ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

9 مئی، 2013

دولے شاہ کے چوہے




دولے شاہ کے چوہے :

آپ نے بھی میری طرح کئی بار دولے شاہ کے چوہوں کو دیکھا ہو گا کبھی ان سے خوف کھایا ہو گا اور کبھی ان پر ترس بھی کھایا ہوگا، دل میں ان کی بیچارگی کا خیال بھی آیا ہو گا۔
کیا آپ نےکبھی یہ سوچا کہ یہ دولے شاہ کے چوہے کیا ہوتے ہیں کہاں سے آتے ہیں اور ان کا کیا مصرف ہوتا ہے۔

شاہ دولا ایک پیر کا نام ہے جس کا مزار گجرات میں ہے اور ہر سال اس کا عرس بھی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یوں ہوتا ہے کہ جن بچوں کے سر پیدائشی طور پر چھوٹے ہوتے ہیں ان کو اس مزار پر بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کو پالا جاتا ہے اور پھر بڑے ہونے پر بھیک مانگنے کے کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض ماں باپ جن کی اولاد نہیں ہوتی یا ہوتی ہے اور مر جاتی ہے یا کسی اور سبب سے، منت مانگتے ہیں کہ وہ اپنا بچہ شاہ دولا کے مزار کی نذر کر دیں گے۔

ایسے بچے گو پیدائشی طور پر صحت مند ہوتے ہیں مگر ان کے سر پر ایک آہنی خول چڑھا دیا جاتا ہے اور پھر ان کا سر چھوٹا ہی رہ جاتا ہے. اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے جو کہ بھیک مانگنا ، کھانا اور پھر بھیک مانگنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ذہنی طور پر بھی چھوٹے رہ جاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کے قابل رہتے ہیں نہ زند گی کی بھاگ دوڑ میں حصّہ لے سکتے ہیں۔

ہم پاکستانی بھی جب پاکستان بنا اور ہم پیدا ہوئے تو بہت صحت مند تھے بڑے توانا تھے ایک نظریے کی کوکھ سے جنم لیا تھا اور دنیا لرزہ بر اندام تھی کہ نہ جانے یہ دنیا میں کیا کر گزریں گے۔ اگر عالم اسلام کے یہ قائد بن گئے تو عالم اسلام کہیں کفر کی طاغوتی قوتوں کو ملیا میٹ ہی نہ کر دے پاش پاش ہی نہ کر دے۔

پھر دنیا بھر کے قابل ترین ذہن سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں سے رابطہ کیا جو سیاست میں بھی تھے، بیوروکریسی میں بھی، فوج میں بھی اور صنعت کاروں میں بھی اور پھر انہوں نے پاکستانی قوم کو دولے شاہ کا چوہا بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک بڑے ہی آسان اور سیدھے راستے کا انتخاب کیا اور اپنے ایجنٹوں کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی اور صلے میں ان کی اور ان کی نسلوں کے مفادات کے تحفظ کا ذمہ اٹھایا۔

فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس ملک کے لوگوں کے ذہنوں پر انگلش کا خول چڑھا دیا جائے۔ یہ تمام عمر اس خول میں ہی قید رہیں، نہ ان کی علم تک رسائی ہو، نہ ان کو تحقیق کا پتا چلے، نہ سائنس کا، نہ ٹیکنالوجی کا اور ہمارے ایجنٹ ان کو بتاتے رہیں کہ انگلش ہی ترقی کا واحد ذریعہ ہے انگلش سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے دروازے کھلتے ہیں اور دنیا میں رابطے کی واحد زبان انگلش ہے۔

66 سال ہو گئے یہ خول چڑھی ہوئے پاکستانی قوم دولے شاہ کے چوہوں کا روپ دھار چکی ہے، وہ قوم جس نے دنیا کا امام بننا تھا انگریزی کی غلام بن چکی ہے، اس کو بھی روٹی، پیسے اور کرسی کے سوا کچھ نہیں چاہیے، دنیا بھر میں بھکاری اور گداگر کے نام سے پہچانی جاتی ہے، جس کا جی چاہتا ہے جوتے اتروا لیتا ہے، جو چاہے کپڑے اتار لیتا ہے، جس کو جتنی دیر چاہیں کسی بھی جگہ روک کر پوچھ گچھ شروع کر دیتے ہیں اور اس عمل کے لئے مقام، وقت اور دورانئے کی کوئی قید نہیں۔

ہمیں بھی اب صرف دو وقت کی روٹی چاہیے، چاہے اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے، دولے شاہ کے چوہوں کو بھی تو یہی چاہیے۔
کل صبح جب منہ دھونے کے لئے آئینے کے سامنے کھڑے ہوں تو اپنی شکل کو غور سے دیکھیں اور ہاں سر کے سائز پر ضرور غور کریں۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں