ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

19 اکتوبر، 2011

مسائل کا شکوہ کرنا آسان یا اُنکا حل ڈھونڈھنا؟


مسائل کا شکوہ کرنا آسان یا اُنکا حل ڈھونڈھنا؟

کہتے ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ  بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ  آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔ 

اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا،  یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے  ہر اُس شخص  کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار  ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ  اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی،  قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔

اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے  کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ  وہاں  سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح  یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو  دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔ 
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا  تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔ 

کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں