ٹیپو سلطان کا سفر آخرت
وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے
امیر المومنین کی چوکیداری
ایک دلچسپ واقعہ
مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں
زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔
پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟
میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔
داستان ایک متکبر کی
سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف
میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا
عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ
21 دسمبر، 2013
Disposable America soldiers
19 دسمبر، 2013
جنرل صاحب نے یہ کیا کہہ دیا؟ اوریا مقبول جان
تیسرے مقرر پرویز مشرف کے دست راز ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر متمکن تھے، ایک ایسا عہدہ کہ جب اس ملک سے افغانوں پر حملے کرنے کے لیے مکمل مدد فراہم کی جا رہی تھی، اس عہدے کی آنکھیں ان تمام واقعات کی گواہ بنتی رہیں۔ دسمبر 2003 سے اکتوبر 2005 تک وہ لاہور کے کور کمانڈر رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیرمین بنے۔ یوں تو اس دور میں بہت سے لفٹیننٹ جنرل رہے لیکن اپنے ضمیر کی خلش سے بیقرار ہو کر اور خاموشی توڑ کر کتاب صرف جنرل شاہد عزیز نے لکھی۔ اس کتاب میں لکھا جانے والا سچ اس قدر کڑوا تھا کہ اس نے بھونچال کھڑا کر دیا۔ ان کی کتاب "یہ خاموشی کب تک" پر بہت عرصہ اخباروں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں تبصرہ ہوتا رہا ۔ پرویز مشرف نے غصے میں لال بھبھوکا ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہد عزیز کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سیمینار میں قبائلی امور کے باقی دونوں ماہرین اور خود قبائلی پس منظر رکھنے والے اعلیٰ بیوروکریٹس نے بہت سی ایسی باتیں کیں جنھیں اس ملک کا میڈیا بیان نہیں کرتا اور شاید مدتوں نہیں کرے گا۔ سیمینار میں جنرل شاہد عزیز نے ایک حیران کن انکشاف کیا اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے سوات کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہ یہ میڈیا پر نشر ہوتی ہے اور نا ہی اسے کوئی سیاستدان، دانشور یا تبصرہ نگار بیان کرنے کی جرات کرتا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے، جو اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور جس کی ریکارڈنگ تنظیم اسلامی کے پاس موجود ہے اور ہو سکتا ہے چند دنوں میں وہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہو، کہا :
"سوات میں امن معائدہ حکومت اور فوج نے امریکہ کے دباؤ پر توڑا اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیا"۔
یہ فقرہ ایسا تھا جس سے پورے کا پورا ہال سناٹے میں آ گیا۔ اس فقرے کی گونج میں اگر ہم میڈیا پر گزشتہ پانچ سال کی گرجتی برستی آوازوں اور دانشوروں کے قلم سے نکلے ہوئے زھرخند جملوں کو یاد کریں تو یوں لگتا ہے کہ کئی سال پوری کی پوری قوم ایک جھوٹ کے الاؤ میں جلتی رہی۔ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت، جو سوات آپریشن کے وقت برسراقتدار تھی، میں سے کسی بیان یا ٹی وی پر تبصرہ نکال کر دیکھ لیں، ایسے لگے گا جیسے یہ لوگ امن کی فاختائیں اڑا رہے تھے اور طالبان کی طرف سے انھیں ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہ اس قدر صابر تھے کہ انہوں نے امن کی ہر کوشش کی لیکن اسے طالبان نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ اس سوال کا جواب تو شاہد عزیز ہی دے سکتے ہیں کہ فوج کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ امن جو مزاکرات کی میز پر وقوع پذیر ہو گیا تھا اسے ایک فوجی آپریشن میں کیوں بدل دیا گیا جس کے آج تک ہم زخم چاٹ رہے ہیں۔ آج بھی دبی دبی آوازیں سوات کے بازاروں میں سنائی دیتی ہیں اور صرف ایک وقت کا انتظار ہے کہ جب قصبوں، محلوں اور دیہاتوں میں سنائی جانے والی کہانیاں میرے ملک کے طول و عرض میں بیان ہونے لگیں گی؛ پھر کوئی معافی، غلطی کا کوئی اعتراف ان زخموں کو مندمل نہ کر سکے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میں جو تھیٹر میڈیا پر سجا اور آج بھی سجا ہوا ہے اس نے قوم کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔ آج بھی دلیل یہ دی جاتی ہےاور کتنے زوروشور سے دی جاتی ہے کہ طالبان پر بھروسہ کیسے کریں، وہ تو سوات میں معائدہ توڑ دیتے ہیں۔ طالبان کو جس طرح میڈیا میں گالی بنایا گیا وہ صرف سوات کے امن معائدے کے ایک واقعے سےنہیں بلکہ اس میڈیا نے ہر اس قتل کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر دوکان سجائی جو کہیں کسی اور جگہ بھی ہوتا رہا۔ سوات ہی کی مشہور گلوکارہ غزالہ جاوید جب اپنے باپ کے ہمراہ قتل ہوئی تو کتنے دن میڈیا یہ ماتم کرتا رہا کہ شدت پسندی اور طالبان کی سوچ نے اس خوبصورت گلوکارہ کی جان لے لی۔
[گلوکارہ غزالہ جاوید کا قاتل اس کا سابق شوہر تھا، جسے ابھی دو دن قبل ہی عدالت نے دو بار سزائے موت اور 7 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے: خبر ]
ابھی سوات میں لڑکی کے کوڑوں والی ویڈیو ٹی وی کی سکرینوں پر نہیں آئی تھی کہ اس سے تقریبا دو ہفتے قبل ایک پروگرام میں انسانی حقوق کی ترجمان ثمر من الله نے کہا کہ دیکھنا کچھ عرصے بعد ایک ویڈیو سامنے آنے والی ہے جو طالبان کی حقیقت آشکار کر دے گی۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر طالبان سے اس قدر دشمنی کیوں ہے؟ اس ملک میں اور بھی تو شدت پسند گروہ بستے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والے تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے تو کراچی میں بھی کسی کو چین سے بسنے نہیں دیتے ۔ ایسی ایسی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن کی ہڈیوں میں ڈرل سے سوراخ کیا گیا ہوتا ہے، ناخن کھینچے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ یہ لاشیں دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ ان کے پیاروں نے زندگی کے آخری لمحے کس اذیت سے گزارے ہوں گے۔پھر بھی میڈیا پر صرف ایک ہی شدت پسند گروہ کے "ترانے" کیوں گئے جاتے ہیں۔ یہ مرض بہت پرانا ہے، یہ حربہ اور ہتھکنڈا بہت پراثر ہے اس لیے کہ اس کا ہدف طالبان نہیں اسلام ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں میں سے اکثریت پر سیکولر ڈکٹیٹر برسر اقتدار تھے، ان کا اسلام یا اس کے اصول زندگی سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن دنیا بھر کے اخبارات یا ٹی وی پروگرام اٹھالیں، انھیں سیکولر ڈکٹیٹر نہیں مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ کسی نے جرمنی کے ہٹلر، سپین کے فرانکو یا فلپائن کے مارکوس کو آج تک عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہا اور نا ہی لکھا ۔
اسلام کو اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر جس قدر تسکین دنیا بھر کے میڈیا اور میرے ملک کے "عظیم" دانشوروں کو ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف کسی نیوز روم میں بیٹھ کر لگا سکتے ہیں، وہ نیوز روم جہاں کسی دھماکے، قتل یا ایسے کسی جرم کی خبر آ چکی ہو اور ٹی وی پر چل بھی رہی ہو متلاشی نظریں اور کان بےچینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، تجسس میں ایک دوسرے سے سوال کیے جاتے ہیں:
"طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ابھی تک؟ پتا تو کرو، عالمی میڈیا کو دیکھو، کسی ویب سائٹ پر ڈھونڈو" اور اگر ذرا بھی تاثر مل جائے تو پھر دیکھیں اگلے چوبیس، اڑتالیس یا بہتّر گھنٹے کی نشریات کے لیے موضوع مل جاتا ہے۔ خبر چلاؤ اور رگڑ دو شرعی قوانین کو، اسلام کی شرعی حیثیت کو اور خود اسلام کو۔
اوریا مقبول جان
ربط: روزنامہ دنیا
tags:
oria maqbool jaan, Lieutenant-General Shahid Aziz, Tanzeem e islami,
sawat, aarmy operation, video, sawat peace deal, who broke,
ghazala javaid, taliban, secular, media, islam, pakistan,
18 دسمبر، 2013
پاکستان کو دولخت کس نے کیا
کیا یہ ٹھیک ہے؟ تاریخ کہتی ہے کہ نہیں۔ پاکستان کو دو ٹکڑے بھارت نے نہیں کیا۔ یہ کام یحییٰ خاں نے کیا، ٹکا خان نے کیا، نیازی نے کیا اور بھٹو نے کیا۔ یحییٰ نے ٹکا اور نیازی جیسے سفّاک، انسانیت دشمنوں کو بنگالیوں کا صفایا کرنے کا ’’فریضہ ‘‘ ادا کرنے کو کہا اور ان دونوں نے یہ فریضہ یحییٰ خاں کی توقع سے بڑھ کر ادا کیا۔ ٹکا خاں کہتا تھا، بنگال کو بنگالیوں سے پاک کر دوں گا، نیازی نے کہا بنگالیوں کی نسل خراب کر دوں گا۔ بھارت نے حملہ بعد میں کیا، ان دونوں حضرات نے اپنے عزم پہلے پورے کر لئے، بھارت نے تو پھر آنا ہی تھا۔ع
نہ تم مسکراتے نہ یہ بات ہوتی۔
دونوں اپنے باس اور اس کے ہم شریک بھٹو کے منصوبے کے تحت چھ کروڑ بنگالیوں کو پاکستان کا باغی پہلے ہی بنا چکے تھے۔
___________________________
ایک بیان چھپا ہے پوچھا گیا ہے کہ کیا ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق سیکھا۔ جواب ہے کہ نہیں سیکھا۔ 16دسمبر کو اخبارات میں یہ خبر چھپی ہے کہ6لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی لاشیں ڈیرہ بگٹی سے ملیں۔ انہیں ٹکا خانوں اور نیازی خانوں نے کئی دن پہلے لاپتہ کیا، مسلسل تشدّد کرکے ہڈیاں توڑ دیں، پھر گولیوں سے چھلنی کرکے مسخ شدہ لاشیں ڈیرہ بگٹی پھینک گئے۔
ہم درآمدی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ بلاول زرداری
ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔
’ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔ ‘
ابو نثر
’’امریکا میں جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے پہلے بندر کی پیدائش‘‘
ہماری طرف سے امریکا کو اِس نومولود کی ولادت بہت بہت مبارک ہو۔ہمیں خوشی ہے کہ اب امریکا میں بھی جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ بندر پیدا ہونے لگے ہیں۔سو، اگرپیدائش کا یہ دعویٰ درست ہے توامریکا کو معلوم ہو کہ یہ بندرِ عزیزفقط امریکاہی کا پہلا بندر ہوگا۔ ورنہ ہمارے یہاں تو اِس قسم کے(جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے) بندر بہت پہلے پیدا ہوچکے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں پیداہوچکے ہیں۔سب کے سب ماشاء اﷲ خوب اچھی طرح جینیاتی طورپر تبدیل شدہ ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی چینل کی گُھنڈی گھمائیے۔ مکے لہرا لہرا کر۔۔۔ اورپونچھ پٹک پٹک کر ۔۔۔اُچھلتے ،کودتے، ناچتے:
گرتے ،سنبھلتے، جھومتے
مائک کے منہ کو چومتے
آپ کو یہ جینیاتی دانشوربندر نظرآجائیں گے۔(مگریہ ’’جینیاتی‘‘ ہونے سے پہلے تو ایسے نہ تھے)۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ ہمارے اصلی بندر بالکل فطری بندر ہیں۔جب کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کی ہرچیز بدلی بدلی ۔۔۔ مرے سرکار!۔۔۔ نظر آتی ہے۔نظریں تک بدل جاتی ہیں۔ اُن کا لباس، اُن کا رہن سہن، اُن کا اُٹھنا بیٹھنا، اُن کا حال چال، اُن کی بول چال، اُن کی چال ڈھال، اُن کا چھلانگیں مارنااور اُچھل اُچھل کر ایک پارٹی سے دوسری کی طرف پھلانگنا اوراسی طرح کی مستقل ’’آنیاں جانیاں‘‘ فرماناپھراِس پر اُن کا آپس میں اورباہم خوخیانا۔۔۔ سبھی کچھ اصلی اور نسلی بندروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کا چہر ہ بھی ہمارے سیدھے سادے معصوم دیسی بندروں کے چہروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ’’بندرانہ‘‘ ہوتا ہے۔ ’’قِردۃً خاسئین‘‘ جیسا۔ مگر واضح رہے کہ یہ اپنے آپ کو ’بندر‘ کبھی نہیں کہتے۔ ’’منکی‘‘ ۔۔۔ بلکہ ’’مونکی‘‘ کہتے ہیں۔ اور اِس بات پر(غلط سلط) انگریزی میں فخربھی کرتے ہیں کہ:
’’مِرا مزاج لڑکپن سے منکیانہ تھا‘‘
ہر اصلی چیز کی طرح اب ہمارے یہاں کے اصلی بندر بھی رفتہ رفتہ آثارِ رفتگاں کی طرح معدوم ہوتے جارہے ہیں۔اب یہاں جو بھی بندر ہیں وہ ہماری دھرتی کے بندر نہیں بلکہ ’’جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بندر‘‘ ہیں۔جینز بدل جائیں تو سب کچھ بدل جاتاہے۔خیالات بدل جاتے ہیں، نظریات بدل جاتے ہیں، لب و لہجہ بدل جاتا ہے، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی بدل جاتاہے۔ہمارے بندر کو تو اگر کہیں سے ہلدی کی گانٹھ بھی مل جاتی تھی تو وہ اُسی پر صبر شکر کرکے پنساری بن جاتا تھا۔ مگریہ’’ جینیاتی طورپرتبدیل کیے گئے بندر‘‘ تو ہلدی کی گرہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے، اورمحض پنساری بننے پربھی اکتفا نہیں کرتے، سرکاری قرضہ لے کر ہلدی کا پورا کارخانہ لگالیتے ہیں۔
حاضرین، ناظرین، سامعین، اور قارئین کو معلوم ہو کہ اب یہ بندر صاحبان ’کیلا‘نہیں کھاتے۔ ’’بنانا‘‘ کھاتے ہیں۔اور ملک کو بھی ’’بنانا ری پبلک‘‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ اپنے بچوں کے لیے اٹلی سے پیزا(Pizza) منگواتے ہیں۔ اورجب وہ پنجیری کی جگہ پیزا کھانے کے اچھی طرح عادی ہوجاتے ہیں تو اُنھیں امریکا ۔۔۔( نہیں بلکہ ’’اسٹیٹس‘‘)۔۔۔ چھوڑ آتے ہیں۔ اب خوبی قسمت سے اُن کے ہاتھ ناریل نہیں لگتا۔ اگر ہاتھ لگتا ہے توکوالالمپور سے ’’کوکونٹ‘‘اِمپورٹ کرنے کا لائسنس لگ جاتا ہے۔وہ زمانہ بھی لد گیا جب کہا جاتا تھا کہ :
’’بندر کیا جانے ادرک کاسواد؟‘‘
اب تو جس بندر کو دیکھیے وہ آنکھیں میچ کر کہتا ہوا ملے گاکہ:
’’سواد آگیا بادشاہو!‘‘
ہمارے اصلی ونسلی بندرتو مداری کی تربیت اور اُس کی سخت محنت کے بعد ڈگڈگی کی آواز پر ناچا کرتے تھے۔ خود محنت، مشقت کرنے کے بعد اپنا پیٹ پِیٹ پِیٹ کر حقِ محنت مانگا کرتے تھے۔ مگر جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کے لیے دیر تک ڈگڈگی بجانے کی قطعاً ضرورت نہیں پڑتی۔اُن کے جین میں (بلکہ جنین میں) کچھ ایسے خلیات داخل کردیے گئے ہیں کہ یہ ٹیلی فون کال کی محض پہلی گھنٹی پر ہی ناچنے لگتے ہیں۔ ڈالروں کی توصرف جھلک دیکھ کر ہی ناچ اُٹھتے ہیں۔ اس پر یہ گانا مستزاد۔۔۔ جو اِن پر ’حال‘ طاری کردتیا ہے:
’’ناچ میرے بندر ڈالر ملے گا ۔۔۔‘‘
اوراگرڈالر ملنا بند ہوجائیں تو بھنّا بھنّا کرمزید ناچنے لگتے ہیں کہ آخر ہمیں ڈالر کیوں نہیں مل رہے ہیں؟
ہمارے کچھ بندر جینیاتی طورپر کیا تبدیل ہوئے، ہرچیزتبدیل ہو گئی۔سب سے پہلے ۔۔۔ بلکہ بندر سے بھی تیز تیز۔۔۔ بندریا بدل گئی۔ بندریا بدلی تو ظاہر ہے کہ مسٹر اور مسز بندر کے بچے بھی بدل گئے۔بندروں کاسارا معاشرہ یعنی پوری کی پوری ’’بندرگاہ‘‘ہی تبدیل ہو گئی۔حتیٰ کہ ہمارے شہر کراچی کی ’’بندرروڈ‘‘ تک وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔اُس وقت تو ہم لہک لہک کر یہ گایا کرتے تھے کہ:
’’بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر!‘‘
مگر جب اُسی فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے ہم نے یہ تماشا دیکھا کہ اُلٹی گنگا بہ رہی ہے۔ یعنی ’’کیماڑی سے بندر روڈ کی طرف‘‘۔ اور بندرگاہ کی طرف سے ایک قطار بنائے ہوئے اونٹ گاڑیاں چلی آرہی ہیں جو پشت پرامریکی گندم لادکر لا رہی ہیں۔نیز ہر اونٹ کی گردن میں \”Thank You America\” کاقلادہ بھی لٹک رہا ہے۔۔۔ تو ہم بالکل ہی فٹ پاتھ پر ہوگئے۔ امریکی گندم ہماری رگ و پے میں اُتر گیا اور تب سے اب تک ہم فٹ پاتھ پر ہی کھڑے ہیں۔آگے نہیں بڑھ سکے۔
قصہ مختصر یہ کہ سب کے سب بدل گئے اور پل کے پل میں سب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئے۔تعلیم ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔۔۔ تہذیب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئی ۔۔۔ معیشت ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔۔۔ سیاست ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔ حتیٰ کہ حکومت بھی ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔باہر سے جین لا لاکے ہماری خاطر ’’جینیاتی وزیراعظم‘‘ بھی بنائے گئے۔ کھلائے گئے۔ پلائے گئے اورپھرسرپٹ بھگائے گئے۔اوراِن تمام ’’جینیاتیوں‘‘ کے ہاتھوں ہم سب بندروں کی طرح نچائے گئے۔
کہاجاتا ہے کہ: ’’جس کابندر وہی نچائے‘‘۔ سو وہ ان بندروں کو نچاتاتو وہی رہا ، جس نے ان کو بندر بنایاتھا۔ مگر باقیوں کو خود بندروں نے نچایا۔ نچایا اور خوب خوب نچایا۔بلکہ سچ پوچھیے تومحض ایسا نہیں ہوا کہ لوگ ایک ہی دفعہ ناچ کر رہ گئے ہوں۔نچانے والوں نے تو ایسا نچایا ۔۔۔کر تھیاتھیا۔۔۔ کہ ناچ ختم ہوگیا مگر ہم اب تک ناچے ہی جارہے ہیں۔یہ گیس کا ناچ ہے، وہ بجلی کاناچ ہے۔ یہ روٹی کا ناچ ہے، اُدھر دال ناچ رہی ہے۔ اِدھر ساری کی ساری سبزیاں الگ الگ ناچ رہی ہیں۔ مچھلی، گوشت، مرغی اور تازہ پھلوں کے توکیاکہنے۔۔۔ کیاکہنے۔۔۔ انھیں دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا۔۔۔ آسمان پر پریاں ناچ رہی ہیں!
17 دسمبر، 2013
تلاش گمشدہ- لبرل و سیکولر حضرات
16 دسمبر، 2013
رات تیرا اسکور کتنا رہا
بریگیڈیئر صدیقی کی کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس سے مشرقی پاکستان کے واقعات ہی نہیں بلکہ فوجکی سیاست میں ملوث ہونے اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی سوچ بھی واقعات کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ کس طرح یحیی خان اقتدار سنبھالنے سے ایک ماہ پہلے ہی ایوب خان کو ہٹا کر مارشل لا لگانا چاہتے تھے اور وہ سیاستدانوں کو بھیڑیے اور جوکرز قرار دیا کرتے تھے۔
بریگیڈیئر صدیقی نے بہت تفصیل سے نو ماہ تک ہونے والے فوجی کارروائی اور قتل و غارت کی کہانی بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح فوج کے بعض افسر بنگالیوں کو سبق سکھانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
اس ضمن میں انہوں نے اس وقت ڈھاکہ میں تعینات میجر جنرل محمد حسین انصاری کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں فوج کی زیادتیوں پر نالاں تھے اور ان سے کہتے تھے کہ ہمیں ہر عورت سے ہونے والے زنا بالجبر اور ہر قتل کا حساب دینا پڑے گا۔
اس کے برعکس مشرقی پاکستان میں فوج کے کمانڈر جنرل اے کے نیازی کے بارے میں صدیقی لکھتے ہیں کہ وہ جوانوں کے غیر انسانی اور بہیمانہ حرکتوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور اپنی آنکھوں میں شیطانی چمک کے ساتھ فوجی جوانوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ’شیرا کل رات تیرا اسکور کتنا رہا۔‘ یہاں اسکور سے مراد جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے والی عورتوں کی تعداد سے ہوتی تھی۔
بریگیڈیئر صدیقی لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی فوجیوں کی عورتوں کو بےحرمت کرنے کا دفاع کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ایک فوجی مشرقی پاکستان میں رہے ، لڑے اور مارا جائے اور جنسی عمل جہلم جاکر کرے۔‘
14 دسمبر، 2013
ھائے ! یہ رُسوائی، یہ بے بسی اور یہ بےچارگی
" میدان کے عین درمیان میں لکڑی کی سادہ سی میز رکھی ھے جسکے دونوں طرف بھارتی فوج اور سپاہی الگ الگ قطار میں کھڑے ھیں ، میز کے گرد پہلے جنرل اروڑا بیٹھتے ھیں اور ان کے برابر جنرل نیازی بیٹھ جاتے ھیں۔
یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ ذلّت آمیز لمحہ ھے ، مسّودہ میز پر رکھا ھے، جنرل نیازی کا ہاتھ آگے بڑھتا ھے اور ان کا قلم مسودے پر اپنے دستخط ثبت کر دیتا ھے ۔۔۔ پاکستان کا پرچم سر زمین ڈھاکہ میں سرنگوں ھو گیا ۔۔ جنرل نیازی اپنا ریوالور کھولتے ھیں اور گولیوں سے خالی کر کے جنرل اروڑا کے ہاتھ میں تھما دیتے ھیں ۔۔ جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سر عام اتارے جاتے ھیں ۔ ۔ ۔ ۔
ھجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ھوتی ھے ۔۔ جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف آتے ھیں جسکا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کر رکھا ھے۔۔۔
" قصاب، بھیڑیے اور قاتل" کا شور اُٹھتا ھے ، جنرل نیازی اپنی گاڑی میں بیٹھنے والے ھیں، ایک آدمی محاصرہ توڑ کر آگے بڑھتا ھے ، اور اُن کے سر پر جوتا کھینچ کر مارتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھائے! یہ رُسوائی، یہ بے بسی اور یہ بےچارگی، یہ ذلّت اور یہ ہزیمت، ھماری تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔۔"
( سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک )
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب
مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ تھا مگر اس کے باوجود مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے یہ تصور عام کیا ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں وہ فوجی قوت موجود ہی نہ تھی جو مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ناگزیر تھی۔ اس پہ طرہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں تعینات فوجی مشرقی پاکستان کو اپنا گھر ہی نہیں سمجھتے تھے۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ میں ڈھاکا پہنچا تو مجھے میرے فوجی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ رہنے کے لیے بھاری سامان نہ خریدنا کیونکہ پتا نہیں ہمیں کس وقت یہاں سے جانا پڑ جائے۔ چند برس پہلے جنرل (ر) حمیدگل سے ایک انٹرویو کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ ہماری فوج کا ڈسپلن بڑا زبردست ہے، یہ ٹوٹتا نہیں ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ کیسا ڈسپلن ہے کہ ملک ٹوٹ جاتا ہے مگر ڈسپلن نہیں ٹوٹتا! جنرل (ر) حمیدگل نے ہمارا سوال سنا تو کہنے لگے کہ آپ کے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس مثال کو مشرقی پاکستان کے حالات پر منطبق کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہتھیار ڈالنے والے 90 ہزار فوجیوں میں ایسے دس پندرہ ہزار فوجی تو ضرور ہونے چاہیے تھے جو کہتے کہ ہمارا ملک ٹوٹ رہا ہے اس لیے ہم مرجائیں گے مگر دشمن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ لیکن ادھر جی ایچ کیو سے ایک حکم آیا اور اُدھر تمام فوجیوں نے ڈسپلن کی پاسداری کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ بلاشبہ دس پندرہ ہزار فوجیوں کے ہتھیار نہ ڈالنے سے کچھ نہ ہوتا، لیکن ایک مثال تو قائم ہوتی اور ہم آج فخر سے کہتے کہ ہمارے کچھ فوجیوں نے مشرقی پاکستان کا دفاع ٹھیک اس طرح کیا جس طرح مادرِ وطن کا دفاع کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر کا دفاع کیا جاتا ہے۔