ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 اپریل، 2011

پاکستان نور ہے‘ نور کو زوال نہیں"...مکالمہ

محترم عطاءالحق قاسمی نے بزم اقبال ؒ ( ایم ۔اے ۔او۔ کالج ) اور ایوانِ وقت (روزنامہ ”نوائے وقت “) کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ۔ مذاکرے کا موضوع ”پاکستان“ تھا۔ اس مذاکرے میں علم و ادب کے حوالے سے ملک کی نامورشخصیات نے شرکت کی۔ کہنے کو تو یہ ایک مذاکرہ تھا ‘ لیکن درحقیقت یہ سوال و جواب کی ایک نشست تھی ‘ جس میں شریک ِ محفل دانشور حضرات نے آپؒ کے روحانی علم سے اکتساب ِ نور کیا۔

تشکیک کی پُر خار وادیوں سے نکل کر یقین کے نخلستان میں قدم رکھنا بلاشبہ فیض کا پہلا مرحلہ ہے۔
شرکائے مذاکرہ : جسٹس انوارالحق ۔ پروفیسر اشفاق علی خان ۔ اشفاق احمد ۔
منیر نیازی ۔ خاطر غزنوی ۔ ڈاکٹر سلیم اختر ۔ عبدالمجید ۔ اختر امان۔ اظہرجاوید ۔ خواجہ افتخار ۔ امجد طفیل
میزبان : عطاءالحق قاسمی

عطاءالحق قاسمی : خواتین و حضرات © ©! میں مجلس اقبالؒ ایم ا ے او کالج لاہوراور ایوان وقت کی طرف سے آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔میں نے جناب واصف علی واصف صاحب کو یہاں بلایا ہے۔ واصف صاحب ہمارے ملک کے ممتاز دانشوروں میں سے ہیں۔ ہماری دیرینہ خواہش تھی کہ ان سے گفتگو کی جائے ‘ گفتگو کا حوالہ پاکستان ہے۔ چنانچہ واصف صاحب سے باتیں کریں گے اور یہ باتیں وہ نہیں ہوں گی جو اخباری حوالوں سے ہم تک پہنچتی ہیں بلکہ گفتگو کا طور روحانی سفر ہو گا۔ یعنی یہ کہاں سے شروع ہوا اور آج کس صورت میں نظر آ رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت اشفاق صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں‘ آپ واصف علی واصف صاحب سے مکالمہ کریں گے اور بعد ازاں جو سوالات ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوں گے وہ واصف صاحب سے پوچھیں گے۔ میں جناب اشفاق صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی گفتگو کا آغاز فرمائیں۔

اشفاق احمد : واصف صاحب !یہ کوئی روائتی مجلس نہیں بلکہ مجالس کی عام ڈگر سے ہٹ کر ہے ۔ اس محفل میں‘ میں اور میرے ساتھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری ذات سے لے کر یہ سفر جو بہت پیچھے سے ہمارے بزرگوں کا سفر ہے‘ یہ سفر اسی اعتبار سے ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن یہ سفر بیرونی طور پر ہی نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے اندر ہی ایک سفر ہوتا ہے۔ چنانچہ سیاست اور معیشت کے پاکستان کے وجود میں آنے کا‘ پاکستان کے بننے کا اور پاکستانیوں کا جو روحانی سفر تھا۔ وہ سفر کیا بتدریج رواں ہے یا رک گیا ہے اور لوگ سستانے لگے ہیں۔ ہمارے درمیان جو اس وقت عوام موجود ہے جس میں ہم سب لوگ شامل ہیں‘ جو بڑے یقین کے ساتھ اور حتمی طور پر اس بات کو مانتے بھی ہیں اور اعلان بھی کرتے ہیں کہ پاکستان بنا اس لئے تھا کہ ہم اپنی زندگی بہتر کرنا چاہتے تھے‘ ہم اپنی زندگیوں کو آزادی عطا کرنا چاہتے تھے اور ہم نہایت دلجمعی کے ساتھ اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کے حوالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب ہم اس سے ہٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں۔ مثلاً ہم جو جالندھر‘ ہوشیار پور سے آئے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بیاس کے مقام پر ایک چھکڑا جا رہا ہے‘ اس کو ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ہانک رہا ہے۔ اس چھکڑے میں ایک اس کا باپ ہے‘ بیوی ہے‘ اس کی دو بچیاں ہیں‘ ایک بیٹا ہے‘ وہ جا رہا ہے۔ اچانک اس پر حملہ ہوتا ہے
درود شریف پڑھتا ہوا چھکڑے کو لے کر پھر چل پڑتا ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر تو اسے اپنا سفر روک لینا چاہئے تھا۔ پھر تھوڑا آگے جا کر اس کی بیٹی اٹھا لی جاتی ہے۔ وہ پھر بھی درود شریف پڑھتا ہے۔ اللہ ‘رسولﷺ کو یاد کرتا ہوا آگے چل پڑتا ہے۔ یعنی کیا اس کو اس بات کی خواہش اور طلب تھی کہ آگے چل کر مالی طور پر مجھے ایک سنہرا مستقبل نصیب ہو گا یا یہ کہ اتنے خوفناک سفر سے گزرنے کے بعد اصولاً اس کو یہ مان لینا چاہیئے تھا کہ اب میں منہ سے وہ الفاظ نہ کہوں جو میں کہتا ہوں یا مجھے رک جانا چاہیئے تھا۔ لیکن وہ بدستور اپنا چھکڑا ہانکتا ہوا سرحد تک پہنچ جاتا ہے۔
اب جب ہم بہت سمجھدار اور سوچنے والے ہو گئے ہیں‘ اب ہم کو اپنے آپ میں وہ خصوصیت نظر نہیں آتی۔ چنانچہ میں بالخصوص اور میرے ساتھی بالعموم یہ جاننا چاہیں گے کہ موجودہ صورتحال میں جب کہ ہم سیاسی طور پر تو سمجھ گئے ہیں کہ یہ ووٹ ہوتا ہے‘ یہ بیلٹ بکس ہے‘ یہ جمہوریت ہے اور ایسے اسمبلی بنتی ہے۔ یہ سب کچھ تو ہم جان گئے ہیں اور اس کی تو اب ضرورت نہیں جاننے کی۔ بات یہ ہے کہ کیا ہمارے بچ نکلنے کے لیے کوئی ایسا سوئچ ہے جس سے ہم میں پھر وہی ایمان اور یقین کی کیفیت پیدا ہو گی۔ اور ہم پھر پہلے کی طرح اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔ مایوسی کی فضا دور ہو گی اور غیر یقینی حالات بہتر ہوں گے، کیونکہ کچھ لوگ تو پاکستان کے قائم رہنے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ سوال لمبا ہو گیا ہے مگر اب یہ معلوم نہیں کہ میں اپنا مقصد سمجھا سکا ہوں کہ نہیں؟
:واصف علی واصف ؒصاحب
  حاضرین محفل کی خدمت میں سلام پہنچے۔ سوال بڑا واضح ہے اور اس کا جواب بھی بڑا واضح ہے۔ غیر یقینی حالات پر تقریریں کرنے والے کتنے یقین سے اپنے مکان بنا رہے ہیں۔ دراصل جس انسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں وہ کسی مستقبل پر کبھی اعتماد نہیں کر سکتا۔ مستقبل حال سے ہے‘ اپنے حال پر راضی رہنا چاہئے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں۔ اگر کشتی میں ایک انسان بھی خوش نصیب ہو تو اس کے کنارے لگنے کا شک نہ ہونا چاہئے۔ خوش نصیب وہ انسان ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہو۔ آج کا انسان ایک نا معلوم اندیشے سے دو چار ہے۔ اندیشہ ذاتی‘ ملکی اور بین الاقوامی حالات کی وجہ سے ہے۔ ذاتی اندیشہ اس لئے ہے کہ ہماری زندگی کثیرالمقاصد ہو کر رہ گئی ہے۔ خواہشات کی کثرت نے زندگی میں بے مقصدیت پیدا کر دی ہے۔ہم کئی زندگیاں گزار رہے ہیں اور اس طرح ہمیں کئی اموات سے دوچار ہونے کاڈر محسوس ہو رہا ہے۔ ملکی سطح پر ہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اندیشے میں مبتلا ہیں۔ وحدتِ افکار نہ ہونے کی وجہ سے وحدتِ کردار نہیں۔اسی لئے ملت میں وحدت کا شعور نہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جن پر اسلام نافذ نہیں ہو سکا ۔ اور یہ کیسا اسلام ہے جو مسلمانوں پر نافذ نہیں ہو سکا۔ اندیشوں سے بچنے کا طریقہ بھی آسان ہے۔ اندیشے کی ضد امید ہے۔ امید اس خوشی کا نام ہے جس کے سہارے غم کے ایام بھی کٹ جاتے ہیں۔فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے۔ غور کرنا چاہئے کہ موت سے زیادہ خوف ناک موت کا ڈر ہے اورموت کا ڈر بے معنی ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ خطرات کے باوجود زندگی وقت سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی اور احتیاط کے باوجود زندگی وقت کے بعد قائم نہیں رہ سکتی۔میں یہ گذارش کر رہا ہوں کہ بہتر وقت آنے والا ہے۔ جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ زندگی‘ موت کی حفاظت و پناہ میں ہے۔ ہم اجتماعی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ لیکن ہم فرداً فرداً جوابدہ ہیں۔ لالچ نکل جائے تو خوف نکل جاتا ہے۔ جو اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا ہے وہ خوف سے آزاد ہے۔ خوف کوتاہیوں کا نام ہے۔ ہم اپنے اعمال کی عبرت کے خوف میں مبتلا ہیں۔ گناہوں نے دعائیں چھین لی ہیں۔ ہم آج بھی ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔ اگر ہمارا فرض اور شوق یکجا ہو جائے تو زندگی خوف سے آزاد ہو سکتی ہے۔
اصل میں مادی اشیاء کی محبت نے ہم سے ذوق سفر چھین لیا ہے۔ ذوق سفر نہ ہو تو رہنماﺅں کا شکوہ کیا؟ ہم بے سکون ہو چکے ہیںکیونکہ ہم دوسروں کا سکون برباد کر کے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دل سے کدورت نہ نکلے تو سکون کیسے حاصل ہو؟ زندگی میں غم اور خوشی تو آتے ہی رہتے ہیں۔ بیدار کر دینے والا غم غافل کر دینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔ حقیقت ثابت نہیں کی جا سکتی۔ سورج کی روشنی کا ثبوت دیکھنے والے کی آنکھ مہیا کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ملک قائم رہے گا۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ محروم و مظلوم کی داد رسی ہو گی۔ حق والا حق پائے گا۔ ہم سب ایک وحدت ہیں۔ اصل میں جس کو اپنی فلاح کا یقین ہو وہ تبلیغ کر سکتا ہے تا کہ دوسرے اس نعمت میں شریک ہوں۔ مبلغ کی صداقت کا ثبوت یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کو صرف اپنے علم میں شریک نہ کرے بلکہ اپنی آسائشوں میں بھی شریک کرے۔ ہم طاقت اور دولت سے خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عقیدے میں ہم فرعون کو ملعون کہہ چکے ہیں۔
طاقت خوف پیدا کرتی ہے‘ خوف نفرت پیدا کرتاہے‘  نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور باغی ذہن ملک کے ٹوٹنے کی بد دعا کرتے ہیں۔ طاقت محبت میں بدل جائے تو ملک سلامت ہی سلامت ہے۔ نیکی لاٹھی نہیں جس سے بدی کو ہانکا جا سکے۔ نیکی میزبان ہے جو بدی کی ضیافت کر کے اسے راہ راست پر لاتی ہے۔ نیکی کا مزاج مشفق والدین کا سا ہے اور بدی باغی اور سرکش اولاد کی طرح ہے۔ بدی محبت سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم غور کریں‘ دعا کریں۔ اپنے اعمال کی ‘ اپنے افکار کی ‘ اپنے الفاظ کی اصلاح کریں ۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ لوگ یہ کہیں کہ ہمیں اس کا پہلے ہی اندیشہ تھا۔خدا ہمیں ہمارے اندیشوں سے بچائے۔ اگر اللہ رحمت کے جوش میں مخلوق کو بخش دے اور گناہوں کو معاف کر دے تو کیا ہو گا موت کا منظر مرنے کے بعد؟ کیا اللہ معاف کرنے پر قادر نہیں ؟آج ہر انسان گلہ کر رہا ہے‘ کچھ لوگ مخلوق کا گلہ کر رہے ہیں‘ خالق کا گلہ کر رہے ہیں‘ مخلوق کے سامنے اللہ کا شکر ادا کرنے والے کہا ں گئے؟ یقین دلانے والے کیا ہوئے؟ کیا ہمیشہ کے لئے بند ہونے سے پہلے ہماری آنکھ نہیں کھل سکتی؟ کیا ہم دوبارہ یقین کی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے ‘ یقیناً کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حالات بہتر ہوں گے
جلد ہی ۔
کیا اقبالؒ کے خواب کے بعد کسی مرد مومن کو کوئی تازہ ملت ساز خواب نہیں دکھائی دے سکتا؟
کیا حالات بدل نہیں سکتے؟ کیا زندگی منفعت سے نکل نہیں سکتی؟ کیا ہم پر اس کی رحمت کے دروازے نہیں کھل سکتے؟ کیا ہم رحمتہ اللعالمینﷺ سے مایوس ہو گئے ہیں؟ خدا ہمیں وہ نظر پھر سے عطا کرے گا۔ وہ دل پھر سے ملے گا۔ مسلمانوں کو آسانیاں دو‘ انہیں زیادہ علم کی ضرورت نہیں‘یقین کی ضرورت ہے۔ معاف کرنے والے کے سامنے گناہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ عطا کے سامنے خطا کا کیا ذکر۔ زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو یقیناً سکون مل جاتا ہے۔ جھوٹا آدمی کلام اِلٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہو گا۔ صداقت کے بیان کے لئے صادق کی زبان چاہئے‘ بلکہ صادق کی بات کو ہی صداقت کہتے ہیں۔
کامیابی اہم نہیں‘ مقصد اہم ہے۔ برے مقصد میں کامیابی سے اچھے مقصد میں ناکامی بہتر ہے۔
پاکستان کے ٹوٹنے کا اندیشہ اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ صرف نو کروڑ پاکستانیوں ہی کا نہیں‘ بلکہ یہ مسلمانان عالم کا مستقبل ہے۔ اِس کی بنیادوں میں شہداءکا خون ہے۔ اب اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اسلام کی حفاظت اسلام خود فرمائے گا۔ اللہ حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ اس کے محافظ ہیں۔ ہمارے اندیشے محض ذاتی ہیں یا سیاسی ہیں‘ ان میں نہ کوئی جواز ہے نہ بنیاد۔
اللہ کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے۔زندگی اور عقیدے کا فرق ختم ہونا چاہئے۔ جس خطرے کا وقت سے پہلے احساس ہو جائے تو وہ ضرور ٹل سکتا ہے۔ دعا اسی لئے ہوتی ہے کہ آنے والی بلاﺅں کو ٹالا جا ئے۔نیک انسان کی دعا بھی سب کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔خطرہ باہر نہیں ہوتا خطرہ اندر ہوتا ہے۔ سانس اندر سے اکھڑتی ہے۔ آج کے مسلمان کو موت کے خطرے سے زیادہ غریبی کا خطرہ ہے۔ پہلے غریب کی معاشی حالت کی اصلاح کی جائے پھر اس کے ایمان کی۔  بیمار سے کلمہ نہ سنا جائے اس کے لئے دوا کا انتظام کیا جائے۔

اگر ہم شہداءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں ، صوفیاء‘ علمائ‘ فقراءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم اقبالؒ کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں‘ اگر ہم اللہ ‘ اللہ کے حبیبﷺ پر ‘ اسلام پر یقین رکھتے ہیں تو پاکستان کی سلامتی کا بھی یقین ہونا چاہئے۔ ایک انسان‘ صرف ایک انسان جو قائداعظمؒ کی طرح سب میں مقبول ہو ‘ قوم کے نصیب کو بدل سکتا ہے اور کسی ایک رہنما کے آنے کا عمل اتنا ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہو گا۔ ایسا ہونے والا ہے۔ ملک محفوظ رہے گا۔
آج انسانوں کے وسیع سمندر میں ہر انسان ایک جزیرے کی طرح تنہا ہے۔ تنہائی کا خوف سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ تنہائی روح تک آ پہنچی ہے ‘ اللہ کا سہارا ہی بچا سکتا ہے۔ جو لوگ سیاسی اور سماجی ضرورت کے لئے اللہ کا نام لیتے ہیں ‘ ان کے لئے مایوسی اور کرب ِمسلسل کا عذاب ہے۔ایک معمولی سا واقعہ ہی غیر معمولی نتائج برآمد کر جائے گا۔ بعض اوقات دور سے آنے والی آواز اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔ ایک چہرہ زندگی میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔ پاس سے گزرنے والا خاموش انسان کئی تبدیلیاں پیدا کر جاتا ہے۔ ایک نگاہ زندگی کا حاصل بن کے رہ جاتی ہے۔ مکڑی کا کمزور جالا ایک قوی دلیل کا کام دے جاتا ہے۔ انسان کے مزاج کو بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ ایک خوش مذاق انسان تمام محفل کو اداسی سے نکال سکتا ہے۔ ایک سوچ پورے فکر کے انداز کوبدل کر رکھ دیتی ہے۔
پاکستان کے ٹوٹنے کا اندیشہ اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ صرف نو کروڑ پاکستانیوں ہی کا نہیں بلکہ یہ مسلمانان عالم کا مستقبل ہے۔ اس کی بنیادوں میں شہداءکا خون ہے۔ اب اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اسلام کی حفاظت اسلام خود فرمائے گا۔ اللہ حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ اس کے محافظ ہیں۔ ہمارے اندیشے محض ذاتی ہیں یا سیاسی ہیں‘ ان میں نہ کوئی جواز ہے نہ بنیاد۔ موجودہ حکومت سے کسی قسم کے اختلاف کا نتیجہ یہ تو نہیں کہ ملک ہی نہ رہے۔ اگر ہم شہداءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں ، صوفیاء‘ علمائ‘ فقراءکے نصیب پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم اقبالؒ کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں‘ اگر ہم اللہ ‘ اللہ کے حبیبﷺ پر ‘ اسلام پر یقین رکھتے ہیں تو پاکستان کی سلامتی کا بھی یقین ہونا چاہئے۔ ایک انسان ‘صرف ایک انسان جو قائداعظمؒ کی طرح سب میں مقبول ہو ‘ قوم کے نصیب کو بدل سکتا ہے اور کسی ایک رہنما کے آنے کا عمل اتنا ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہو گا۔ ایسا ہونے والا ہے۔ ملک محفوظ رہے گا۔ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ اپنے عقیدے پر یقین رکھیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔
ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ملک کو خطرے سے دوچار کرنے والے خود خطرے میں گھرے ہوئے ہیں…. ہمارے ایمان میں اور ہمارے کردار میں دراڑیں ہیں۔ ملک میں کوئی دراڑ نہیں۔ پاکستان میں ایک عظیم روحانی دور آنے والا ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اندیشہ نہیں کرنا چاہئے۔ اندیشہ ‘عروج کا دشمن ہے۔
تعجب ہے دس کروڑ غلام مسلمانوں نے ایک عظیم ملک تخلیق کر لیا۔ آج دس کروڑ آزاد مسلمان اس ملک کی بقا کے بارے میں خدشات کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے ایمان میں اور ہمارے کردار میں دراڑیں ہیں۔ ملک میں کوئی دراڑ نہیں۔ پاکستان میں ایک عظیم روحانی دور آنے والا ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اندیشہ نہیں کرنا چاہئے۔ اندیشہ عروج کا دشمن ہے۔

اختر امان
: واصف صاحب! پاکستان ہم نے مسلمانوں کی روحانی‘ ثقافتی‘ سیاسی اور معاشی نگہداشت کے لئے قائم کیا۔ یہاں سے جتنے مسلمان لندن‘ کینیڈا اور مشرق وسطیٰ جا کر رہ رہے ہیں ان کا کلچر‘ ان کا مذہب‘ ان کی معیشت یہاں سے زیادہ محفوظ ہے…. تو نئے دور کے جو تقاضے ہیں ان میں جو اٹھنے والے سوالات ہیں ان کا بھی کوئی جواب ہے آپ کے پاس؟

واصف علی واصفؒ صاحب : اس سوال کا جواب تو ہم پہلے بھی دے آئے ہیں۔
یہی سوال ہندوستان میں رہ جانے والوں کا تھا۔ اگر دین کے لئے ملک بنا تو دین تو ہر جگہ ہے۔ جہاں مصلّٰی بچھایا‘ دین شروع ہو گیا۔ مسجدوںکو غیر آباد کر کے جانے والو‘ تم کون سااسلام لے چلے ہو۔ جو لوگ پاکستان کے نظریے سے اختلا ف رکھتے تھے کہ سیاست ‘ معیشت‘ کلچر وغیرہ محفوظ کرنے کے لئے ملک بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے سب کو جواب دیا‘ عملی جواب کہ ثقافت اور کلچر کو محفوظ کرنے کے لئے ملک کا ہونا ضروری ہے۔ اسلامی ریاست کا قیام ہی منشائے اسلام ہے۔ پاکستان سے باہر رہنے والے مسلمان آباد ہیں۔ پاکستان کے دم سے ہی سب آبادیاں ہیں۔ نئے تقاضے ہمارے پرانے دین کو کبھی بدل سکے ہیں نہ بدل سکیں گے۔ سب نئے سوالات کا جواب ایک مضبوط پاکستان ہے۔ سب کا پاکستان…. برابر کا پاکستان۔
ثقافت اور کلچر کو محفوظ کرنے کے لئے ملک کا ہونا ضروری ہے۔ اسلامی ریاست کا قیام ہی منشائے اسلام ہے۔ پاکستان سے باہر رہنے والے مسلمان آباد ہیں۔ پاکستان کے دم سے ہی سب آبادیاں ہیں۔ نئے تقاضے ہمارے پرانے دین کو کبھی بدل سکے ہیں نہ بدل سکیں گے۔ سب نئے سوالات کا جواب ایک مضبوط پاکستان ہے۔ سب کا پاکستان …. برابر کا پاکستان۔
ڈاکٹر سلیم اختر : مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے سے پہلے بھی یہی کہا جاتا تھا کہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہو گی، لیکن ایسا ہو گیا اور اب وہی کہا جا رہا ہے کہ باتیں لغو ہیں‘ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، لیکن ضمانت کوئی نہیں ہے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) انوارالحق : واصف صاحبؒ سے پہلے اس سلسلے میں کچھ کہوں گا۔ ابھی جو واصف صاحب ؒنے فرمایا ہے
تو اس سے یہ تاثر پیدا نہیں ہوتا کہ اگر پاکستان ٹوٹے گا تو پھر ہم کیا کریں گے۔ اب تو ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اگر واقعی ایسا خدشہ ہے تو اس پر غور کریں کہ اس خدشے کو کیسے دور کیا جائے۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر کیا ہو گا؟ اس لئے اس قسم کا سوال ابہام پیدا کرتا ہے۔ یہ بات غلط ہے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم کیا کریں گے
بھئی پھر ہم مر جائیں گے اور کیا کریں گے“۔

اختر امان : یہ سوال آج سے چالیس سال پہلے بھی ایک قوم کے ذہن میں تھا۔ ہندو سوچا کرتے تھے کہ اگر بھارت ٹوٹ گیا تو پھر کیا ہو گا اور بھارت ٹوٹ گیا۔ پاکستان بنا‘ پھر پاکستان ٹوٹا ‘ بنگلہ دیش بنا، تو جس طرح برصغیر کا ٹوٹنا ہندو کی نفسیات کا حصہ بن گیا اسی طرح پاکستان کا ٹوٹنا ہماری نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

واصف علی واصفؒ صاحب
: آپ کا اندیشہ خلوص پر مبنی ہے لیکن حقیقت پر نہیں ۔ اندیشہ پیدا کرنے والے عوامل کا قبل از وقت خیال کیا جائے تو انسان اندیشے سے نکل سکتا ہے۔
ہم توڑنے والی قوت کی بجائے بنانے والی قوت پر کیوں یقین نہیں رکھتے ….اللہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچائے اور ہمارا سب سے بڑا دشمن اندیشہ ہے جو ہمارے ایمان کو گھن کی طرح کھا رہا ہے…. ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں تو ایمان‘ زندگی اور پاکستان سلامت رہیں گے۔ اگر انتظار ہی کرنا ہے تو کیوں نہ اچھے وقت کا انتظار کیا جائے۔
کوئی جواب انسان کو اس وقت تک مطمئن نہیں کر سکتا جب تک جواب دینے والے پر یقین نہ ہو۔ چونکہ ہم مستقبل کے بارے میں بات کر رہے ہیںاس لئے بہتر ہو گا کہ آنے والی کسی ناگہانی آفت کو دعا سے دور کر لیا جائے۔پہلے پاکستان ٹوٹا۔ لیکن اس سے پہلے پاکستان بنا بھی۔ تو ہم توڑنے والی قوت کی بجائے بنانے والی قوت پر کیوں یقین نہیں رکھتے۔ ایک معمولی سی چڑیا اپنے گھونسلے کی حفاظت میں شاہینوں سے لڑ جاتی ہے۔ شیر دھاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کے بچے پھرتے رہتے ہیں۔ آپ پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے بننے کا ذکر کر رہے ہیں۔ آپ اس واقعہ یا سانحہ کا ہندوستان کے نقطہ ¿ نظر سے جائزہ لیںتو آج ہندوستان کے لئے پاکستان کا ٹوٹنا ایک زیادہ خطرے کا باعث بن چکا ہے۔ آج ہندوستان چار پاکستانوں سے دوچار ہے۔ ہمارا پاکستان ‘ بنگلہ دیش‘ ہندوستان کے اپنے ۹کروڑ مسلمان اور خطرے کے لحاظ سے خالصتان کی تحریک۔ اللہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچائے اور ہمارا سب سے بڑا دشمن اندیشہ ہے جو ہمارے ایمان کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ میں نے پہلے عرض کیا کہ خطرات زندگی کی میعاد کو کم نہیں کر سکتے اوراحتیاط اسے ایک لمحہ زیادہ نہیں کر سکتی۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں تو ایمان‘ زندگی اور پاکستان سلامت رہیں گے۔ اگر انتظار ہی کرنا ہے تو کیوں نہ اچھے وقت کا انتظار کیا جائے۔
اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہو تو یقین میسر آتا ہے….یقین ایمان کا نام ہے۔ اجتماعی عمل ختم ہو جائے تو قوم پریشانیوںمیں مبتلا ہو جاتی ہے …. یقین یا سکون کے لئے رجوع الی اللہ کیا جائے۔ پاکستان کے مستقبل پر یقین کیا جائے ‘ اپنی ذات پر اعتماد کیا جائے‘ دوسروں کے نقطہ ¿ِ نظر کو تحمل سے سنا جائے۔ ہر انسان پاکستان سے مخلص ہے۔ کسی کے خلوص پر شک نہ کیا جائے۔
پروفیسر اشفاق علی خان
: ان کا سوال میں دہراتا ہوں، اور یہ بات بڑے عاجزانہ طریقے سے پیش کی جا سکتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میری کتاب فروری ۱۴۹۱ءمیں چھپ گئی تھی اس پر ۷۲ نقشے تھے۔ جب میں نے ۷۳۹۱ءمیں ایم اے پاس کیا تو مجھے یہ یقین تھا کہ پاکستان ضرور بنے گا۔ اب میں کسی کو کہہ بھی نہیں سکتا کہ مجھے یہ یقین ہے۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ میں نے وہ کتاب لکھنی شروع کر دی جو ۱۴۹۱ءمیں شائع ہوئی۔ واصف صاحب! حال میں کچھ اندیشے ہیں۔ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے جہاں تک نظر دوڑاتا ہوں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لئے کہیں کوئی مناسب جگہ نہیں ملتی۔ میں واصف صاحب سے چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کچھ بتائیں تا کہ میرا یقین مضبوط ہو اور جو لاجیکل پروسیس ہے ‘وہ میرے دل کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
 
واصف علی واصفؒ صاحب : آپ بہتر علم رکھتے ہیں…. آپ کو علم ہے کہ عقیدہ حالات کے فوری تجربے یا فوری تجزیے یا فوری نتیجے پر زور نہیں دیتا۔ عقیدہ حالات کے لئے ایک عاقبت رکھتا ہے۔ فلسفہ یا لاجک سے یقین کی پرورش نہیں ہو سکتی۔ لاجک خرد کی گتھیاں سلجھاتی ہے لیکن جنون یقین کی منزل دکھاتا ہے ۔ قائداعظم ؒ انگریزی میں تقریر کرتے تھے تو دیہات کا ایک گنوار مسلمان اپنے اندر تقویت محسوس کرتا تھا۔ اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہو تو یقین میسر آتا ہے۔ اللہ لاجک سے سمجھ نہیں آتا ہے۔ یہ یقین ایک نگاہ سے بھی حاصل ہو سکتا ہے اور زندگی‘ کاوشوں سے بھی نہیں ملتی۔ یقین غور سے حاصل نہیں ہوتا یقین ایمان کا نام ہے۔ اجتماعی عمل ختم ہو جائے تو قوم پریشانیوںمیں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اس لئے میں یہ گذارش کروں گا کہ یقین یا سکون کے لئے رجوع الی اللہ کیا جائے۔ پاکستان کے مستقبل پر یقین کیا جائے‘ اپنی ذات پر اعتماد کیا جائے‘ دوسروں کے نقطہءنظر کو تحمل سے سنا جائے۔ ہر انسان پاکستان سے مخلص ہے۔ کسی کے خلوص پر شک نہ کیا جائے۔ اسلام مسلمانوں کے طرز حیات کا نام ہے۔
خواجہ افتخار : مشرقی پاکستان کا جو زخم لگا اس کی کسک توآج بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن بد نصیبی سے آج بھی ہمارے ملک کے مختلف صوبوں میں جو آگ لگی ہوئی ہے آپ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں‘ اس کے متعلق بتائیں کہ حل کیا ہے؟ جیسا جسٹس انوارالحق صاحب نے فرمایا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان خاکم بدہن نہیں رہے گا۔ سوال یہ ہے جس کے دو پہلو ہیں کہ ہندوستان کی حکومت کو ہم سے زیادہ مسائل ہیں ‘ وہاں کی معاشی حالت ہم سے زیادہ خراب ہے۔ وہاں کے فٹ پاتھ پر ہزاروںلوگ رات بسر کرتے ہیں۔ انسان حیوانوں کی طرح رکشا کھینچتے ہیں۔ ہمارے پاس اللہ کے فضل سے معاشی خوشحالی بھی ہے اور اقتصادی بھی‘ تو کیا وجہ ہے یہاں منفی باتیں کی جاتی ہیں۔ جب کہ بھارت میں کوئی ایسا نہیں کہتا کہ ہندوستان ٹوٹ رہا ہے یا ٹوٹ جائے گا۔ ہم ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے اور اس کا عمل کیا ہے؟
واصف علی واصفؒ صاحب : کیا ہندوستان میں کوئی نہیں کہتا کہ ہندوستان ٹوٹ رہا ہے۔ اس بات پر غور کر لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ وہاں کے لوگ بھی اعتماد سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہم تو اندیشوں کی بات کر رہے ہیں۔ در اصل ہماری عافیت کے ذمہ دار شعبوں پر ہمارا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر کی ذات پر اعتماد نہ ہو تو اس کی ذہانت بھی بے کار ہے اور دوائی بھی کار آمد نہ ہو گی۔ بیماری کا اصل علاج اعتماد ہے ‘معالج پر اعتماد‘ اپنے مستقبل پر اعتماد۔ یہ اعتماد تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ کہنے والے نے کہا کہ اللہ ہے ‘اور ہم نے مان لیا کہ اللہ ہے۔ ہم نے صادق ﷺ کی زبان پر اعتماد کیا ہے اس لئے اللہ پر یقین تقرب کا ایک درجہ ہے۔
غریب کے ایمان کی اصلاح کی ضرورت نہیں ‘اس کی غربت دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ بیمار آدمی کو کلمہ سنانے کے لئے نہ کہیں‘ اس کے لئے دوا کا انتظام کریں…. اسلام اور پاکستان کو کبھی خطرہ نہیں ہو گا۔
اظہر جاوید : یہ جو فقیر کشف و کمالات دکھاتے ہیں یہ فقیری کے لئے کوئی ضروری چیز نہیں لیکن کسی وقت اس کی ضرورت بھی آ پڑتی ہے۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ جو خوشنما منظر آپ کی آنکھوں نے دیکھا ہے وہ منظر ہماری آنکھیں بھی دیکھنا چاہتی ہیں۔ بس ہمیں وہ منظر دیکھنا ہے۔
 
واصف علی واصفؒ صاحب : اس کا اشارہ تو پہلے بھی دیا جا چکا ہے۔ یقین و اعتماد پر بہت کچھ بڑے بڑے انسانوں نے بھی لکھا ہے ۔
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
یقین حاصل کرنے کا کوئی فارمولا نہیں دیا جا سکتا ۔
علاج ضعف یقین ان سے ہو نہیں سکتا غریب گرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
یقین تحقیق سے نہیں‘ تسلیم سے ملتا ہے۔ اس کے لئے کوئی اور نسخہ تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ وسوسوں‘ اندیشوں اور شکوک و شبہات کے زمانے میں دولت ِیقین کا میسر آنا ہی بڑی کرامت ہے۔ آپ ایک آنے والے اچھے دور پر اگر یقین کر لیں تو آپ کا کیا بگڑتا ہے۔
یقین تحقیق سے نہیں‘ تسلیم سے ملتا ہے۔ اس کے لئے کوئی اور نسخہ تجویز نہیں کیا جا سکتا…. وسوسوں‘ اندیشوں اور شکوک و شبہات کے زمانے میں دولتِ یقین کا میسر آنا ہی بڑی کرامت ہے۔ آپ ایک آنے والے اچھے دور پر اگر یقین کر لیں تو آپ کا کیا بگڑتا ہے۔

خاطر غزنوی : ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے گفتگو شروع کی تو باطنی حوالے سے کی۔ اس دوران باہر سڑک کا شور کمرے میں آیا تو آپ نے دروازے بند کرنے کو کہا۔ گویا آپ بھی جانتے ہیں کہ خارج کا اثر باطن پر ہوتا ہے۔

 
واصف علی واصف ؒ صاحب : جہاں آپ نے یہ بات نوٹ کی‘ ایک قدم اور آگے بڑھتے تو یہ بھی نوٹ کر لیتے کہ خارجی اثر مقرر پر نہیں ہوتاتو سامعین پر تو ضرور ہوتا ہے ۔ آپ توجہ فرماتے تو دروازہ بند کئے بغیر بھی مسئلہ حل ہو جاتا۔
منیر نیازی : واصف صاحب کے سامنے میرے تو ذہن میں کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو رہا ہے۔ یہ عجیب بات ہے۔ حِس ّ کے چھٹے مقام پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس کو میں محسوس کر رہا ہوں۔ یہ جو جرنلسٹ اور ایڈیٹوریل قسم کے کلیے ہیں میرے اندر سے نکل ہی نہیں پا رہے۔ بے شمار سوالات ہیں ،ساری دنیا ہی سوالوں میں پھنسی ہوئی ہے لیکن جو انہوں نے اصل بات کی ہے کہ اندر ایک اطمینان موجود ہے ،وہی اصل چیز ہے۔ وسوسے تو انسان بہت پیدا کرتا ہے ‘لیکن ان کو دور بھی ایک انسان ہی کرتا ہے۔ پوری ملت کو وسوسوں سے نکالنے والا بھی ایک ہی آدمی ہوتا ہے
جسٹس (ریٹائرڈ) انوارالحق : اشفاق صاحب آپ بات کو آگے بڑھائیں ۔ واصف صاحب نے تو اپنا نقطہ ¿ نظر بالکل واضح کر دیا ہے ۔ آپ ان کے مقابل بیٹھے ہوئے ہیں اس لئے بات کو آگے بڑھائیں۔
جب تک حضور نبی کریم ﷺ سے محبت نہ ہو‘ عشق نہ ہو‘ یہ یقین مل سکتا ہی نہیں۔ حضور ﷺ ہی کے کرم سے بات بنتی ہے۔ حضور ﷺ ہی کی محبت سے بات بنے گی…. اور ضرور بنے گی۔

اشفاق احمد : میرا تعلق روحانیت سے تو نہیں ہے اور دلچسپی بھی صرف کتابی طور پر ہے ۔ میرا سوال یہ تھا اور اس گفتگو کے بعد بنتا بھی ہے کہ ہمارے دل میں وہ یقین کیوں نہیں ہے جو آپ کے دل میں ہے۔ مثال کے طور پرہم لوگ بغیر دلیل کے ایک شخص کو اپنا باپ مانتے ہیں‘ یہ یقین کی بات ہے حالانکہ اس کے بارے میں کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی لیکن اس سے کمزور یقین کا معاملہ ہے وہاں کچھ نہیں ہو پاتا۔

جسٹس (ریٹائرڈ) انوارالحق : جناب presumption ہے conviction نہیں۔
امجد طفیل:واصف صاحب آپ نے شروع میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی تعمیر کا جو عمل تھا یہ ہمارا روحانی سفر تھا تو اس کی کیا وجہ تھی کہ جو لوگ روحانی سفر طے کر کے یہاں آئے انہوں نے زمین اور مکانات الاٹ کرانے شروع کر دئے اور جلد ہی یہ روحانی سفر ختم ہو گیا۔ اس کی کیا وجہ تھی کہ ہم اس روحانی سفر کو چند سال بھی جاری نہ رکھ سکے؟


واصف علی واصفؒ صاحب
: کالج کے ذہین طالب علم کا سوال ہے اور بڑا ذہین سوال ہے۔ جواب یہ ہے کہ اگر ہم نے کہا تھا کہ یہ روحانی سفر تھا تو ہم نے یہ کب کہا کہ یہ سفر ختم ہو گیا۔ آپ روحانی سفر کو روحانی انداز سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اندازِ نگاہ ہے۔ یہی زندگی ظاہری ہے ‘ یہی باطنی‘ یہی دینی اور یہی لادینی ہے۔ روحانی زندگی بھی مادی تقاضوں سے مبرا نہیں۔یہاں تک کہ پیغمبران علیہم السلام ضروریات اور حاجات کی زندگی گزارتے رہے اور دنیا کو عظیم روحانی اور دینی راستوں سے آشنا کراتے رہے۔ نبی پر ابتلا کا زمانہ بھی آ جائے تو نبوت کے منصب میں فرق نہیں آتا۔ سفر جاری ہے یقین موجود ہے۔ آج ہم اندیشوں کی بات کر رہے ہیں یہ صرف احتیاط کی بات ہے۔یہ مذاکرہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم الحمداللہ مایوس نہیں ہیں۔ آپ طالب علم ہو۔ ہم آپ کا ماضی ہیں۔ آپ ہمارا مستقبل ہو۔ امید کا چراغ بجھنے نہ دینا۔ یہ ملک بڑی نعمت ہے۔ خدا اِسے سلامت رکھے گا۔
 

عبدالمجید خان : واصف صاحب مجھے ذاتی طور پر آپ کے روحانی تجربات کی صداقت پر یقین ہے، لیکن حضرت میں درخواست کروں گا کہ آپ اس قلبی واردات کو دوسروں تک پہنچانے اور سمجھانے کے لئے ہماری رہنمائی فرمائیں۔
 

واصف علی واصفؒ صاحب : کسی قلبی واردات کو دوسرے تک پہنچانے کے
لئے واردات ہی ہونی چاہئے۔اصل قصہ یہ ہے کہ واردات ایک مشاہدہ ہے اورمشاہدہ کا بیان سامع کو صاحب مشاہدہ نہیں کر سکتا ۔ مشاہدہ سامعین کی تسلیم کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن آپ بتائیں کہ یہ یقین کیسے میسر آیا‘ دراصل یقین عطا ہوتا ہے۔ آئیے ہم دعا کریں کہ خدا اس قوم کو پھر سے سرمایہ ¿ یقین عطا فرمائے۔ بات مختصر اور آسان ہے کہ جب تک حضور نبی کریم ﷺ سے محبت نہ ہو‘ عشق نہ ہو‘ یہ یقین مل سکتا ہی نہیں۔ حضور ﷺ ہی کے کرم سے بات بنتی ہے۔ حضور ﷺ ہی کی محبت سے بات بنے گی اور ضرور بنے گی۔ میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ یہ اسلام ہے‘ اس اسلام کی حفاظت کریں‘ پاکستان مضبوط ہو گا۔ غریب کے ایمان کی اصلاح کی ضرورت نہیں ‘اس کی غربت دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بیمار آدمی کو کلمہ سنانے کے لئے نہ کہیں‘ اس کے لئے دوا کا انتظام کریں ‘ اسلام اور پاکستان کو کبھی خطرہ نہیں ہو گا۔

Ghareeb k Eman ki Islah kiz arorat nahe, us ki Ghurbat door karnay ki zarorat hai.
Bemar admi ko kalma sunanay k leay na kahain, us k leay dawa ka intizaam karain
Islam ore pakistan ko kabi khatra nahe ho ga

pakistan noor hai ore noor ko zawal nahi

Guests of talk(mukalma)
question answer with wasis ali wasif

Justice anwar ul haq, prof. Ishfaq ali khan, Ishfaq Ahmed, Munir niazi, Khatir ghaznawi, Dr. Saleem Akhter, Abdul Majeed, Akhtar Aman, Azhar javaid, Khawaja Iftikhar and Amjad tufail


Host: Ata ul haq qasmi

1 comments: