ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

9 فروری، 2011

امریکی تاریخ کا مشہور ترین انکار


امریکی تاریخ کا مشہور ترین (انکار).
دسمبر ۱۹۵۵ کی ایک سرد شام کو دِن بھر کی پُر مشقت اور  تھکا دینے والے سلائی کڑھائی کے کام سے فراغت پا کر روزا پارکس نامی ایک سیاہ فام عورت، اپنےدستی تھیلے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹائے اور اُس سے گرمی کا احساس پاتے ہوئے سڑک پر جا رہی تھی۔

دائیں بائیں دیکھ کر احتیاط سے سڑک عبور کر تے ہوئے وہ اُس بس سٹاپ پر جا کر کھڑی ہوگئی جہاں سے اُس کے گھر کی طرف جانے والی بس کو گزرنا تھا۔
تقریبا دس منٹ تک بس کا انتظار کرتے ہوئے روزا پارکس کے ذہن میں وہ افسوس ناک غیر انسانی مناظر گھوم گئے جو اُن دنوں امریکہ میں عام دیکھنے کو ملتے تھے، اور وہ تھے کسی بھی سیاہ فام کو اُسکی نشست سے اُٹھا دینا تاکہ وہاں پر ایک سفید فام بیٹھ سکے۔
یہ رویہ بھائی چارے کے جذبات یا مہذب معاشرے کی نفی تو کہاں محسوس ہوتا، اُلٹا امریکی قانون سیاہ فاموں کو اِس بات سے سختی سے منع کرتا تھا کہ وہ کسی سفید فام کے کھڑے ہونے کی صورت میں قطعی نہیں بیٹھ سکتے۔


معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں تھا، اگر کوئی سیاہ فام بزرگ عورت کسی نوجوان سفید فام کے کھڑے ہونے کی صورت میں بیٹھی پائی جاتی تو اُس بزرگ اور بوڑھی عورت پر جُرمانہ کیا جاتا تھا۔
جی ہاں، یہ اُسی زمانے کی بات ہے جب دُکانوں یا کھانے کے ریستورانوں کے دروازوں پر فخر سے ایسی تختی لٹکائی جاتی تھی جِس پر لکھا ہوتا کہ یہاں بِلیوں، کتوں اور سیاہ فاموں کا داخلہ منع ہے۔
نسل پرستی پر مبنی یہ رویئے روزا پارکس کو غمگین اور افسُردہ کیئے رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ یہی سوچتی رہتی کہ کب تک ہم سیاہ فاموں کے ساتھ یہ امتیازی اور کمتر سلوک جاری رہے گا؟ کب تک سیاہ فاموں کو تو قطاروں کے آخر میں رکھا جائے گا مگر سفید فاموں کے جانوروں کو بھی برابری کے حقوق دیئے جائیں گے؟ اِنہی سوچوں میں گُم روزا پارکس اپنے سینے میں درد چُھپائے بس کے آنے پر اُس میں سوار ہو گئی۔


 
بس میں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے روزا کو ایک خالی نشست نظر آگئ، بس کے انتظار میں کھڑے شل ہوئی ٹانگوں کے ساتھ وہ نشست پر بیٹھ گئی، دستی تھیلے کو اُس نے مزید بھیچتے ہوئے سینے سے لگا لیا۔ اپنی سوچوں میں گُم وہ سڑک کو دیکھنے لگ گئی جسے بس گویا کھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف دوڑ رہی تھی۔


کُچھ ہی دیر بعد اگلا سٹاپ آ گیا جہاں سے بس میں مزید لوگ سوار ہو ئے اور بس بھر گئی۔
بس میں سوار ہونے والا ایک نوجوان سفید فام آہستگی سے اُس کرسی کی طرف بڑھا جہاں روزا پارکس بیٹھی ہوئی تھی۔ سفید فام اِس انتظار میں تھا کہ روزا اُس کیلئے نشست چھوڑے گی مگر آج معاملہ اُلٹا ہو گیا تھا، روزا نے سفید فام کو اُچٹی سی نگاہ سے دیکھا تو سہی مگر اُس کیلئے نشست خالی نہ کی اور ایک بار پھر اپنی نظریں باہر کی طرف سڑک پر ٹِکا دیں۔ سفید فام کے چہرے پر توہین کا احساس نمایاں تھا۔
یکا یک ہی بس میں سوار ہر مسافر کا رویہ معاندانہ ہو گیا، لوگ طنز سے بھی بڑھ کر  روزا کو گالی گلوچ  تک کرنے پر اُتر آئے تھے اور اُسے فورا اُس سفید فام کیلئے نشست خالی کرنے کیلئے کہہ رہے تھے۔
لیکن روزا اپنے موقف پر قائم خاموشی سے اپنی نشست پر براجمان تھی۔ بس کا ڈرائیور ایک سیاہ فام عورت کی اِس قانون شکنی کی جراءت اور سفید فام کی توہین پر یوں خاموش نہیں رہ سکتا تھا، اُس نے بس کا رُخ پولیس سٹیشن کی طرف موڑ دیا تاکہ پولیس اِس سیاہ فام عورت کو ایک معزز سفیدفام کی توہین کرنے کی جراءت کا مزا چکھا سکے۔


اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا، پولیس نے روزا پارکس گرفتار کر کے تحقیق کی اور بعد میں  اُسکا جرم ثابت ہونے پر اُسے ۱۵ ڈالر جرمانے کی سزا سُنائی گئی، تاکہ اُسکی سزا دوسروں کیلئے ایک مثال بن جائے اور آئندہ کوئی ایسی جراءت نہ کرے۔


بات تو چھوٹی سی تھی مگر امریکا کی سر زمین پر ایک چنگاری بن کر گری۔ مُلک بھر میں بسنے والے تمام سیاہ فام  روزا پارکس کے ساتھ پیش آنے والے اِس ناروا سلوک پر آگ بگولہ ہو گئے اور ایک تحریک چل پڑی کہ وہ نقل و حمل کے تمام وسائل کے خلاف اُس وقت تک احتجاج کے طور پر بائیکاٹ کریں گے جب تک امریکی حکومت اُن کو تمام تر انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتی اور اُنکے ساتھ مہذب معاملے کا وعدہ نہیں کر لیا جاتا۔
یہ بائیکاٹ اپنی تمام تر ثابت قدمی کے ساتھ ایک طویل عرصے تک چلا، سیاہ فاموں نے ۳۸۱ دنوں تک احتجاج کیا اور امریکی حکومت کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
روزا پارکس کی فتح ہوئی اور عدالت نے مُلک میں نہ صرف نسلی امتیاز کے اِس  قانون کو بلکہ اِس جیسے کئی امتیازی  رواجوں کو فوری طور پر ختم کردیا۔  


اور اِس واقعہ کے ۴۶ برس بعد مؤرخہ ۲۷  اکتوبر  ۲۰۰۱ کو، امریکی تاریخ میں پیش آنے والے اِس تاریخی واقعے کی یاد ایک بار پھر اُس وقت تازہ ہو گئی جب مِیشی گن کے شہر ڈیئر بورن میں واقع ھنری فورڈ عجائب گھر کے منیجر سٹیو ھامپ نے اُس پرانی بس کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔
جی ہاں 1940 ماڈل کی یہ بس جس میں روزا پارکس کے ساتھ وہ سانحہ پیش آیا تھا، ایسا سانحہ جس نے امریکا میں انسانی حقوق کی تحریک کو جنم دیا اور پھر سیاہ فاموں کو بھی برابر کے حقوق حاصل ہو گئے۔


اور یہ پرانی بس چار لاکھ بیانوے ہزار ڈالر میں خرید کی گئی۔
سن ۱۹۹۴ میں جب روزا پارکس کی عمر ۸۰ سال تھی, اُس پر لکھی گئی ایک کتاب بعنوان خاموش طاقت میں وہ اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اُس دن مجھے اپنے ماں باپ اور اجداد بہت یاد آئے تھے، اُس دن میں نے اللہ کے حضور گڑگڑا کر التجاء کی تھی کہ یا رب تو ہی ہے جو کمزوروں کو طاقت سے نواز سکتا ہے۔


اور پھر ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۵ کو ۹۲ سال کی عمر میں وفات پانے والی اِس بہادر خاتون کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ہزاروں سوگوار جمع ہوئے۔
وہ با ہمت اور بہادر خاتون، جِس نے انسانی حقوق کی برابری کیلئے علم بُلند کیا تھا۔
روزا پارکس کے جنازے میں کئی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی اور ہزاروں لوگ ڈھاریں مار مار کر رو رہے تھے، امریکا کا جھنڈا سر نگوں ہو کر اِس عظیم خاتون کو سلامِ عقیدت پیش کر رہا تھا۔
روزا پارکس کی میت کو وفات سے دفنانے تک امریکی کانگریس کی ایک عمارت میں رکھا گیا، تعظیم کا یہ اعزاز سربراہانِ مملکت یا اہم ترین شخصیات کو دیا جاتا ہے۔
۱۸۵۲ سے لیکر آج تک صرف ۳۰ ایسے لوگ گُزرے ہیں جنکو یہ اعزاز حاصل ہوا جبکہ اِن تمام ۳۰ اشخاص میں سے روزا پارکس واحد خاتون ہیں۔
روزا پارکس اِس دنیا سے رُخصت ہوئیں تو اپنے سینے پر کئی تمغے سجائے ہوئے تھیں، 1996 میں اُنہیں آزادی کے صدارتی تمغہ سے نوازا گیا جبکہ 1999 میں اُنہیں کانگریس سے گولڈ میڈل عطا کیا گیا۔

روزا  کیلئے اِن سب اعزازات سے بڑھ کر  اُنکا اپنا ایک لفظ تھا اور وہ تھا (نہیں)، یہ نہیں امریکا کی تاریخ کا سب سے طاقتور انکار تھا جِس کی ہاں میں ہاں مِلانے میں اُس کی تمام سیاہ فام نسل نے ساتھ دیا تھا۔
***
خُدا نے آج تک  اُس  قوم  کی  حالت  نہیں  بدلی
نہ ہو خیال جِس کو خود اپنی حالت کے بدلنے کا

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں