ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

3 جنوری، 2011

تجربہ تو کرنے دیجیئے

تجربہ تو کرنے دیجیئے

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک  بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ)  نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور  پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر  آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا بلکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار  رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر  دیا۔
مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو  اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔
مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی  نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت  سے تو  شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی  اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟
نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو  بھی نہیں سکتا تھا۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔
نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
نوجوان کی ماں نے خوشی تو  محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار  اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس  بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔
ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی  گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر  اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا  تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔ وہ  رات اُس نے ماں کے ساتھ باتیں کرتے گُزاری، تھوڑے سے کپڑے دھونے سے اُسکا جسم تھکن سے شل ہو گیا تھا۔ سارا سارا دن بغیر کوئی شکوہ زبان پر لائے کپڑے دھونے والی ماں سے  باتیں کرنا آج  اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا، دِل تھا کہ کسی طرح بھی باتوں سے بھر نہیں پا رہا تھا۔
دوسرے دِن اُٹھ کر نوجوان دوبارہ اُس کمپنی کے دفتر گیا، مُدیر  نے اُسے اپنے کمرے میں ہی بُلا لیا۔ نوجوان کے چہرے سے اگر جگ راتے کی جھلک نُمایاں تھی تو آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کسی ندامت اور افسردگی کی کہانی سُنا رہی تھی۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا، کل گھر جا کر تُم نے کیا کیا تھا؟
نوجوان نے مختصرا کہا کہ کل میں نے  گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوئے تھے اور پھر اُس کے باقی بچے ہوئے کپڑے بھی دھوئے تھے۔
مُدیر نے کہا میں تمہارے محسوسات کو پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سُننا چاہتا ہوں۔
نوجوان نے کہا: کل مُجھے لفظ قُربانی کے حقیقی معانی معلوم ہوئے۔ اگر میری امی اور اُسکی قُربانیاں ناں ہوتیں تو میں آج اِس تعلیمی مقام پر ہرگز فائز نہ ہوتا۔ دوسرا میں نے وہی کام کر کے اپنے اندر اُس سخت اور کٹھن محنت کی قدر و قیمت کا احساس پیدا کیا جو میری ماں کرتی رہی تھی اور مُجھے حقیقت میں اُسکی محنت اور مشقت  کی قدر کا اندازہ ہوا۔ تیسرا مُجھے خاندان کی افادیت اور قدر کا علم ہوا۔
مُدیر نے نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنی کمپنی میں موجود ادارتی منصب کیلئے ایک ایسے شخص کی تلاش تھا جو دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھنے والا ہو، دوسرے کا اِحساس کرنے والا ہو اور صرف مال کا حصول ہی اُسکا مطمعِ نظر نہ ہو۔ نوجوان تمہیں مبارک ہو، میں تمہیں اِس منصب کیلئے منتخب کرتا ہوں۔
اور کہتے ہیں کہ نوجوان نے اُس کمپنی میں بہت محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ کام کیا، دوسروں کی محنت کی قدر اور احساس کرتا تھا، سب کو ساتھ لیکر چلنا اور سارے کام  مِل جُل کر ایک فریق کی حیثیت سے انجام دینا اُسکا وطیرہ تھا، اور پِھر اُس کمپنی نے بھی بہت ترقی کی۔
اِس کہانی سے اخذ کیئے گئے کُچھ نتائج ملاحظہ فرمائیے:
جِس بچے کو مُحبت اور شفقت کے علاوہ اُسکے منہ سے نکلنے والی ہر خواہش کی فوری تعمیل کے ماحول میں  پرورش کی جائے وہ بچہ ہر چیز پر حقِ ملکیت محسوس کرتا ہے اور ہمیشہ اپنی خواہشات اور اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے۔
ایسا بچہ اپنے باپ کی محنت اور مشقت سے بے خبر رہتا ہے، جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو  ہر کسی سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اُسکا ماتحت اور تابع فرمان ہو۔
ایسا بچہ عملی زندگی میں کسی ادارتی منصب یا ذمہ داری پر فائز ہو جائے تو اپنے ماتحتوں کا دُکھ درد اور تکلیفوں کو سمجھتا ہی نہیں اُلٹا کسی قسم کی ناکامی کی صورت میں اپنی  ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے۔
دوسروں کو حقارت اور کمتر سمجھنا تو معمولی بات ہے ایسا بچہ اپنے مفادات اور کامیابیوں کیلئے دوسروں کو راستے سے ہٹانا معمولی بات سمجھتا ہے۔
دیکھ لیجیئے اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت اِسی انداز سے کر رہے ہیں تو ہمارے کیا مقاصد ہیں؟ ہم اُنکی حفاظت کر رہے ہیں یا اُن کی بربادی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں؟
ہو سکتا ہے آپکا  بچہ ایک بڑے گھر میں رہتا ہو، انواع و اقسام کے اعلٰی کھانے کھاتا ہو، پیانو کی تعلیم حاصل کرتا ہو، کسی پروجیکٹر  یا بڑی سکرین والے ٹیلیویژن پر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتا ہو، لیکن اگر کبھی وہ گھر کے لان کی گھاس کاٹنا چاہے تو اُسے اِس کام کا تجربہ تو کرنے دیجیئے۔
اگر وہ کھانا کھا چُکے تو اُسے بہنوں کے ساتھ یا ماں کے ساتھ باورچی خانے میں جا کر اپنی پلیٹ بھی دھونے دیجیئے۔
اِسکا یہ مطلب ہرگز نہیں بنے گا کہ آپکے پاس گھر میں خادمہ رکھنے کی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اِسکا یہ مطلب بنے گا کہ آپ اپنے بچے سے صحیح اُصولوں کے مطابق محبت کرتے ہیں۔
کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے کے اندر اِس بات کا شعور اور احساس پیدا ہو کہ اُس کے باپ نے اُس کیلئے جو  دولت چھوڑ کر جانی ہے وہ آسانی سے نہیں کمائی گئی تھی جس طرح مذکورہ بالا کہانی میں نوجوان کی ماں کی محنت و مشقت والی کمائی کا ذکر ہے۔
اِن سب باتوں سے قطع نظر، آپ اپنے بچے کو ایثار اور قُربانی کا مفہوم سمجھانا چاہتے ہیں، آپ اُسے کام کی تکلیف اور مصائب و مشاکل سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
آپ اُسے بتانا چاہتے ہیں کہ دوسروں کی محنت و مشقت کی قدر اور احساس کیا جائے تاکہ نتائج سے سب مل کر لطف اُٹھا سکیں

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں