ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

28 فروری، 2014

27 فروری، 2014

میرے گریبان میں لگا خون تمہارا ہے۔ از جنرل (ر)شاہد عزیز

میرے جیٹ طیارے نیلے آسمان کی سرد ہواؤں کو چیرتے ہوئے مسلم بستیوں کی جانب رواں دواں ہیں۔ زمین سے اتنی بلندی پر مجھے کچھ خاص دکھائی نہیں دے رہا۔ ہر شے بہت چھوٹی اور بے وقعت محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں یہ نہیں دیکھ پاؤں گا کہ میں کن کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ یعنی بھوری آنکھوں والے معصوم بچے۔ میرے حلق میں کچھ کھٹکا۔ یہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں؟……لیکن میں تو اس کا ذمہ دار نہیں۔ یہ فیصلہ میرا تو نہیں۔ میں تو صرف اپنی ملازمت کر رہا ہوں، جنہوں نے یہ حکم دیا ہے ذمہ داری بھی انہی کی ہے۔ اور یہ بچے؟……یہ محض ضمنی نقصان ہے۔ جی ہاں، یہ ایک قابلِ قبول اصطلاح بن چکی ہے۔ لیکن میرے دل کی گہرائیوں میں ایک خلاء کا احساس پر نہیں ہو پا رہا۔
اب ہم ہدف کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ مجھے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ میں تو بس ایک سپاہی ہوں، ایک قاتل مشین جو اپنا کام کر رہی ہے۔
پریتی تشکیل Phantom Formationسوئچوں کا جائزہ لو، فضا سے زمین۔
میں نے اپنے ونگ مین کو حکم دیا، اور مرکزی ہتھیار کے سوئچ کو گھمایا۔ میں مطمئن ہوں کہ میں ان کے بکھرتے ہوئے جسموں کو نہیں دیکھ پاؤں گا ،نہ ہی ان کی چیخیں سن پاؤں گا۔ میں نے حملے کیلئے جیٹ طیارے کی نوک کو زمین کے رخ پرکیا۔
پریت قیادت میں ہے۔ بصری ہدف
میری ہتھیلیاں پسینے سے تر ہیں۔ جیسے جیسے میری بلندی کم ہو رہی ہے ویسے ویسے زمین پر گھر بڑے نظر آرہے ہیں۔ جیسے جیسے میں پستی کی طرف آرہا ہوں میر روح کانپ رہی ہے ۔ اب مستحکم۔ میں ایک لمبا سانس لیتا ہوں۔
اور سرخ بٹن دبا دیتا ہوں، جیسے ہی بم نکلتے ہیں تو میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک کپکپاہٹ اور ہلکا سا جھٹکا محسوس ہو تا ہے۔
قیادت ختم ہوتی ہے پمپنگ سیدھے رخ مڑیں۔
اپنے کندھوں پر بھاری وزن کے ساتھ میں تباہ شدہ گھروں میں سے آگ اور دھواں اٹھتا دیکھ رہا ہوں۔ کوئی چیخوں کی آواز نہیں، صرف خاموش دھواں۔ محض ضمنی نقصان۔ میں گھر کی طرف واپس مڑتا ہوں،اپنے بچوں کی طرف۔ میں ان کو اس تمغے کے بارے میں نہیں بتاؤں گا جو میں نے پہن رکھا ہے بلکہ میں ان کو پریوں کا افسانہ سناؤں گا۔
 

ہوا کا سینہ چیرتے ہوئے سنسناتے ہوئے بم اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ منہدم ہوتی ہوئی دیواریں ،گرتی ہوئی چھتیں ، ملبہ، دھول،دھواں، اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں آوازیں ، سسکیاں اورخاموش آہیں، سب مل کر اس گردش کرتی دنیا میں دکھ او ر درد کا ایک نیا باب رقم کرتی ہیں۔ ایک نوجوان دھول میں سے اٹھتا ہے، اور لوہے اور پتھروں کے ڈھیرمیں سے اپنی بہن کو کھینچ کر نکالتا ہے۔ جو خون میں لت پت مگر ابھی زندہ ہے۔ اپنے بے جان بچے کو سینے سے لگائے خاموشی سے کچھ پڑھ رہی ہے، شاید کہ وہ کوئی دعا ہے۔طبیب کہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے گی لیکن اپنی بینائی اور سماعت کھو چکی ہے۔ اور یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ وہ اپنے بچے کے علاوہ اب کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔ اور اسکی معصوم آوازو ں کے علاوہ کچھ اور سننا بھی نہیں چاہتی۔ اور اس کیلئے دیکھنے کو بچا ہی کیا ہے؟جلتے ہوئے مزید گھر؟ اور سننے کیلئے بچا ہی کیا ہے؟بے غیرت مسلم حکمرانوں کی بڑبڑاہٹ؟کیا کوئی ہوشمندی بچی بھی ہے یہاں؟اس نوجوان کیلئے ہوشمندی تو بس جنون ہی ہے۔ اب وہ دوسرے پار جائے گا اور نہ صرف خود مر جائے گا بلکہ اپنے ساتھ ان ہوشمندی کے بہروپیوں کو بھی ساتھ لے جائے گا، جنہوں نے اپنا ضمیر شیطان کو بیچ دیا ہے۔ اب اس کو نہ ہی کسی کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی پابندی۔ اب وہ دہشت ہے اصل کرداروں کو پہچان گیا ہے۔
ارضِ مقدس، فلسطین سے آتی تصویریں دلخراش ہوتی ہیں۔ملبے کا ڈھیر جوکہ کبھی گھر ہوا کرتے تھے، کچلے ہوئے اجسام نہیں ملبے سے نکالا جا رہا ہے ۔فٹ پاتھ پر قطار میں رکھے نومود بچوں کی میتیں ، ایک بے بسی سے روتی کرب میں مبتلا بزرگ خاتون۔میں سوچتا ہوں کہ یہ مناظر کہیں پاکستان کے کسی حصے کے تو نہیں، اور دبے ہوئے ضمیر کا یہ پائلٹ کہیں ہمارا تو نہیں۔
کیا عجیب بات ہے کہ ارضِ مقدس فلسطین سے سے گھر لوٹتے وقت ہم اپنے رویوں کو جذبات سے ہٹا کر خود ساختہ مصلحت کوشی کی جانب لے جاتے ہیں، اور فوراً جانبدار بن جاتے ہیں۔ کیا ہم جذبات کو مصلحت سے الگ کر سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پیارے ہی داؤ پر لگے ہوں، وہ ضمیر جودوسروں کے درد پر بے چین نہ ہوں، مردہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں ۲۰ ہلاکتیں، دلبدین میں ۴۰ افراد قتل، ڈبوری میں ۸۰، محض اعدادو شمار ہی بڑھ رہے ہیں۔ جن کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ او رپتھر دل دوبارہ اپنے معمولاتِ زندگی میں کھو جاتے ہیں۔


ٹیلی ویژن پر جاری مباحثے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم بحیثیتِ معاشرہ بے حسی کی کس سطح پر کھڑے ہیں۔ نام نہاد ہوشمندی کے راستے پر چلتے رہنے کے دہائیوں کا لا متناہی سلسلہ ہوشربا ہے ۔ ہم نے اپنا سب کچھ قابلِ فروخت بنا دیاہے، اپنی عزت، غیرت، سلامتی، آزادی، اور اپنے نظریات۔ یہاں تک کہ اپنا رب بھی۔ اور اس کے بدلے ہم نے حاصل کیا کیا ہے؟

پچھلے ۱۲ سالوں سے ہم اپنے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ٹھونس رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ پچھلے ۱۲ سال سے ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں، اور اپنی نام نہاد حکمت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ جبکہ کٹھ پتلی سربراہ ہمارے ضمیر سے کھیل رہا ہے۔ کیا بادی النظر میں اس کا کوئی اختتام یا امید کی کوئی کرن بھی ہے؟جی ہاں، یہ جنگ تو ہماری ہی ہوتی لیکن ہم نے بدقسمتی سے غلط خیمہ چن لیا ہے۔
 
اور ابھی تو اس سے بھی بد تر ہمارا منتظر ہے۔ وہ اب ہمیں اندرونی انہدام کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ غیر مسلح سیاسی تسلط کا مرحلہ اب اختتام پزیر ہے۔ اب وقت آگیا ہے آخری اقدام کا، یعنی معاشرے میں اس حد تک خانہ جنگی اور انتشار کروایا جائے جو کہ ملک کے حصے بخرے کرنے پر منتج ہو جو کہ ایٹمی ہتھیاروں سے غیر مسلح کرنے کا آغاز ہو گا۔ اور اس تمام تر تباہی میں حکومت حصہ دار بنی ہوئی ہے۔ ان کی لوٹ مار بذاتِ خود امریکی لوٹ مار ک حصہ ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ طبقہ ہمارے دشمن کے ہاتھ میں کھیلتا ہوا ہمارے محرکات تک کی توہین پر تلا ہوا ہے۔ جس سے ہمارے معاشرے میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور مایوسی اپنے عروج پر ہے۔ کراچی جل رہا ہے، بلوچستان کو غیر مستحکم کیاجا رہا ہے اور دونوں اطراف میں دہشت کو فروغ دیا جا رہاہے۔ یہ کھیل ہماری اندرونی غلامانہ حصہ داری کے بغیر نہیں کھیلا جا رہا، اصل مجرم فرار ہو جائیں گے۔ جن کا یہاں کوئی مفاد نہیں ہے۔ ہمیں سازشی مفروضوں کی اصل حقیقت کو سمجھنا ہو گاکہ شاید سازش وہی ہے کہ جو ظاہر میں ہے اور سچ وہ ہے جسے چھپایا جا رہا ہے۔

26 فروری، 2014

اصلی مساوات


سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور اس کے ارد گرد قحط سالی ہو گئی۔ ہوا چلتی تو ہر طرف خاک اڑتی نظر آتی ۔ چنانچہ اس سال کو ”عام الرمادة “ یعنی خاک اڑنے کا سال کہا گیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ گھی، دودھ اور گوشت اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک لوگ پہلے جیسی زندگی پر نہ لوٹ آئیں۔ایک دفعہ بازار میں گھی کا ایک ڈبہ اور دودھ کا کٹورا بکنے کے لیے آیا۔کسی خادم نے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے لیے یہ چیزیں چالیس درہم میں خرید لیں اور عرض کیا: امیر المومنین! الله نے آپ کی قسم پوری فرما دی ہے ۔ الله تعالیٰ آپ کو زیادہ اجر سے نوازے! ہم نے آپ کے لیے یہ اشیائے خوردنی خریدی ہیں قبول فرمائیے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! تم نے میرے لیے اتنے مہنگے داموں یہ چیزیں کیوں خریدیں؟ جاؤ! انہیں صدقہ کر دو۔ میں کھانے میں اسراف ہرگز پسند نہیں کرتا، پھر فرمایا: مجھے عوام کے دکھ کا اس وقت تک صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا جب تک خود میں بھی انہی حالات سے نہ گزروں جن حالات سے عوام گزر رہے ہیں۔

پھر ایک موقع ایسا آیا کہ مہنگائی ہو گئی۔خاص طور پر گھی مہنگا ہو گیا۔لوگوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، عام لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بھی گرانی کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے گھی کھاناموقوف کر دیا۔ عام خوردنی تیل پر گزارا کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں ان کا پیٹ خراب ہو گیا۔ ایک دفعہ پیٹ سے گڑ گڑ کی آواز آئی تو پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا:
"تم گڑگڑ کرو یا خاموش رہو، تم گھی مانگتے ہوگے۔ الله کی قسم! جب تک سب میری رعایا کے لوگ گھی نہ کھا سکیں گے تجھے بھی میسر نہیں ہو گا۔"
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ آپ کی بات سن کر وہاں سے نکل آئے۔ آپ روتے جاتے اور کہتے جاتے:
”اے عمر ! تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے، تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے(یعنی آپ جیسی متوازن اور مثالی شخصیت کہاں سے لائیں گے۔) “
(مناقب امير المؤمنين لابن الجوزي: ص 101)
(الطبقات الکبریٰ: 218/3)


قصہ قوم کے نام ایک پیغام کا (صرف اہل عقل کے لیے)


