ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

23 فروری، 2013

ہم اپناتے ایک تہذیب کو ہیں اور فائدے دوسری تہذیب کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ غصے میں لال پیلی ہو رہی تھیں۔ اپنے کلینک میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے چائے والے کو خوب سنائیں’’تمہاری مائیں بہنیں نہیں ہیں؟ یوں آنکھیں گاڑ کر دیکھتے ہو… نظریں نیچی رکھا کرو‘‘… وہ کھلے بال، گلے میں ڈوپٹہ اور نک سک سے تیار تھیں۔ جھک کر انہوں نے شیشے کا دروازہ کھولا اور پائوں پٹختی اندر چلی گئیں۔ چائے والا بڑبڑاتا ہوا اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپناتے ایک تہذیب کو ہیں اور فائدے دوسری تہذیب کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟؟

3 comments: