ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپناتے ایک تہذیب کو ہیں اور فائدے دوسری تہذیب کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟؟
ٹیپو سلطان کا سفر آخرت
وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے
امیر المومنین کی چوکیداری
ایک دلچسپ واقعہ
مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں
زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔
پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟
میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔
داستان ایک متکبر کی
سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف
میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا
عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ
23 فروری، 2013
ہم اپناتے ایک تہذیب کو ہیں اور فائدے دوسری تہذیب کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپناتے ایک تہذیب کو ہیں اور فائدے دوسری تہذیب کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟؟
22 فروری، 2013
بھلائی
بھلائی
فرحی نعیم
’’کیا ہوا؟‘‘ امی سے پہلے ثمر بولی۔
’’وہی جو اکثر ہوتا ہے، اپنے گھر کے آگے کی صفائی کی اور سارا کچرا ہماری طرف۔‘‘
’’تم بھی سارا کچرا واپس وہیں کردو۔‘‘ ثمر کو بھی غصہ آیا۔
’’ارے ارے، یہ کیا کہہ رہی ہو ثمر…! جائو عدنان کچرا صاف کردو اور سب تھیلی میں ڈال کر کچرے کے ڈبے میں ڈال دو۔‘‘ امی نے پہلے ثمر سے، پھر عدنان سے کہا۔
’’یہ کیا بات ہوئی! وہ باز نہیں آتے اور ہم ان سے کچھ کہنے کے بجائے الٹا صفائی کردیں! جب ہی تو وہ اور ڈھٹائی سے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘ عدنان تیز لہجے میں بولا۔
’’بیٹا چھوڑو، درگزر سے کام لو۔‘‘
’’امی آپ ہمیشہ یہی کہتی ہیں، وہ اس طرح ہماری شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘ عدنان کا غصہ کم نہیں ہورہا تھا۔
’’اچھا اب بس کرو… اُن کا عمل اُن کے ساتھ اور ہمارا ہمارے ساتھ۔‘‘ امی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
اور اکثر یہی ہوتا… محلے کا کوئی گھر ہو، امی کسی کی بھی ناانصافی کو پس پشت ڈالتیں اور درگزر سے کام لیتیں، جس سے تینوں بچے بڑے ناراض ہوتے۔
……٭٭٭……
’’مغرب کی نماز ہوگئی تم لوگوں نے لائٹ نہیں جلائی؟‘‘ ثمر نے عدنان سے پوچھا۔
’’میں نے تو جلائی تھی، شاید سیور خراب ہوگیا، ابھی دیکھتا ہوں۔‘‘
عدنان یہ کہہ کر باہر گیا اور تھوڑی ہی دیر میں واپس پلٹا۔ ’’وہاں سے تو سیور ہی غائب ہے۔‘‘
’’ہائیں کیا کہہ رہے ہو!‘‘ ثمر حیرانی سے بولی۔
’’صحیح کہہ رہا ہوں… لگتا ہے گلی کے کسی لڑکے نے اتار لیا، صبح تک تو تھا۔‘‘
’’یہ سیور کیا ٹوٹ گیا؟‘‘ اسی وقت بڑے بھائی عرفان گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
’’بھائی کسی نے سیور نکال لیا‘‘۔ عدنان چڑچڑا ہورہا تھا۔
’’ہوں…! مجھے لگتا ہے ضرور یہ آفتاب کی حرکت ہوگی۔ ایک ہفتہ سے ان کے دروازے کے باہر لائٹ نہیں جل رہی تھی اور آج جل رہی ہے… میں آتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ شکر ہے انہوں نے بلب لگا لیا ورنہ اس طرف بڑا اندھیرا رہتا تھا۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ ہمارا ہی بلب اتار کر لگایا ہے۔‘‘ عرفان غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے بولا۔
’’میں ابھی وہاں سے اتار لاتا ہوں۔‘‘ عدنان یکدم کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
’’ایک منٹ ٹھیرو عدنان‘‘… اسی وقت امی کی آواز آئی۔
’’جی امی‘‘… عدنان رک گیا۔
’’پہلے مجھے تم دونوں یہ بتائو کہ کیا آفتاب کو بلب اتارتے ہوئے کسی نے دیکھا تھا؟‘‘
’’امی اتارتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن وہ ایسا ہی لڑکا ہے، وہ تو…‘‘
’’بس، جب نہیں دیکھا تو کسی کو مورد الزام بھی نہ ٹھیرائو۔‘‘ امی نے عدنان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’لیکن امی! وہ اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔ ابھی دیکھیں گے ہم، تو پتا چل جائے گاکہ بلب نیا ہے یا پرانا، اور اس سے میں اچھی طرح اگلوالوں گا۔‘‘ عرفان بھی جلدی سے بولا۔
’’بیٹا کیوں کسی کو ہم الزام دیں! چھوڑو رہنے دو، تم بازار سے نیا لا کر لگا دو۔‘‘ امی نے ہمیشہ کی طرح درگزر سے کام لیا، جس پر وہ امی کو تو کچھ نہ کہہ سکے لیکن منہ بنا کر وہیں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’امی ہمیشہ یہی کرتی ہیں، کوئی کیسی ہی زیادتی کر جائے لیکن یہ…‘‘ عرفان سر جھٹک کر بولا۔
’’حالانکہ اب کہاں ایسی بھلائی کا زمانہ ہے! اب تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا پڑتا ہے ورنہ لوگ کمزور کو دبا لیتے ہیں۔‘‘ عدنان بھی بھائی کی تائید میں بولا۔ ساتھ ہی ثمر نے بھی گردن ہلائی اور بولی:
’’تو اور کیا، اب شرافت کا وقت نہیں رہا۔ لیکن ایک ہماری امی ہیں… جب ہم پر کوئی مشکل پڑے گی نا، تب دیکھیں گے یہ سب لوگ کہاں ہوں گے۔‘‘
اور پھر یہ زیادہ دنوں کے بعد کی بات نہ تھی، تینوں بچے اسکول، کالج گئے ہوئے تھے، اس دن صبح سے امی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی لیکن انہوں نے زبان سے کچھ نہ کہا تھا کہ مبادا بچے پریشان ہوجائیں۔ لیکن گیارہ بجے تک ان کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔ ان کا بلڈ پریشر خاصا بڑھ گیا تھا۔ تب انہوں نے بمشکل دروازے پر جا کر گلی میں جھانکا اور انہیں اپنے پڑوس کا لڑکا نظر آیا۔ انہوں نے اشارے سے اسے بلایا اور اپنی طبیعت کی خرابی کی بابت اسے بتایا۔ وہ فوراً ہی گھر بھاگا اور اپنی والدہ کو لے آیا۔ پھر وہ دونوں ان کو ہی نزدیکی اسپتال لے گئے جہاں انہیں فوری طبی امداد پہنچائی گئی۔ بروقت اسپتال لے جانے سے ان کی حالت بہت سنبھل گئی تھی۔ تینوں بچے جب گھر آئے تو انہیں اپنی والدہ کا پتا چلا اور وہ اسپتال بھاگے۔
’’شکر کریں آپ کی والدہ بروقت اسپتال پہنچ گئیں ورنہ بہت کچھ ہوسکتا تھا‘‘۔ عرفان سے ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے۔ اور عرفان کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ یہ وہی پڑوسی تھے جو ان کو اگرچہ تنگ کرتے لیکن ان کی امی کی افہام و تفہیم کی عادت کی وجہ سے سب ہی نے ایسے وقت میں بھاگ دوڑ کرکے ان کی صحت یابی میں حصہ ڈالا تھا۔ اور تو اور محلے کا سب سے شرارتی اور نالائق لڑکا آفتاب ہی ان کو اپنی گاڑی میں اسپتال لایا تھا اور فوری انجکشن اور دوائیوں کا بھی اس نے ہی انتظام کیا تھا۔ ’’امی ٹھیک ہی کہتی تھیں، اگر ہم بھی ان لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرتے تو آج ایسے وقت میں کون ہماری مدد کرتا۔‘‘ عدنان کہہ رہا تھا۔
’’ہاں صحیح کہتے ہو… ہم لوگ تو تھے نہیں، اور دیکھو سارے ہی محلے والے امی کی خیریت کو آرہے ہیں، اور کچھ تو اپنی غلطیوں پر نادم بھی ہیں۔‘‘
عرفان نے عدنان کی بات آگے بڑھائی۔
’’نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، یہ آج ہم نے جان لیا۔‘‘ ثمر آہستہ سے بولی اور دونوں بھائیوں نے آج اس حقیقت کو مان لیا تھا۔
درد کی دوا کیجیے!!
درد کی دوا کیجیے!!
……٭……
’’ارے بھئی بلا کی گرمی ہے، باہر تو دھوپ بھی بہت تیز ہے، برا حال ہوگیا… ذرا کوئی پانی تو پلا دو۔‘‘ دادا جان نے باہر سے آتے ہی صدا لگائی تو بچوں کی فوج ایک دوسرے سے سبقت اور دادا جان کی شاباشی مل جانے کے چکر میں ایک ساتھ بھاگی۔ علی جو تمام بچوں میں زورآور اور زیادہ شریر تھا، سب سے پہلے پانی کا گلاس بھر کے دادا جان کی طرف لپکا۔ اُس کا توازن کب اور کیسے بگڑا اُسے خبر بھی نہ ہوئی اور گلاس دادا جان کے ہاتھوں میں جانے کے بجائے ان کے قدموں میں ہی کرچی کرچی ہوگیا۔ ’’ارے جنگلی انسان! یہ تُو نے کیا کیا؟ کل ہی پورے چھ سو کا سیٹ لائی تھی اور آج تُو نے گلاس توڑ ڈالا۔ ارے کمبخت! تجھ سے کبھی کوئی اچھا کام بھی ہوا ہے؟‘‘ یہ علی کی دادی جان تھیں جن کا غصہ یہیں پر ٹھنڈا نہ ہوا البتہ علی کے منہ پر زوردار اور گرما گرم طمانچے لگا کر کچھ تسلی ضرور ہوگئی۔ بے چارا علی!!
شاباشی تو کیا ملنی تھی، دو عدد زناٹے دار تھپڑ اور چند گالیاں ضرور مل گئیں۔
……٭……
ثمرہ یونیورسٹی کا کام کررہی تھیں کہ نہ جانے ان کی چار سالہ بھانجی جویریہ کو کیا سوجھی، اُس نے بھی سوچا ہوگا کہ خالہ کو ڈرانا چاہیے، ایک دم میرے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے تو ڈریں گی اور پھر خوب ہنسیں گی… تبھی اُس نے ثمرہ کے عقب میں پہنچ کر اپنی تمام تر توانائی کو جمع کرکے زوردار نعرہ لگایا ’’ہائوں!!‘‘ ثمرہ کی تو چیخ نکل گئی، ان صاحبہ نے آئو دیکھا نہ تائو، پہلے تو ایک تھپڑ جویریہ کے رسید کیا اور پھر کان مروڑ کر کمرے سے باہر نکالتے ہوئے کہا: ’’بالکل جانور ہو جانور! بلکہ جانوروں سے بھی بدتر… نجانے کب تمیز سیکھو گی؟ اتنا اہم اسائنمنٹ بنا رہی تھی، دماغ ہلا کر رکھ دیا، اپنی اماں کے پاس کیوں نہیں جاتیں، ان کا بھیجا کھائو نا!! نکلو یہاں سے اور خبردار جو دوبارہ یہاں نظر آئیں، سمجھیں!!‘‘
ہائے بیچاری جویریہ…!!!
……٭……
’’بڑی امی! مجھے بھی احمد کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ آپ اُسی کو کھلائے جارہی ہیں مجھے بھی دیں نا، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ننھے عثمان نے ملتجی انداز میں کہا، جس کے جواب میں ان کی ’’انتہائی بڑی‘‘ امی نے چہرے کو مزید بگاڑتے ہوئے ارشاد کیا: ’’چل یہاں سے بھوکے، ندیدے، ہمارے کمرے میں ہی بھوک ستاتی ہے تجھے، اپنی ماں سے کیوں نہیں کہتا! میں احمد کی امی ہوں، تیری آیا نہیں ہوں… اب جاتا ہے یہاں سے کہ یہیں کھڑے کھڑے میرے بچے کے پیٹ میں درد کروائے گا!‘‘
افسوس!! معصوم عثمان!! جسے پہلے بھوک ستا رہی تھی اور اب اپنی بڑی امی کی زبانِ مبارک سے نکلے یہ حسین الفاظ کاٹنے کو دوڑ رہے تھے۔
……٭……
’’فہد تم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے! سکون تو چھو کر نہیں گزرا تمہیں… ارے یہ کیا! شاہ زیب سے چپس کا پیکٹ کیوں لے رہے ہو تم! وہ رو رہا ہے، واپس کرو اُسے۔‘‘
لیکن پھپھو یہ تو میرا ہے، پپا نے دلوایا ہے مجھے، میں نہیں بلکہ شاہ زیب مجھ سے چھین رہا ہے۔‘‘ فہد نے وضاحت کی۔ ’’لیکن ویکن کچھ نہیں، دیکھ نہیں رہے وہ کتنا رو رہا ہے! تمہاری طرح ڈھیٹ تھوڑی ہے۔ بہت حساس ہے شاہ زیب۔ تم اور لے لینا یہ اسے دے دو۔‘‘ عنابیہ پھپھو نے چپس کا پیکٹ تقریباً چھینتے ہوئے فہد کو باور کروایا اور اسے شاہ زیب کو تھما دیا، جس سے شاہ زیب کا بجتا ہوا باجا تو ٹھنڈا پڑ گیا البتہ فہد کے اندر آگ سی دہکنے لگی۔ وہ بچپن ہی سے اس سلوک کو بھگت رہا تھا۔ شاہ زیب گورا اور شکل میں ددھیال کے مشابہہ تھا اور ان کی اماں بھی خاندان کی ہی تھیں، جب کہ فہد سانولا، شکل میں ننھیال کے مشابہہ تھا اور ان کی اماں بھی غیر تھیں، جس کی بدولت شاہ زیب سب گھر والوں کی آنکھ کا تارا تھا اور فہد محض تارا ہی تھا وہ بھی بجھا ہوا۔ اس سلوک نے فہد کی طبعیت میں ضد، غصہ، چڑچڑاپن، بدزبانی اور جھگڑتے رہنے جیسی خصلتیں پیدا کردی تھیں۔ اُس سے ہمیشہ چیز چھین کر شاہ زیب کو دے دی جاتی اور وجہ یہ بتائی جاتی کہ ’’بھائی ہے تمہارا! چلو دے دو اُسے، ارے بھئی مل کر کھیلتے ہیں، وہ روتا ہے نا!!‘‘ فہد کا دل چاہتا کہ کہے ’’بھائی تو میں بھی ہوں شاہ زیب کا، تو پھر اُس کی چیز لینے پر میری پٹائی کیوں ہوتی ہے؟ اُس کو کیوں نہیں سمجھایا جاتا؟ روتا تو میں بھی ہوں، میرے آنسو آپ کو نظر کیوں نہیں آتے؟ میرے رونے سے آپ کے دل کو کچھ کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
……٭……
یہ چند مثالیں ہیں جب ہم اپنا غصہ بچوں پر نکالتے ہیں، ان کی شخصیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کے لیے غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
اور اگر بچے ہماری ہی کہی ہوئی کوئی ناگوار بات یا گالی دوہرا دیں تو بس!! پھر تو خیر نہیں اس بچے کی… مار مار کر بھرکس نکال دیتے ہیں… اس کو ایک بدتمیز، بداخلاق و بدتہذیب بچہ کہتے کہتے ہمارا منہ نہیں تھکتا، اور کمالِ بے نیازی سے کہتے ہیں: ’’نجانے اس نے یہ گالی ’’کہاں‘‘ سے سیکھی؟ گویا جن بھوت سکھا گئے ہیں!!
بعض دفعہ بچوں کی غلطی پر ماں اور ننھیال کو ہر برائی کا ذمہ دار ٹھیرا دیا جاتا ہے۔ چیزیں توڑنے پر جب بچوں کو مارا جاتا ہے، صلوٰتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ بے چارا بھی سوچتا ہوگا کہ میں اور میرے جذبات زیادہ قیمتی نہیں۔ ہاں یہ چیز جو ٹوٹ گئی، زیادہ قیمتی تھی… میرے دل سے بھی زیادہ قیمتی!!
کچھ جگہوں پر یہ بھی تجربے میں آیا ہے کہ بعض والدین بچوں کو مارنے پیٹنے کے خلاف ہوتے ہیں اور انہیں پیار سے سمجھانے یا زبانی سختی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اپنے گھر کے ’’چند بڑوں‘‘ کو خوش کرنے کے لیے، ان کے دبائو میں آکر وہ بچوں کو مارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بچوں میں موجود غصے، چڑچڑے پن، ضد، ہٹ دھرمی اور ایسے دوسرے رویوں کی وجہ رشتوں کی طرف سے ناانصافی، بچوں کے درمیان غیرمساوی سلوک اور اس سے ملتے جلتے دیگر رویّے ہیں۔ اسی طرح بچوں پر کیا جانے والا زبانی، جسمانی و جذباتی تشدد بھی ان کی شخصیت کو تہہ و بالا کرڈالتا ہے۔
خدارا! یہ پھول ہیں… حسین، نرم و نازک، معصوم پھول… جو قدرت نے آپ کو عطا کیے ہیں۔ ان کو کچلیں مت… ان سے ان کی شرارتیں، خوبصورتی، خوشبو مت چھینیں… یہ پرندے ہیں جو اپنی اڑان اڑنا چاہتے ہیں، ان کے پر مت کاٹیں… یہ بچے ہیں، ہماری طرح کے ’’منافق بڑے‘‘ نہیں۔ بچے شرارتیں نہیں کریں گے، چیزیں نہیں توڑیں گے، شور شرابہ نہیں کریں گے، لڑیں گے نہیں، لڑ کر دوبارہ مان نہ جائیں گے تو ان کو بچہ کون کہے گا؟؟ سوچیں، جن گھروں میں یہ شرارتیں نہیں ہیں، جن گھروں میں چیزیں توڑنے والے یہ فرشتے نہیں، جہاں سناٹے ہیں، خاموشی ہے، ویرانی ہے، وحشت ہے، شاید انہی کو دیکھ کر ہم ان پھولوں کی قدر کرسکیں!! بچوں سے اُن کی عمر کے مطابق رویّے کی توقع رکھیں اپنی عمر کے مطابق نہیں۔ ان کا دل نہ توڑیں۔ چیزیں اور آسکتی ہیں لیکن وہ، ان کے دل اور ان کے جذبات نایاب ہیں جو کسی بھی دکان پر کسی قیمت پر دستیاب نہیں۔ ان کو ایک بھرپور بچپن گزارنے میں ان کی مدد کیجیے۔ انہیں مستقبل کا معمار بننے اور آئندہ آنے والے کل میں ایک باکردار، بااعتماد، باعمل، سچا، بے باک، نڈر، شریف انسان بننے میں ہاتھ بٹائیے۔ ان کی کردارکشی کے بجائے ان کی کردار سازی کیجیے۔ ان کو سناتے رہنے کے بجائے کبھی ان کی بھی سنیے۔ ان کے ساتھ کھیلئے، کہانیاں سنائیے، دوستی کیجیے۔ آج کی نسل زیادہ ذہین اور سمجھدار ہے، وہ زیادہ وقت اور توجہ چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدم توجہی کی بناء پر بعض بچے چند تخریبی شرارتیں کرنے لگتے ہیں تاکہ کسی طرح اپنے والدین اور دیگر رشتوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیں۔ انہیں محبت، خلوص، پیار، توجہ، وقت اور سب سے بڑھ کر عزت و احترام دیجیے۔ ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کے بجائے ان کو عزت کرنا اور عزت دینا سکھائیے۔ رنگ، رشتے اور حیثیت کی بنیاد پر بچوں کو ایک دوسرے پر کم یا زیادہ اہمیت دینا چھوڑ دیجیے۔ خدارا! ان منقی رویوں کو بدلیے۔ ہم اگر آج اپنے بچوں کو یہ سکھائیں گے تو کل یہی سوچ لے کر یہ بچے بڑے ہوں گے۔
ہمارے سامنے ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے جس پر عمل کا قرآنی حکم موجود ہے۔ بتائیے کیا آپ نے اس اسوہ میں ایک جھلک بھی ایسی دیکھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بچے کو مارا، برا بھلا کہا؟ برا بھلا کہنا تو دور کی بات، کیا کوئی سخت لفظ تک کہا؟ غلطیوں پر معاف کیا، درگزر سے کام لیا یا ہماری طرح خدائی فوجدار بن گئے؟؟
کیا جواب ہے ہمارے پاس؟ کیا تصور ہے ہمارے سامنے اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا؟؟ جواب تو آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی!! تو خدارا!!! اس درد کی دوا کیجیے…!!