ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

6 اپریل، 2015

دھت تیرے کی۔۔۔!!!

  یہ ایک خالصتاً مردانہ محفل تھی، ہم پانچ دوست مختلف ایشوز پر بحث کر رہے تھے ، اچانک ایک زنانہ آواز آئی ’’آئی لو یو جان‘‘۔سب بے اختیار اچھل پڑے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر اُدھر دیکھا لیکن ٹی وی بھی بند تھا اوردور دور تک کوئی خاتون بھی نہیں نظر نہیں آئی۔ اتنے میں یہی آواز پھر ابھری اور عقدہ کھلاکہ یہ ایک دوست کے موبائل فون سے آرہی ہے۔دوست نے موبائل نکالا، کچھ دیر بات کی اور مسکراتے ہوئے فون بند کردیا۔ پتا چلا کہ موصوف نے اپنی بیگم کی آواز کو رِنگ ٹون بنا رکھا ہے۔ان کی بیگم کا جب بھی فون آتا ہے یہی پیار بھری ٹون بجنے لگتی ہے تاہم وہ جب بھی فون اٹینڈ کرتے ہیں دوسری طرف سے دانت پیسنے کی آوازیں چار گز دور بیٹھے بندے کو بھی سنائی دے جاتی ہیں۔پتا نہیں ایسے لوگوں کو کیا بیماری ہے، ایسی ایسی رِنگ ٹون لگاتے ہیں کہ سارا ماحول بدل کے رکھ دیتے ہیں۔پچھلے دنوں ایک جنازے میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال پیش آگئی، کندھا بدلتے ہوئے ایک صاحب نے کلمہ شہادت کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی ان کے موبائل سے آوا زآئی’’چٹیاں کلائیاں وے‘‘۔
اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مخصوص رِنگ ٹون اس لیے لگاتے ہیں تاکہ پتا چل جائے کہ کس کا فون آرہا ہے، میرے ایک محلے دار کے فون پر اکثر گدھے، بلی، اونٹ اور بھیڑیے کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ایک دفعہ راز پوچھا تو دانت نکال کر بولے ہر سسرالی رشتہ دار کے لیے مختلف رِنگ ٹون سیٹ کی ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ان کے موبائل سے خطرے کے سائرن کی آواز آئی، میں نے پوچھا یہ کس کا نمبر ہے؟ اطمینان سے بولے ’’دوکاندار کا۔‘‘
کئی لوگوں کے ایک نام والے کافی سارے لوگ ہوں تو وہ یاد دہانی کے لیے ان کا نمبر محفوظ کرتے وقت اکثر ان کا کریکٹر بھی ساتھ لکھ دیتے ہیں مثلاًاگر شہزاد نام کے ایک سے زیادہ لوگ ہوں تو ان کے نام کچھ یوں درج ہوں گے’’شہزاد ڈنگر، شہزاد چول، شہزاد بونگا، شہزاد منحوس، شہزاد بھوکا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جن لوگوں کو ہر نام کے ساتھ رنگ ٹونز لگانے کا شوق ہوتاہے وہ بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں ، میرے آفس بوائے نے بھی ہر نام کے لیے ڈھونڈڈھونڈ کر گانوں والی رنگ ٹونز لگائی ہوئی ہیں۔ اس کی والدہ کا فون آئے تو گانا بجتا ہے ’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘۔۔۔والد صاحب کا فون آئے تو آواز آتی ہے’’پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا‘‘۔ بھائی کا فون آئے تو ’’دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے‘‘ چل پڑتاہے۔ایک دفعہ وہ چائے بنا رہا تھا، میں نے اپنا سٹیٹس چیک کرنے کے لیے اسے بیل ماری تو آگے سے گانا چل پڑا’’گھوڑے جیسی چال ہاتھی جیسی دُم‘‘۔۔۔!!!
آپ نے یقیناًوہ لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو رِنگ ٹونز کے شیدائی ہوتے ہیں،ان کااولین شوق موبائل میں نئی نئی رنگ ٹونز بھروانا ہوتاہے ،یہ ہر دو گھنٹے بعد اپنی رِنگ ٹون بدل دیتے ہیں۔فارغ وقت میں ان کا بہترین مشغلہ اپنے ہی موبائل کی مختلف رِنگ ٹونز سننا ہوتاہے۔یہ کہیں بیٹھے ہوں تو اِن کے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز ساتویں محلے تک سنائی دیتی ہے تاہم یہ فوراً ہی کال رسیو نہیں کرتے بلکہ تیس چالیس سیکنڈ تک خود بھی ٹون سننے کا مزا لیتے ہیں اور اردگرد بیٹھے ہوؤں کو بھی ذہنی کوفت میں مبتلا کرتے ہیں۔کئی نیک لوگ مذہبی کلمات کو رنگ ٹون بنانا پسند کرتے ہیں ، میرے ایک دوست نے ’’بسم اللہ‘‘ کو اپنی رنگ ٹون بنا رکھا ہے، کئی دفعہ جب اس کی بیگم لڑائی کے دوران اس کے اوپر گرم گرم چائے پھینکنے لگتی ہے تو اتفاق سے کسی نہ کسی کا فون آجاتا ہے اور چائے گرنے سے پہلے آواز آتی ہے’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘۔اسی طرح ایک اور دوست ہیں جنہیں ہر وقت موت یاد رہتی ہے لہذا انہوں نے اپنی رنگ ٹون بھی اسی کے مطابق سیٹ کی ہوئی ہے۔موصوف نے پچھلے دنوں دوسری شادی کرلی، نکاح ہوگیا تو اچانک ان کے موبائل سے آواز آئی’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
اکثر لوگ میسج کی ٹون بھی مختلف رکھنا پسند کرتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ اتنی مختلف ہوجاتی ہے کہ ساتھ والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہوا کیا ہے۔ میں ایک دفعہ آفس آنے کے لیے لفٹ میں سوار تھا کہ اچانک کتے کے بھونکنے کی زوردار آواز آئی، لفٹ میں سوار ہر بندے کی ہاف چیخ نکل گئی۔پتا چلا کہ کونے والے صاحب کے موبائل پر میسج آیا ہے۔ اسی طرح آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بھری محفل میں اچانک دروازے پر دستک کی آواز آتی ہے، یہ بھی میسج کی ٹون ہوتی ہے۔میرے دفتر کے ہمسائے میں ایک صاحب نے میسج کی ٹون پر ایک خاتون کی کربناک چیخ لگا رکھی ہے ، سو کئی دفعہ ہوا کہ گاڑی چلاتے ہوئے انہوں نے شیشے کھولے،کوئی میسج آیا اورکسی قریبی راہگیرنے ان کی گاڑی کا نمبر نوٹ کرکے ون فائیو پر فون کر دیا۔تاہم پچھلے کچھ دنوں سے مجھے چیخوں کی آواز نہیں آئی تو پتا چلا کہ انہوں نے یہ رِنگ ٹون بدل دی ہے، میں نے وجہ پوچھی توکھسیانے ہوکر بات بدلنے کی کوشش کی، میں نے زور دیا تو شرمندہ ہوکربولے’’یار بس جمعہ پڑھنے گیاتھااور جلدی میں موبائل کو میوٹ پرکرنا بھول گیا۔۔۔!!!‘‘
موبائل کی ایک ٹون تو وہ ہوتی ہے جو آپ کی کال آنے پر آپ کے موبائل میں بجتی ہے، دوسری وہ ہوتی ہے جسے ’’کالر ٹون‘‘ کہتے ہیں، میں نے ایک دفعہ شوق شوق میں یہ ٹون لگا لی اور اس کے بعد عذاب میں پھنس گیا، دودھ والے کا بھی فون آتا تھا تو اسے میری طرف سے سنائی دیتا تھا’’بہت پیار کرتے ہیں تم کو صنم‘‘۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس ٹون سے چھٹکارا حاصل کر سکوں لیکن ناکام رہا، موبائل کمپنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک کوڈ بتایا کہ اِسے فلاں نمبر پر ایس ایم ایس کردیں آپ کی کالر ٹون ختم ہوجائے گی۔میں نے فوری طور پر ایسا ہی کیا اور چیک کرنے کے لیے پی ٹی سی ایل سے اپنے نمبر پر فون کیا تو آواز آئی’’گندی بات، گندی گندی گندی بات‘‘ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، جلدی سے موبائل کمپنی کی ہیلپ لائن پر دوبارہ کال کی، پینتیس منٹ تک تو کمپنی والے مجھے اپنی ریکارڈڈ آفرز سناتے رہے، بالآخر ان کے نمائندے سے بات ہوئی تو میں نے اپنی مصیبت بیان کی۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا کہ آپ کو کسی نے غلط گائیڈ کیا ہے، آپ یہ والا کوڈ ملائیں تو سکھی ہوجائیں گے۔ میں نے تہہ دل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک بار پھر نیا کوڈ ایس ایم ایس کرکے دھڑکتے دل سے دوبارہ اپنا نمبر ملایا۔ بہت خوشی ہوئی کہ کوئی گانا نہیں چلا البتہ کمپنی کا جوابی میسج آگیا کہ’’ آپ کی خواہش کے احترام میں آپ کی تمام کالر ٹونز ختم کردی گئی ہیں اور اس کے عوض آپ کے اکاؤنٹ سے مبلغ 30 روپے جھاڑ لیے گئے ہیں اگر آپ دوبارہ یہ عذاب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس میسج کے جواب میں کچھ بھی لکھ کر بھیج دیں، انشاء اللہ ہم آپ کی زندگی اجیرن بنانے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔‘‘میں نے فوری طور پر میسج کیا’’پلیز میں ایسا کچھ نہیں چاہتا ،میں پہلے ہی بہت تنگ ہوں آپ کی مہربانی مجھے معاف رکھیں‘ ‘۔ فوراً ہی جواب آیا’’آپ کا بہت شکریہ، آپ کی فرمائش پر آپ کی تمام سابقہ ٹونز بحال کردی گئی ہیں۔۔۔‘‘
--------------
گل نوخیز اختر

1 comments:

  1. Kya hi baat hai jnab.... Bohat Khoob... Dil baagh baagh hone ki jurrat e farhat aamez krne lg gya ye post parh kar...
    http://poetryhand.blogspot.com

    جواب دیںحذف کریں