ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

16 ستمبر، 2015

اردو کے مخالفین کا المیہ----از--اوریا مقبول جان

 سپریم کورٹ کے اردو کے نفاذ کے فیصلے کے بعد اس مملکتِ خداداد پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پر صرف اور صرف انگریزی زبان کی وجہ سے حکمرانی کرنے والے چند ہزار افراد کی منطقیں اور لن ترانیاں دیکھنے والی ہیں۔ ان میں سب سے سرخیل وہ گروہ ہے جسے بیوروکریسی کہا جاتا ہے اور جس گروہ کے درمیان میں نے تیس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزارا ہے۔
 دوسرا گروہ ان چند ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جنھیں اردو سے اس لیے بغض ہے کہ یہ واحد کڑی ہے جو پاکستان کے عوام کو گوادر سے لے کر گلگت تک ایک لڑی میں پروتی ہے۔ میری زندگی کے گزشتہ چالیس سال ان کے درمیان بھی گزرے ہیں۔
تیسرا گروہ ہے جسے ہمارے شہروں میں کاروباری تعلیمی اداروں نے جنم دیا ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے انگلش میڈیم کا ایک خمار اس ملک کے کاروباری طبقہ کے دماغ میں پیدا ہوا اور انھوں نے گلی گلی اسکول کھول کر سرمایہ کمانے کی مشینیں لگا دیں۔ ان سے ایک ایسی نسل نے جنم لیا جسے نہ تو ڈھنگ کی انگریزی آئی اور نہ ہی وہ اردو سے شناسا ہو سکے۔ سارا دن گھروں، بازاروں، محلوں اور علاقوں میں اردو بولتے اور چند گھنٹے سب مضامین انگریزی میں پڑھتے۔ میں نے پڑھنے کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ پاکستان میں تمام ایسے ادارے جن کا انگریزی ذریعہ تعلیم بتایا جاتا ہے، وہاں بات سمجھانے، کسی مضمون کی اصل کو تفصیل سے بتانے کے لیے اردو بلکہ بعض دفعہ علاقائی زبان استعمال کی جاتی ہے۔
 یہ تمام طلبہ اساتذہ سے مضمون اردو میں پڑھتے ہیں لیکن امتحان انگریزی میں دینے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ فریب خوردہ شاہین ہیں جنھیں زبردستی اس راستے پر ڈالا گیا اور آج وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر کہیں اردو اس ملک میں رائج ہو گئی تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ایسے طلبہ کی تعداد چند لاکھ سے بھی کم ہے۔

 لارڈ کارنیوالس کی 1773ء میں جنم لینے والی بیوروکریسی کا المیہ یہ ہے کہ وہ اور ان کے “اسلاف” نے اس زبان کو اس لیے اختیار کیا تھا کہ یہ ان کے حاکموں کی زبان تھی اور اس کے ذریعے وہ حکمرانوں کے منظورِ نظر بھی بنتے تھے اور ساتھ ساتھ عوام سے الگ تھلگ بھی نظر آتے تھے۔ ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان پر کون مسلط ہے۔ جو مسلط ہے وہی ان کا آقا ہے، اسی کی زبان یہ بولتے ہیں، اسی کا ملبوس زیب تن کرتے ہیں اور اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ انگریز سے پہلے فارسی دربار کی زبان تھی تو یہ طبقہ فارسی بولتا، اسی تہذیب کو اوڑھنا بچھونا بنانا اپنا فخر سمجھتا تھا۔ کون تھا جس نے اپنی زبان میں فرامین جاری کیے ہوں۔ ان شاہ پرست اور غلام صفت لوگوں کو راہِ راست پر لانا کوئی مسئلہ نہیں۔ ضیاء الحق کے لیے نماز کی پابندی کرنے، اور مشرف کے لیے عیش و عشرت کی محفلیں سجانے والے یہ بیوروکریٹ صرف ایک حکم نامے کے محتاج ہیں۔ آپ نے حکم جاری کیا تو ان میزوں پر آج کل جو انگریزی ڈکشنریاں اور تھیزیرس رکھے ہوتے ہیں، حکم نامے کے ساتھ ہی ان کی جگہ اردو لغت آ جائےگی۔

 اپنے کمال تجربے کے باوجود یہ انگریزی بھی بدترین حد تک بری لکھتے ہیں جس کا ہر انگریزی جاننے والا مذاق اڑاتا ہے اور اردو بھی کوئی اتنی اچھی نہیں لکھیں گے لیکن کم از کم اردو میں لکھنے سے ان کے حکم نامے اس زبان میں ضرور آ جائیں گے جسے عام آدمی پڑھ کر سمجھ سکے۔ ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ انھوں نے ایک منافقانہ طرز کا دفتری نظام چلایا ہے۔ وزیر ِاعظم سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر تک تمام گفتگو، میٹنگ، بریفنگ وغیرہ اردو میں ہوتی ہے۔ سائل سے اردو یا اس کی علاقائی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن منافقت دیکھیں کہ میٹنگ کے “منٹس” یعنی کارروائی انگریزی ہی میں لکھتے ہیں۔ اور سائل کو فیصلہ انگریزی میں تھماتے ہیں۔

 اسی بیوروکریسی کے ہم پلہ ہمارا عدالتی نظام ہے۔ تمام کارروائی سپریم کورٹ سے لے کر سول جج تک اردو یا علاقائی زبان میں ہو رہی ہوتی ہے۔ لیکن مسل پر بیان تک انگریزی میں ترجمہ کر کے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ فیصلے انگریزی میں تحریر ہوتے ہیں، PLD انگریزی میں مرتب ہوتا ہے۔ وکیل بحث اردو ہی میں کرتا ہے اور حوالہ انگریزی میں پیش کرتا ہے کیونکہ منافقانہ طرزِعمل یہ ہے کہ ہم اس زبان میں فیصلے تحریر نہیں کرتے جو عدالت میں بولی جا رہی ہوتی ہے۔

 شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی لن ترانیاں عجیب ہیں۔ یہ اردو کہاں سے آ گئی، یہ تو صرف چند لوگوں یعنی 9 فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔ علاقائی زبانوں اور مادری زبانوں میں تعلیم ہونی چاہیے۔ لیکن آپ ان لوگوں کا اپنا طرزِ عمل دیکھیں۔ پیدا ملتان میں ہوتے ہیں، مادری زبان سرائیکی، کالم اردو میں لکھتے ہیں، بلکہ پروگرام بھی اردو میں کرتے ہیں۔ پیدا پشاور میں ہوئے ہیں مادری زبان پشتو، لیکن اردو کے لازوال شاعر، پیدا تربت میں ہوئے، مادری زبان بلوچی، اردو کے قابلِ فخر شاعر۔ پنجاب کے تو ہر قصبے اور قریے میں یہ ہی معمول ہے کہ کوئی مادری زبان میں لکھنا پسند ہی نہیں کرتا۔ فیض احمد فیضؔ سے مجید امجد اور سعادت حسن منٹو سے راجندر سنگھ بیدی تک، سندھ سے تلوک چند محروم، بلوچستان سے گوپی چند نارنگ، عطا شاد، سرحد سے احمد فراز۔ ان سے کہو پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی میں کیوں نہیں لکھتے، تو بڑے وثوق سے کہیں گے کہ علاقائی زبان کے سننے اور پڑھنے والے کم ہیں۔ بڑے بڑے شعرا اور ادیبوں کی اکثریت سے میں ملا ہوں، جن میں فیض احمد فیض سے احمد فراز تک اور منیر نیازی سے عطا شاد تک شامل ہیں، سب یہی کہتے ہیں کہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو طبیعت اردو میں ہی رواں ہوتی ہے۔

 دانشوروں کا حال یہ ہے کہ وہ انگریزی کی وکالت میں قلم توڑ دیتے ہیں لیکن اس انگریزی کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ دو انگریزی چینل چلانے کی جسارت کی گئی مگر عدم مقبولیت کی وجہ سے بند کرنا پڑے۔ ان سارے علاقائی زبانوں کے حامیوں اور اس کا نعرہ بلند کرنے والوں سے کہو کہ تم نے آج تک اپنی زبان میں کیا لکھا، کتنے پروگرام کیے، کتنی کتابیں لکھیں تو ان کا منہ لٹک جاتا ہے۔ لیکن ہر کسی نے اردو میں کتاب، کالم، مضمون لکھا بھی ہوتا ہے اور بار بار تقریر بھی کی ہوتی ہے اور ٹاک شو میں علم کے جوہر بھی دکھائے ہوتے ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ کسی ایسی زبان کو پاکستان میں رائج ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے جس سے اس ملک میں یک جہتی کی فضا نظر آئے، جو پاکستان کو بحثیت قوم زندہ کر سکے۔ رہا نظامِ تعلیم کا مسئلہ تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور تاریخ نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ دنیا میں ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور ترقی کی ہو۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ جیسے ملک جن کی آبادیاں چند لاکھ لوگوں پر مشتمل ہیں وہ بھی انگریزی نہیں بلکہ قومی زبان میں تعلیم دلواتے ہیں بلکہ پی ایچ ڈی تک اسی زبان میں کرواتے ہیں۔ چین، جرمنی، جاپان کی تو مثال ہی اور ہے کہ ان کی آبادی بہت بڑی ہے۔

 یہ انگریزی میڈیم ہمارے ہاں چند دہائیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی اس مقصد کے لیے نافذ کیا گیا کہ ایک ایسی نسل پیدا کی جائے جو بچپن ہی سے ایسے خواب دیکھے جیسے یورپ کا بچہ دیکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں ہیر، سسی اور سوہنی کی جگہ سنڈریلا آباد ہو، تا کہ وہ اگر ایک دن یہاں سے پڑھ لکھ جائے تو خدمت کرنے کے لیے یورپ کا انتخاب کرے اور وہ مغرب کے کسی بھی ملک میں جائے تو وہ اسے اجنبی محسوس نہ ہو۔ یہ کسی بھی ملک کی معیشت کے ساتھ بڑا ظلم ہوتا ہے۔ ایسے طلبہ کی تعداد چند لاکھ سے بھی کم ہے۔

 سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے کے ساتھ ایک تازہ فیصلہ الہٰ آباد ہائی کورٹ بھارت کا بھی پڑھ لینا چاہیے۔ الہٰ باد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام سرکاری ملازم اور سیاسی رہنما اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھائیں۔ جس دن وزیر اعظم، وزیرِ اعلیٰ، چیف سیکریٹری، آئی جی، کور کمانڈر اور سیکریٹری تعلیم کے بچے، پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں، سرکاری اسکولوں میں داخل ہو گئے ان اسکولوں کا معیار پاکستان کے کسی بھی انگلش میڈیم سے بلند ہو جائے گا۔ رہا بیوروکریسی کا معاملہ تو آج سول سروس کا امتحان اردو میں لینے کا فیصلہ ہو جائے، دس دن کے اندر اس کی تمام کتابیں اردو زبان میں مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ ہر بڑے خاندان کا بچہ کسی ایسے اسکول میں داخل ہونے کے لیے تڑپے گا جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہو کیونکہ اس نے اردو میں امتحان دے کر آفیسر بننا ہو گا۔ رہا شاعروں، دانشوروں، ادیبوں اور تجزیہ نگاروں کا مسئلہ تو وہ پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، پشتو کے حق میں اردو میں گفتگو کرتے رہیں گے، اردو میں کالم بھی لکھیں گے، شاعری، افسانہ نگاری بھی کریں گے، ٹی وی میں اینکری بھی اردو میں کریں گے اور اپنی مادری زبان کے لیے آنسو بھی بہاتے رہیں گے۔


7 comments: