ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

8 اپریل، 2014

ہماری نئی تاریخ


پچھلے کچھ سالوں سے ایک عجیب ہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔اچانک کچھ لوگوں کو خیال آیا ہے کہ ہم اپنے جن اسلاف کے کارناموں پہ فخر کرتے ہیں، جن کے اچھے کردار کی پیروی کرنا باعثِ سکون و نجات سمجھتے ہیں وہ سب تو جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تو کوئی بھی اچھا کام نہیں کیا۔ محمد بن قاسم سے لے کر سلطان محمود غزنوی اور قائدِ اعظم سے لے کر علامہ اقبال تک کسی کو نہیں بخشا گیا۔ حقائق کو توڑ مڑوڑ کر یا صرف وہ باتیں جن سے ان کے کردار پہ سوالیہ نشان لگے وہی بتائی جاتی ہیں وہ ہی بتائی جاتی ہیں باقی حذف کر دی جاتی ہیں۔

مثلاْ سلطان محمود غزنوی کے بارے میں اچانک سے لوگوں کو خواب آ گئے ہیں کہ وہ لٹیرا تھا۔ اور اس کے لیے ان کے پاس توجیہ بھی ہے کہ اس نے بتوں کو توڑا کیوں کہ اس میں سونا چاندی تھا۔ اس نے صرف لوٹ مار کے لیے حملے کیے۔ اب ۱۰۰۰ سال بعد ان پہ یہ الزام لگایا جا رہا ہے اور اس کے لیے آدھے حقائق بیان کیے جا رہے ہیں۔ کوئی ایسا سو کالڈ (so called) تاریخ دان آپ کو نہیں بتاتا کہ سلطان کے ہندوستان پر حملے سے پہلے غزنی پہ ہندوستان سے کئی حملے ہو چکے تھے اور ایک بار تو حملہ آور راجہ کو گرفتاری کے بعد زندہ بھی چھوڑ دیا گیا تھا اس وعدے پر کہ وہ آئندہ حملہ نہیں کرے گا۔ کوئی یہ نہیں  بتاتا کہ سلطان کی فوج اتنی تھی یا نہیں کہ وہ پورے کیا آدھے ہندوستان پہ بھی قبضہ برقرار رکھ پاتا۔ کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ اس لٹیرے کے مقابلے میں لاکھوں کی فوج اکٹھی ہوتی تھی لڑنے کو۔ کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ وہ اگر ہندوستان میں بیٹھ جاتا تو غزنی ہاتھ سے چلا جاتا۔ کیونکہ یہ سب حقائق تو سلطان کو لٹیرا ثابت نہیں کرتے۔

پھر ایک اور نئی چیز یہ کہ سائنسی بنیادوں پہ ہزاروں سالوں پہلے ہونے والے واقعات کو دیکھنے کی حس پیدا ہو گئی ہے ہمارے نئے تاریخ دانوں میں۔ ان کے پاس کوئی ایسی دوربین آ گئی ہے جو نہ صرف ماضی کے واقعات دیکھ لیتی ہے بلکہ ہزاروں  سال پہلے گزرنے والے لوگون کی ایسی نیتیں بھی جان لیتی ہے جس کا کسی مورخ نے ان کے گزرنے کے آٹھ ، نو سو سال بعد بھی ذکر نہیں کیا تھا۔ یہ بھی سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنانے کی چال کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سائنس پتھروں اور ہڈیوں کی جانچ کر کے یہ بتانے کے علاوہ کہ کتنی پرانی ہے یا شاید کس طرح مرے تھے اور کچھ نہیں بتا سکتی۔ ویسے بھی سائنس کی مانیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے اپنے دین کو جھٹلا کے اپنے آبا کو بندر تسلیم کرنا پڑے گا ۔ ویسے میرا مشورہ ہے کہ سائنس پہ اس قدر یقین رکھنے والے پہلے اپنے آبا کو چڑیا گھر سے نکال کے اپنے گھر منتقل کریں۔

پھر ان تاریخی شعبدہ بازوں کا اسرار ہے کہ مذہب کو الگ کر کے تاریخ کو دیکھا جائے۔ عقیدے کے بغیر صرف سچ نظر آتا ہے۔ پچھلے دنوں اسی بنیاد پہ ایک مشہور کالم نگار نے حکم صادر کر دیا کہ راجا داہر تو مجاہد تھا اور محمد بن قاسم ظالم جس نے اس کے دیس پہ حملہ کر دیا تھا۔ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل دین ہمارا عقیدہ سچا عقیدہ ہے۔ جہاد کا حکم، دین کو پھیلانے کا حکم اور اللہ کی زمین میں اللہ کا نظام رائج کرنے کا حکم اللہ تعالٰی کا ہی ہے۔ اگر ہم عقیدے کو کسی بھی چیز سے الگ کر کے دیکھیں گے تو پھر تو نعوذ باللہ صحابہ کرام بھی غلط ہو گئے جنہوں نے بیت المقدس غیز مسلموں سے چھین لیا۔ پھر تو نعوذ باللہ اللہ کے نبی صلی اللہ و علیہ وسلم بھی ظالم ہو گئے کہ مکہ پر زبر دستی قبضہ کیا۔

عقیدے کو زندگی کے کسی بھی شعبے سے الگ کرنے کا وہی انجام ہوتا ہے جو مغرب کا ہوا جہاں آدھے لوگوں کو ساری زندگی یہی پتہ نہیں چلتا کہ ان کا باپ کون تھا ۔ جہاں انسان اپنی خواہشات کے پیچھے چانوروں سے بھی گر گیا ہے۔ جہاں زندگی کا مقصد سوائے اپنی حیوانی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا۔ جہاں اپنی مرضی سے باپ بیٹی بھی ناجائز تعلق رکھ لیں تو کوئی جرم نہیں ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے اس نئی تاریخ کا ہمیں فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے۔فائدہ تو خیر یہ تاریخ لکھنے والے بھی کوئی نہیں بتا سکے ہاں پر نقصانات بے شمار ہیں۔اس تاریخ کو تسلیم کر لیں تو ہمارے پاس شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ہمارے پاس کوئی مثال نہیں بچتی۔ ہمیں تعلیم کی طرح تربیت کے لیے بھی مغرب کی طرف دیکھنا ہو گا۔ اور پھر اس کا انجام مغرب سے اچھا تو ہو نہیں سکتا کہ جہاں ماں کو اپنے بچے سے پانچ منٹ کی ملاقات کے لیے بھی عدالت جانا پڑتا ہے اور بدقسمتی سے جہاں جا کر بھی وہ کیس ہار جاتی ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توصیف احمد کشافؔ

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں