zavia by ashfaq ahmed all three parta download in pdf
زاویہ
Zavia by ishfaq ahmed part 1
DOWNLOAD
LINK-2
DESCRIPTION
Ashfaq
Ahmed, who recently passed away, authored more than 20 books in Urdu.
His works included novels, short stories and plays for television and
radio. The government awarded Ashfaq Ahmed the Sitara-e-Imtiaz - the
highest civilian award - in recognition of his contribution to Urdu
literature.
Inspired by Ashfaq Ahmed's PTV Forum 'Zavia', in this book Ashfaq Ahmed,
who wrote thought-provoking plays on social issues and was a great
social reformer, using his vast knowledge of science, sprituality &
different religions, has dwelt upon topics such as 'Mayoosi
(depression)', 'Insaan Ko Sharminda Na Kiya Jai', 'Dosti Aur Tash Kay
Game', 'We don't live in the present but in the future and in the past'
& many others.
Zavia by ishfaq ahmed part 2
DOWNLOAD
LINK-2
Zavia by ishfaq ahmed part3
DOWNLOAD
LINK-2
cancer tratment, surgery
زاویہ، اشفاق احمد
اردو افسانہ نگار۔ ڈرامہ نگار ۔ نثر نگار ۔لاہور میں پیدا ہوئے اور
گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے
یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک
یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج
لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم
یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگۓ۔وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ
داستان گو جاری کیا جو اردو کے آفسٹ طباعت میں چھپنے والے ابتدائی رسالوں
میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی
کی۔
وہ انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں
اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ
رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر
کیے گۓ۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا
بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان
کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر
استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجھی
جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا
وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔
ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔
بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے
(ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ
سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ
کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث
مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔
ساٹھ کی دہائی میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے نام سے ایک نئی طرح کی
فیچر فلم بنائی جس کے گیت مشہور شاعر منیر نیازی نے لکھے اور طفیل نیازی نے
اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور اداکار قوی خان اس میں پہلی مرتبہ ہیرو کے
طور پر آئے تھے۔ اس فلم کا مشہور گانا تھا اس پاس نہ کئی گاؤں نہ دریا اور
بدریا چھائی ہے۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکامیاب ہوگئی۔
ستر کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر
ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں
ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من
چلے کا سودا میں وہ تصوف کی طرف مائل ہوگۓ اور ان پر خاصی تنقید کی گئی۔
اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان
کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔
کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وژن پر زاویے کے نام سے ایک پروگرام کرتے
رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔ جگر کی
رسولی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