کیا کبھی کسی نے یہ تصور کیا ہے کہ جو امت صرف چندسکینڈ کے وقفے سے بلکہ بعض اوقات تو براہِ راست عرفات میںدیے جانے والا خطبہ سنے، لندن، سڈنی یا دبئی میں ہونے والا میچ دیکھ لے ، کسی بھی ملک کے کسی شہر میں ہونے والے پولیس مقابلے کو دیکھے اور اس پر یقین بھی کرے، گیارہ ستمبرکو گھنٹوں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرنے کا منظر ایسے دیکھے جیسے وہ ان کے سامنے برپا ہے، لیکن اگرآپ اس امت کے اربابِ اختیارسے لے کر علمائے کرام سے پوچھیں کہ یہ پوری امت دنیا بھر میں ایک ساتھ چاند کیوں نہیں دیکھ سکتی تو آپ کو بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں گی۔
سب سے پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ زمینی حقائق میں قومی ریاست سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس قومی ریاست کی حکومت ہی مسلمانوں کا ایک نظمِ اجتماعی ہے اور اس نظم اجتماعی کے تحت ہر ملک کی ایک رویتِ ہلال کمیٹی ہے۔ یعنی 1920 کے آس پاس عالمی طاقتوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جس کمال مہارت کے ساتھ سرحدوں میں تقسیم کیا ہے وہ زمینی حقیقت آسمانی حقیقتوں، الہامی کلام اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات سے بڑی حقیقت ہیں۔ طورخم، تفتان اور خنجراب کی لکیروں کے ایک جانب کھڑے پاکستانی اور دوسری جانب کھڑے افغان، ایرانی اور چینی، جن کے سروں پر ایک ہی وسیع آسمان ہے۔
جس پر چاند اپنا سفر مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اس آسمانی حقیقت کے باوجود، لکیر کے اسطرف موجود لوگ روزے سے ہوتے ہیں اور دوسری طرف والے عید منا رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں ہرات، ایران میں اردبیل اور چین میں شنگھائی میں کسی نے چاند دیکھ لیا ہو، اور وہ ممالک اپنی حدود تک عید منا رہے ہوں اور ان کی عید یا چاند کی رویت پاکستان کی سرحد پر طورخم، تفتان اور خنجراب پر آکر ختم ہو جائے، اس لیے کہ آسمان پر چمکنے والے چاند پر بھی قومی ریاستوں کے عالمی قانون کا اطلاق لازم ہے اس لیے کہ چاندکے پاس اس ملک کا ویزہ نہیں ہے اور یہ ویزہ ہر ملک کی رویتِ ہلال کمیٹی لگاتی ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر مسلمان ملک میں رویتِ ہلال کمیٹیاں موجود ہیں اور وہ علمائے کرام پر مشتمل ہیں جو اپنے خطبوں میں یقینا سید الانبیاء ﷺ کی یہ حدیث ضرور سناتے ہوں گے کہ یہ امت ایک جسدِ واحد کی طرح ہے۔ اس بات کا بھی اعلان زور و شور سے کرتے ہوں گے کہ سرورِ دو عالم ﷺ کو ساری انسانیت کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یہ علمائے امت جب اپنے مسالک کی عالمی کانفرس منعقد کرتے ہیں تو پوری دنیا سے اپنے مسلک کے علماء کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کر لیتے ہیں۔ شیعہ، سنی، دیو بندی، بریلوی، اہلِ حدیث، آپ سب کے عالمی اجتماعات علیحدہ علیحدہ جا کر دیکھ لیں ،امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک جہاں بھی ایک مسلک کے چندعلماء آپس میں اکھٹا ہوں گے، آپ کو ان میں ذرا برابربھی اختلاف نظر نہیں آئے گا۔
عالمی اسلامی انقلابی تحریکوں کو ایک ساتھ جمع کرنے والی سیاسی پارٹیاں جن میں پاکستان میں جماعتِ اسلامی او ر مصر میں اخوان المسلمون شامل ہیں، یہ بھی اپنے عالمی اجتماعات زور و شور سے منعقد کرتی ہیں، دھواں دار تقریرں ہوتی ہیں، مسلم امت کے دکھٹرے روئے جاتے ہیں، اتحاد بین المسلمین کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔
یہ تمام علمائے امت اور مذہبی سیاسی رہنما آج تک ایک دن کے لیے بھی اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ اس دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا ایک ہی چاند ہے جو ایک ہی آسمان پر طلوع ہوتا ہے اور ایک ماہ میں تقریباً 29دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 28 سیکنڈ کی گردش مکمل کرتا ہے۔ اس ایک چاند کو اگر ہوائی کے ساحلوں سے لے کر فیجی کے جزیرے تک کہیں بھی دیکھ لیا جائے تو مسلمان بیک وقت روزہ رکھ سکتے اور عید منا سکتے ہیں۔
کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ دنیا میں کہیں بھی دو ملکوں کے درمیان 24 گھنٹوں سے زیادہ کا وقفہ نہیں ۔ فیجی زمین کے مشرقی کونے میں واقع ہے اور وہاںاگر یکم جنوری کو طلوعِ آفتاب 5:33 اور غروبِ آفتاب 6:46 بجے ہے۔ آپ مغرب کی طرف بڑھیں چھ گھنٹے بعد جکارتا، چار گھنٹے بعدمکہّ، ایک گھنٹے بعدقاہرہ، دو گھنٹے بعد لندن اور پانچ گھنٹے بعد نیویارک میں آپ اسی یکم جنوری کی نماز فجر اور نماز مغرب ادا کریں گے۔
لیکن اسی یکم جنوری کے آس پاس اگر چاند دیکھ کر عید کرنے کی بات آجائے تو یہ عید تین جنوری تک چلتی رہے گی جب کہ اس دوران چاند اپنا تین دن کا سفر مکمل کر چکا ہو گا۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ چاند دیکھ کر عید منانا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بنائی ہوئی حدود و قیود کے مطابق نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی کھینچی ہوئی حدود و قیود کے مطابق ہے۔ 1971 سے پہلے اگر چٹاگانگ یا ڈھاکا میں چاند نظر آجاتا تھا تو گوادر اور پشاور والے ایک ساتھ عید کرتے تھے لیکن آج اگر رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین سے سوال کریں تو وہ کہیں گے کہ بنگلہ دیش کا مطلع الگ ہے اور ہمارا مطلع الگ۔ روس زمین کے شمال میں واقع ایک وسیع ملک ہے جس میں گیارہ ٹائم زون آتے ہیں۔
روس میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، بلکہ ایک اندازے کے مطابق روسی فوج میں چالیس فیصد مسلمان ہیں۔ اس روس میں گیارہ ٹائم زون میں رہنے والے مسلمان ایک دن عید کرتے ہیں چونکہ روس ایک عالمی سرحدہے جب کہ 57 اسلامی ممالک بھی گیارہ ٹائم زون میں تقسیم ہیں جو مراکش سے برونائی تک واقع ہیں۔ لیکن یہاں تو اردن اور شام کی سرحدوں پر اور ایران و عراق کی سرحدوں پربھی علیحدہ علیحدہ عیدیں منائی جاتی ہیں اس لیے کہ ان کی 57 عالمی سرحدیں ہیں۔
ہمارے علمائے امت کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے مسلکی اختلاف کو زمینی حقائق کا نام دیتے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ اس پوری امت میں یہ اختلافات شاید پاکستان میں ہی ہے۔ لیکن 2007 کا رمضان ایران میں گزارنے کا موقع ملا۔ رات گئے تک پوری ایرانی قوم انتظار کر رہی تھی کہ ابھی رویتِ ہلال کمیٹی اعلان کر دے گی۔ فقہ جعفریہ کے مطابق لوگوں نے” یومِ شک ” کا روزہ رکھ لیا جسے چاند کی اطلاع نہ ملنے پر 12 بجے سے پہلے توڑا جا سکتا ہے۔ گیارہ بجے کے قریب میں کا ر میں سفر کر رہا تھا، ریڈیو لگا ہوا تھا، اس پر رویتِ ہلال کمیٹی کاقم سے اعلان ہوا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا ہے۔
میرے ڈرائیور نے ایرانی مزاح کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ” ہمراہ آفتاب آمد” یعنی آج چاند اور سورج ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ ہمارے علماء سعودی عرب یا ایران یا پھر کسی اور ملک کی رویت اس لیے نہیں مانتے کہ ان کا ملک علیحدہ ہے۔ بلکہ ملک علیحدہ ہونا تو ایک بہانہ ہے، اصل بات یہ ہے کہ ان کا مسلک علیحدہ ہے۔ یہ وہ اختلاف ہے جس نے قومی ریاستوں اور ان کی حدود کو اللہ کے احکامات اور رسول اللہ کی سنت سے بھی زیادہ محترم اور مقدس بنا دیا ہے۔
گزشتہ چودہ سو سال کی تاریخ اس بات پر شاھد ہے کہ اس امت کے تمام مسالک نے چاند کی رویت میں مطلع کا کبھی اختلاف نہیں کیا۔ فقہہ حنفی کی کتابوں الہدایہ او ر الدر المختار میں کہا گیا، اہلِ مشرق پر اہلِ مغرب کی رویت دلیل ہے۔ مالکی فقہہ کی کتاب “ھدایتہ المجتہد” اور ” مواہب الجلیل” بلکہ قاضی ابو اسحاق نے ” ابن الماحبثون” میں یہاں تک کہہ دیا اگر ایک ملک کے لوگوں کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ انھوں نے چاند دیکھاہے تو روزے کی قضا واجب ہے۔ یہی مسلک حنبلیوں کے ہاں ” الاحناف” اور شافیعوں کے ہاںالمغنی میں درج ہے اور کیوں نہ ہو ان تمام آئمہ کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی سنت موجود تھی جو ان احادیث سے واضح ہے۔
ـ” ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا، آپ نے پوچھا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں ۔ اس نے کہا ، ہاں، آپ نے فرمایا، بلال اعلان کر دو کل روزہ رکھیں (ترمذی، سنن ابنِ داؤد)” اس سے زیادہ واضح بات اس حدیث میں ہے۔ ” لوگ عید کے چاند میں اختلاف کرنے لگے کہ دو اعرابی آئے، انھوں نے اللہ کے رسول کے روبرو اللہ کو گواہ بنا کر کہا کہ کل رات انھوں نے چاند دیکھا ہے تونبی اکرمﷺ نے حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں (ابو داؤد)”. ان دونوں احادیث میں نہ کہیں فاصلے کا ذکر ہے اور نہ ہی حدود و قیود کا۔ آج اگر مراکش کے ساحل پہ جہاں چاند پہلے طلوع ہوتا ہے۔
چند لوگ جو پارسا اور پرہیزگار بھی ہوں، وہ اگر چاند دیکھ لیں اور صرف چند گھنٹے کی فلائٹ لے کر مفتی منیب الرحمان صاحب کی رویتِ ہلال کمیٹی کے سامنے جو کراچی میں چھت پر کھڑی دوربین لگا کر چاند دیکھ رہی ہوتی ہے، اسے گواہی دے دیں تو کیا یہ رویتِ ہلال کمیٹی والے اعلان کر دیں گے کہ کل روزہ رکھو، یا اگر وہ عید کے روز لیٹ ہو جائیں تو اعلان کریں گے کہ روزہ توڑ دو ۔ شاید نہ کریں اس لیے کہ ہمارے ہاں زمینی حقائق اور قومی ریاستوں کی حدود اللہ کے رسول کی سنت سے زیادہ محترم اور مقدس ہو چکی ہیں۔ ایک چھوٹا سا ٹی وی چینل آسٹریلیا سے امریکا تک ہر چیز براہِ راست دکھانے کا اہتمام کر سکتا ہے۔ اس امت کے 57 اسلامی ممالک صرف چندمقامات پر چاند دیکھنے کے مراکز قائم کر کے پوری امت کو ایک رمضان اور ایک عید کا تحفہ نہیں دے سکتے۔
اوریا مقبول جان