ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

5 جولائی، 2012

ہمارے وجود میں عوام کی رائے بولتی ہے۔

 



عوام کے ان منتخب نمائندوں میں کتنے ایسے ہوں گے جن سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ نیٹو(NATO) کس چیز کا مخفف ہے تو حیرت سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں گے، ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں گے، کوئی بڑھ کر جواب مانگے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں ۔ اگر ان پانچ سو کے قریب جمہوریت کے پرچم برداروں میں سے چند ایک یہ کہہ بھی دیں کہ یہ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنازیشن ہے تو پھر ان "صاحبان علم" سے یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کیوں اور کب وجود میں آئی تھی ۔ اس کے مقصد کیا تھے؟ اس میں کتنے لوگ شامل تھے تو جواب دینے والوں کی لسٹ اور مختصر ہو جائے گی ۔ یہ لوگ جو اس قوم کے فیصلوں کے مالک اور اس کی تقدیر لکھنے کے ذمہ دار ہیں جو ووٹ دینے اور ہاتھ اٹھانے میں ویسا ہی رویہ رکھتے ہیں جیسا آغاز پاکستان کے زمانے میں ایک بوڑھے کا تھا۔ واقعہ یوں تھا کہ ممتاز دولتانہ جو مسلم لیگ کے رہنما اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی تھے، ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے، سامنے بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے نے دوسرے سے سوال کیا کہ یہ کون شخص ہے جو تقریر کر رہا ہے ۔ اس نے جواب دیا یہ ممتاز ہے، اس نے پھر پوچھا کون ممتاز۔ بوڑھے نے جواب دیا "یارے(یار محمد دولتانہ) دا پتر "۔ دوسرے بوڑھے نے جوش میں آ کر کہا "یارے دا پتر ہے تو زندہ باد"۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں تو یہ تک نہیں پتا کہ یہ "یارے دا پتر" یعنی نیٹو کیا تھا، کیا ہے اور کیا چاہتا ہے۔


شاید ہی کسی کو علم ہو کہ جنگ عظیم دوم میں کروڑوں لوگوں کا خون بہانے کے بعد جب اتحادی افواج کو فتح نصیب ہوئی تو اس کے بعد امریکہ، کینیڈا اور آٹھ یورپی ممالک نے نیٹو معائدے پر دستخط کیے۔ یہ اتحاد ان تمام ملکوں نے اپنے اتحادی اور دوست روس کے خلاف بنایا تھا جس کی افواج نے انھیں جنگ عظیم دوم جیتنے میں مدد کی تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اگر ہٹلر کی افواج روس کی جانب رخ نہ کرتیں تو جنگ عظیم دوم کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔


یہ امریکہ اور یورپ کا اپنے عظیم محسن، دوست اور اتحادی کے خلاف اتحاد ان کی سرشت میں چھپی بے وفائی اور منافقت تھی ۔ یہیں سے سرد جنگ کا آغاز ہوا جس کا انجام تب ہوا جب روس نے طاقت کے نشے میں افغانستان پر قبضہ کیا اور نہتے افغانوں نے اسے شکست فاش دی ۔ یہ وہی مجاہدین تھے جنہیں اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے امریکہ کے بانی قائدین کا ہم پلہ قرار دیا ۔ روس کے اس اتحاد کے مقابلے میں وارسا پیکٹ نامی ایک تنظیم بھی بنائی گئی تھی جس کے ممبر ممالک بعد میں نیٹو میں شامل ہو گئے۔


اب نیٹو نے اپنے دوسرے اتحادی، دوست اور ساتھی سے غداری کی ٹھانی ۔ جب سرشت میں بیوفائی ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس بار وہ مسلمان مجاہدین تھے ۔ روس نے ہٹلر پر فتح کے لیے مدد کی تھی اور مسلمان مجاہدین نے روس کے خلاف فتح حاصل کی تھی۔


پاکستان ان بدقسمت ممالک میں شامل ہے جس نے نیٹو کی پہلی بیوفائی یعنی روس کے خلاف جنگ میں اس نے ساتھ دیا اور پھر اپنے ہی بھائیوں اور پڑوسیوں کے خلاف بیوفائی میں بھی نیٹو کا ساتھ دیا۔
یہ بدقسمتی اور بھی شدید ہے اور نامہ اعمال اور بھی سیاہ۔


ہم نے اپنے ایک مسلمان بھائی اور پڑوسی کو پہلے ایک غاصب طاقت اور حملہ آور ملک روس سے نجات دلانے میں مدد دی۔ ہم الله کے ہاں بھی سرخرو تھے اور پڑوسی کی نظر میں بھی عزت دار، ہمیں اس مدد کے عوض چند روپے میسر آ گئے لیکن ہماری غیرت کو دولت کا ایسا چسکا پڑا کہ ہم نے اسی ملک پر قبضے کے لیے، اس کی آزادی سلب کرنے کے لیے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دی ۔ ستاون ہزار دفعہ جہاز ہماری سرزمین سے اڑے اور انہوں نے وہاں موجود ہمارے مسلمان بھائیوں کے گھروں کو تباہ و برباد کیا اور ان کے جسموں کے پڑخچے اڑا دیے ۔ ہمارے نامہ اعمال اور فرد جرم میں یہ سب لکھا گیا ۔ ہم نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی اس حدیث کا انکار کیا کہ مسلمان ایک جسد واحد ہیں ۔ اگر ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہو گا تو پورے جسم کو تکلیف ہو گی ۔ ہم نے اس حدیث مبارکہ کا بھی انکار کیا کہ جس نے پڑوسی کے کتے کو بھی ایذا دی اس نے پڑوسی کو ایذا دی۔ مسلمان تو دور کی بات ہم نے انسانی تاریخ کے اس مروجہ اصول پر بھی لعنت بھیجی کہ کسی قوم پر جب کوئی بڑی طاقت بلکہ بہت سی طاقتیں چڑ دوڑیں تو اخلاقا اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ ہم سے تو وہ بے دین ادیب اور شاعر بہتر تھے جو اس طرح کے ظلم پر مضمون تحریر کرتے تھے اور شاعری لکھتے تھے۔


اب ایک دفعہ پھر ہم اپنے فرد جرم پر قوم کی مہر لگانے جا رہے ہیں ۔ یہ ہے جمہوریت کا کمال جس کو نیٹو کا مطلب بھی نہیں آتا وہ بھی اس کے حق میں ووٹ دیتا ہے ۔ جب فیصلہ ہو جاتا ہے تو اگر کوئی شکایت کرے کہ یہ تو غلط ہوا تھا تو جواب دیا جاتا ہے کیوں ووٹ دے کر بھیجا تھا۔ مت دیتے ووٹ، اب ہم اٹھارہ کروڑ کے نمائندے ہیں ۔ ہم بیشک پورے ملک کو بیچ دیں، ہمیں اختیار ہے کیوں کہ ہمارے وجود میں عوام کی رائے بولتی ہے۔

☀▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں