ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

8 جولائی، 2012

قادیانی پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں کس طرح رکاوٹ بنتے رہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کے اہم انکشافات


قادیانی پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں کس طرح رکاوٹ بنتے رہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کے اہم انکشافات










 Tags:

قادیانی پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں کس طرح رکاوٹ بنتے رہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کے اہم انکشافات
پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی راہ میں حائل مشکلات
منیر احمد ایسا شخص جو پاکستان کو کبھی ایٹمی طاقت نہ بناتا
ذوالفقار علی بھٹو کی دور اندیش اور مدبرانہ قیادت
Qadiani pakistan ki atami taqat bannay main kis tarah rukawat bantay rahay.
qadianion ki pakistan dushmani. 
dr abdul qadeer khan, urdu article on difficulties he faced in making atomic power.



4 comments:

  1. aslam-u-alikum dr sab next hisa b jaldi shear karen
    .thnx fr info

    جواب دیںحذف کریں
  2. ﷽۔۔میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنے عظیم رتبے پر فاءز ہونے کے باوجود عزت مآب ڈاکٹر صاحب کیوں غلط بات کر رہے ہیں؟میری معلومات کے مطابق ایٹم بم میں نوے فی صد حصہ شہید جنرل محمد ضیا ء الحق کا ہے ۔کیونکہ ۱۹۸۴ ء میں پاکستان سرخ لکیر کو عبور کرچکا تھا۔مگرڈاکٹر صاحب ضیا ء الحق کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔شاید اس لیے کہ اب شہید کسی کو نفع یا نقصان دینے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔میں نے اس مقصد کے لیے بار ہا ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیاکہ آپ مجھے وہ تاریخ بتا دیں جب آپ نے بھٹو سے پہلی ملاقات کی اور یہ کہ کس تاریخ سے آپ نے بم پر عملی کام کا آغاز کیا؟
    مگر افسوس صد افسوس ،ڈاکٹر صاحب نے مجھے کبھی اصل حقاءق سے آگاہ نہیں کیا۔اس کوحکمت عملی کہا جاءے یا منافقت؟
    لیکن ایک بات یقینی ہے کہ ہم سب کو اپنے تمام اعمال کا ایک بڑے دن کو حساب دینا ہے اوراس دن ڈاکٹر صاحب مجھے جواب دیں گے بے شک۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ﷽۔۔سابق صدر جنرل ایوب خان پر الزام عاءد کیا جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کو امریکہ کی گود میں لا بٹھایا تھا۔ آج کی نشست میں اس الزا م کا جاءزہ لیتے ہیں۔امریکہ کے ساتھ معاءدے۱۹۵۱ء میں لیاقت علی نے کیے تھے نہ کہ ایوب نے۔ایوب خان کو امریکہ نے کہا کہ وہ ۱۹٦۲ء کی ہند چین جنگ میں ہندوستان کی مدد کے لیے فوج ا نڈیابھیجے،مگر ایوب نے انکار کر دیا؛پھر۱۹٦۴ء میں مطالبہ کیا کہ ویت نام میں ایک طاقتور دستہ بھیجا جاءے۔ایوب نے پھر انکارکیا،آخر امریکہ اس پر آگیا کہ ایک طبی مشن ہی بھیج دیاجاءےمگر ایوب کا انکار اقرار میں نہ بدلا۔بڈھ بیر میں ہوائ اڈہ لیاقت علی نے امریکہ کودیا تھا۔جب ایوب خان نے بڈھ بیر کے ہوائ اڈے کی لیز میں مزید اضافہ کرنے سے انکار کیا تو اس انکار نے ایوب خان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔۱۹٦٦ء میں ایوب خان کو اطلاع دی گئ کہ امریکہ نے اس کو ہٹانے کی پلاننگ شروع کر دی ہے۔اسی لیے ایوب خان نے اپنی کتاب کا نام،،دوست چاہیے آقا نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ﷽۔۔پیارے بچو !آج تم کو ُُُ ُ بھٹو ازم،، کے متعلق آگاہ کیا جاۓ گا۔یہ اصطلاح پیپلز پارٹی کے چھوٹے بڑے ،سبھی استعمال کرتے ہیں مگر اس کی اصلیت سے وہ خود بھی ناواقف ہیں۔یہ لفظ تقریباً ۱۹۷۴ء میں ُُ ُ اردو ڈأجسٹ ،،کے الطاف حسن قریشی نے استعمال کیا تھا۔انہوں نے حکومت کے خلاف ایک لمبی چوڑی چارج شیٹ سنائ،پھر لکھا کہ یہ ایسے برے اعمال ہیں جو اس سے قبل ہم نے نہ دیکھے نہ سنے۔اس قسم کا بدترین طرز عمل کبھی کسی حکومت نے اختیار نہیں کیا تھا۔ہم اس کے لیے ڈکشنری میں کوئ لفظ نہیں پاتے،اس لیے ہم اس کے لیے ایک نیا لفظ ایجاد کر رہے ہیں،بھٹو ازم۔قارءین!یہ سیاہ ترین دور پانچ سال تک ہم نے بہ امر مجبوری برداشت کیا اور یہ بھٹوازم ہی تھا جس کے خلاف پوری پاکستانی قوم ساڑھے چار ماہ تک سڑکوں پر تھی اور پورے ملک میں جیل بھرو تحریک چل پڑی تھی۔کسی کو سچ کی تلاش ہو تو وہ جنوری ۷۷ء سے جولائ ۱۹۷۷ء کے اخبارات دیکھ لے۔جب بھٹونے ہم پر تشدد کے نءے ریکار ڈ بنا ۓ،تب جیلوں میں جگہ کی کمی کی وجہ سے باہر خیموں میں قیدیوں کو رکھاگیا،ہتھکڑیوں کی کمی کی وجہ لوگوں کو رسیوں سے باندھا گیااور نام نہاد منتخب وزیراعظم نے ہم پر اتنی آنسو گیس استعمال کی کہ ملک میں آنسو گیس ختم ہو گئ اور ہنگامی طور پر امریکہ نے بھٹو کو آنسو گیس بھیجی۔یہ ہے وہ بھٹو ازم ،جسے پیپلز پارٹی والے دوبارہ ہم پر نازل کرنا چاہتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب کسی جگہ بھٹو ازم آتا ہے تو قدرت کی طرف سے اس کے جوا ب میں شہید ضیا ء الحق کو بھیجا جاتا ہے۔یہی ہے عالمگیر سچائ۔

    جواب دیںحذف کریں