پی۔ایس کو پیش و پس میں دیکھ کر’ صاحب‘پریشان ہوگئے۔ وہ ہونّق سی شکل بنائے، کبھی اُن کو کبھی اُن کے سر کو دیکھتا تھا۔ہر دو کو دیکھ کے کاغذات اُلٹنا پلٹنا شروع کر دیتا۔ پھر اُلٹنا پلٹنا چھوڑ کر اور پلٹ کر ’صاحب‘ کے منہ کی طرف دیکھنا شروع کردیتا۔ ’صاحب‘ کی کیفیت بالکل ایسی ہوگئی جیسے کہنا چاہتے ہوں۔۔۔ ’کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے‘ ۔۔۔آخر گرج دار اور گونجیلی آواز میں اُس سے پوچھ ہی بیٹھے:
’’ کیا ڈھونڈرہے ہو میری میز پر؟ ‘‘
پی۔ایس کچھ ہکلا سا گیا: ’’ سر۔۔۔ وہ۔۔۔وہ۔۔۔آپ کی طرف سے ہرسال’ یومِ عاشور‘کے موقع پر قوم کے نام جو پیغام جاری کیاجاتا ہے، اُس کا بنا بنایا ڈرافٹ کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں‘‘۔
’ سر‘نے اپنا سر پیٹ لیا۔ پیٹ چکے تو فرمایا:’’ جنٹل مَین! مجھ سے اتنی گاڑھی اُردو مت بولا کرو، آسان زبان میں بتاؤکہ’ یومِ عاشور‘کیا ہوتا ہے؟ ‘‘
اب کے پی۔ایس کچھ گھبراسا گیا۔سہم کر بولا:’’ سر! ٹینتھ آف محرم کو’ یومِ عاشور‘کہتے ہیں‘‘۔
سر نے گہرا سانس لیا:’’ اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔یُو مِین کوئی سیلی بریشن ڈے ہے۔ اِ س دن کیا سیلی بریٹ کیا جا تا ہے جنٹل مَین؟ ‘‘
پی۔ایس نے مری ہوئی آواز میں بتا یا:’’ سر! اس دن نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ بتولؓ، سیدنا امام حسینؓ کا یومِ شہادت منا یا جاتا ہے ‘‘۔
’ صاحب‘نے اپنا ماتھا نیچے کیا اور اُسے اپنی ہتھیلی پر دے مارا: ’’ اوہ مائی گاڈ! ۔۔۔ پھر وہی عربک اُردو۔۔۔anyhow ۔۔۔ کس جنگ میں شہید ہوئے تھے؟ ‘‘
پی۔ایس کو تفصیل بتانے کا موقع مل گیا۔ مگر اُس نے گاڑھی ۔۔۔ بلکہ عربک ۔۔۔ اُردو بولنی نہ چھوڑی: ’’ سر وہ کسی جنگ میں شہید نہیں ہوئے تھے اُن کو وقت کے ظالم، غاصب اور اسلام دشمن حکمران نے کلمۂ حق بلند کرنے کے جرم میں شہید کروادیا تھا، حتیٰ کہ معصوم بچوں تک کو نہیں چھوڑا۔رسولؐ کے گھر کی خواتین کا بھی احترام نہیں کیا‘‘۔
سر کو بڑا تعجب ہوا۔ پوچھا: ’’ کیا اُس گورنمنٹ کے’ حساس اداروں‘نے اُن کے گھر پر ریڈ (Raid)کیا تھا؟ ‘‘
پی۔ایس نے رپورٹ پیش کرنے کے انداز میں سر کو تاریخ سے آگاہ کیا:’’ نو سر! وہ اہلِ کوفہ کی دعوت پر کربلا گئے تھے، کوفے والوں نے کہا تھا کہ آپ یہاں تشریف لائیں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے، مگر اُنھوں نے دھوکا دیاسر، جب وقت پڑا تواپنے مہمان یعنی امامِ عالی مقامؓ کا ساتھ نہیں دیا‘‘۔ سر نے اپنی انگشتِ شہادت فضا میں لہراتے ہوئے پوچھا: ’’ کوفہ وہی، عراق والا؟ جہاں امریکی فوج کو بھی Raidکرنا پڑا ہے؟‘‘
پی۔ایس بڑے جوش سے بولا:’’ ہاں جی! ۔۔۔ ہاں جی! ۔۔۔ وہی والا! ‘‘
’ صاحب‘نے پی۔ایس سے مزید تفتیش جاری رکھی:’’ کوفہ والے کس معاملے میں امام صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے؟ ‘‘
پی۔ایس نے فرفر فرفر بتانا شروع کیا: ’’ سر! امامِ عالی مقامؓ یزید کی حکومت کو ناجائز، غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیتے تھے۔ اُنھوں نے اُس کی حکومت کو تسلیم کر نے سے انکا ر کر دیا تھا۔ امام نے سرکٹا دیا مگرغیر شرعی حکومت کی بیعت نہیں کی۔۔۔ سرداد، نہ داد دست در دستِ یزید ‘‘۔
سر حیران رہ گئے:’’ اب تُو فارسی بھی بولنے لگا؟ ۔۔۔ مگرکیا یزید نے کوئی الیکشن، کوئی ریفرنڈم نہیں کر وایا تھا؟ ‘‘
پی۔ایس بولا:’’ نہیں سر! اُس زمانے کے حکمرانو ں کو اس طرح کی Tricks نہیں آتی تھیں! ‘‘
سر کچھ کھسیا سے گئے۔ ہاتھ نچاتے ہوئے بولے:’’ اوکے! اوکے! مگر امام صاحب خود کیا چاہتے تھے؟ ‘‘ پی۔ایس نے بتایا:’’ سر وہ اپنے نانا (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے اُس حکم کے مطابق جو ہر مسلمان کو ہے، برائی کو ہاتھ سے مٹا دینا چاہتے تھے۔جابر حکمران کے سامنے اعلائے کلمۃ الحق کر نا چا ہتے تھے جو افضل ترین جہاد ہے، اور اُنھوں نے ایسا کر دکھایاسر‘‘۔
’’ جہاد؟۔۔۔جہاد؟۔۔۔گورنمنٹ کے خلاف جہاد؟ ۔۔۔ یہ کون سا جہاد ہے؟ کیا اسٹیٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا جہاد ہے؟ مسٹر! تم اپنے خیالات دُرست کرو۔ ’ یہ کوئی جہاد وہاد نہیں ہے‘۔ یہ تو ٹیرر اِزم ہے، دہشت گردی ہے! جہاد تو دہشت گردی کے خلاف ہوتا ہے‘‘۔
پی۔ایس کچھ بِدک سا گیا: ’’ سر یہ محض میرے خیالات نہیں ہیں۔ یہ پوری اُمت کا عقیدہ ہے۔ جہاد کی روح کو امامِ عالی مقامؓ سے بہتر کون جان سکتا تھا؟ وہ اُس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے تھے جو بانئ رسمِ جہاد ہیں۔ وہ اُس باپؓ کے بیٹے تھے جن کو پوری اُمت’ شیرخدا‘کہتی ہے، امامؓ سے زیادہ کون واقف ہوگا کہ کیا جہادہے اور کیا جہاد نہیں ہے؟ ‘‘
پی۔ایس کا بدلتا لہجہ دیکھ کر’ صاحب‘گھبراگئے:’’ آل رائٹ! ۔۔۔ آل رائٹ! اِٹ مِینز کہ گورنمنٹ نے اُن کو اَریسٹ کرنے کی کوشش کی اور وہ مقابلے میں۔۔۔ آئی مین ۔۔۔ شہید ہوگئے؟ ‘‘
پی۔ایس نے سخت لہجے میں بتایا:’’ نو سر۔۔۔نوسر۔۔۔ اُ ن72 مظلوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف اُس وقت کی حکومت نے پوری لشکر کشی کی تھی۔اُنھیں گھیر کر اُن پر حملہ کیا تھا۔ اُن کو جان بوجھ کرشہیدکیا تھا۔ حکومت وقت نے اپنے اُن مخالفین کے خلاف’ کو فہ آپریشن ‘کیا تھا‘‘۔
اب تو’ صاحب‘کی سٹی گم ہوگئی:’’ اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔ کَم ٹُو دی مین پوائنٹ مَین! ۔۔۔ میری طرف سے ہرسال’ یوم عاشور‘پر قوم کو کیا پیغام جاری کیا کر تے ہو؟ ‘‘
پی۔ایس نے یکایک اپنی نوٹ بک کے آخری صفحے کے نیچے سے وہی ڈرافٹ کھینچ نکالا جسے وہ بوکھلا بوکھلا کر جابجا ڈھونڈتا پھر رہا تھا:
’’ امام حسینؓ کی شہادت یہ سبق دیتی ہے کہ اسلام کے تحفظ اوراُس کی سربلندی کی خاطر ہمیں تن، من، دھن حتیٰ کہ پورا خاندان بھی قربان کر دینا پڑے تواس سے گریز نہیں کرناچاہیے‘‘۔
سر نے اپنی میز پر پڑا ہوا امریکی سفیر کا Memo اُٹھا کر پڑھنا شروع کردیا۔ پھر چشمے کے اوپر سے جھانکتے ہوئے دھیمے سے بولے:’’ دیکھنا یا ر! کہیں مروا مت دینا! ‘‘ –

ابو نثر 




Tags: yoom e aashoor, qoom kay naam paigham 10 muharram, Imaam Hussaim, yoom e shahadat, jihad, shaheed karbala, kofa, operation, islam, sarbulandi, kalma, haq, urdu, article, mazmoon, abu nasr, youm e ashura ka sabaq, muharram

21 فروری، 2014

زہین بم



سیلانی کو یقین نہیں آ رہا تھا، لیکن سیل فون پر ایس ایم ایس کی قطار بندھی ہوئی تھی، سب کا مضمون، مدعا اور پیغام ایک سا تھا، صرف الفاظ کی ترتیب مختلف تھی۔ سیلانی نے تیزی سے تکیے کے نیچے ہاتھ مار کر ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول لیا اور جھٹ سے ٹی وی آن کر دیا۔ سامنے ایک نیوز چینل کے مارننگ شو کی اینکر خرمستیوں میں مصروف تھی۔ ان مارننگ شوز کی منطق اسے آج تک سمجھ نہیں آئی، کوئی کس حال میں ہو، بم دھماکے ہو رہے ہوں، زلزلہ آئے یا دریا چڑھ آئے، ان کا ڈھول ڈھمکا جاری رہتا ہے، ان کے شو میں شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں یا یہ آسیب زدہ بنگلوں میں کیمرے لے کر جنات کا انٹرویو کرنے پہنچی ہوتی ہیں۔ سیلانی نے لاحول پڑھ کر ایک اور نیوز چینل لگا دیا۔ اسکرین پر دل دہلا دینے والی پٹیاں اس کے سیل میں آنے والے پیغامات کی تصدیق کر رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بمباری کی تھی۔
نیوز چینل کی اینکر وزیرستان میں موجود اپنے نمائندے سے اس بمباری کے بارے میں تفصیلات جاننا چاہ رہی تھی اور ساتھ ساتھ ناظرین کو آگاہ بھی رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں پاک فضائیہ کے طیاروں نے طالبان کے مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ نیوز اینکر نے بیتابی سے اپنے چینل کے نمائندے سے پوچھا: یہ علاقہ کیسا ہے، کس قسم کی آبادی ہے، کتنا جانی مالی نقصان ہوا ہے؟

مگر نیوز چینل کا نمائندہ صرف بمباری کی تصدیق کر رہا تھا، اس کا کہنا تھا کہ ان علاقوں تک اس کی رسائی نہیں۔ ٹیلی فون وغیرہ کا نظام نہیں ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ مگر سیلانی جانتا تھا کہ جیٹ لڑاکا طیارے کے پیٹ اور پروں کے نیچے مرغابیاں گرانے والی ائیر گنیں نصب نہیں ہوتیں۔ ان بموں، میزائلوں کا وزن سینکڑوں کلو میں ہوتا ہے، جب یہ سینکڑوں کلو بارود کسی علاقے علاقے پر گرایا جاتا ہے تو زمین تھرا اٹھتی ہے، پہاڑ لرز جاتے ہیں، وہ سوچنے لگا کہ کیا یہ انتہائی خطرناک حربہ استعمال کرنے کا وقت آ گیا تھا؟
 


 سیلانی مسہری پر نیم دراز سامنے ٹیلی ویژن اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھا، وہ ایک کے بعد ایک چینل بدلتا جا رہا تھا کہ شاید کہیں سے مزید کوئی اطلاعات مل سکیں، مگر ہر چینل کا نمائندہ بمباری کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے بے خبر تھا یا ابھی اسے اور اس کے نیوز چینل کو اوپر سے اجازت نہیں دی گی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اشارہ ہو گیا اور نیوز چینلز پر بریکننگ نیوز کے دھماکے ہونے لگے۔ اطلاع یہ تھی کہ کامیاب فضائی حملے میں چالیس طالبان مارے گئے تھے، ان میں ازبک اور تاجک سمیت دیگر غیر ملکی بھی شامل تھے۔ ان کے مرکز مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ سیلانی خاموشی سے چائے کا کپ ہاتھ میں لیے یہ بریکننگ نیوز دیکھ رہا تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا۔ سیلانی کا کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، اس نے کال کاٹ دی، مگر پھر وہی نمبر سیل فون کی اسکرین پر دوبارہ نمودار ہو گیا۔ سیلانی نے پھر لائن کاٹ دی، لیکن فون کرنے والا اس سے بات کرنے پر مُصر تھا، وہ دوبارہ کال کرنے لگا۔ سیلانی نے یہ سوچ کر کہ پتا نہیں کون کس مجبوری میں بات کرنا چاہ رہا ہے، کال وصول کر لی۔

"سیلانی بھائی! آپ کدھر ہیں، میں میں..... میں عبداللہ جان ہوں، آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔" فون پر کسی نوجوان کی آواز آئی۔ وہ بدحواس اور بوکھلایا ہوا لگ رہا تھا،
اس نے بے ربط انداز میں اپنی بات مکمل کی۔
"مگر میں تو آج نہیں مل سکتا، بہت معزرت، ہاں کوئی کام ہو تو بتاؤ۔"
"نہیں، نہیں فون پر نہیں، پلیز آپ دس منٹ دے دیں، بڑی مہربانی ہو گی، میں نے بہت امید سے آپ کو فون کیا ہے۔" نوجوان بہت پریشان لگ رہا تھا۔
سیلانی کی جمعرات کے دن چھٹی ہوتی ہے، وہ گھر پر تھا اور اس کا گھر کراچی کے ایک کونے میں ہے اور پھر سچی بات ہے، آج کل کے حالات میں کسی اجنبی سے ملنے گھر پر ملنا مناسب بھی نہیں، لیکن وہ نوجوان اتنا پریشان تھا کہ سیلانی انکار نہ کر سکا اور اسے گھر کا ایڈریس سمجھانے لگا، قریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کا سیل پھر بجا۔ عبداللہ جان ہی کی کال تھی۔ "سیلانی بھائی! ہم آپ کے گلی میں کھڑے ہیں۔"

سیلانی گھر سے باہر نکلا، گلی کی نکڑ پر ایک ٹیکسی کھڑی تھی، جس میں غالبا عبداللہ جان ہی تھا۔ سیلانی نے ہاتھ ہلایا تو ٹیکسی میں حرکت ہوئی اور وہ قریب آ کر رک گئی۔ ٹیکسی سے ستائیس اٹھائیس سالہ سرخ و سپید بھوری آنکھوں والا نوجوان باہر نکلا۔ غالبا وہی عبداللہ جان تھا، اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر شخص بھی تھا۔

"سیلانی بھائی؟" نوجوان نے تصدیق چاہی۔
"اندر آ جائیں" سیلانی   انھیں لے کر مہمان خانے میں آ گیا اور انھیں بٹھا کر مہمان داری کے لیے اٹھنے لگا تو عبداللہ جان نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور بولا "واللہ کوئی تکلف نہیں، ہم بہت جلدی میں ہے، بس ایک بات پوچھنا ہے۔"
"ارے ایسی بھی کیا جلدی، ذرا دم تو لو، اچھا پانی تو پیو۔" سیلانی مہمانوں کے لیے پانی لے آیا۔
"اب بتاؤ کیا بات ہے؟"
"سیلانی بھائی! میں یہاں کراچی میں جاب کرتا ہوں، مگر ہم شمالی وزیرستان میر علی کے قریب ایک گاؤں کا رہنے والے ہوں، جہاں رات کو بمباری ہوئی ہے۔"
"اوہ۔"
"ہمیں صرف معلومات چاہئیں، ہمارے ادھر تین ماموں اور نانا لوگ رہتا ہے، ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔" عبداللہ جان نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

"الله انھیں اپنی حفاظت میں رکھے، میں آپ کی کیا مدد کروں اور کیسے کروں؟"
"آپ کے ذرائع تو ہوں گے ناں، کسی سے معلومات کر دیں، وہ طالبان نہیں ہیں، سادہ سے لوگ ہیں، ان کا طالبوں سے کوئی واسطہ نہیں، ماموں کا ڈرائی فروٹ کا کام ہے، نانا کا ڈاٹسن گاڑی ہے۔" عبداللہ نے امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میری جان پہچان کراچی میں ہے، کوئی شہر ہوتا تو کسی نہ کسی کو فون کر کے معلوم کیا جا سکتا تھا، مگر وہاں کس سے بات کی جائے، میری تو کوئی واقفیت نہیں، نہ ہی کسی کا نمبر ہے، وہاں تو سنا ہے کہ ٹیلی فون بھی نہیں ہیں۔" سیلانی نے عبداللہ جان کو سمجھایا۔
"اچھا، کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا؟" عبداللہ جان نے پوچھا۔
"یار میر علی کا تو نام بھی آج ہی سنا ہے، میری وہاں کوئی واقفیت نہیں، میں معزرت چاہتا ہوں۔" سیلانی نے اپنی بیچارگی ظاہر کی اور ساتھ ہی نوجوان کو حوصلہ دینے لگا کہ گھبراؤ مت، حوصلہ رکھو، وہاں سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنایا گیا"۔
 


سیلانی کی بات پر عبداللہ جان نے طنزیہ انداز میں کہا: "سیلانی بھائی! بم بارود کسی کو فرق نہیں کرتا، آپ کیا سمجھتا ہے کہ بم نے پھٹنے سے پہلے اعلان کیا ہو گا کہ غیر طالب ایک طرف ہو جاؤ، بم پھٹنے لگا ہے.... میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں اور میرے گھر والوں میں سے کوئی طالب نہیں، لیکن بمباری میں تو یہ پتا نہیں  چلتا ناں، ہم کو بتاؤ کہ ہمارا کیا قصور تھا؟ ہم نے تو کسی کا گلا نہیں کاٹا، ہم نے تو جیل نہیں توڑا، ہم کو کیوں سزا دیا گیا ہے؟" عبداللہ جان اٹھ کھڑا ہوا، وہ نہایت عجلت میں تھا، اس کا کہنا تھا کہ اب اسے سہراب گوٹھ سے بس پکڑ کر بنوں جانا ہو گا سیلانی نے بہتیرا کہا کہ کم از کم ایک چائے تو پی لو، لیکن عبداللہ جان نے معزرت چاہی۔ سیلانی اسے رخصت کرنے کے لیے باہر آیا اور بولا: "اتنی سی بات کے لیے آپ نے اتنی تکلیف کی، آپ فون پر ہی پوچھ لیتے؟"
"سیلانی بھائی! فون پر بات کرنا اور وہ بھی وزیرستان کا، ٹھیک نہیں تھا ناں، اس لیے آپ کو تکلیف دیا۔"
عبداللہ نے الوداعی مصافحہ کیا اور ٹیکسی میں بیٹھتے بیٹھتے بولا: "سیلانی بھائی! نقصان بہت ہوا ہو گا، حکومت کو ابھی بمباری نہیں کرنا چاہئیے تھا، جب ہم پر ڈارون حملہ ہوتا تھا، اس وقت ہمارا جیٹ جہاز کدھر تھا؟ وہ ان امریکی ڈارون کو گرانے نہیں آتا تھا، ہم تو دونوں طرف سے مارا گیا، ادھر سے امریکا نے مارا، ادھر سے اپنوں نے مارا........"

عبداللہ جان کے شکوے کا جواب یقینی طور پر پرویز رشید یا خواجہ آصف کے پاس ہو گا، وہ یقینا جلد ہی بتائیں گے کہ حکومت کی توجہ اور محنت سے تیار کے گئے "زہین بم" شمالی وزیرستان میں گرائے گئے، ان بموں نے پھٹنے سے پہلے غیر طالبان آبادی کے دروازوں پر دستک دی انہیں بھاگنے کے لیے کہا اور جب رات ساڑھے بارہ بجے سولین آبادی کا انخلا ہوگیا، صرف طالبان اپنے ٹھکانوں پر رہ گئے تو یہ بم ایک ایک کر کے پھٹتے چلے گئے..... یقینا ایسے ہی بم لیاری، منگو پیر اور کراچی کے نو گو ایریاز کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بھی استعمال کیے جائیں گے۔ وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ اسلام آباد بھی اب خطرناک ترین شہر بن چکا ہے، وہاں دہشت گردوں کے گروہ ہیں، حکومت سادہ سی بات نہیں جانتی کہ ڈرون حملوں کے ردعمل میں طالبان سامنے آئے، اب اس بمباری سے کون سامنے آئے گا؟؟
دہشتگردی ختم ہو گی یا بڑھے گی؟ اس طرح دہشت گردی ختم کرنی ہے تو شناختی کارڈ چیک کر کے سب وزیرستان والوں کو ایک جگہ جمع کر کے بم نہ گرا دیا جائے، ان بیچاروں کے لیے تو کوئی دھرنا دے گا، نہ یوم سوگ کا اعلان ہو گا، نہ رہے کا بانس نہ بجے گی بانسری۔ متفکر سیلانی جاتی ہوئی ٹیکسی کو گلی کے نکڑ سے مڑتے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

سیلانی کے قلم سے


19 فروری، 2014

دراصل قبول اسلام کے بعد یہ میرا پہلا سجدہ تھا


خالق و فرمارواں کائنات ایک ہی ہےاس نے انسانی ہدایت ورہنمائی کے لئےپیغمبروں کو مبعوث کیا اس سچائی و حقیقت کو پالینا گویادُنیا کی سب سے بڑی سچائی کو پا لینا ہےانسان مخلوق ہونے کے ناطے اس کے ہاں مسئول ہے یہ حقیقت ان تمام گھتیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہےجو انسانی زہن میں اس سچائی سے منہ موڑ کر الجھنیں پیدا کر رہی ہے اور انسان اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔‘‘ کم و پیش یہ خیالات ان تمام نو مسلم سسٹرز کے رہے ہیں جن سے اب تک میری ملاقات رہی ہے۔ نو مسلم خواتین کے قبول اسلام کے بعد تسلیم و رضا کے عین وہ ایمان افروز لمحات، جب انسان پہلی بار اپنی پیشانی زمین پرٹکاتا ہے ان کا مشاہدہ کرنے کا مجھے بارہا موقع ملا ہے۔

کچھ عرصہ قبل مجھے ایک خاتون کو قبول اسلام کے بعد نماز اور وضو سکھانے کی ذمہ داری سونپی  گئی۔ مسجد میں ہماری ملاقات ہونا طےپائی۔جب ہم مسجد پہنچے تو نمازعصر کا وقت ہو چکا ۔میں نے انہیں وضو سکھایا اور کہا کہ آپ یہاں ایک طرف بیٹھ جائیں۔ میں با جماعت نماز پڑھ لوں پھر آپ کو نماز سکھاؤں گی۔کہنے لگی مجھے اگرچہ نماز کے الفاظ نہیں آتےلیکن کیا میں جماعت میں شامل ہو سکتی ہوں۔میں نے کہا کیوں نہیں یقینا آپ شامل ہو سکتی ہیں۔امام کیساتھ تکبیر کہہ کر ہم نے ہاتھ بلند کئے تو اس نے بھی ہماری تقلید میں تکبیر کہی اور سینے پر ہاتھ باندھ لئے۔ پہلی رکعت کے پہلے سجدے سے ہم آٹھے تو وہ سسٹر سجدے سے نہ آٹھی ہم نے نماز مکمل کر لی مگر وہ بدستور حالت سجدہ میں تھیں۔ نماز کےبعدبھی میں کافی دیر منتظر رہی بالآخر اس نےسجدے سے سر آٹھایا تو انکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ میں نے تنہا چھوڑنا مناسب سمجھااور ایک طرف جا بیٹھی۔ کافی دیر بعد وہ خود اٹھ کر آئیں اورمیرے سامنے بیٹھ گئی،خود ہی گویا ہوئیں۔کہ دراصل یہ میری زندگی کا پہلا سجدہ تھا۔ کہنے لگی جونہی کہ میری پیشانی زمین پر لگی۔ میری زبان سے بے اختیارنکلا۔’’میں تیری بندی ہوں۔تیرے پاس آئی ہوں، مجھے معاف کر دےکہ میں اب تک تجھے بھولی رہی‘‘۔۔۔ کہنے لگیں یکدم مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا پورا وجود آغوشِ رحمت کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔دل میں ایک مٹھاس اور ایساسکون میرے رگ و پے میں اترنے لگاجو نا قابل بیان ہے۔ مجھے محسوس ہونے لگااگویا میں بہت ہلکی پھلکی ہو رہی ہوں اور میرے تمام ذہنی تفکرات کو دھویا جا رہا ہے بوجھل دل ہلکا ہو رہا تھا۔ مجھےایسی اپنائیت کا احساس ہو رہا تھا ۔ جیسے کوئی انتہائی محبت کیساتھ میرےطرف متوجہ ہے اور بن کہے مجھے سنے جا رہا ہے۔کہنے لگی میری زبان سے بس یہی نکل سکا” اے الله میری مدد فرما مجھےنہ چھوڑنا۔میری رہنمائی فرما‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل زندگی میں بے شمار مواقع پر عبادت کی ہے چرچ میں جا کر دُعایئں مانگی ہے۔اس سے قبل بھی اکثر وبیشتر خدا سے مخاطب رہی ہوں مگر تب تصورِ خدامجسم انسانی تھا۔لیکن آج ہرشبیہ سے پاک ذہن کیساتھ میں اپنے ربّ سے مخاطب ہوئی ہوں ۔ کہنے لگی اس سے قبل میں نے خدا کوعقلی و نظری طور پر تسلیم کیا تھا مگر آج میں نے اسے اپنے اندر احساس کی سطح پر پالیا ہے۔ جس نے میرے ایمان و یقین کو کئی درجہ بڑھا دیا ہےاور اب میرے لئےایک خالق ناقابل انکار حقیقت ہے‘‘۔

اسی طرح ایک دوسری نارویجن بہن کا واقعہ ہے مجھے کسی نے فون کیا کہ ایک نارویجن خاتون مسلمان ہو نا چاہتیں ہیں ۔ان کو رہنمائی چاہیے۔ میں نے مسجد جانے کا مشورہ دیا۔ واپس پیغام ملا کہ وہ ذاتی طور پرکسی مسلمان کو نہیں جانتی ۔اور کبھی مسجد بھی نہیں گئی لہذا اگر ممکن ہو تو میں ان کی مدد کر دوں۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتی لہذا جتنی جلدی ممکن ہو میں انھیں اپنے ساتھ مسجد لے جاؤں۔مسجد رابطہ کرکے امام صاحب سے بعد از نماز جمعہ کا وقت لیا۔ میں مسجد میں منتظر بیٹھی تھی کہ طے شدہ وقت پر مجھے ایس ایم ایس موصول ہواکہ سسٹر کی طبیت خراب ہوگئی ہے انھیں تھوڑی دیر ہو جائےگی۔ آدھ گھنٹے بعد دوبارہ میسج آیا کہ وہ ٹیکسی پکڑ کرآرہی ہیں۔ چونکہ میری بھی اس سسٹر سے پہلی ملاقات تھی لہذا مجھے تجسس تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ ایک دوسری خاتون کا سہارا لئے ہوئے ٹیکسی سے اتری تو ان کے جسم پر کپکی طاری تھی غالبا وہ پچاس سال کے لگ بھگ تھیں معلوم ہوا کہ انھیں عین گھر سے نکلتے ہوئےاپلیپسی کا اٹیک ہواہے۔ ٹیکسی ڈرائیور کااصرار تھا کہ وہ انھیں ہسپتال ہی لے کر جائے گا۔مگر ہوش آنے کے بعد انہوں نے ٹیکسی ڈرایور کو مجبور کیا کہ وہ گاڑی کو واپس مسجد کی جانب موڑ دے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو ہسپتال جا نا چاہیےتھا مجھے اندازہ ہے کہ آپ ایک تکلیف دہ کیفیت سے گذر رہی ہیں۔ سہارا دے کر ہم نے انہیں میٹینگ روم میں بیٹھایا۔ کہنے لگی ’’یہ بارہ سال کا سفر ہے جسے میں نے آج ہر حال میں طے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہےآج کسی چیز کو رکاوٹ بننے نہیں دینا چاہتی،‘‘۔ بیمار ی کے سبب بات کرنے میں انھیں دقت پیش آرہی تھی۔اور میں انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ مگر وہ بولی کہ’’ وہ بارہ سال قبل اسلام کی حقانیت کو جان چکی تھیں۔مگر انھوں نے قومی تفاخراور اہل خانہ و عزیز اقارب کی مخالفت کے خوف سے اپنے اندر اس سچائی کو دبائے رکھا ہے۔ لیکن اب ان کے پاس وقت کم ہے اور اب کسی خوف کو خاطر میں نہیں لانا چاہتیں‘‘۔ کلمہ شہادت کی ادائیگی کے وقت انکی کیفیت بہت عجیب ہوئی ۔اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپائے روتی رہیں۔ پھر بولی میرے خدا مجھے معاف فرمانا۔انہوں نے بتایا کہ کلمہ شہادت کی ادائگی کے وقت انہیں ایسا محسوس ہواہے جیسےکسی نےانکواندرسے دھو ڈالا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا اور انتہائی پرسکون محسوس کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سرگرم سوشل ورکر رہی ہیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے غیر ملکیوں کو معاشرے میں ضم کرنے کے بہت سے پراجیکٹ پر کام کیا ہےہمارے سامنے انہوں نے عہد کیا کہ’’ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اور صلاحیتیں اسلام کی راہ میں وقف کریں گی‘‘۔

مادیت پرست مغربی انسان اپنے اندر روحانی خلا کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور محسوس کرتا ہےمگ چند خوش قسمت ہی اس دلی پکار پر لبیک کہتے ہیں سچائی کی تلاش و جستجو میں بالآخر اسلام ہی کو عقلی و منطقی دین سمجھتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔ ایک وقت تھاکہ جب کبھی اکا دکا نارویجن اسلام قبول کرتا تو اسلامی حلقوں میں انتہائی پذیرائی ملتی اور اپنائیت سے استقبال ہوتا۔ اب جبکہ اس تعداد میں اضافہ ہورہاہےاسلامی حلقوں میں ان سے تعلق داری میں انتہائی سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بعض اوقات نو مسلم خواتین اسلامی مراکز کےکونوں میں الگ تھلگ بیٹھی یا دین سیکھنے کی درخواست کرتی نظر آتیں ہیں۔ مسلمانوں کی اس عدم دلچسپی و بے اعتنائی کا گلہ ایک نشست میں بہت سی نو مسلم بہنوں نے کیا۔اسلامک کلچرل سنٹر نظمِ طالبات نے اس صورتِ حال کے پیش نظر ان کے لئےالگ شعبہ قائم کیا ہے جہاں نومسلم کی رجسٹریشن کے بعد انہیں مسلمان طالبات کی زیر سرپرستی بنیادی دینی تعلیم اور دوستی کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ یہ مسلمان طالبات مسلسل رابطہ کے ذریعے انہیں اس راستے میں پیش آمدہ مشکلات میں دل جوئی اور عملی ضروریات میں مدد بھی کرتیں ہیں یہ طریقہ کار مسلمان خاندانوں کیساتھ نومسلم کے روابط کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔اگرچہ یہ ایک ایسی افرادی قوت ہے جسے مناسب دینی تعلیم و تربیت کے ذریعے مقامی معاشرے میں دعوت دین کے لئے متحرک کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسا کوئی باقاعدہ نظام نہ ہونے کے سبب یہ خواتین صوفی ازم کی طرف متوجہ ہو جاتیں ہیں۔ اورکچھ روایتی اسلامی خاندانوں کا حصہ بن کر زندگی گذار رہیں ہیں۔اسلامک کلچرل سنٹر طالبات کے طریقہ کار میں مزید بہتری کے ذریعے امید کی جا سکتی ہے۔ کہ انہیں باقاعدہ اجتماعیت کا حص(ہ بنا کر کام کیا جائے گا۔در حقیقت یہی لوگ مقامی معاشرے میں اسلام کی صحیح و بے باک ترجمانی کر سکتے ہیے۔سنٹر کی یہ طالبات چونکہ مقامی زبان پر عبور رکھتیں ہیں اسی لئے انہیں سنٹر کی طرف یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ نو مسلم کی تعلیم و تربیت کے لئے اقدامات کریں۔الله سبحان و تعالی سے دُعا ہے تین سال قبل اس شعبہ کو قائم کرنےاور سرپرستی کرنے والوں کو بہترین اجر عظیم سے نوازے۔

آمین۔۔۔
ساجدہ پروین

مضمون نگار ساجدہ پروین صاحب شعبہ نشرو اشاعت، نظمِ خواتین، اسلامک کلچرل سنٹر اوسلو، ناروے سے منسلک ہیں۔

16 فروری، 2014

صاحب نقب


مسلمہ بن عبدالملک نے ایک قلعے کا محاصرہ کیا ۔ مسلمانوں کو قلعے کی دیوار میں ایک جگہ اتنا بڑا سوراخ نظر آیا جس سے بمشکل ایک شخص داخل ہو سکتا تھا ۔ لوگوں نے اس سوراخ کی طرف دیکھا اور ایک دوسرے کو توجہ دلائی۔ انھیں اندر کے حالات کی کوئی خبر نہیں تھی کہ اس سوراخ کے پاس کتنے لوگ موجود ہیں۔ آیا اس شخص کو سوراخ سے نکلنے اور لڑنے کا موقع بھی مل پائے گا یا نہیں۔ یہ سیدھی سیدھی موت کو گلے لگانے والی بات تھی۔

لوگ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ سب سے پہلے کون اس کے ذریعے اندر جائے۔ اسلامی لشکر میں سے ایک غیر معروف شخص سامنے آیا اور کہا: میں جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اس سوراخ کے ذریعے اندر چلا گیا اور صورت حال کو سنبھال لیا اور اس کے بعد اور بھی بہت سے لوگ اس کے ذریعے اندر داخل ہوئے اور مسلمانوں نے قلعہ فتح کر لیا۔ فتح کے بعد مسلمہ بن عبدالملک نے اعلان کیا کہ "صاحب نقب" یعنی سوراخ کے ذریعے سب سے پہلے اندر داخل ہونے والا شخص میرے پاس آئے۔ لیکن کوئی نہ آیا۔ اس نے دوبارہ، سہ بارہ یہ اعلان کروایا۔
 

پھر اعلان کرنے والے کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: سپہ سالار سے میرے ؛لیے ملاقات کی اجازت حاصل کرو ۔ اعلان کرنے والے نے پوچھا کیا آپ "صاحب نقب" ہیں۔ اس نے جواب دیا: میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ اعلان کرنے والے نے مسلمہ کو بتایا۔ مسلمہ نے فورا اجازت دے دی۔ اس شخص نے مسلمہ سے کہا : "صاحب نقب" کی اپنے بارے میں بتانے کے لیے تین شرطیں ہیں۔ مسلمہ نے کہا: اس نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ ہم اس کی ہر شرط ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے کہا: پہلی شرط یہ ہے کہ خلیفہ کو اس کا نام لکھ کر نہ بھیجا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسے کسی انعام کی پیشکش نہ کی جائے۔تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے اس کا نام نہ پوچھا جائے اور نہ یہ پوچھا جائے کہ اس کا تعلق کس قبیلے سے ہے۔ مسلمہ نے کہا: مجھے منظور ہے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں ہی وہ شخص ہوں۔ مسلمہ اس واقعہ کے بعد جب بھی نماز پڑھتا تو یہ دعا ضرور کرتا:
اے الله! مجھے آخرت میں "صاحب نقب" کا ساتھ نصیب فرما۔


13 فروری، 2014

مرد بھی بِکتے ہیں ۔۔۔ جہیز کے لیے

مرد بھی بکتے  ہیں ۔۔۔ جہیز کے لیے
Dowry ... A form of Male prostitution

آج کل نفسہ نفسی کا دور ہے ہمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسئلہ جہیز بھی ہے جو موجودہ دور میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عام طور پر سلیقہ مند ،پڑھی لکھی ،خوبرو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سہانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرکے بقایا زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں
۔
دلہن بننا ہر لڑکی کا خواب ہی نہیں اسکا حق بھی ہے لیکن افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کر دیا جاتا ہے سرمایہ داروں کے اس دور میں‌ لڑکیوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہے اور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصا مائیں بہنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے سرگرداں رہتی ہیں۔

وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کہیں اپنے بیٹے ،بھائی کا کاروبار کرنے نکلتی ہیں لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں، لڑکی والوں کے ہاں جا کر انکا زہنی کیلکولیٹر بڑی تیزی سے حساب کتاب مکمل کر لیتا ہے اور وہاں‌ سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ہوجاتی ہیں گاڑی، کوٹھی اور دیگر قیمتی سازوسامان تو ان کی فہرست میں‌ لازمی مضامین کی طرح شامل ہوتے ہیں ان کے بعد کہیں جا کر لڑکی کی باقی خوبیوں (جن میں اسکا خوش شکل ہونا بھی شامل ہے) کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اور‌ڈھیر سارا جہیز ہو نیز خوبصورت بھی ہو وہ تو بیاہی جاتی ہے اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نہیں ہوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔

ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق و مذہبی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیات قرآنی اور ‌احادیث نبوی بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ہو تو ساری آیتیں ،حدیثیں بھلا کر اس کے دام وصول کرنے لگتے ہیں ۔

●●● کوئی تو ملے جو کہے ہاں میں خود دار نہیں ●●●

آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی ۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ

”ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی“ ۔

جتنے ملے سب شرفاء ملے ۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ

”الحمدلله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے “ ۔

جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟؟؟؟

جب وہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟ پوچھیے  تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :

”ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے ۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے ۔۔۔ وہ بھی خوشی سے“۔
دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں ۔
●●●●●●●●●●●●●●●●

12 فروری، 2014

پہلی وحی!


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہوجاتا پھر آپ نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہی عبادت میں گذاراکرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں شروع شروع میں وحی آئی۔
فرشتہ (جبریلؑ) آپ کے پاس آیا اور کہا اقرا یعنی پڑھئیے آپ فرماتے ہیں ، میں نے کہا ماانا بقاری (میں پڑھنا نہیں جانتا)۔ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچایہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا پڑھو میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں۔ اس نے تیسری مرتبہ مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقرا باسم ربک الذی خلق (پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) یہاں تک کہ مالم یعلم (جسے وہ نہ جانتا تھا) تک پہنچ گیا۔

ترجمہ: پڑھو اپنے اس رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ہے (اس ساری مخلوق کو)۔ (اور) انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۔جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا ۔مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے۔

آپ ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا مجھے کپڑا اڑھا دو چنانچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا مجھے اپنی جان جانے کا خوف ہے ، حضرت خدیجہ نے کہا حضور آپ خوش ہو جائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں ۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں پھر حضرت خدیجہ آپ کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں۔ جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہوگئے تھے۔ عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھے۔ بہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے، ورقہ نے پوچھا بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ راز داں فرشتہ ہے جو حضرت عیسیٰ کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا ، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتاجبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں ۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آگیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔

لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے ادھر وحی بھی رک کئی۔ پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے۔

وحی کے رکنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ نے پہاڑ کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت حضرت جبرائیل آجاتے اور فرما دیتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس سے آپ کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہو جاتا اور آرام سے گھر واپس آجاتے۔

اس کے بعد امام زہری خود حضرت جابر بن عبد اللہ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فترۃ الوحی (وحی بند رہنے کے زمانے) کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا: ایک روز میں راستے سے گزر رہا تھا۔ یکایک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، سر اٹھایا تو دیکھا وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا، آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں یہ دیکھ کر سخت دہشت زدہ ہو گیا اور گھر پہنچ کر میں نے کہا مجھے اُڑھاؤ، مجھے اُڑھاؤ۔ چنانچہ گھر والوں نے مجھ پر لحاف (یا کمبل) اڑھا دیا۔ اس وقت اللہ نے وحی نازل کی یاایھا المدثر ۔۔۔۔۔۔۔ پھر لگاتار مجھ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا “

ترجمہ: اے کپڑے میں لپٹنے والے- اٹھو اور خبردار کرو- اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو - اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگی سے دور رہو۔ اور بدلہ پانے کی غرض سے احسان نہ کرو - اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔
سورة المدثر 1-7


حوالہ: (تفسیر ابن کثیر - تفسیر مودودی - سورة العلق،سورة المدثر)


11 فروری، 2014

مگر کیا کریں کہ شریعت کا ڈر ہے

ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی کا بھی آج کل وہی حال ہوگیا ہے، جس سے بے حال ہو کر ایک زمانے میں مرحوم ضمیرؔ جعفری ہر آئے گئے  سے پوچھتے پھرتے تھے کہ:
یہ دو دِن میں دُنیا کو ’کی‘ ہو گیا ہے
کہ ہر آدمی مولوی ہو گیا ہے
جسے دیکھیے اپنی آنکھیں میچے اور بھاڑ سامنہ کھولے ’شریعت‘ پر خطبہ دیے جارہا ہے۔ کوئی سنے یا نہ سنے۔ اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو ’شریعت‘ کو خوب سمجھا سمجھا کر اُسے ’درسِ جمہوریت‘ دے رہے ہیں۔اُس جمہوریت کا درس جس میں مقتدر اعلیٰ خدا نہ ہو اور جس کے مقنن اعلیٰ مصطفی ؐ نہ ہوں۔ مگر دیکھیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہور عوام نے ’اتفاقِ رائے‘ سے جو 1973ء کادستور منظور کیاتھا، اُس میں بھی ’قرآن و سنت‘ کی بالادستی کا قانون موجود ہے۔طالبان اور مولانا عبدالعزیز نے ہی نہیں، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کی قیادت میں بھی 500 علمائے کرام نے ’ملک میں فی الفور شریعت نافذ‘ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔سید منورحسن کہتے ہیں کہ ’شریعت ڈرنے یا ڈرانے کی چیز نہیں ہے، شریعت تو رحمت ہے‘۔ لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ ’بندوق سے شریعت نافذ نہیں ہوسکتی‘۔ یعنی شریعت آئینی طریقے سے نافذ ہوگی۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ’آئین میں پہلے ہی قرآن و سنت کا نظام موجود ہے‘۔ گویا شریعت اورآئین میں کوئی تصادم نہیں، جو ہمارے بہت سے دانشور ظاہر کر رہے ہیں۔ متعدد آئینی ماہرین بھی کہہ چکے ہیں کہ ’نفاذِ شریعت کا مطالبہ آئینی مطالبہ ہے‘۔مگر اس کے باوجود جو لوگ ’شریعت‘ کی مخالفت کر رہے ہیں اُنھیں ڈر صرف اس بات کا ہے کہ ’شریعت‘ نافذ ہوگئی تو شراب و زنا اور سود اورسٹہ بند ہو جائے گا۔پھر ’تیرا کیا بنے گا کالیا؟‘کچھ دنوں کے بعد شریعت سے ڈرنے اور ڈرانے والے یہ لوگ آئین پاکستان کی بھی مخالفت شروع کر دیں گے۔یہ کہہ کر کہ: ہم آئین پاکستان کو مانتے تو ہیں ۔۔۔ ’مگر کیا کریں کہ شریعت کا ڈر ہے‘۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ طالبان ہمارا طرزِ زندگی بدل دینا چاہتے ہیں، وہ دراصل یہ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں ’شریعت‘ ہمارا طرزِ زندگی بدل دے گی۔دراصل انھیں وہ طرز زندگی نہیں چاہیے جس میں ’خدا‘ موجود ہو۔ جس میں رسولؐ کی اطاعت لازم ہو۔وہ ایک بے خدا اور بے لگام قسم کا نظام چاہتے ہیں۔ ایسا نظام کہ جس میں ’حیا‘ نہ ہو اور وہ جو چاہیں کرتے پھریں۔آئیے ذرا ہم پلٹ کر پیچھے دیکھیں۔ جیسا کہ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پچھلی صدی (بلکہ پچھلے ہزاریے) میں ایک تہائی دُنیا پر ’سوشل اِزم‘ کی حکمرانی تھی۔ مگر ’سوشل اِزم‘ کے کفرہونے میں ہمارے علماء کو کبھی تذبذب ہوا نہ عوام کو۔ اِ س ضمن میں تین سو تیرہ علماء کا یہ فتویٰ بہت مشہور ومقبول ہواکہ:’’سوشل اِزم کفرہے‘‘۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِس نظریہ کی بنیاد ہی کفرو اِنکار پر تھی۔تمام خداؤں کااِنکار کرنے کی دھن میں اِس نظریہ کے بانیان ’خدائے ذوالجلال و الاکرام‘ کا بھی اِنکار کربیٹھے۔ اُنھوں نے ہر مذہب کو ’افیون‘ قرار دیا، حتیٰ کہ ’دین حق‘ کا مطالعہ کیے بغیر اور اس کے نظام کو سمجھے بغیر ’حق‘ سے بھی بغاوت کا اعلان کردیا پھرزمین کے کچھ خطوں پر اقتدار حاصل ہوجانے کے نشہ سے سرشار ہوکر’ خدا‘ کو دیس نکالا دینے کا اعلان بھی کردیا۔ اب تو وہ دیس ہی نہیں رہا جس سے خدا کونکالا گیا تھا۔کیوں کہ خداہی نے اُس دیس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ٹکڑے کے ذکر پر مصوری کا ایک ٹکڑا یعنی ایک فن پارہ یاد آگیا۔ایک بار ایک مصور نے نطشے کے ایک مشہور قول کا بہت دیدہ زیب اور خوبصورت کتبہ بنایا:


(God is dead” \(Nietzsche‘‘
’’خدامرچکاہے‘‘۔(نطشے)۔

اگلا شہ پارہ اُس نے نطشے کے مقبرے کابنایا۔ قبر پر ایک خوبصورت کتبہ نصب کیا ۔ اُس کتبے پر نہایت پُر کشش کیلی گرافی کرتے ہوئے لکھا:
Nietzsche is dead”/ (God
‘‘
’’نطشے مرچکاہے‘‘۔(خدا)۔


سوشل اِزم کے برعکس’مغربی جمہوریت‘ کو کفر قرار دینے میں ہمارے عوام ہی کو نہیں ہمارے علماء کو بھی تذبذب رہا ہے۔اگرچہ بعض علمائے دین نے یہ بھی کہا:’’لااِلٰہ اِلّا اﷲ کے مقابلہ میں جمہوریت کا کلمۂ امتیاز ’لااِلٰہ اِلّا الانَام ‘ہے۔ یعنی ’عوام کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔جوکلمۂ کفرہے‘‘۔ ممکن ہے کہ نقلِ کفر‘ کفر نہ ہو۔مگر شاید اِس کوکفرسمجھنے میں تذبذب کی فقہی وجہ یہ ہوئی ہوکہ نظریۂ جمہوریت کے بانی کم ازکم اپنی اور اپنے زرِ کاغذی (ڈالر) کی زبانی یہ نعرہ تو لگا تے ہیں:\”In God we trust\”(ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں)۔

 چناں چہ’جمہوریت‘ کوبھی ’باخدا‘ بنانے اور پوری طرح سے مشرف بہ اِسلام کرنے کی مخلصانہ اور داعیانہ تبلیغی کوششیں شروع کر دی گئیں۔اِس نومُسلم کے لیے ’اِسلامی جمہوریت‘ کا نام بھی تجویز کردیا گیا۔پھر یہاں تک کہا گیا کہ ’جمہوریت ہی عین اِسلام ہے‘۔ خیرایسی کوششیں تو ’سوشل اِزم‘ کے غیر اِسلامی نظریات کو مشرف بہ اِسلام کرنے کے لیے بھی کی گئی تھیں۔مگر بارآور نہ ہوسکیں۔ وہاں بھی ’اِسلامی سوشل اِزم‘ کی اصطلاح گھڑی گئی تھی۔ حتیٰ کہ’عین اِسلام‘ قراردینے کے لیے اِسے بھی ’مساواتِ محمدیؐ‘ کا نام دے ڈالا گیا۔مگر مسلمانوں نے اِس کا جواب دیا:
’’ اِسلام کو غیر اِسلامی بیساکھیوں کی محتاجی نہیں ہے۔اِسلام کا اپنا معاشی نظام ہے اوراِ س کی اپنی فقہی اصطلاحات موجود ہیں‘‘۔

جواب دُرست تھا۔لیکن اگر’اِسلامی سوشل اِزم‘ کے لیے ہمارے فقہاء کے یہاں’ اِسلام کا عدلِ اجتماعی‘ کی اِصطلاح ملتی ہے تو ’اِسلامی جمہوریت‘ کے لیے بھی اِسلام میں قرآنِ کریم سے ماخوذ ’شورائیت‘ یا ’مشاورت‘ کی اپنی اصطلاح موجود ہے۔ قرآنِ مجید کی بیالیسویں سورہ کاتونام ہی ’سورۂ شُوریٰ‘ ہے۔ جومسلمانوں کی بابت بتاتی ہے کہ: ’’وَاَمْرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ‘‘۔(الشوریٰ۔38) یعنی مسلمان: ’’اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں‘‘۔ (یہاں شخصی، فوجی یاگروہی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں)۔

’سوشل اِزم‘ کوپھیلانے والوں نے اگر تاریخ کے صفحات پر ’سمر قندو بخارا کی خونیں سرگزشت‘ چھوڑی۔ تو دُنیابھر میں بالجبر ’جمہوریت پھیلانے والوں‘ کی طرف سے بھی عراق اورافغانستان کی لرزہ خیز داستان چھوڑی جائے گی۔ اِس میں ابوغرائب جیل کا بھی ذکرآئے گا۔بگرام جیل کابھی اورخلیجِ گوانتاناموکابھی۔ پاکستان میں کی جانے والی خوں ریزیاں اِن قصوں پرمستزاد ہوں گی۔
القصہ مختصر ۔ سید ابولاعلیٰ مودودیؒ کی ایک پیش گوئی پوری ہوئی۔آج سوشل اِزم کو سَر اور منہ وغیرہ چھپانے کے لیے ماسکو میں محدود ہوجانا بھی مشکل نظرآ رہاہے۔ قوموں کی روِش سے ہمیں ہوتا ہے یہ معلوم ۔۔۔ کہ بہت جلد سرمایہ داری اور اس کے پھیلاؤ کے اوزار ’جمہوریت‘ سے خود واشنگٹن کے لوگ بھی بیزار ہوجائیں گے۔ پیش گوئی کا دوسرا حصہ پورا ہوجائے گا۔ تب اقبالؔ کی صدا ’اے نوجواں مُسلم‘کہہ کراپنے جوانوں ایک بارپھر پُکارے گی:
اُٹھ ! کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

تب یہ آئین پاکستان ہوگا جس کے ذریعے سے ہمارا نوجوان (یعنی ہم سے اگلی نسل) دُنیا کے سامنے رحمت و رافت کے ایک مبسوط نظام کا عملی خاکہ پیش کرسکے گا۔اُس وقت ان پر فخر کرنے کو ۔۔۔ ’ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا‘۔ 


ابو نثر



7 فروری، 2014

اسلام کے ننھے شاہین


حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میں صف میں کھڑا تھا میں اپنے دائیں اور بائیں کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے کھڑے ہیں میں نے گمان کیا کہ کاش کہ میں طاقتور آدمیوں کے درمیان کھڑا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا اسی دوران ان میں سے ایک لڑکے نے میری طرف اشارہ کر کے کہا اے چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو جانتے ہیں میں نے کہا ہاں اور اے بھتیجے تجھے اس سے کیا کام اس نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ وہ رسول اللہؐ کو گالیاں دیتا ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں میرا جسم اس کے جسم سے علیحدہ نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ مر جائے۔

حضرت عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی بات سے تعجب ہوا پھر دوسرے نے بھی اپنے ساتھی سے چھپا کر وہی بات پوچھی اب تو مجھ کو ان سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔

حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا کہ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ میری نظر ابوجہل کی طرف پڑی وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا میں نے ان لڑکوں سے کہا کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ وہی ابوجہل ہے جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے وہ فورا اس کی طرف جھپٹے اور تلواریں مار مار کر اسے قتل کر ڈالا پھر وہ دونوں لڑکے رسول اللہؐ کی طرف لوٹے اور آپ ؐ کو اس کی خبر دی تو آپ ؐنے فرمایا کیا تم دونوں نے اپنی اپنی تلوار سے اس کا خون صاف کر دیا ہے انہوں نے کہا نہیں آپؐ نے دونوں کی تلواروں کو دیکھا تو آپؐ نے فرمایا تم دونوں نے ابوجہل کو قتل کیا۔ یہ دونوں جوان عفراء کے بیٹے معاذ اور معوذ تھے۔

صحیح مسلم:جلد سوم: جہاد کا بیان ،حدیث نمبر 51
صحیح بخاری: باب غزوات کا بیان ، حدیث نمبر 39

6 فروری، 2014

بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے


ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکرنے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں ۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں ۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا

میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو ۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی آیت

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ
النمل27:62


ترجمہ: بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو


یعنی اللہ ہی ہے جو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہاہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کو ٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔

تفسیر ابن کثیر: سورة النمل، آیت 62