ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

26 فروری، 2014

قصہ قوم کے نام ایک پیغام کا (صرف اہل عقل کے لیے)


پی۔ایس کو پیش و پس میں دیکھ کر’ صاحب‘پریشان ہوگئے۔ وہ ہونّق سی شکل بنائے، کبھی اُن کو کبھی اُن کے سر کو دیکھتا تھا۔ہر دو کو دیکھ کے کاغذات اُلٹنا پلٹنا شروع کر دیتا۔ پھر اُلٹنا پلٹنا چھوڑ کر اور پلٹ کر ’صاحب‘ کے منہ کی طرف دیکھنا شروع کردیتا۔ ’صاحب‘ کی کیفیت بالکل ایسی ہوگئی جیسے کہنا چاہتے ہوں۔۔۔ ’کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے‘ ۔۔۔آخر گرج دار اور گونجیلی آواز میں اُس سے پوچھ ہی بیٹھے:
’’ کیا ڈھونڈرہے ہو میری میز پر؟ ‘‘
پی۔ایس کچھ ہکلا سا گیا: ’’ سر۔۔۔ وہ۔۔۔وہ۔۔۔آپ کی طرف سے ہرسال’ یومِ عاشور‘کے موقع پر قوم کے نام جو پیغام جاری کیاجاتا ہے، اُس کا بنا بنایا ڈرافٹ کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں‘‘۔
’ سر‘نے اپنا سر پیٹ لیا۔ پیٹ چکے تو فرمایا:’’ جنٹل مَین! مجھ سے اتنی گاڑھی اُردو مت بولا کرو، آسان زبان میں بتاؤکہ’ یومِ عاشور‘کیا ہوتا ہے؟ ‘‘
اب کے پی۔ایس کچھ گھبراسا گیا۔سہم کر بولا:’’ سر! ٹینتھ آف محرم کو’ یومِ عاشور‘کہتے ہیں‘‘۔
سر نے گہرا سانس لیا:’’ اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔یُو مِین کوئی سیلی بریشن ڈے ہے۔ اِ س دن کیا سیلی بریٹ کیا جا تا ہے جنٹل مَین؟ ‘‘
پی۔ایس نے مری ہوئی آواز میں بتا یا:’’ سر! اس دن نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ بتولؓ، سیدنا امام حسینؓ کا یومِ شہادت منا یا جاتا ہے ‘‘۔
’ صاحب‘نے اپنا ماتھا نیچے کیا اور اُسے اپنی ہتھیلی پر دے مارا: ’’ اوہ مائی گاڈ! ۔۔۔ پھر وہی عربک اُردو۔۔۔anyhow ۔۔۔ کس جنگ میں شہید ہوئے تھے؟ ‘‘
پی۔ایس کو تفصیل بتانے کا موقع مل گیا۔ مگر اُس نے گاڑھی ۔۔۔ بلکہ عربک ۔۔۔ اُردو بولنی نہ چھوڑی: ’’ سر وہ کسی جنگ میں شہید نہیں ہوئے تھے اُن کو وقت کے ظالم، غاصب اور اسلام دشمن حکمران نے کلمۂ حق بلند کرنے کے جرم میں شہید کروادیا تھا، حتیٰ کہ معصوم بچوں تک کو نہیں چھوڑا۔رسولؐ کے گھر کی خواتین کا بھی احترام نہیں کیا‘‘۔
سر کو بڑا تعجب ہوا۔ پوچھا: ’’ کیا اُس گورنمنٹ کے’ حساس اداروں‘نے اُن کے گھر پر ریڈ (Raid)کیا تھا؟ ‘‘
پی۔ایس نے رپورٹ پیش کرنے کے انداز میں سر کو تاریخ سے آگاہ کیا:’’ نو سر! وہ اہلِ کوفہ کی دعوت پر کربلا گئے تھے، کوفے والوں نے کہا تھا کہ آپ یہاں تشریف لائیں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے، مگر اُنھوں نے دھوکا دیاسر، جب وقت پڑا تواپنے مہمان یعنی امامِ عالی مقامؓ کا ساتھ نہیں دیا‘‘۔ سر نے اپنی انگشتِ شہادت فضا میں لہراتے ہوئے پوچھا: ’’ کوفہ وہی، عراق والا؟ جہاں امریکی فوج کو بھی Raidکرنا پڑا ہے؟‘‘
پی۔ایس بڑے جوش سے بولا:’’ ہاں جی! ۔۔۔ ہاں جی! ۔۔۔ وہی والا! ‘‘
’ صاحب‘نے پی۔ایس سے مزید تفتیش جاری رکھی:’’ کوفہ والے کس معاملے میں امام صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے؟ ‘‘
پی۔ایس نے فرفر فرفر بتانا شروع کیا: ’’ سر! امامِ عالی مقامؓ یزید کی حکومت کو ناجائز، غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیتے تھے۔ اُنھوں نے اُس کی حکومت کو تسلیم کر نے سے انکا ر کر دیا تھا۔ امام نے سرکٹا دیا مگرغیر شرعی حکومت کی بیعت نہیں کی۔۔۔ سرداد، نہ داد دست در دستِ یزید ‘‘۔
سر حیران رہ گئے:’’ اب تُو فارسی بھی بولنے لگا؟ ۔۔۔ مگرکیا یزید نے کوئی الیکشن، کوئی ریفرنڈم نہیں کر وایا تھا؟ ‘‘
پی۔ایس بولا:’’ نہیں سر! اُس زمانے کے حکمرانو ں کو اس طرح کی Tricks نہیں آتی تھیں! ‘‘
سر کچھ کھسیا سے گئے۔ ہاتھ نچاتے ہوئے بولے:’’ اوکے! اوکے! مگر امام صاحب خود کیا چاہتے تھے؟ ‘‘ پی۔ایس نے بتایا:’’ سر وہ اپنے نانا (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے اُس حکم کے مطابق جو ہر مسلمان کو ہے، برائی کو ہاتھ سے مٹا دینا چاہتے تھے۔جابر حکمران کے سامنے اعلائے کلمۃ الحق کر نا چا ہتے تھے جو افضل ترین جہاد ہے، اور اُنھوں نے ایسا کر دکھایاسر‘‘۔
’’ جہاد؟۔۔۔جہاد؟۔۔۔گورنمنٹ کے خلاف جہاد؟ ۔۔۔ یہ کون سا جہاد ہے؟ کیا اسٹیٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا جہاد ہے؟ مسٹر! تم اپنے خیالات دُرست کرو۔ ’ یہ کوئی جہاد وہاد نہیں ہے‘۔ یہ تو ٹیرر اِزم ہے، دہشت گردی ہے! جہاد تو دہشت گردی کے خلاف ہوتا ہے‘‘۔
پی۔ایس کچھ بِدک سا گیا: ’’ سر یہ محض میرے خیالات نہیں ہیں۔ یہ پوری اُمت کا عقیدہ ہے۔ جہاد کی روح کو امامِ عالی مقامؓ سے بہتر کون جان سکتا تھا؟ وہ اُس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے تھے جو بانئ رسمِ جہاد ہیں۔ وہ اُس باپؓ کے بیٹے تھے جن کو پوری اُمت’ شیرخدا‘کہتی ہے، امامؓ سے زیادہ کون واقف ہوگا کہ کیا جہادہے اور کیا جہاد نہیں ہے؟ ‘‘
پی۔ایس کا بدلتا لہجہ دیکھ کر’ صاحب‘گھبراگئے:’’ آل رائٹ! ۔۔۔ آل رائٹ! اِٹ مِینز کہ گورنمنٹ نے اُن کو اَریسٹ کرنے کی کوشش کی اور وہ مقابلے میں۔۔۔ آئی مین ۔۔۔ شہید ہوگئے؟ ‘‘
پی۔ایس نے سخت لہجے میں بتایا:’’ نو سر۔۔۔نوسر۔۔۔ اُ ن72 مظلوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف اُس وقت کی حکومت نے پوری لشکر کشی کی تھی۔اُنھیں گھیر کر اُن پر حملہ کیا تھا۔ اُن کو جان بوجھ کرشہیدکیا تھا۔ حکومت وقت نے اپنے اُن مخالفین کے خلاف’ کو فہ آپریشن ‘کیا تھا‘‘۔
اب تو’ صاحب‘کی سٹی گم ہوگئی:’’ اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔ کَم ٹُو دی مین پوائنٹ مَین! ۔۔۔ میری طرف سے ہرسال’ یوم عاشور‘پر قوم کو کیا پیغام جاری کیا کر تے ہو؟ ‘‘
پی۔ایس نے یکایک اپنی نوٹ بک کے آخری صفحے کے نیچے سے وہی ڈرافٹ کھینچ نکالا جسے وہ بوکھلا بوکھلا کر جابجا ڈھونڈتا پھر رہا تھا:
’’ امام حسینؓ کی شہادت یہ سبق دیتی ہے کہ اسلام کے تحفظ اوراُس کی سربلندی کی خاطر ہمیں تن، من، دھن حتیٰ کہ پورا خاندان بھی قربان کر دینا پڑے تواس سے گریز نہیں کرناچاہیے‘‘۔
سر نے اپنی میز پر پڑا ہوا امریکی سفیر کا Memo اُٹھا کر پڑھنا شروع کردیا۔ پھر چشمے کے اوپر سے جھانکتے ہوئے دھیمے سے بولے:’’ دیکھنا یا ر! کہیں مروا مت دینا! ‘‘ –

ابو نثر 




Tags: yoom e aashoor, qoom kay naam paigham 10 muharram, Imaam Hussaim, yoom e shahadat, jihad, shaheed karbala, kofa, operation, islam, sarbulandi, kalma, haq, urdu, article, mazmoon, abu nasr, youm e ashura ka sabaq, muharram

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں