ٹیپو سلطان کا سفر آخرت
وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے
امیر المومنین کی چوکیداری
ایک دلچسپ واقعہ
مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں
زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔
پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟
میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔
داستان ایک متکبر کی
سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف
میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا
عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ
30 نومبر، 2011
مُنافع کا سودا
سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔
دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔
مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔
ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔
ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟
اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔
ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔
ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔
بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟
ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔
ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔
مسند احمد ٣/١٤٦،
تفسیر ابن کثیر جز ٢٧، صفحہ ٢٤٠ پر بھی یہی واقعہ مختصر الفاظ میں موجود ہے
****
دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔۔۔۔ کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ زندگی کی سمت متعین کرنے کیلئے آپ سوچیئے گا ضرور۔۔۔
27 نومبر، 2011
فاتح چوکیدار
شہر میں ہر طرف مہمان تاجروں کا چرچا تھا، جو ان کے لیے ضرورت کا سامان لے کر آئے تھے. لوگ خوش تھے کہ اب وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خریداری کر سکیں گے. رسد خوب ہو تو قیمت بھی اعتدال میں رہتی ہے. تاجر من مانی نہی کر سکتے اور یہ بات تو ہے بھی تب کی، جب آسمان پر صرف پرندے پرواز کرتے تھے. ان کی اڑانیں دیوہیکل طیاروں کے لیے خطرہ یوں نہ تھیں کے ان کا دور دور تک کوئی وجود ہی نہی تھا. اہلیان شہر سامان سے لدے جگالی کرتے اونٹوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے، جنھیں عیدگاہ کے وسیح و عریض میدان میں ٹھہرایا گیا تھا، لیکن ان لوگوں میں ایک فرد ایسا بھی تھا جو سخت متفکر تھا اور اس کی پریشانی کا اظھار اس کے چہرے سے ہو رہا تھا. جیسے جیسے رات اپنی آنکھوں میں سیاہی کے سرمے کی سلائی کھیچتی جاتی، اس کی پریشانی، اضطراب، اور بڑھتا جاتا. آخر اس سے رہا نہ گیا. اس نے اپنے دوست سے پریشانی کا اظھار کیا اور مدد طلب کی. دوست بھی سچا دوست تھا . وہ بلا تردد فوراً راضی ہو گیا. اب دونوں کے قدم عید گاہ کی جانب اٹھ رہے تھے جہاں تاجروں کے قافلے نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا.
یہ دونوں قافلے کے پاس جا کر ٹھہر گئے اور اپنے اپنے کام میں لگ گئے. دونوں قافلے کے گرد ٹہل رہے تہے. کبھی ایک طرف جاتے اور کبھی دوسری طرف کا رخ کرتے اور کبھی تاریکی میں آنکھیں کھول کهول کر دیکھنے کی کوشش کرتے اور جگالی کرتے بے فکر اونٹوں کے پاس ٹہلنے لگ جاتے. وہ دونوں خاصے چوکنے تھے. انداز ایسا تھا جیسے انھیں کوئی خطرہ ہو. رات کے گھپ اندھیرے میں یہ کام آسان نہی تھا . دونوں دوستوں نے باہمی مشورہ کیا اوراپنی باریاں لگا لیں.
دراز قامت شخص کی باری آئی تو اس نے کسی بچے کے رونے کی آواز سنی. بچے کا رونا کوئی انہونی بات نہی، لیکن مسلسل رونے سے لگ رہا تھا وہ معصوم کسی تکلیف میں ہے. اس شخص سے رہا نہ گیا اوروہ احوال معلوم کرنے چلا گیا. اس نے دیکھا کہ شیرخوار بچہ بری طرح روئے جا رہا ہے، جسے اس کی ماں بہلا پھسلا رہی ہے. اس نے بچے کی ماں سے کہا: الله سے ڈر اور اپنے بچے کا خیال کر.
یہ که کر وہ شخص باہر آ گیا، اور پہلے کی طرح قافلے کے گرد منڈلانے لگا. تھوڑی دیر بعد اسے پھر بچے کے رونے کی آواز آئی. بچہ بلک بلک کر رو رہا تھا، وہ پھر اس عورت کے پاس گیا اور اسے تلقین کی کہ بچے کا خیال کرے. اس نصیحت کا اثر تھوڑی دیر ہی رہا. رات کے سناٹے میں ایک بار پھر بچے کے بلکنے کی آواز آنے لگی. اب تو اس شخص کو غصہ آ گیا. وہ اس عورت کے پاس گیا اور کہنے لگا : "تیرا بھلا ہو، میرا خیال ہے تو بچے کے حق میں ٹھیک نہی. کیا بات ہے تیرا بیٹا آج ساری رات جاگتا رہا. وہ ذرا دیر بھی نہ سویا."
وہ عورت جو اس اجنبی کی بار بار آمد سے جھنجھلا گئی تھی، کہنے لگی: تو نے بھی تو مجے تنگ کیے رکھا. بار بار آتا رہا. میں اس بچے کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں، لیکن یہ نہی مانتا."
"یہ کیا بات ہوئی. تو اس کا دودھ کیوں چھڑانا چاہتی ہے؟" اجنبی شخص کے لہجے میں حیرت تھی کہ کوئی ماں ایسی سخت دل بھی ہو سکتی ہے.
عورت بولی:"سرکار سے اسی بچے کو وظیفہ ملتا ہے جو ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو. یہ دودھ چھوڑے گا تو مجھے اس کا وظیفہ ملے گا."
عورت کی بات سن کر اس شخص کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا. اس نے پوچھا بچے کی عمر کیا ہے؟
عورت نے بچے کی عمر بتائی. وہ شخص کہنے لگا "تیرا بھلا ہو، اس بچے کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کر." یہ که کر وہ شخص چلا آیا.
باہر صبح صادق کا وقت قریب تھا. فضا میں الله کی کبریائی کا اعلان ہونے لگا. الله اکبر الله اکبر کی صدا سن کر وہ شخص جھرجھری لے کر رہ گیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ اس طرح مسجد کی طرف چل پڑا کہ اس کا سر جھکا ہوا تھا. مسجد پہنچا تو دیگر نمازیوں کی نظریں اس کے چہرے پر جم گئیں. وہ دیکھ رہے تھے کہ آج ان کے امام صاحب کچھ غمگین اور افسردہ افسردہ سے ہیں. اس روز وہ دراز قامت شب بیدار نماز میں گڑگڑا گڑگڑا کر رویا. اس نے روتے روتے سلام پھیرا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: "خبردار کوئی قبل از وقت اپنے بچے کا دودھ نہ چھڑائے. آج سے ہر دودھ پیتے بچے کا وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے."
نماز میں ہچکیاں لے لے کر رونے اور یہ اعلان کرنے والے شخص کوئی عام سا بندہ نہی. دعائے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، جو حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات بھر جاگتے رہے اور تاجروں کے قافلے پر پہرا دیتے رہے کہ کوئی چوری چکاری نہ کرے. چھتیس ہزار شہروں اور قلعوں کا فاتح اور اجنبی تاجروں کے مال کی چوکیداری.
میں آج عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جستجو میں تھا. میں اس شاندار فاتح اور عظیم قائد کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ جن کا یوم شہادت یکم محرم کو دبے پاؤں آ کر گزر گیا. اس روز آرٹس کونسل میں کوئی سیمینار ہوا نہ کسی پنج ستارہ ہوٹل میں وزیر اعلیٰ یا گورنر صاحب بہادر نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی. کراچی، لاہور ، کوئٹہ، پشاور، گلگت بلتستان اور سکردو میں کہیں بھی سرکاری سطح پر ایسی کوئی تقریب نہی ہوئی، جہاں اپنوں کو نوازنے کے لیے سرکاری خزانے کا منہ کھول دینے والوں کو بتایا جاتا کہ جس طرح تمہاری بہو بیٹیاں تمیں عزیز اور پیاری ہیں، ویسے ہی اس عظیم فاتح کو بھی اپنی اولاد اس سے کہیں زیادہ پیاری رہی ہو گی اور کون باپ ہے جو لوگوں کی ضرورتیں پوری کر رہا ہو. مال غنیمت تقسیم کر رہا ہو. ایسے میں ضرورت مند لاڈلی بیٹی کو خبر ملے اور وہ چادر اوڑھے ضرورت مندوں کی قطار میں لگ کر باری انے پر کہے:" اے امیر المومنین! الله نے رشتےداروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، اس لیے اس مال میں سے آپ کے رشتےداروں کا بھی حق ہے......"
جواب میں امیر المومنین اپنی لاڈلی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہ سے کہے: " بیٹا! میرے رشتےداروں کا حق میرے مال پر ہے. یہ تو مسلمانوں کا مال غنیمت ہے. جاؤ واپس جاؤ...." کیا کسی وزیر کا یہ جگرا ہے کہ وہ یہ کہے اور اپنی بیٹی کو چادر گھسیٹتے خالی ہاتھ جاتا دیکھتا رہے.....
کاش کہیں کسی سیمینار میں لطیف کھوسہ، عشرت العباد، ذولفقار مگسی، مسعود کوثر، راجہ زلقرنیں خان اور پیر کرم علی شاہ مہمان خصوصی ہوتے اور انھیں بتایا جاتا کہ منظر ایک میدان کا ہے، جہاں ایک کمزور سی لڑکی لڑکھڑاتی چلی جا رہی ہے. خلیفہ وقت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نظر پڑتی ہے. پوچھتے ہیں "یہ کون ہے؟"
پاس کھڑا بیٹا کہتا ہے:"یہ آپ کی بیٹی ہے....."
تعجب سے پوچھتے ہیں:" یہ میری کون سی بیٹی ہے؟"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جواب دیتے ہیں :"یہ میری بیٹی اور آپ کی پوتی ہے"
سوال ہوتا ہے:"یہ اتنی کمزور کیوں ہے؟"
بیٹا شکایتاً کہتا ہے:"آپ کی وجہ سے، کیوں کہ آپ اسے کچھ دیتے جو نہی"
پھر وہ مقرر سیمینار میں گورنروں، وزیروں اور مشیروں کو بتاتا کہ خلیفہ وقت جگر گوشے کا شکوہ سن کر اسے کسی شہر کی امارت سونپنے یا کسے صوبے کی گورنری کا پروانہ تھمانے کے بجائے کہتا ہے:" خدا کی قسم! میں تمیں تمہاری اولاد کے بارے میں کسی دھوکے میں نہی رکھنا چاہتا. جاؤ خود کماؤ اور اپنی اولاد پر خوب خرچ کرو...."
اجرک اور ٹوپی کے دن سے لے کر بسنت کے نام سے سے ثقافتی بدعت منانے والے وی آئ پیز کو یوم فاروق رضی اللہ عنہ پر کوئی تقریب سجانے کی توفیق ہوتی تو پاکستان کو ماں باپ کی جاگیر سمجھ کر قیمتی ارازیوں پر قبضہ کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی تو بتاتا کہ تم اور تمارے لیڈر تو ان کے غلاموں کے غلاموں کا پانی بھرنے کر لائق بھی نہی. تم کیا اور تمہاری اوقات کیا. تم ایک وزارت پر اتراتے پھرتے ہو، صدارت پر اکڑتے پھرتے ہو، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سلطنت مدینہ سے مکران اور اناطولیہ سے آزربائیجان تک پھیلی ہوئی تھی اور خدا خوفی اور جواب دہی کا یہ عالم تھا کہ مجوسی قاتل کے نیزوں کے گھاؤ سے جسم گھائل ہے. وقت آخر قریب ہے. حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ قبر کی دو گز جگہ چاہتے ہیں. بیٹے کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں "ام المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کرنا اور ان سے کہنا کہ عمر بن خطاب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حجرے میں ان کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے اور ہاں عمر بن خطاب ہی کہنا، ساتھ امیر المومنین مت کہنا کہ آج میں امیر المومنین نہی ہوں. صاحبزادے جا کر ام المومنین رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے ہیں. وہ فرماتی ہیں:"قسم خدا کی! وہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی ہوئی ہے، لیکن میں انھیں اجازت دیتی ہوں." صاحبزادہ اجازت لے کر خلیفہ وقت کے پاس جاتا ہےاور خوشخبری سناتا ہے. پھر بھی فرماتے ہیں جب میرا جنازہ اٹھاؤ تو جنازے کو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کے سامنے روک دینا اور دوبارہ اجازت مانگنا. اگر اجازت نہ دیں تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا...."
کاش کہیں تو ایسا سیمینار ہوتا. کہیں تو ایسی کانفرنس ہوتی. کہیں تو ایسی تقریب ہوتی. شائد ذکر فاروق اعظم سے ہمارے حکمرانوں کے ضمیر جاگ جاتے. میں نے یہ سوچتے ہوے وکی پیڈیا کا انسائیکلوپیڈیا کھولا. غیروں کے اس انسائیکلوپیڈیا میں اس عظیم فاتح کے بارے میں تفصیلی معلومات کے ساتھ ساتھ ان کی اس کاٹ دار شمشیر کی تصویر بھی تھی، جسے اٹھانے والے ہاتھ اب مسلمانوں میں نہی رہے. میں افسردہ ہو گیا اور افسردگی، اداسی سے شمشیر فاروق کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا
An article on youm e shahadat of khalifa e doum (second khalifa)
hazrat umer bin khatab razi ALLAH han
Al- farouk_ life of Hazrat Umer Farooq
Download
Omar Ibn al-Khattab, al-Farouk, the second orthodox Caliph, for whom may Allah's good pleasure is prayed, is truly the strongman who helped Islam extend to an extensive area in the world. During his Caliphate, Islamic fighters conquered the two great powers of Persia and Rome, and the banners of Islam were hoisted high in Asia, Africa and the Mediterranean... He was the fair caliph whose rule prevailed in justice and decisiveness and whose care for people was infinite.
Omar disliked favoritism and bias and showed ability to rule in a right and fair manner. He was lenient when matters required leniency and decisive and strong when things needed to be dealt with so.
lt is known that he rejected gifts even for his wife. And he punished the treasurer for he had presented his wife (A'teka) a simple gift!!!
The Messenger of Allah, to whom may Allah's Blessings and peace be granted, told hirn:
«Even Satan fears you Omarll!».
Allah, to whom belong might and majesty, hath responded to the supplication of the Prophet, to whom may Allah's Blessings and peace be granted, and supported Islam by Ornar Ibn al-Khattab.
The Prophet besought Allah, Be He exalted.
As for taking care of Moslems, Omar was known for spending the night in worshiping and walking a round in Medina to inspect the conditions of Moslems people. He repeatedly worked for solving the problems of Moslems and helped the needy; poor families, women,
children and elderly.
Omar's social policy was really a success. He let people feel sure of peace and stability as the resources of Bait al-Mal (The Moslems Treasury) were invested in their right place. Orientalists described horn as a man who possesses great mental talent and abilities. «He was known for justice, straightforwardness and honesty»;
MI'. Washington Irving said.
«Simplicity and doing duty were two basic principles cherished by Omar, MI' Moe r said in his book «The Caliphate».
Omar, for whom may Allah's good pleasure is prayed, was a wise man who gave priority to reason and faith. He also considered toiling and l abour as Mos t important for man to avoid leisure which is the source of corruption, according to hirn.
Omar was humble and ascetic in dress and food. He also was simple and true in his behaviour.
«Where is Omar?».
They told him: «Here he is».
Al-Hurmozan said: Where are his gaurds and escorts?».
They said: «There is neither guard nor escort!
He said: «He must be a Prophet!
They said: «He is acting like prophets».
When Omar sat up he said: «Thanks be to Allah who humiliated this and his folks by Islam».
«0, Moslems! Cling fast to this religion and be guided by your Prophet's Sunna (Tradition of sayings and acts).
And don't be arrogant by the world. It is vanity.
Late in his life, he said:
«0, Allah! I have grown old. My strength faltered and my people grew larger. 0, Allah! May thee taketh my soul as I still have sound mind and sound body».
«0, people! I have opened for you the bright route to lead a true life and left you in a clear situation...
It was also reported that Omar had said: «I saw as if a cock had picked me twice. I said it leads me to martyrdom and a Persian shall kill me».
Omar liked to die as martyr. And, afterwards, he told Moslems about what he had seen.
al-Seddeq.
In Omar's opinion, Caliphate means consultation (Shura).
So, Othman Ibn Affan was the third orthodox Caliph after hirn. Moslems, including Ali Ibn Abi Taleb, gave hirn the pledge of allegiance. Omar, recommended his successor to have strong faith in Allah and to take care of the pioneering immigrants to keep their right and to maintain their dignity.
He also recommended him to take care of al-Ansar and the people of the far countries and to do good to them. He considered them the shield of Islam and the wrath for the enemy. He started his recommendation with the Book of Allah. And he died without any hatred against any one.
Omar Ibn al-Khattab, for whom may Allah's good pleasure is prayed, was a true man of right. He also was a true man of might. The word «al Farouk» is only one symbol of his great character as a man and as caliph.
23 نومبر، 2011
یکم محرم: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت
یکم محرم: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت
ان کا نام مبارک عمر، لقب فاروق، کنیت ابو حفض، جو کہ دونوں رسول خدا کے عطیے ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں جاکر رسول اکرم صلى الله عليہ وسلم سے ملتا ہے۔“
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا تھا کہ ”حضرت عمر رضی اللہ کا مسلمان ہو جانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت نصرت الٰہی تھی اور ان کی خلافت اللہ کی رحمت تھی“ ۔ شجاعت وبہادری میں اپنی مثال آپ تھے ، غزوہ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو میدان جنگ میں اپنے ہاتھ سے قتل کیا، غزوہ بنی مطلق میں مقدمہ لشکرآپ کی ما تحتی میں تھا، اس غزوہ میں آپ نے دشمن کے ایک جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کی تمام چالیں معلوم کر لیں، غزوہ خیبر میں میمنہ لشکر کے افسر آپ ہی تھے اس غزوہ میں ہر رات ایک صحابی پہرہ دیتا تھا، جس رات آپ کی باری تھی آپ نے ایک یہودی کو گرفتار کیا اور تمام حالات اس سے معلوم کر لیے ان پر عمل کر کے خیبر کوفتح کیاگیا۔
غزوہ حنین میں جماعت مہاجرین کا ایک جھنڈا آپ کے سپرد تھا، رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ نہ پڑھانے کا مشورہ آپ رضی اللہ نے رسول اللہ کو دیا تھا، اگر غصے کے دوران میں کوئی شخص اللہ کا نام یا قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھ دیتا تو آپ فوراغصہ ختم کر دیتے تھے ایسے جیسے غصہ آیا ہی نہ تھا۔
آپ رضی اللہ کا رعب اتنا کے قیصر و کسرا کے درو بام آپ رضی اللہ کا نام سن کر کانپنے شروع ہو جاتے ۔
آل مجوس پر تو رعب اس قدر چھایا کہ آج بھی ایران ( آل مجوس ) عمر نام سے کانپتے ہیں ۔
پورے فارس ایران میں کسی کو عمر نام رکھنے کی اجازت نہیں جو رکھ لے اسکو شناختی کاغذات تک جاری نہیں کرتے ۔
اللہ کے دشمنوں پر عمر رضی اللہ کے رعب کی یہ وضح مثال ہے ۔
تمام زمانہ خلافت میں کبھی خیمہ آپ کے پاس نہ رہا ،سفر میں منزل پر پہنچ کردھوپ یابارش سے بچنے کے لیے کسی درخت پر کپڑا تان کرگزارہ کر لیتے تھے۔اپنی مملکت میں ہرایک کا خیال رکھتے تھے حتیٰ کہ جن عورتوں کے خاوندجہاد کے لیے گئے ہوتے تو ان کے دروازوں پرجاکر سلام پیش کرتے،ان کے لیے سودا سلف خرید کر لاتے اورجن کے پاس پیسہ نہ ہوتا اپنے پاس سے لے کر دیتے، جب فوجی لوگوں کے خط آتے تو خودگھروں میںجا کر دیتے، اگر گھر میں پڑھنے والا کوئی نہ ہوتا تو دروازے کے پیچھے کھڑے ہوکرخودسناتے اور ان سے کہہ آتے کہ ڈاک فلاں دن جائے گی آپ خط لکھ رکھنامیں آ کرلے جاﺅں گا، خودکاغذ قلم اور دوات لے کرہرگھر میں جاتے جس نے لکھوایا ہوتا لے لیتے اوراگر نہ لکھوایا ہوتا پوچھ کر خود لکھ دیتے۔
حضرت عمر رضی اللہ رسول اکرم کے رشتے داروں کا بہت خیال رکھتے تھے اسی لیے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ کا وظیفہ 3ہزار اور حسنین کریمین کا 5،5 ہزار،اور اسامہ بن زید کا4 ہزار مقرر فرمایا ۔
حضرت عمر رضی اللہ 10برس 6 مہینے 5دن خلافت کو زینت بخشی 27ذوالحجہ بروز چہار شنبہ کی صبح کومسجد تشریف لائے اورصفوں کو درست کرنے کے بعد نماز کی امامت شروع کی تو آپ رضی اللہ پر ابو لو ءلوء مجوسی نے حملہ کیاآپ کے گرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ نے عبدالرحمن بن عوف کو ہاتھ سے پکڑکر آگے کر دیا تو انہوں نے نماز مکمل کرائی۔
ابولولو نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ پر حملہ کرنے کے بعد دائیں بائیں نماز میں کھڑے لوگوں پر وار کیا جس سے 13افراد زخمی ہوئے ،جن میں سے 9بعد میں شہید ہو گئے۔
یکم محرم کو اتوار والے دن آپ رضی اللہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ کے حجرہ مبارک میں رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :{اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ ”میں، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے“ ۔۔۔ تو اسی لیے مجھے (پہلے سے) امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا۔}
(صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ)
Yakam muharam, Youm e shahadat hazrat umer (RA)
11 نومبر، 2011
عیسائی مبلغ کی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور اس کا انجام
9 نومبر، 2011
Iqbal day
اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
9th November: Iqbal Day
3 نومبر، 2011
لونڈی کی پکار پر معتصم باللہ کی یلغار
لونڈی کی پکار پر معتصم باللہ کی یلغار
مشھورعباسی خلیفہ معتصم باللہ (833ءتا 843ء) کے دربار خلافت میں ایک شخص کھڑا ہوا- عرض کی: امیر المومنین میں عموریۃ سے آرہا ہوں- میں نے ایک عجیب منظر دیکھا- ایک موٹے عیسائی نے ایک مسلمان لونڈی کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا- لونڈی نے بے بسی کے عالم مین آہ بھری اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا:
{ وا معتصماہ}
" ہائے خلیفہ معتصم تم کہاں ہو!"
اس موٹے عیسائی نے لونڈی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:
{ وما یقدر علیہ المعتصم! یجیء علی ابلق وینصرک؟!}
" معتصم باللہ اس پکار کا کیوں کر جواب دے سکتا ہے! ایا وہ چتکبرے گھورے پر سوار ہوکر تیرے پاس آئے گا اور تیری مدد کرے گا؟"
پھر اس لونڈی کے رخسار پر کھینچ کر ایک دوسرا تھپڑ رسید کیا جس سے وہ تلملا اٹھی-
یہ سن کر خلیفہ معتصم باللہ نے اس آدمی سے دریافت کیا:
" عموریہ کس سمت میں ہے؟"
اس آدمی نے عموریہ کی سمت اشارہ کرکے بتلایا کہ عموریہ اس طرف ہے-
خلیفہ معتصم باللہ نے اپنا رخ عموریہ کی سمت موڑا اور کہا:
{ لبیک، ایتھا الجاریۃ! البیک، ھاذا المعتطم باللہ اجابک}
"میں تیری آواز پر حاضر ہوں اے لونڈی، معتصم تیری پکار کا جواب دینے آرہا ہے-"
پھر خلیفہ نے عموریہ کے لیے بارہ ھزار چتکبرے گھوڑے تیار کرائے اور ایک لشکر جرار لےکر عموریہ پہنچا اور اس کا محاصرہ کرلیا- جب اس محاصرہے کی مدت طول پکڑ گئی تو اس نے مشیروں سے مشورہ طلب کیا- انہوں نے کہا: "ہمارے خیال کے مطابق آپ عموریہ کو انگور اور انجیر کے پکنے کے زمانے ہی میں فتح کرسکتے ہیں-" چونکہ اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار تھا، اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ بڑا گراں گزرا-
خلیفہ اسی رات اپنے خاص سپاہیوں کے ہمراہ جپکے چپکے لشکر کے معائنے کے لیے نکلا تاکہ مجاہدین کی باتیں سن سکے کہ اس بارے میں ان کی چہ مگوئیان کس نتیجے پر پہنچنے والی ہیں- خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا جس میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلیں تیار کررہا تھا- بٹھی گرم تھی- وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے سامنے ایک گنجا اور بد صورت غلام بڑی تیزی سے ہتھوڑا چلاتا جاتا-
لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹا پلٹتا اور اسے پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا-
اچانک غلام نے برے زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا:
{ فی راس المعتصم}
" یہ معتصم کے سر پر"
لوہار نے غلام سے کہا: تم نے بڑا برا کلمہ کہا ہے- اپنی اوقات میں رہو- تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے بارے میں ایسا کلمہ کہو-
غلام کہنے لگا: " تمہاری بات بلکل درست ہے مگر ہمارے خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہے- اس کے پاس اتنی فوج ہے- تمام تر قوت اور طاقت ہونے کی باوجود حملہ میں تاخیر کرنا کسی صورت مناسب نہین- اللہ کی قسم! اگر خلیفہ مجھے یہ ذم داری سونپ دیتا تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا"-
لوہار اور اس کے غلام کا یہ کلام سن کر خلیفہ معتصم باللہ کو بڑا تعحب ہوا- پھر اس نے چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خیمے کی طرف واپس ہوگیا-
صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم باللہ کی حدمت میں حاضر کیا-
خلیفہ نے پوچھا:
" رات جو باتیں مین نے سنی ہین، ان باتوں کی کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟
غلام نے جواب دیا:
" آپ نے جو کچھ سنا ہے، وہ سچ ہے- اگر آپ جنگ میں مجھے کماندر بنادیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح کروادے گا-"
خلیفہ نے کہا:
"جاؤ میں نے فوج کی کمان تمہیں سونپ دی-"
چنانچہ اللہ تعالی نے عموریہ کو اس غلام کے ہاتھوں فتح کرادیا- پھر معتصم باللہ شہر کے اندر داخل ہوا- اس اس نے فورا اس آدمی کو تلاش کیا جو لونڈی کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور پیغام لے گیا تھا اور اس سے فرمایا: جہاں تونے اس لونڈی کو دیکھا تھا وہاں مجھے لے چلو- وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا اور لونڈی کےاس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی حدمت میں حاضر کیا- اس وقت خلیفہ نے لونڈی سے کہا:{ یا جاریۃ! ھل اجابک المعتطم؟}
" لڑکی! بتا معتصم تیری مدد کو پہنچا یا نہیں؟"
اس لڑکی نے اثبات میں اپنا سر ہلادیا- اور اب تلاش اس موٹے عیسائی کی ہوئی جس نے اس لڑکی کو تھپڑ رسید کیا تھا- اس کو پکڑ کر لایا گیا اور اس لڑکی سے کہا گیا کہ آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو- اللہ اکبر
محاضرات الابرا: 2/63، قصص العرب :3/449
اقتباس: سنہرے حروف
از: عبد المالک مجاھد