ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 اپریل، 2011

پاکستان نور ہے‘ نور کو زوال نہیں"...مکالمہ

محترم عطاءالحق قاسمی نے بزم اقبال ؒ ( ایم ۔اے ۔او۔ کالج ) اور ایوانِ وقت (روزنامہ ”نوائے وقت “) کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ۔ مذاکرے کا موضوع ”پاکستان“ تھا۔ اس مذاکرے میں علم و ادب کے حوالے سے ملک کی نامورشخصیات نے شرکت کی۔ کہنے کو تو یہ ایک مذاکرہ تھا ‘ لیکن درحقیقت یہ سوال و جواب کی ایک نشست تھی ‘ جس میں شریک ِ محفل دانشور حضرات نے آپؒ کے روحانی علم سے اکتساب ِ نور کیا۔

تشکیک کی پُر خار وادیوں سے نکل کر یقین کے نخلستان میں قدم رکھنا بلاشبہ فیض کا پہلا مرحلہ ہے۔
شرکائے مذاکرہ : جسٹس انوارالحق ۔ پروفیسر اشفاق علی خان ۔ اشفاق احمد ۔
منیر نیازی ۔ خاطر غزنوی ۔ ڈاکٹر سلیم اختر ۔ عبدالمجید ۔ اختر امان۔ اظہرجاوید ۔ خواجہ افتخار ۔ امجد طفیل
میزبان : عطاءالحق قاسمی

عطاءالحق قاسمی : خواتین و حضرات © ©! میں مجلس اقبالؒ ایم ا ے او کالج لاہوراور ایوان وقت کی طرف سے آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔میں نے جناب واصف علی واصف صاحب کو یہاں بلایا ہے۔ واصف صاحب ہمارے ملک کے ممتاز دانشوروں میں سے ہیں۔ ہماری دیرینہ خواہش تھی کہ ان سے گفتگو کی جائے ‘ گفتگو کا حوالہ پاکستان ہے۔ چنانچہ واصف صاحب سے باتیں کریں گے اور یہ باتیں وہ نہیں ہوں گی جو اخباری حوالوں سے ہم تک پہنچتی ہیں بلکہ گفتگو کا طور روحانی سفر ہو گا۔ یعنی یہ کہاں سے شروع ہوا اور آج کس صورت میں نظر آ رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت اشفاق صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں‘ آپ واصف علی واصف صاحب سے مکالمہ کریں گے اور بعد ازاں جو سوالات ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوں گے وہ واصف صاحب سے پوچھیں گے۔ میں جناب اشفاق صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی گفتگو کا آغاز فرمائیں۔

اشفاق احمد : واصف صاحب !یہ کوئی روائتی مجلس نہیں بلکہ مجالس کی عام ڈگر سے ہٹ کر ہے ۔ اس محفل میں‘ میں اور میرے ساتھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری ذات سے لے کر یہ سفر جو بہت پیچھے سے ہمارے بزرگوں کا سفر ہے‘ یہ سفر اسی اعتبار سے ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن یہ سفر بیرونی طور پر ہی نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے اندر ہی ایک سفر ہوتا ہے۔ چنانچہ سیاست اور معیشت کے پاکستان کے وجود میں آنے کا‘ پاکستان کے بننے کا اور پاکستانیوں کا جو روحانی سفر تھا۔ وہ سفر کیا بتدریج رواں ہے یا رک گیا ہے اور لوگ سستانے لگے ہیں۔ ہمارے درمیان جو اس وقت عوام موجود ہے جس میں ہم سب لوگ شامل ہیں‘ جو بڑے یقین کے ساتھ اور حتمی طور پر اس بات کو مانتے بھی ہیں اور اعلان بھی کرتے ہیں کہ پاکستان بنا اس لئے تھا کہ ہم اپنی زندگی بہتر کرنا چاہتے تھے‘ ہم اپنی زندگیوں کو آزادی عطا کرنا چاہتے تھے اور ہم نہایت دلجمعی کے ساتھ اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کے حوالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب ہم اس سے ہٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں۔ مثلاً ہم جو جالندھر‘ ہوشیار پور سے آئے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بیاس کے مقام پر ایک چھکڑا جا رہا ہے‘ اس کو ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ہانک رہا ہے۔ اس چھکڑے میں ایک اس کا باپ ہے‘ بیوی ہے‘ اس کی دو بچیاں ہیں‘ ایک بیٹا ہے‘ وہ جا رہا ہے۔ اچانک اس پر حملہ ہوتا ہے
درود شریف پڑھتا ہوا چھکڑے کو لے کر پھر چل پڑتا ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر تو اسے اپنا سفر روک لینا چاہئے تھا۔ پھر تھوڑا آگے جا کر اس کی بیٹی اٹھا لی جاتی ہے۔ وہ پھر بھی درود شریف پڑھتا ہے۔ اللہ ‘رسولﷺ کو یاد کرتا ہوا آگے چل پڑتا ہے۔ یعنی کیا اس کو اس بات کی خواہش اور طلب تھی کہ آگے چل کر مالی طور پر مجھے ایک سنہرا مستقبل نصیب ہو گا یا یہ کہ اتنے خوفناک سفر سے گزرنے کے بعد اصولاً اس کو یہ مان لینا چاہیئے تھا کہ اب میں منہ سے وہ الفاظ نہ کہوں جو میں کہتا ہوں یا مجھے رک جانا چاہیئے تھا۔ لیکن وہ بدستور اپنا چھکڑا ہانکتا ہوا سرحد تک پہنچ جاتا ہے۔
اب جب ہم بہت سمجھدار اور سوچنے والے ہو گئے ہیں‘ اب ہم کو اپنے آپ میں وہ خصوصیت نظر نہیں آتی۔ چنانچہ میں بالخصوص اور میرے ساتھی بالعموم یہ جاننا چاہیں گے کہ موجودہ صورتحال میں جب کہ ہم سیاسی طور پر تو سمجھ گئے ہیں کہ یہ ووٹ ہوتا ہے‘ یہ بیلٹ بکس ہے‘ یہ جمہوریت ہے اور ایسے اسمبلی بنتی ہے۔ یہ سب کچھ تو ہم جان گئے ہیں اور اس کی تو اب ضرورت نہیں جاننے کی۔ بات یہ ہے کہ کیا ہمارے بچ نکلنے کے لیے کوئی ایسا سوئچ ہے جس سے ہم میں پھر وہی ایمان اور یقین کی کیفیت پیدا ہو گی۔ اور ہم پھر پہلے کی طرح اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔ مایوسی کی فضا دور ہو گی اور غیر یقینی حالات بہتر ہوں گے، کیونکہ کچھ لوگ تو پاکستان کے قائم رہنے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ سوال لمبا ہو گیا ہے مگر اب یہ معلوم نہیں کہ میں اپنا مقصد سمجھا سکا ہوں کہ نہیں؟
:واصف علی واصف ؒصاحب
  حاضرین محفل کی خدمت میں سلام پہنچے۔ سوال بڑا واضح ہے اور اس کا جواب بھی بڑا واضح ہے۔ غیر یقینی حالات پر تقریریں کرنے والے کتنے یقین سے اپنے مکان بنا رہے ہیں۔ دراصل جس انسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں وہ کسی مستقبل پر کبھی اعتماد نہیں کر سکتا۔ مستقبل حال سے ہے‘ اپنے حال پر راضی رہنا چاہئے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں۔ اگر کشتی میں ایک انسان بھی خوش نصیب ہو تو اس کے کنارے لگنے کا شک نہ ہونا چاہئے۔ خوش نصیب وہ انسان ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہو۔ آج کا انسان ایک نا معلوم اندیشے سے دو چار ہے۔ اندیشہ ذاتی‘ ملکی اور بین الاقوامی حالات کی وجہ سے ہے۔ ذاتی اندیشہ اس لئے ہے کہ ہماری زندگی کثیرالمقاصد ہو کر رہ گئی ہے۔ خواہشات کی کثرت نے زندگی میں بے مقصدیت پیدا کر دی ہے۔ہم کئی زندگیاں گزار رہے ہیں اور اس طرح ہمیں کئی اموات سے دوچار ہونے کاڈر محسوس ہو رہا ہے۔ ملکی سطح پر ہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اندیشے میں مبتلا ہیں۔ وحدتِ افکار نہ ہونے کی وجہ سے وحدتِ کردار نہیں۔اسی لئے ملت میں وحدت کا شعور نہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جن پر اسلام نافذ نہیں ہو سکا ۔ اور یہ کیسا اسلام ہے جو مسلمانوں پر نافذ نہیں ہو سکا۔ اندیشوں سے بچنے کا طریقہ بھی آسان ہے۔ اندیشے کی ضد امید ہے۔ امید اس خوشی کا نام ہے جس کے سہارے غم کے ایام بھی کٹ جاتے ہیں۔فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے۔ غور کرنا چاہئے کہ موت سے زیادہ خوف ناک موت کا ڈر ہے اورموت کا ڈر بے معنی ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ خطرات کے باوجود زندگی وقت سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی اور احتیاط کے باوجود زندگی وقت کے بعد قائم نہیں رہ سکتی۔میں یہ گذارش کر رہا ہوں کہ بہتر وقت آنے والا ہے۔ جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ زندگی‘ موت کی حفاظت و پناہ میں ہے۔ ہم اجتماعی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ لیکن ہم فرداً فرداً جوابدہ ہیں۔ لالچ نکل جائے تو خوف نکل جاتا ہے۔ جو اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا ہے وہ خوف سے آزاد ہے۔ خوف کوتاہیوں کا نام ہے۔ ہم اپنے اعمال کی عبرت کے خوف میں مبتلا ہیں۔ گناہوں نے دعائیں چھین لی ہیں۔ ہم آج بھی ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔ اگر ہمارا فرض اور شوق یکجا ہو جائے تو زندگی خوف سے آزاد ہو سکتی ہے۔
اصل میں مادی اشیاء کی محبت نے ہم سے ذوق سفر چھین لیا ہے۔ ذوق سفر نہ ہو تو رہنماﺅں کا شکوہ کیا؟ ہم بے سکون ہو چکے ہیںکیونکہ ہم دوسروں کا سکون برباد کر کے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دل سے کدورت نہ نکلے تو سکون کیسے حاصل ہو؟ زندگی میں غم اور خوشی تو آتے ہی رہتے ہیں۔ بیدار کر دینے والا غم غافل کر دینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔ حقیقت ثابت نہیں کی جا سکتی۔ سورج کی روشنی کا ثبوت دیکھنے والے کی آنکھ مہیا کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ملک قائم رہے گا۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ محروم و مظلوم کی داد رسی ہو گی۔ حق والا حق پائے گا۔ ہم سب ایک وحدت ہیں۔ اصل میں جس کو اپنی فلاح کا یقین ہو وہ تبلیغ کر سکتا ہے تا کہ دوسرے اس نعمت میں شریک ہوں۔ مبلغ کی صداقت کا ثبوت یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کو صرف اپنے علم میں شریک نہ کرے بلکہ اپنی آسائشوں میں بھی شریک کرے۔ ہم طاقت اور دولت سے خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عقیدے میں ہم فرعون کو ملعون کہہ چکے ہیں۔
طاقت خوف پیدا کرتی ہے‘ خوف نفرت پیدا کرتاہے‘  نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور باغی ذہن ملک کے ٹوٹنے کی بد دعا کرتے ہیں۔ طاقت محبت میں بدل جائے تو ملک سلامت ہی سلامت ہے۔ نیکی لاٹھی نہیں جس سے بدی کو ہانکا جا سکے۔ نیکی میزبان ہے جو بدی کی ضیافت کر کے اسے راہ راست پر لاتی ہے۔ نیکی کا مزاج مشفق والدین کا سا ہے اور بدی باغی اور سرکش اولاد کی طرح ہے۔ بدی محبت سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم غور کریں‘ دعا کریں۔ اپنے اعمال کی ‘ اپنے افکار کی ‘ اپنے الفاظ کی اصلاح کریں ۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ لوگ یہ کہیں کہ ہمیں اس کا پہلے ہی اندیشہ تھا۔خدا ہمیں ہمارے اندیشوں سے بچائے۔ اگر اللہ رحمت کے جوش میں مخلوق کو بخش دے اور گناہوں کو معاف کر دے تو کیا ہو گا موت کا منظر مرنے کے بعد؟ کیا اللہ معاف کرنے پر قادر نہیں ؟آج ہر انسان گلہ کر رہا ہے‘ کچھ لوگ مخلوق کا گلہ کر رہے ہیں‘ خالق کا گلہ کر رہے ہیں‘ مخلوق کے سامنے اللہ کا شکر ادا کرنے والے کہا ں گئے؟ یقین دلانے والے کیا ہوئے؟ کیا ہمیشہ کے لئے بند ہونے سے پہلے ہماری آنکھ نہیں کھل سکتی؟ کیا ہم دوبارہ یقین کی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے ‘ یقیناً کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حالات بہتر ہوں گے
جلد ہی ۔
کیا اقبالؒ کے خواب کے بعد کسی مرد مومن کو کوئی تازہ ملت ساز خواب نہیں دکھائی دے سکتا؟
کیا حالات بدل نہیں سکتے؟ کیا زندگی منفعت سے نکل نہیں سکتی؟ کیا ہم پر اس کی رحمت کے دروازے نہیں کھل سکتے؟ کیا ہم رحمتہ اللعالمینﷺ سے مایوس ہو گئے ہیں؟ خدا ہمیں وہ نظر پھر سے عطا کرے گا۔ وہ دل پھر سے ملے گا۔ مسلمانوں کو آسانیاں دو‘ انہیں زیادہ علم کی ضرورت نہیں‘یقین کی ضرورت ہے۔ معاف کرنے والے کے سامنے گناہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ عطا کے سامنے خطا کا کیا ذکر۔ زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو یقیناً سکون مل جاتا ہے۔ جھوٹا آدمی کلام اِلٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہو گا۔ صداقت کے بیان کے لئے صادق کی زبان چاہئے‘ بلکہ صادق کی بات کو ہی صداقت کہتے ہیں۔
کامیابی اہم نہیں‘ مقصد اہم ہے۔ برے مقصد میں کامیابی سے اچھے مقصد میں ناکامی بہتر ہے۔
پاکستان کے ٹوٹنے کا اندیشہ اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ صرف نو کروڑ پاکستانیوں ہی کا نہیں‘ بلکہ یہ مسلمانان عالم کا مستقبل ہے۔ اِس کی بنیادوں میں شہداءکا خون ہے۔ اب اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اسلام کی حفاظت اسلام خود فرمائے گا۔ اللہ حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ اس کے محافظ ہیں۔ ہمارے اندیشے محض ذاتی ہیں یا سیاسی ہیں‘ ان میں نہ کوئی جواز ہے نہ بنیاد۔
اللہ کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے۔زندگی اور عقیدے کا فرق ختم ہونا چاہئے۔ جس خطرے کا وقت سے پہلے احساس ہو جائے تو وہ ضرور ٹل سکتا ہے۔ دعا اسی لئے ہوتی ہے کہ آنے والی بلاﺅں کو ٹالا جا ئے۔نیک انسان کی دعا بھی سب کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔خطرہ باہر نہیں ہوتا خطرہ اندر ہوتا ہے۔ سانس اندر سے اکھڑتی ہے۔ آج کے مسلمان کو موت کے خطرے سے زیادہ غریبی کا خطرہ ہے۔ پہلے غریب کی معاشی حالت کی اصلاح کی جائے پھر اس کے ایمان کی۔  بیمار سے کلمہ نہ سنا جائے اس کے لئے دوا کا انتظام کیا جائے۔

اگر ہم شہداءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں ، صوفیاء‘ علمائ‘ فقراءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم اقبالؒ کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں‘ اگر ہم اللہ ‘ اللہ کے حبیبﷺ پر ‘ اسلام پر یقین رکھتے ہیں تو پاکستان کی سلامتی کا بھی یقین ہونا چاہئے۔ ایک انسان‘ صرف ایک انسان جو قائداعظمؒ کی طرح سب میں مقبول ہو ‘ قوم کے نصیب کو بدل سکتا ہے اور کسی ایک رہنما کے آنے کا عمل اتنا ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہو گا۔ ایسا ہونے والا ہے۔ ملک محفوظ رہے گا۔
آج انسانوں کے وسیع سمندر میں ہر انسان ایک جزیرے کی طرح تنہا ہے۔ تنہائی کا خوف سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ تنہائی روح تک آ پہنچی ہے ‘ اللہ کا سہارا ہی بچا سکتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی ضرورت کے لئے اللہ کا نام لیتے ہیں ‘ ان کے لئے مایوسی اور کرب ِمسلسل کا عذاب ہے۔ایک معمولی سا واقعہ ہی غیر معمولی نتائج برآمد کر جائے گا۔ بعض اوقات دور سے آنے والی آواز اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔ ایک چہرہ زندگی میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔ پاس سے گزرنے والا خاموش انسان کئی تبدیلیاں پیدا کر جاتا ہے۔ ایک نگاہ زندگی کا حاصل بن کے رہ جاتی ہے۔ مکڑی کا کمزور جالا ایک قوی دلیل کا کام دے جاتا ہے۔ انسان کے مزاج کو بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ ایک خوش مذاق انسان تمام محفل کو اداسی سے نکال سکتا ہے۔ ایک سوچ پورے فکر کے انداز کوبدل کر رکھ دیتی ہے۔
پاکستان کے ٹوٹنے کا اندیشہ اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ صرف نو کروڑ پاکستانیوں ہی کا نہیں بلکہ یہ مسلمانان عالم کا مستقبل ہے۔ اس کی بنیادوں میں شہداءکا خون ہے۔ اب اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اسلام کی حفاظت اسلام خود فرمائے گا۔ اللہ حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ اس کے محافظ ہیں۔ ہمارے اندیشے محض ذاتی ہیں یا سیاسی ہیں‘ ان میں نہ کوئی جواز ہے نہ بنیاد۔ موجودہ حکومت سے کسی قسم کے اختلاف کا نتیجہ یہ تو نہیں کہ ملک ہی نہ رہے۔ اگر ہم شہداءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں ، صوفیاء‘ علمائ‘ فقراءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم اقبالؒ کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں‘ اگر ہم اللہ ‘ اللہ کے حبیبﷺ پر ‘ اسلام پر یقین رکھتے ہیں تو پاکستان کی سلامتی کا بھی یقین ہونا چاہئے۔ ایک انسان ‘صرف ایک انسان جو قائداعظمؒ کی طرح سب میں مقبول ہو ‘ قوم کے نصیب کو بدل سکتا ہے اور کسی ایک رہنما کے آنے کا عمل اتنا ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہو گا۔ ایسا ہونے والا ہے۔ ملک محفوظ رہے گا۔ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ اپنے عقیدے پر یقین رکھیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔
ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں…. ہمارے ایمان میں اور ہمارے کردار میں دراڑیں ہیں۔ ملک میں کوئی دراڑ نہیں۔ پاکستان میں ایک عظیم روحانی دور آنے والا ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اندیشہ نہیں کرنا چاہئے۔ اندیشہ ‘عروج کا دشمن ہے۔
تعجب ہے دس کروڑ غلام مسلمانوں نے ایک عظیم ملک تخلیق کر لیا۔ آج دس کروڑ آزاد مسلمان اس ملک کی بقا کے بارے میں خدشات کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے ایمان میں اور ہمارے کردار میں دراڑیں ہیں۔ ملک میں کوئی دراڑ نہیں۔ پاکستان میں ایک عظیم روحانی دور آنے والا ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اندیشہ نہیں کرنا چاہئے۔ اندیشہ عروج کا دشمن ہے۔

اختر امان
: واصف صاحب! پاکستان ہم نے مسلمانوں کی روحانی‘ ثقافتی‘ سیاسی اور معاشی نگہداشت کے لئے قائم کیا۔ یہاں سے جتنے مسلمان لندن‘ کینیڈا اور مشرق وسطیٰ جا کر رہ رہے ہیں ان کا کلچر‘ ان کا مذہب‘ ان کی معیشت یہاں سے زیادہ محفوظ ہے…. تو نئے دور کے جو تقاضے ہیں ان میں جو اٹھنے والے سوالات ہیں ان کا بھی کوئی جواب ہے آپ کے پاس؟

واصف علی واصفؒ صاحب : اس سوال کا جواب تو ہم پہلے بھی دے آئے ہیں۔
یہی سوال ہندوستان میں رہ جانے والوں کا تھا۔ اگر دین کے لئے ملک بنا تو دین تو ہر جگہ ہے۔ جہاں مصلّٰی بچھایا‘ دین شروع ہو گیا۔ مسجدوںکو غیر آباد کر کے جانے والو‘ تم کون سااسلام لے چلے ہو۔ جو لوگ پاکستان کے نظریے سے اختلا ف رکھتے تھے کہ سیاست ‘ معیشت‘ کلچر وغیرہ محفوظ کرنے کے لئے ملک بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے سب کو جواب دیا‘ عملی جواب کہ ثقافت اور کلچر کو محفوظ کرنے کے لئے ملک کا ہونا ضروری ہے۔ اسلامی ریاست کا قیام ہی منشائے اسلام ہے۔ پاکستان سے باہر رہنے والے مسلمان آباد ہیں۔ پاکستان کے دم سے ہی سب آبادیاں ہیں۔ نئے تقاضے ہمارے پرانے دین کو کبھی بدل سکے ہیں نہ بدل سکیں گے۔ سب نئے سوالات کا جواب ایک مضبوط پاکستان ہے۔ سب کا پاکستان…. برابر کا پاکستان۔
ثقافت اور کلچر کو محفوظ کرنے کے لئے ملک کا ہونا ضروری ہے۔ اسلامی ریاست کا قیام ہی منشائے اسلام ہے۔ پاکستان سے باہر رہنے والے مسلمان آباد ہیں۔ پاکستان کے دم سے ہی سب آبادیاں ہیں۔ نئے تقاضے ہمارے پرانے دین کو کبھی بدل سکے ہیں نہ بدل سکیں گے۔ سب نئے سوالات کا جواب ایک مضبوط پاکستان ہے۔ سب کا پاکستان …. برابر کا پاکستان۔
ڈاکٹر سلیم اختر : مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے سے پہلے بھی یہی کہا جاتا تھا کہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہو گی، لیکن ایسا ہو گیا اور اب وہی کہا جا رہا ہے کہ باتیں لغو ہیں‘ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، لیکن ضمانت کوئی نہیں ہے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) انوارالحق : واصف صاحبؒ سے پہلے اس سلسلے میں کچھ کہوں گا۔ ابھی جو واصف صاحب ؒنے فرمایا ہے
تو اس سے یہ تاثر پیدا نہیں ہوتا کہ اگر پاکستان ٹوٹے گا تو پھر ہم کیا کریں گے۔ اب تو ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اگر واقعی ایسا خدشہ ہے تو اس پر غور کریں کہ اس خدشے کو کیسے دور کیا جائے۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر کیا ہو گا؟ اس لئے اس قسم کا سوال ابہام پیدا کرتا ہے۔ یہ بات غلط ہے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم کیا کریں گے
بھئی پھر ہم مر جائیں گے اور کیا کریں گے“۔

اختر امان : یہ سوال آج سے چالیس سال پہلے بھی ایک قوم کے ذہن میں تھا۔ ہندو سوچا کرتے تھے کہ اگر بھارت ٹوٹ گیا تو پھر کیا ہو گا اور بھارت ٹوٹ گیا۔ پاکستان بنا‘ پھر پاکستان ٹوٹا ‘ بنگلہ دیش بنا، تو جس طرح برصغیر کا ٹوٹنا ہندو کی نفسیات کا حصہ بن گیا اسی طرح پاکستان کا ٹوٹنا ہماری نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

واصف علی واصفؒ صاحب
: آپ کا اندیشہ خلوص پر مبنی ہے لیکن حقیقت پر نہیں ۔ اندیشہ پیدا کرنے والے عوامل کا قبل از وقت خیال کیا جائے تو انسان اندیشے سے نکل سکتا ہے۔
ہم توڑنے والی قوت کی بجائے بنانے والی قوت پر کیوں یقین نہیں رکھتے ….اللہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچائے اور ہمارا سب سے بڑا دشمن اندیشہ ہے جو ہمارے ایمان کو گھن کی طرح کھا رہا ہے…. ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں تو ایمان‘ زندگی اور پاکستان سلامت رہیں گے۔ اگر انتظار ہی کرنا ہے تو کیوں نہ اچھے وقت کا انتظار کیا جائے۔
کوئی جواب انسان کو اس وقت تک مطمئن نہیں کر سکتا جب تک جواب دینے والے پر یقین نہ ہو۔ چونکہ ہم مستقبل کے بارے میں بات کر رہے ہیںاس لئے بہتر ہو گا کہ آنے والی کسی ناگہانی آفت کو دعا سے دور کر لیا جائے۔پہلے پاکستان ٹوٹا۔ لیکن اس سے پہلے پاکستان بنا بھی۔ تو ہم توڑنے والی قوت کی بجائے بنانے والی قوت پر کیوں یقین نہیں رکھتے۔ ایک معمولی سی چڑیا اپنے گھونسلے کی حفاظت میں شاہینوں سے لڑ جاتی ہے۔ شیر دھاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کے بچے پھرتے رہتے ہیں۔ آپ پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے بننے کا ذکر کر رہے ہیں۔ آپ اس واقعہ یا سانحہ کا ہندوستان کے نقطہ ¿ نظر سے جائزہ لیںتو آج ہندوستان کے لئے پاکستان کا ٹوٹنا ایک زیادہ خطرے کا باعث بن چکا ہے۔ آج ہندوستان چار پاکستانوں سے دوچار ہے۔ ہمارا پاکستان ‘ بنگلہ دیش‘ ہندوستان کے اپنے ۹کروڑ مسلمان اور خطرے کے لحاظ سے خالصتان کی تحریک۔ اللہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچائے اور ہمارا سب سے بڑا دشمن اندیشہ ہے جو ہمارے ایمان کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ میں نے پہلے عرض کیا کہ خطرات زندگی کی میعاد کو کم نہیں کر سکتے اوراحتیاط اسے ایک لمحہ زیادہ نہیں کر سکتی۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں تو ایمان‘ زندگی اور پاکستان سلامت رہیں گے۔ اگر انتظار ہی کرنا ہے تو کیوں نہ اچھے وقت کا انتظار کیا جائے۔
اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہو تو یقین میسر آتا ہے….یقین ایمان کا نام ہے۔ اجتماعی عمل ختم ہو جائے تو قوم پریشانیوںمیں مبتلا ہو جاتی ہے …. یقین یا سکون کے لئے رجوع الی اللہ کیا جائے۔ پاکستان کے مستقبل پر یقین کیا جائے ‘ اپنی ذات پر اعتماد کیا جائے‘ دوسروں کے نقطہ ¿ِ نظر کو تحمل سے سنا جائے۔ ہر انسان پاکستان سے مخلص ہے۔ کسی کے خلوص پر شک نہ کیا جائے۔
پروفیسر اشفاق علی خان
: ان کا سوال میں دہراتا ہوں، اور یہ بات بڑے عاجزانہ طریقے سے پیش کی جا سکتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میری کتاب فروری ۱۴۹۱ءمیں چھپ گئی تھی اس پر ۷۲ نقشے تھے۔ جب میں نے ۷۳۹۱ءمیں ایم اے پاس کیا تو مجھے یہ یقین تھا کہ پاکستان ضرور بنے گا۔ اب میں کسی کو کہہ بھی نہیں سکتا کہ مجھے یہ یقین ہے۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ میں نے وہ کتاب لکھنی شروع کر دی جو ۱۴۹۱ءمیں شائع ہوئی۔ واصف صاحب! حال میں کچھ اندیشے ہیں۔ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے جہاں تک نظر دوڑاتا ہوں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لئے کہیں کوئی مناسب جگہ نہیں ملتی۔ میں واصف صاحب سے چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کچھ بتائیں تا کہ میرا یقین مضبوط ہو اور جو لاجیکل پروسیس ہے ‘وہ میرے دل کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
 
واصف علی واصفؒ صاحب : آپ بہتر علم رکھتے ہیں…. آپ کو علم ہے کہ عقیدہ حالات کے فوری تجربے یا فوری تجزیے یا فوری نتیجے پر زور نہیں دیتا۔ عقیدہ حالات کے لئے ایک عاقبت رکھتا ہے۔ فلسفہ یا لاجک سے یقین کی پرورش نہیں ہو سکتی۔ لاجک خرد کی گتھیاں سلجھاتی ہے لیکن جنون یقین کی منزل دکھاتا ہے ۔ قائداعظم ؒ انگریزی میں تقریر کرتے تھے تو دیہات کا ایک گنوار مسلمان اپنے اندر تقویت محسوس کرتا تھا۔ اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہو تو یقین میسر آتا ہے۔ اللہ لاجک سے سمجھ نہیں آتا ہے۔ یہ یقین ایک نگاہ سے بھی حاصل ہو سکتا ہے اور زندگی‘ کاوشوں سے بھی نہیں ملتی۔ یقین غور سے حاصل نہیں ہوتا یقین ایمان کا نام ہے۔ اجتماعی عمل ختم ہو جائے تو قوم پریشانیوںمیں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اس لئے میں یہ گذارش کروں گا کہ یقین یا سکون کے لئے رجوع الی اللہ کیا جائے۔ پاکستان کے مستقبل پر یقین کیا جائے‘ اپنی ذات پر اعتماد کیا جائے‘ دوسروں کے نقطہءنظر کو تحمل سے سنا جائے۔ ہر انسان پاکستان سے مخلص ہے۔ کسی کے خلوص پر شک نہ کیا جائے۔ اسلام مسلمانوں کے طرز حیات کا نام ہے۔
خواجہ افتخار : مشرقی پاکستان کا جو زخم لگا اس کی کسک توآج بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن بد نصیبی سے آج بھی ہمارے ملک کے مختلف صوبوں میں جو آگ لگی ہوئی ہے آپ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں‘ اس کے متعلق بتائیں کہ حل کیا ہے؟ جیسا جسٹس انوارالحق صاحب نے فرمایا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان خاکم بدہن نہیں رہے گا۔ سوال یہ ہے جس کے دو پہلو ہیں کہ ہندوستان کی حکومت کو ہم سے زیادہ مسائل ہیں ‘ وہاں کی معاشی حالت ہم سے زیادہ خراب ہے۔ وہاں کے فٹ پاتھ پر ہزاروںلوگ رات بسر کرتے ہیں۔ انسان حیوانوں کی طرح رکشا کھینچتے ہیں۔ ہمارے پاس اللہ کے فضل سے معاشی خوشحالی بھی ہے اور اقتصادی بھی‘ تو کیا وجہ ہے یہاں منفی باتیں کی جاتی ہیں۔ جب کہ بھارت میں کوئی ایسا نہیں کہتا کہ ہندوستان ٹوٹ رہا ہے یا ٹوٹ جائے گا۔ ہم ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے اور اس کا عمل کیا ہے؟
واصف علی واصفؒ صاحب : کیا ہندوستان میں کوئی نہیں کہتا کہ ہندوستان ٹوٹ رہا ہے۔ اس بات پر غور کر لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ وہاں کے لوگ بھی اعتماد سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہم تو اندیشوں کی بات کر رہے ہیں۔ در اصل ہماری عافیت کے ذمہ دار شعبوں پر ہمارا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر کی ذات پر اعتماد نہ ہو تو اس کی ذہانت بھی بے کار ہے اور دوائی بھی کار آمد نہ ہو گی۔ بیماری کا اصل علاج اعتماد ہے ‘معالج پر اعتماد‘ اپنے مستقبل پر اعتماد۔ یہ اعتماد تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ کہنے والے نے کہا کہ اللہ ہے ‘اور ہم نے مان لیا کہ اللہ ہے۔ ہم نے صادق ﷺ کی زبان پر اعتماد کیا ہے اس لئے اللہ پر یقین تقرب کا ایک درجہ ہے۔
غریب کے ایمان کی اصلاح کی ضرورت نہیں ‘اس کی غربت دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ بیمار آدمی کو کلمہ سنانے کے لئے نہ کہیں‘ اس کے لئے دوا کا انتظام کریں…. اسلام اور پاکستان کو کبھی خطرہ نہیں ہو گا۔
اظہر جاوید : یہ جو فقیر کشف و کمالات دکھاتے ہیں یہ فقیری کے لئے کوئی ضروری چیز نہیں لیکن کسی وقت اس کی ضرورت بھی آ پڑتی ہے۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ جو خوشنما منظر آپ کی آنکھوں نے دیکھا ہے وہ منظر ہماری آنکھیں بھی دیکھنا چاہتی ہیں۔ بس ہمیں وہ منظر دیکھنا ہے۔
 
واصف علی واصفؒ صاحب : اس کا اشارہ تو پہلے بھی دیا جا چکا ہے۔ یقین و اعتماد پر بہت کچھ بڑے بڑے انسانوں نے بھی لکھا ہے ۔
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
یقین حاصل کرنے کا کوئی فارمولا نہیں دیا جا سکتا ۔
علاج ضعف یقین ان سے ہو نہیں سکتا غریب گرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
یقین تحقیق سے نہیں‘ تسلیم سے ملتا ہے۔ اس کے لئے کوئی اور نسخہ تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ وسوسوں‘ اندیشوں اور شکوک و شبہات کے زمانے میں دولت ِیقین کا میسر آنا ہی بڑی کرامت ہے۔ آپ ایک آنے والے اچھے دور پر اگر یقین کر لیں تو آپ کا کیا بگڑتا ہے۔
یقین تحقیق سے نہیں‘ تسلیم سے ملتا ہے۔ اس کے لئے کوئی اور نسخہ تجویز نہیں کیا جا سکتا…. وسوسوں‘ اندیشوں اور شکوک و شبہات کے زمانے میں دولتِ یقین کا میسر آنا ہی بڑی کرامت ہے۔ آپ ایک آنے والے اچھے دور پر اگر یقین کر لیں تو آپ کا کیا بگڑتا ہے۔

خاطر غزنوی : ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے گفتگو شروع کی تو باطنی حوالے سے کی۔ اس دوران باہر سڑک کا شور کمرے میں آیا تو آپ نے دروازے بند کرنے کو کہا۔ گویا آپ بھی جانتے ہیں کہ خارج کا اثر باطن پر ہوتا ہے۔

 
واصف علی واصف ؒ صاحب : جہاں آپ نے یہ بات نوٹ کی‘ ایک قدم اور آگے بڑھتے تو یہ بھی نوٹ کر لیتے کہ خارجی اثر مقرر پر نہیں ہوتاتو سامعین پر تو ضرور ہوتا ہے ۔ آپ توجہ فرماتے تو دروازہ بند کئے بغیر بھی مسئلہ حل ہو جاتا۔
منیر نیازی : واصف صاحب کے سامنے میرے تو ذہن میں کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو رہا ہے۔ یہ عجیب بات ہے۔ حِس ّ کے چھٹے مقام پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس کو میں محسوس کر رہا ہوں۔ یہ جو جرنلسٹ اور ایڈیٹوریل قسم کے کلیے ہیں میرے اندر سے نکل ہی نہیں پا رہے۔ بے شمار سوالات ہیں ،ساری دنیا ہی سوالوں میں پھنسی ہوئی ہے لیکن جو انہوں نے اصل بات کی ہے کہ اندر ایک اطمینان موجود ہے ،وہی اصل چیز ہے۔ وسوسے تو انسان بہت پیدا کرتا ہے ‘لیکن ان کو دور بھی ایک انسان ہی کرتا ہے۔ پوری ملت کو وسوسوں سے نکالنے والا بھی ایک ہی آدمی ہوتا ہے
جسٹس (ریٹائرڈ) انوارالحق : اشفاق صاحب آپ بات کو آگے بڑھائیں ۔ واصف صاحب نے تو اپنا نقطہ ¿ نظر بالکل واضح کر دیا ہے ۔ آپ ان کے مقابل بیٹھے ہوئے ہیں اس لئے بات کو آگے بڑھائیں۔
جب تک حضور نبی کریم ﷺ سے محبت نہ ہو‘ عشق نہ ہو‘ یہ یقین مل سکتا ہی نہیں۔ حضور ﷺ ہی کے کرم سے بات بنتی ہے۔ حضور ﷺ ہی کی محبت سے بات بنے گی…. اور ضرور بنے گی۔

اشفاق احمد : میرا تعلق روحانیت سے تو نہیں ہے اور دلچسپی بھی صرف کتابی طور پر ہے ۔ میرا سوال یہ تھا اور اس گفتگو کے بعد بنتا بھی ہے کہ ہمارے دل میں وہ یقین کیوں نہیں ہے جو آپ کے دل میں ہے۔ مثال کے طور پرہم لوگ بغیر دلیل کے ایک شخص کو اپنا باپ مانتے ہیں‘ یہ یقین کی بات ہے حالانکہ اس کے بارے میں کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی لیکن اس سے کمزور یقین کا معاملہ ہے وہاں کچھ نہیں ہو پاتا۔

جسٹس (ریٹائرڈ) انوارالحق : جناب presumption ہے conviction نہیں۔
امجد طفیل:واصف صاحب آپ نے شروع میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی تعمیر کا جو عمل تھا یہ ہمارا روحانی سفر تھا تو اس کی کیا وجہ تھی کہ جو لوگ روحانی سفر طے کر کے یہاں آئے انہوں نے زمین اور مکانات الاٹ کرانے شروع کر دئے اور جلد ہی یہ روحانی سفر ختم ہو گیا۔ اس کی کیا وجہ تھی کہ ہم اس روحانی سفر کو چند سال بھی جاری نہ رکھ سکے؟


واصف علی واصفؒ صاحب
: کالج کے ذہین طالب علم کا سوال ہے اور بڑا ذہین سوال ہے۔ جواب یہ ہے کہ اگر ہم نے کہا تھا کہ یہ روحانی سفر تھا تو ہم نے یہ کب کہا کہ یہ سفر ختم ہو گیا۔ آپ روحانی سفر کو روحانی انداز سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اندازِ نگاہ ہے۔ یہی زندگی ظاہری ہے ‘ یہی باطنی‘ یہی دینی اور یہی لادینی ہے۔ روحانی زندگی بھی مادی تقاضوں سے مبرا نہیں۔یہاں تک کہ پیغمبران علیہم السلام ضروریات اور حاجات کی زندگی گزارتے رہے اور دنیا کو عظیم روحانی اور دینی راستوں سے آشنا کراتے رہے۔ نبی پر ابتلا کا زمانہ بھی آ جائے تو نبوت کے منصب میں فرق نہیں آتا۔ سفر جاری ہے یقین موجود ہے۔ آج ہم اندیشوں کی بات کر رہے ہیں یہ صرف احتیاط کی بات ہے۔یہ مذاکرہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم الحمداللہ مایوس نہیں ہیں۔ آپ طالب علم ہو۔ ہم آپ کا ماضی ہیں۔ آپ ہمارا مستقبل ہو۔ امید کا چراغ بجھنے نہ دینا۔ یہ ملک بڑی نعمت ہے۔ خدا اِسے سلامت رکھے گا۔
 

عبدالمجید خان : واصف صاحب مجھے ذاتی طور پر آپ کے روحانی تجربات کی صداقت پر یقین ہے، لیکن حضرت میں درخواست کروں گا کہ آپ اس قلبی واردات کو دوسروں تک پہنچانے اور سمجھانے کے لئے ہماری رہنمائی فرمائیں۔
 

واصف علی واصفؒ صاحب : کسی قلبی واردات کو دوسرے تک پہنچانے کے
لئے واردات ہی ہونی چاہئے۔اصل قصہ یہ ہے کہ واردات ایک مشاہدہ ہے اورمشاہدہ کا بیان سامع کو صاحب مشاہدہ نہیں کر سکتا ۔ مشاہدہ سامعین کی تسلیم کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن آپ بتائیں کہ یہ یقین کیسے میسر آیا‘ دراصل یقین عطا ہوتا ہے۔ آئیے ہم دعا کریں کہ خدا اس قوم کو پھر سے سرمایہ ¿ یقین عطا فرمائے۔ بات مختصر اور آسان ہے کہ جب تک حضور نبی کریم ﷺ سے محبت نہ ہو‘ عشق نہ ہو‘ یہ یقین مل سکتا ہی نہیں۔ حضور ﷺ ہی کے کرم سے بات بنتی ہے۔ حضور ﷺ ہی کی محبت سے بات بنے گی اور ضرور بنے گی۔ میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ یہ اسلام ہے‘ اس اسلام کی حفاظت کریں‘ پاکستان مضبوط ہو گا۔ غریب کے ایمان کی اصلاح کی ضرورت نہیں ‘اس کی غربت دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بیمار آدمی کو کلمہ سنانے کے لئے نہ کہیں‘ اس کے لئے دوا کا انتظام کریں ‘ اسلام اور پاکستان کو کبھی خطرہ نہیں ہو گا۔

Ghareeb k Eman ki Islah kiz arorat nahe, us ki Ghurbat door karnay ki zarorat hai.
Bemar admi ko kalma sunanay k leay na kahain, us k leay dawa ka intizaam karain
Islam ore pakistan ko kabi khatra nahe ho ga

pakistan noor hai ore noor ko zawal nahi

Guests of talk(mukalma)
question answer with wasis ali wasif

Justice anwar ul haq, prof. Ishfaq ali khan, Ishfaq Ahmed, Munir niazi, Khatir ghaznawi, Dr. Saleem Akhter, Abdul Majeed, Akhtar Aman, Azhar javaid, Khawaja Iftikhar and Amjad tufail


Host: Ata ul haq qasmi

28 اپریل، 2011

Khas hai tarkeeb main Qoum e rasool e hashmi


Khas hai tarkeeb main Qoum e rasool e hashmi
Rasool ALLAH(SAW) na farmaya
"Jo koe apnay aap ko kise dosri Qoum ka bataey wo apna thikana Jahanum main bana lai"

Khas hai tarkeeb main Qoum e rasool

Khas hai tarkeeb main Qoum e rasool e Hashmi
Orya Maqbol jan
Rasool ALLAH(SAW) na farmaya
"Jo koe apnay aap ko kise dosri Qoum ka bataey wo apna thikana jahanum main bana lay."

27 اپریل، 2011

Asrar-o-Ramuz urdu translation




Asrar-o-Ramuz (Allama Iqbal)
Urdu Translation 
by 
Mian Abdur Rasheed


shara zarb e kaleem



Sharah-i-Zarb-i-Kalim
by
Yousaf Saleem Chishti 
(Commentary of Iqbal's Urdu Poetry Book)



javaid nama(english translation)




جاوید نامہ
 
English translation of JAVAID NAMA
Translated
by arthur J.Arberry



Ramooz-e-bekhudi(english Translation)




Ramooz-e-bekhudi(english Translation)




Asrar-i-Khudi(english translation)




Asrar-i-Khudi
(the secrets of the self ALLAMA Iqbal)
English translation
by
Reynold A.Nicholson


26 اپریل، 2011

Al Farooq الفاروق




AlFarooq الفاروق
by
shams ul ulama
Allama Shibli nomaniعلامہ شبلی نعما نی


Direct Download     (right click and save link as)


Alternate Downloads from
esnips

Easyshare


Hotfile


A Beautiful book written on the life of Hazrat Umer Farooq(RA)
by Allama shibli
biography





25 اپریل، 2011

Alalh ka hath


Alalh ko oper wala hath necay walay hath se zayada pasand hai
Bikarion main mulk main 2 sakhi Insan

shair ore gadhay ki kahani



Story of donkey and lion and their political system.

21 اپریل، 2011

Who Is Allama Iqbal??

Who Is Allama Iqbal?? 

(A Geomentary attempt to introduce Iqbal)






























Allama Iqbal kon thay?
A documentry on the life of Allama Iqbal.

73rd Death Anniversary of Allama Iqbal


73rd Death Anniversary of Allama Iqbal



21 April 1938 ko tarikh aik aise din kay tor pr yaad rkhti hai jis din aik bohat azeem shair, bohat azeem insaan , mohsin e Qoum aur Shair e mashriq barr e saghir kay musalmanon main azaadi ki lagan paida kr kay soe hue murda dil logon kay andar nai Roh phonk kar is duniya e fani se kouch kr gae ...

Special report on death aniversary of ALLAMA Iqbal







Aaj Iqbal ko hm se bichray pore 73 saal beet chukay hain , lekin un ka pegham aj bhi humare dermeyaan un ki mojudgi ka ehsaas jagae hue hai.




Hakeem-ul-Ummat, Muffakkir-e-Pakistan, Shaair-e-Mashriq, Dr. Sir Allama Muhammad Iqbal - a person considered to be the GREATEST and the BIGGEST poet of 20th century by a majority of Critics needs no introduction on his name - He was born on November 9, 1877 and departed this world on April 21st 1938 ...


He was the one who proposed the theory of two nations and predicted the creation of muslim nation-state in his famous Muslim League Presidential Speech of Ilahabad in 1930.

He turned object of his poetry from nationalistic and patriotic to religious and Islamic philosophy after 1905 when he lived abroad for higher studies.


Please, pray that may Allah bring the peace and prosperity to our country and that we get rid of the shameful corruption our political and social lives back home are involved in. Aameen.
  

علامہ اقبال کی وابستگی رسول اکرم (صلی الله علیہ وسلم ) سے

علامہ اقبال کی وابستگی رسول اکرم (صلی الله علیہ وسلم ) سے
Allama Iqbal ki wabastagi Rasool e Akram(SAW) se










Allama Iqbal na farmaya
Qoumain fikar se mehroom ho kar tabah ho jati hain.
Insan ki baqa ka raaz insaniat k aihtram main hai
Yeh zamana Aqal ka  hai, Azaab ore sawab par koe tawaju nhe karta, Dozakh ore janant k amlan mushahiday k bawajood inkaar kiya jata hai.


Nojawanon ki aenda naslain meri muthi amin hain...Allama Iqbal
meri shaeri Islami tafakur ore fikah ki tafseer ore tahbeer hai
Musalmanon k leader awam main se paida hun gy
hamari tamadani taraqi main sab se bari rukawat ghareebi, aflaas ore tahleemi pasmandgi hai.
Qudrat ki quwaton ki nazar main na afrad ki wuqhat hai, na Aqwam ki manzilat, Is k atal qawaneen barabar apna ammal keay ja rahay hain

20 اپریل، 2011

جب دل اندھے ہو جائیں


Jab Dil andhay ho jaen by Orya maqbool jan

جب دل اندھے ہو جائیں

اقبال کا تصور شاہین

اقبال کا تصور شاہین



خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے 
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں


اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ بیسویں صدی کا آغاز تھا کہ اقبال کی پہلی نظم” ہمالہ“ منظر عام پر آئی ۔ اس کے بعد پانچ چھ برس تک متواتر ان کی ایسی نظمیں ملک کے سامنے آتی رہیں ، جو ان کی حب وطن، ذوق حسن اور ہم آہنگی فطرت کی آئینہ دار تھیں۔ اس اثنا میں انہیں یورپ کا سفرپیش آیا اور وہ ایک عرصے تک کیمرج اور اس کے بعد ہائڈل برگ (جرمنی) میں مقیم رہے۔ جرمنی میں قیام کے دوران میں انہوں نے جن فکری اثرات کو قبول کیا ، ان میں نطشے کا فلسفہ قوت و زندگی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ نظریاتی حلقوں سے باہر کی فضاءبھی ایک ہنگامہ عمل سے معمور تھی اور جرمنی قیصر ولیم کی قیادت میں تسخیر عالم کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ جرمن قوم کی فعالیت اور بلند نظری اور جرمن فرد کی خود شناسی اور خود اعتمادی نے اقبال کے نظام فکر پر ایک گہرا اثرا ڈالا ہے اور اس اثر کی ایک یادگار اُن کی فضائے سخن میں اس پرند کی آواز ہے جسے شاہین کہتے ہیں اور جو قیصر کے جنگی خود اور اس کی کوہ شکن سپاہ کے پھریروں اور اس کے جہازوں کے مستولوں پر دنیا کے گوشے گوشے میں متواتر پانچ بر س تک مائل رہا ۔ اقبال کے شعر میں شہباز کی پہلی نمود ہمیں اس کے دور اوّل کی ایک نظم ” مرغ ہوا“ میں ملتی ہے جو پہلی جنگ عظیم کے قریب لکھی گئی۔

اک مرغ سِرا نے یہ کہا مرغ ہوا سے
پردار اگر تو ہے تو کیا میں نہیں پردار
گر تو ہے ہوا گےر تو ہوں میں بھی ہوا گیر 
آزاد اگر تو ہے ، نہیں میں بھی گرفتار

اس میں کوئی کلام نہیں کہ یورپ کی سب سے باعمل قوم کا تصور ِ شاہین قوت، تیزی، وسعت نظر دور بینی اور بلند پروازی کی خصوصیات پر محیط تھا اور اس کے مادی نظریہ حیات کا صحیح ترجمان، لیکن جب اقبال نے اُسے اپنایا تو اس کی مشرقی روحانیت اس کی تخلیق پر غالب آگئی اور اس نے اپنے شاہین کو خصوصیات ِ مذکورہ کے علاوہ درویشی ، قلندری اورخوداری و بے نیازی کی اعلیٰ صفات سے بھی مزین کیا اور اپنی قوم کے نوجوان کے سامنے اسے زندگی کا بہترین نمونہ بنا کر پیش کیا۔ شاہین ِ اقبال کی سیرت کی ایک جھلک ”بال جبریل“ کی مشہور نظم ” شاہین “ میں جو اقبال کے دور خرد پروری کی یادگار ہے ، یوں نظر آتی ہے۔

کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا 
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو 
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ


اقبال اور شاہین:۔

اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اور ان کا محبوب پرندہ ہے۔ اقبال کے ہاں اس کی وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے لئے بلبل اور شیلے کے لئے سکائی لارک کی تھی، بلکہ ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سے زیادہ بلند ہے کیونکہ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہوگئی ہیں۔ جو اقبال کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں یوں تو اقبال کے کلام میں جگنو، پروانہ، طاوس، بلبل، کبوتر، ہرن وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ لیکن ان سب پر شاہین کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔ اقبال نے تشبیہات و استعارات میں بلبل و قمری کے بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دی ہے۔ ڈاکٹر یوسف خان لکھتے ہیں کہ،
” اقبال کے وجدان اور جذبات شعری کو جو چیز سب سے زیادہ متحرک کرتی ہے۔ وہ مظہر ”قوت“ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بلبل اور قمری کی تشبیہوں کی بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دیتا ہے۔“
اقبال کے ہاں شاہین مسلمان نوجوان کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اقبال کو جمال سے زیادہ جلال پسند ہے اقبال کو ایسے پرندوں سے کوئی دلچسپی نہیں جن کی اہمیت صرف جمالیاتی ہے یا جو حرکت کے بجائے سکون کے پیامبر ہیں،

کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ 
بلبل فقط آواز ہے، طاوس فقط رنگ

اقبال کو شاہین کی علامت کیوں پسند ہے اس سلسلے میں خود ہی ظفر احمد صدیقی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔
” شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خوصیات پائی جاتی ہیں۔ خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہو شکار نہیں کھاتا ۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلند پرواز ہے۔ خلوت نشین ہے۔ تیز نگاہ ہے۔

اقبال کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتا ہے۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن سکے اُردو کے کسی شاعر نے شاہین کو اس پہلو سے نہیں دیکھا” بال جبریل“ کی نظم ”شاہین“میں اقبال نے شاہین کو یوں پیش کیا ہے۔


خیابانیوں سے ، ہے پرہیز لازم 
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں 
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا 
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب ، یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا 
میرا نےلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں 
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیا نہ؟


اقبال کی شاہین کی صفات:۔ 

اقبال نے شاہین کی جن خوبیوں کا خود ذکر کیا ہے اور جن کے باعث وہ ان کا پسندیدہ جانور بنا ہے ان کا کلام ِ اقبال کی روشنی میں ذرا تفصیلی جائزہ لے لیا جائے تو اقبال کے تصورِ شاہین کو سمجھنے میں مزید مدد مل جاتی ہے وہ صفات مندرجہ زیل ہیں۔


غیرت و خود داری:۔

غیرت و خوداری درویش کی سب سے بڑی صفت ہے اور یہی حال شاہین کا بھی ہے اس لئے وہ مرغ سرا کے ساتھ دانہ نہیں چگتا جو دوسروں کے احسان کے باعث ملتا ہے اور نہ گرگس کی طرح مردہ شکار کھاتا ہے درویش اور فلسفی میں یہی فرق ہے کہ گدھ اونچا تو اُڑ سکتا ہے لیکن شکار ِزندہ یعنی حقیقت اس کے نصیب میں نہیں ہوتی۔

بلند بال تھا لیکن نہ جسور و غیور 
حکیم ِ سر ِمحبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضائوں میں گرگس اگر چہ شاہیں وار 
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا


فقراور استغنا:۔

فقر بھی اقبال کے نزدیک مرد درویش کی بڑی خصوصیت ہے جس طرح شاہین چکور کی غلامی نہیں کر سکتا اُسی طرح درویش شاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اقبال کہتے ہیں کہ شاہین کو چکور و گرگس کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ زاغ و گرگس کی صحبت میں شاہین کی زندہ شکار حاصل کرنے کی صلاحیت مردہ ہو جائے گی اور وہ انہی کی طرح لالچی بن کر فقر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اس طرح شاہین کی صفات پیداکرکے فقیر بھی کسی چڑیا ، کبوتر یا فاختہ کا شکار نہیں کھیلے گا بلکہ وہ فطرت و کائنات کی تسخیرکرے گا یا باطل کی قوتوں کا مقابلہ کرے گا۔

اس فقر سے آدمی میں پیدا 
اللہ کی شان ِ بے نیازی
کنجشک و حمام کے لئے موت 
ہے اس کا مقام شہبازی


آشیانہ نہ بنانا :۔

اقبال کو شاہین کی یہ ادا بھی پسند ہے کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا ، آشیانہ بنانا اس کے فقر کی تذلیل ہے۔

گذر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ بیاباں میں 
کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

شاہین کی طرح درویش بھی سرمایہ جمع کرنے کو درویشی کے خلاف سمجھتا ہے۔ اقبال شاہین کو قصر سلطانی کی گنبد پر نہیں بلکہ پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرنے کے لئے کہتے ہیں ان کے خیال میں جب نوجوانوں میں عقابی روح پیدا ہوتی ہے تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں 
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں 
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر 
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں


بلند پروازی:۔

اقبال کے شاہین کی ایک خوبی اُس کی بلند پروازی ہے اقبال کو شاہین کی بلند پروازی اس لئے پسند ہے کہ یہ اس کے عزائم کو نئے نئے امکانات سے روشناس کرتی ہے اقبال شاہین کے اس وصف کو اپنے مرد مومن میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر 
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا 
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں


خلوت پسندی:۔

اقبال کا شاہین خلوت پسند ہے وہ کبوتر ، چکور یا زاغ کی صحبت سے پرہیز کرتا ہے۔ اقبال کو ایسا شاہین پسند نہیں جو گرگسوں میں پلا بڑھا ہو کیونکہ وہ رسم شاہبازی سے بیگانہ ہو جاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کہ گرگس اور شاہین ایک فضا میں پرواز کرنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلندی پرواز 
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت ِ زاغ
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو گرگسوں میں 
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم ِ شاہبازی
پرواز ہے دونوں کا اسی ایک فضا میں 
گرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور


تیز نگاہی:۔

اقبال کو شاہین کی تیز نگاہی اور دوربینی بھی پسند ہے یہی خصوصیت اس کے خیال میں مردِ مومن میں بھی ہونی چاہیے شاہین کی پرواز اس کی نگاہوں کو وسعت بخشتی ہے اقبال کہتا ہے کہ دوسرے پرندوں کو بھلا ان مقامات کا کیا پتہ جو فضائے نیلگوں کے پیچ و خم میں چھپے ہوئے ہیں انہیں صرف شہباز کی تیز نگاہی دیکھ سکتی ہے۔

لیکن اے شہباز ، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت 
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام 
روح ہے جس کی دم پرواز سرتاپا نظر


سخت کوشی:۔

اقبال جدوجہد او ر سخت کوشی کے مبلغ ہیں یہ صفت بھی شاہین میں ملتی ہے اقبال مسلم نوجوانوں میں شاہین کی یہ صفات پیدا کرکے انہیں مجسمہ عمل و حرکت بنانا چاہتے ہیں یہ سبق اقبال نے ایک بوڑھے عقاب کی زبانی اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے دیا کہ سخت کوشی اور محنت کی بدولت زندگی کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے

ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام 
سخت کوشی سے ہے تلخ ِ زندگانی انگبیں
سخت کوشی دراصل لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے۔
جھپٹنا پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا 
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

چیونٹی اور عقاب کے عنوان سے اقبال نے دو شعر لکھے ہیں ان میں چیونٹی عقاب سے پوچھتی ہے۔

میں پائمال و خوار و پریشاں و دردمند 
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند

عقاب جواب دیتا ہے۔

تورزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاک ِ راہ میں
میں نہ سہپر کو نہیں لاتا نگاہ میں


قوت اور توانائی:۔

اقبال کو شاہین اسی لئے پسند ہے کہ وہ طاقتور ہے قوت اور توانائی کے تمام مظاہر اقبال کو بہت مرغو ب ہیں ۔ اقبال کو طائوس ، قمری اور بلبل اسی لئے پسند نہیں کہ محض جمال ِ بے قوت کی علامت ہے اس طرح تیتر اور کبوتر جیسے پرندے محض اپنی کمزوری کی وجہ سے شکار ہو جاتے ہیں ۔اس بات کو اقبال نے اپنی ایک نظم میں بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ،
ابو لعلاءمعری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کبھی گوشت نہیں کھاتا تھا۔ ایک دوست نے ترغیب دینے کے لئے ایک بھُنا ہوا تیتر اسے بھیجا، بجائے اس کے کہ معری اس لذیز خوان کو دیکھ کر تیتر کی تعریف کرتا، اس نے اپنا فلسفہ چھانٹنا شروع کر دیا۔ تیتر سے مخاطب کرکے کہا کہ تجھے معلوم ہے کہ تو گرفتار ہو کر اس حالت کو کیوں پہنچا اور وہ کون سا گناہ ہے جس کی سزا تجھے موت کی شکل میں ملی ہے؟ سن! 

افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو 
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے 
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
 

آزادی:۔

اقبال کو حریت اور آزادی کی قدر بہت پسند ہے یہ قدر بھی شاہین کی ذات میں انہیں نظر آتی ہے ۔ اقبال کا شاہین میر و سلطاں کا پالا ہوا باز ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے آزادی ضروری ہے۔ اقبال جب ہندوستان کے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں کہ،
وہ فریب خورہ شاہیں کہ پلا ہو گرگسوں میں 
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسمِ شاہبازی


تجسّس:۔

اقبال کے نزدیک آزادی کے عالم میں ہی شاہین کے لئے تجسس ممکن ہے ورنہ غلامانہ ذہنیت تو اس بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے وہ پر تجسس نگاہ کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی چیتے کے جگر کو ان کے خیال میں یورپی علوم ہمارے لئے اتنے ضروری نہیں جتنا تجسس کا ذوق ضروری کیونکہ اسکے بغیر ہم تخلیقی صلاحیتوں سے محروم رہیں گے۔

چیتے کا جگر چاہئیے شاہیں کا تجسس 
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش افرنگ

یہ تجسس حصول علم کے لئے بھی ضروری ہے اور حصول ِ قوت کے لئے بھی مرد مومن کو شاہین کی طرح دوربین اور پر تجسّس ہونا چاہیے کہ اسی ذریعہ سے حیات کائنات کے اسرار تک رسائی ہوتی ہے۔اقبال ملک کے نوجوانوںکو شاہیں بچے قرار دیتے ہیں جو اگرچہ شاہین کی صفات رکھتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان کو مناسب تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی ۔ وہ اربابِ تعلیم کے خلاف خدا سے شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

شکایت ہے مجھے یا رب خداونداں مکتب سے 
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا



Allama Iqbal ka tasawur e shaheen
Iqbal k shaheen
Shikayat hai muje ya rab un khuda wandane maktab se