ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

17 نومبر، 2010

تاریخ سے ایک ورق

تاریخ سے ایک ورق

یہ بات ایک ایسی خبر سے متعلق ہے جو  شیخ الاسلام علامہ اِبن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف (النفیس الدرر الکامنہ) کے تیسرے حصے میں صفحہ نمبر 202 پر درج فرمائی ہے۔
منتخب مواد کو محض ترجمہ کر کے آگے ایمیل کردینا کوئی بڑا کام نہیں ہے، موقع و محل کی مناسبت سے  کچھ تبدیلی یا اپنی طرف سے اضافہ کرنا ہو تو اپنی علمی کم مائیگی اور ادبی حیثیت کا پتہ چلتا ہے، اور اگر  یہ بھی معلوم ہو کہ یہ ایمیل آپ جیسے علم و ادب کے اساتذہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے پاس جانی ہوتی ہے تو اُس وقت یہ احساس اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
کاش کاغذ و قلم والی روایتی خط و کتابت کا رواج ہوتا تو یہ خط  عنبر و عطر  سے مہکا کر بھیجتا، تاکہ لفاظی کی کمی ظاہری خوبصورتی میں چھپ جاتی۔
تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ آج مجھے عزت و حرمت و تکریم  اور ناموسِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر بات کرنی ہے، دل میں لاکھ عشق سہی مگر حروف میں بیان کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ آپ سے گزارش ہے موضوع میں کوئی بھی کمی، کوتاہی یا غلطی میری کم علمی شمار کیجیئے مگر دانستگی ہرگز نہیں۔
دورِ اسلام کے جس حصے میں ہم رہ رہے ہیں اِس زمانے میں کائنات کے نجس ترین لوگوں اور  ہر ایرے غیرے کافر  زندیق ملحد عیسائی ہندو  یہودی، گائے، سانپ اور بندر کی عبادت کرنے والوں یا صلیب کے پجاریوں کے نزدیک ذاتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی سستی سی چیز بن کر رہ گئی ہے۔
سب و شتم تو معمول کی بات ہے ہی، یہ ناپاک لوگ تو اِس سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں، ڈنمارک نے ایک ارب پچیس کروڑ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے حبینا صلی اللہ علیہ وسلم کی استہزاء اور تضحیک کےلئے  اُن کے کارٹون بنانے کے مقابلے کا انعقاد ہی کرا ڈالا۔
ان سب جسارتوں کے پیچھے ان کا مشاہدہ اور تجربہ ہوتا ہے کہ مسلمان نہ تو کوئی عملی قدم اُٹھائیں گے اور نہ ہی اُن کو کوئی خاص اشتعال آئے گا۔ زیادہ سے زیادہ دِل میں ہی کچھ کرنے کی حسرت کر کے رہ جائیں گے یا اپنی جانوں کے اندر ہی اندر درد پالیں گے۔ مسجد و منابر پر  آ کر تباہ و برباد ہونے کی بد دعائیں دیکر، اخبارات میں کالم لکھ کر، انٹرنیٹ پر پولنگ کرا کر یا ایمیلز میں کوئی دستخطی مہم چلا کر بات ختم ہو جائیگی۔
دیکھ لیجئے، ہمیں اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، حوضِ کوثر پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا بھی کرنا ہے۔ اپنی آنکھوں پر پڑی دنیا کی پٹی اور دلوں پر لگے زنگ کی وجہ سے اپنی بے حسی کا کل جواب بھی دینا ہے۔  کہیں ندامت نہ اُٹھانی پڑے۔
آئیے اس خبر کا ترجمہ پڑھ کر دیکھتے ہیں:

منگولوں کو عیسائی بنانے کے لالچ میں عیسائی مبلغین انکے قببیلوں میں بڑٖے جوش و خروش سے تبلیغ و پرچار کیا کرتے تھے، اپنی عیسائی بیوی ظفر خاتون کی خوشی اور خواہش کے سامنے مجبور  ہلاکو عیسائیوں کو ہر قسم کی معاونت دیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی منگول سردار کی فتح کی خوشی میں تاج پوشی کی ایک بہت بڑی تقریب میں سرکردہ عیسائی مبلغین بھی شریک ہوئے۔ ایک عیسائی مبلغ نے موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر وعظ و نصیحت شروع کی اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں بکنا شروع کردیں۔  وہیں پر ایک شکاری کتا بھی بندھا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس بد بخت عیسائی نے ذاتِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم پر بکواس بازی شروع کی، کتے نے ایک زقند بھر کر اس عیسائی کی ناک اور منہ کو کھرونچ ڈالا، بہت ہی جد و جہد اور تگ  و دو کے بعد کتے کو علٰیحدہ کیا گیا۔ مجمع میں سے کچھ لوگوں نے اُس عیسائی سے پوچھا کہیں کتے نے تیری اس حرکت وجہ سے (نعوذُ باللہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے) تو تجھ پر حملہ نہیں کیا؟
عیسائی نے کہا بالکل نہیں، اصل میں یہ ایک غیرت مند کتا ہے، میں نے بات کرتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا تھا، اس نے سمجھا میں اِسے مارنا چاہتا ہوں، اس لیئے یہ مجھ پر حملہ آور ہو گیا۔
اس کے بعد عیسائی نے دوبارہ شانِ رسالت میں گستاخی شروع کی، اب کی بار کتے نے رسی تڑا کر عیسائی کی گردن میں دانت گاڑ دیئے اور اُس وقت تک نہ چھوڑا جب تک وہ عیسائی مر نہ گیا۔ موقع پر موجود یا اِس واقعہ کو سننے والے لوگوں میں سے چالیس ہزار لوگ حلقہ بگوشِ اِسلام ہوئے۔
(الدرر الکامنۃ  پارٹ 3  صفحہ نمبر 202)

ذہن میں تو کئی ایک سوال اُٹھ رہے کہ ہم سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی ایک محبت کرتے ہیں مگر جواب بہت مشکل ہیں شاید!



 یہ مضمون عربی سے  اردو میں ترجمہ کرکے آپکی خدمت میں پیش کیا ہے


 محمد سلیم/شانتو-چائنا

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں