی پڑھ لیجیے۔ لکھتے ہیں:

 بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپئے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: 
’’میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا‘‘۔
 تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی۔نو روپئے جاچکے تھے۔یوں نو روپئے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔۔۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہواُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔ 
کچھ دن گزرے ۔۔۔ ماں کا خط ملا۔پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا!ماں نے لکھا تھا: 
’’بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا۔تو کتنا اچھا ہے رے ۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا‘‘۔ 
میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ۔بڑی مشکل سے پڑھ سکا:
 ’’بھائی نو روپئے تمھارے، اور اکتالیس روپئے اپنے ملا کر میں نے تمھاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا! وہ کیوں بھوکی رہے؟ ۔۔۔ تمھارا جیب کترا‘‘۔ 

ابو نثر