ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

27 مارچ، 2015

آل پاکستان نفاذِ اُردو کانفرنس

  مسلمانوں کے برصغیر میں آنے سے قبل پورا خطہ صدیوں سے چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں کا ایک مجموعہ تھا جس پر مختلف راجے حکومت کیا کرتے تھے۔ پٹنہ کے قریب پاٹلی پتر میں موریہ خاندان کی حکومت کی مختصر تاریخ ہے جس میں اِردگرد کی ریاستوں کو فتح کر کے ایک مرکزیت قائم کرنے کا پتہ ملتا ہے۔
پورے جزیرہ نماء ہند پر اسی موریہ خاندان کے اشوک نے کسی حد تک ایک مرکزی حکومت قائم کی۔ یہ مرکزیت بھی کلنگہ کی جنگ کے بعد وجود میں آئی جس میں اس نے دس لاکھ لوگوں کو قتل کیا اور تخت پر قابض ہونے کے لیے اپنے نوے کے قریب بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس تمام ظلم کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا، مہینوں چین سے نہ سویا، ہندو مت ترک کیا ، بدھ ہو گیا اور مہاتما بدھ کی تعلیمات پر مبنی ایک منصف معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔
اپنی تمام افواج کو ختم کر دیا۔ شہروں میں مہا میر مقرر کیے، جو انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ زیادتی پر بھی سزائیں دیتے۔ دیکھتے دیکھتے پورا ہندوستان بغیر کسی جنگ لڑے اس کا مطیع ہو گیا۔لیکن وہ کئی لاکھ فوجی جنھیں اس نے بے روزگار کر دیا تھا، ایک دن اس کی قائم کردہ موریہ سلطنت کے خاتمے کا باعث بن گئے۔
اس کے بعد ہندوستان پھر ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد متھرا میں گپتا خاندان کی شمالی ہندوستان میں تھوڑی سی مرکزیت نظر آتی ہے۔پورا ہندوستان نہ اپنی زبان کی وجہ سے ایک تھا اور نہ ہی رسم و رواج کے ناتے۔ البتہ ایک چیز تھی، ہندومت جس نے ان تمام ریاستوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھا۔ امرناتھ یاترا کشمیر میں ہے تو گنگا کا مقدس مقام بنارس میں۔ شیو کے آنسو کٹاس اور پوشکر میں گرتے ہیں تو مہا شیو راتری انھی جگہوں پر منائی جاتی ہے۔
اجنتا اورایلورا کے غار جنوب میں ہیں تو برہما کا سب سے بڑا مندر سومنات کے نزدیک ہے۔ غرض ہندومت کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کا ایک جال پورے ہندوستان میں بچھا ہوا ہے،جس کی وجہ سے صدیوں ہندوستان ایک اکائی رہا۔ سنسکرت مقدس مذہبی زبان تھی اور اس میں علم کا ایک خزانہ بھی موجود تھا۔ مسلمانوں نے جب دنیا بھر کے علوم کے تراجم شروع کیے تو سب سے پہلے ہند سے کتابیں لا کر ترجمہ کی گئیں۔
لیکن بنگال، دکن، بہار، اڑیسہ،پنجاب، کشمیر اور دیگر علاقوں کے لوگ جب آپس میں ملتے، خواہ وہ تجارت کی غرض سے یا پھر ہردوار اور کنبھ کے مقدس میلوں پر تو آہستہ آہستہ ان کے درمیان ایک زبان نے جنم لینا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے پنڈتوں اور علم کی دنیا پر قابض برہمنوں نے اسے سنسکرت کی بگڑی ہوئی شکل کہنا شروع کیا۔لیکن عام آدمی کیا کرتا۔ اس نے تو تجارت کرنا تھی، میل ملاپ رکھنا تھا۔ اس نے شاستر تھوڑا پڑھنے تھے کہ خالص سنسکرت جانتا۔
اس نے خود ہی ایک زبان ایجاد کر لی جو شروع شروع میں پراکرت کہلاتی رہی۔ مسلمان فاتحین آئے تو برصغیر کے ایک وسیع حصے میں مرکزیت آگئی۔ دہلی سلطنت کا صدر مقام بن گیا اور بادشاہوں کی وجہ سے فارسی دفتر اور عدالت کی زبان ہوگئی۔ التمش نے جب آج سے آٹھ سو سال قبل قاضی عدالتیں قائم کیں تو قوانین کی عربی کتاب کا ترجمہ فارسی میں کیا۔
غوری،خلجی، لودھی خاندانوں سے شیر شاہ سوری اور پھر مغلیہ خاندان کے چکا چوند کر دینے والے دورِ حکومت تک دفاتر اور عدالتوں کی زبان فارسی رہی، یہاں تک کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پچاس سالہ دور میں بھی دفتری اور عدالتیِ زبان فارسی ہی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان حکمرانوں نے برصغیر کے ہر گاؤں میں اتالیق مقرر کر رکھے تھے، جو ہر بچے کو فارسی اور حساب پڑھاتے اور مسلمان کو قرآن اور ہندو کو وید کی تعلیم دیتے۔
یوں برصغیر میں انگریز کی آمد تک شرحِ خواندگی نوے فیصد تک تھا۔ مگر اس فارسی کے پہلو بہ پہلو وہ زبان جو کئی سو سال پہلے پراکرتوں کی صورت میں رابطہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی پوری قوت سے پروان چڑھتی گئی۔مسلمانوں کی حکومت کی وجہ سے اس زبان میں عربی، فارسی اور ترکی کے بیش بہا الفاظ شامل ہوگئے۔
وہ تمام اصناف جو ہندوستان کے لیے اجنبی تھیں، یہاں لکھی جانے لگیں، جیسے غزل، نظم، رباعی، مثنوی، مرثیہ، داستان، ناول اور افسانہ۔ غرض ایک ہزار سال پہلے امیر خسرو نے جس زبان میں گیت لکھے تھے اس لیے کہ وہی دراصل اس پورے خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ، یہ اُردو اب ایک ایسی زبان بن کر ابھر چکی تھی جس کا دامن میر تقی میر سے لے کر غالب تک جیسے شعراء میر امن اور رجب علی بیگ سرور جیسے نثرنگار، انیس، دبیر جیسے مرثیہ نویس اور دیگر اصناف میں لکھنے والوں سے مالا مال تھا۔ فارسی دفتری زبان تھی۔ لیکن محبت کرنے ، گیت گانے اور کہانی سنانے کی زبان اُردو ہو گئی۔
یہی وجہ ہے کہ جب انگریز برصغیر پر حکمران ہوا تو اس نے دفتری زبان تو انگریزی کر دی لیکن ہر دفتر میں ورنیکلر کے نام پر ایک شعبہ کھولا جس میں اُردو میں دفتری کام کیا جاتا تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد کہ جنہوں نے توبۃ النصوح، مراۃ العروس اور بنات النعش جیسے ناول تحریر کیے تھے، انھیں بلایا گیا اور ان سے تمام انگریزی قوانین کا ترجمہ کروایا گیا۔
یوں ضابطہ فوجداری، ضابطۂ دیوانی اور تعزیرات ہند عام آدمی کی سہولت کے لیے وجود میں آگئے۔ عرضی نویسوں، وثیقہ نویسوں اور اہلمدوں کی ایک کھیپ تھی جو اُردو میں عدالتی کام سرانجام دیتی تاکہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ لیکن سرکاری ملازمتیں انگریزی بولنے والوں تک محدود کر دی گئیں۔ انگریز نے مسلمانوں کا اتالیق کا سسٹم ختم کر دیا۔ چند سرکاری اسکول کھولے گئے۔ یوں برصغیر میں شرح خواندگی نوے فیصد سے گر کر پندرہ فیصد تک آگئی۔
تعلیم کے اس دوغلے نظام نے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو انگریزی میں تعلیم یافتہ تھا۔ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتا تھا اور وہی اسی کی تہذیبی اساس تھی۔ سول سروس، فوجی اور نواب، خان وڈیرے جنھیں انگریز اپنی سرپرستی میں قائم کالجوں میں تعلیم دلواتا، اس طبقے میں شامل تھے۔ یہ مٹھی بھر لوگ اس برصغیر کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے اور انھوں نے یہ تصور مضبوط کر دیا کہ ترقی صرف اور صرف انگریزی زبان میں علم حاصل کرنے سے ہو سکتی ہے۔
یہ انسانی تاریخ کے پانچ ہزار سالہ تجربے کے برعکس تصور تھا۔ انسان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کرکے ترقی کی ہو۔ انگریزی دونوں ملکوں کے آزاد ہونے کے بعد بھی دفتری اور قانونی زبان کے ساتھ ساتھ ذریعہ تعلیم بھی بنا دی گئی۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے اقتدار پر وہ لوگ قابض ہوگئے تھے جنھیں انگریز اقتدار اور انگریز تہذیب کی لوریاں دے کر پالا گیا تھا۔
دونوں ملکوں میں انگریزی کو تہذیب وترقی کی علامت بتایا گیا اور اُردو سرکاری اور نجی سرپرستی، دونوں سے محروم ہوگئی۔لیکن اس زبان نے جو لوگوں کے درمیان واحد رابطے اور تعلق کا ذریعہ تھا وہ کمال دکھایا کہ دونوں کا تمام میڈیا اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گیا۔ پاکستان میں تو دو انگریزی چینل چلے لیکن بری طرح ناکام ہوگئے۔فلم، ریڈیو، اخبار سب جگہ جہاں گفتگو ذریعہ اظہار تھی اُردو پروان چڑھتی رہی۔ چاہے امیتابھ بچن اس میں لاکھ سنسکرت کے الفاظ ڈال کر ہندی بنائے کوئی دوسرا ایسی ہندی بولنے کو تیار نہیں ہوتا۔
لیکن اقتدار پر قابض انگریز صفت مرعوب کالوں نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے دونوں ملکوں کو جہالت کے اندھیروں میں غرق کر دیا۔بھارت میں ہر سال22کروڑ بچے پاٹھ شالا یعنی اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں اور صرف چالیس لاکھ گریجویٹ بنتے ہیں۔ آج ساٹھ سال بعد بھارت کے تعلیمی نظام کے سربراہ سوچ رہے ہیں، کہ اگر انگریزی ان پر تھوپی نہ جاتی تو پورا بھارت خواندہ ہوتا۔
عدالتی نظام میں انگریزی کی وجہ سے ایک کروڑ مقدمات زیر التوا ہیں اس لیے کہ عام آدمی وکیل کے بغیر عدالت تک رسائی ہی نہیں رکھ پاتا ہمارا حال بھارت سے بھی بدتر ہے۔دنیا میں پاکستان کے علاوہ تین اور ملک ایسے ہیں جو انگریزی کے جال میں پھنسے اور آج پچھتاتے ہوئے واپس قومی زبانوں کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ اس لیے کہ انھیں احساس ہو گیا ہے کہ ان کی پوری قوم بحیثیت مجموعی تخلیقی صلاحیت سے محروم ہو کر نقالچی بن گئی ہے۔
ایک سنگاپور، دوسرا بھارت اور تیسرا سری لنکا۔ ہم وہ چوتھا ملک ہیں جو اس جہالت کے راستے پر رواں دواں ہے۔ ہم وہ بدنصیب ہیں جن کا آئین ہمیں قومی زبان میں تعلیم دینے کا پابند کرتا ہے، لیکن ہم پر مسلط سول سروس اور اشرافیہ کا انگریزی دان طبقہ یہ ہونے نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں 28مارچ صبح دس بجے آرٹس کونسل راولپنڈی میں آل پاکستان نفاذ اُردو کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اللہ ہمیں جہالت کے اندھیروں سے بچنے اور اس قوم کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔



اوریا مقبول جان

23 مارچ، 2015

سورج سانجھا ہوتا ہے نا !



 سورج سانجھا ہوتا ہے نا !!!! ؟؟
سورج سب کا ہوتا ہے نا !!!! ؟؟
تیری دُنیا روشن کیسے ؟؟
مُجھ کو کِرنیں ڈستی کیوں ہیں ؟؟
سانسیں سانسیں ہوتی ہیں نا !!! ؟؟
تیری ہوں یا میری ہوں وہ
تیرے کتبے مہنگے کیسے ؟؟
میری لاشیں سستی کیوں ہیں ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی

سرمايہ ومحنت - علامہ اقبال



 سرمايہ ومحنت
 

بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِحیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

علامہ اقبال

6 مارچ، 2015

اے قائد کہاں سے لائیں تجھے

قارئین کرام  یہ نظم ایک نئی شاعرہ  فاطمہ سلیم کی ہے. اس کو نظم کے قوائد سے ہٹ  کر پڑھیے  اور صرف اس درد کو محسوس کیجیے جو شاعرہ نے کیا.

 

''اے قائد کہاں  سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔''


 لہو لہو ہیں ارِضِ وطن کی گلیاں
 کہیں سوگ ہے ، کہیں ماتم ہے یہاں
 اُٹھتے ہیں جنازےِ، ہوتی ہے آہ و بکا
 چھا گئے ظلم کے سائے ، سو گئے حکمراں
 کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
 اے قائد کہاں سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 تیر ہے، تلوار ہے، بندوق ہے
 کھو گیا قلم، ہوا دفن جذبہِ ایماں
 نعرہِ تکبیر بھی ہے، نعرہِ شمشیر بھی ہے
 بِک گئے ضمیر، نھیں ہے سکت شکستِ دُشمناں
 کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
 اے قاٰئد کہاں سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 بِکتا ھے عدل و اِنصاف سر بازار یھاں
 چور لٹیرے قاتِل سارے بنے ھیں حافِظ و نِگہبان
 مار ڈالا ہے حرص و ھوس نے جہاں
 کیسے بچائے وہ قوم پاکِستاں
 کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
 اے قائد کہاں سے لائیں تجھے

 فاطمہ سلیم