ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

4 ستمبر، 2011

Hijab for Muslim women

آج بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ اقوام و مذاہب عالم کے سمندروں میں طوفان حوادث نے تباہی و بربادی مچائی ہوئی ہے۔ عمل اور انکشاف کی دنیا میں ایک ہیجان برپا ہے۔ موت و حیات کی کشمکش شروع ہوگئی ہے۔ مظالم، نا انصافیاں، دہشت گردی، خونی ہنگامہ آرائی مشرق کو مغرب میں تبدیل کرنے کیلئے پنجہ آزما ہو رہی ہیں۔
 
ایک شور اور ایک طوفان ہے جو پاکستان، ایران، امریکہ، فرانس اور یورپ میں اٹھ رہا ہے اور شمال کو جنوب اور جنوب کو شمال اور مشرق کو مغرب بنانے کے درپے ہے۔ صدیوں کے بعد اب شہادت گاہیں سنسان مقامات پر قائم ہوگئی ہیں دارور سن کی خونی اور وحشیانہ نمائش گاہیں سر بازار کھل گئی ہیں۔ جانوں کی قیمت اور خون ریزی کے بازار سجادیئے گئے ہیں۔ اہل اسلام کا خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہوچکا ہے۔ سولی پر چڑھی ہوئی لاشیں یہ صدائیں لگارہی ہیں۔ اے اسلام کے نام لیواؤ! اے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاسبانو! خواب غفلت سے جاگو۔ کیا دیکھتے نہیں آج مغرب نے کمر باندھی ہے کہ وہ ممالک اسلامیہ کو نیست و نابود کردے۔ ان کی تہذیب و تمدن کے سوتے خشک کردے۔ ان کو ان کی اسلامی اقدار سے دور کرکے ان کو اپنے جیسا وحشی بنادے۔
عزیزان گرامی!
اسلامی تہذیب و ثقافت سے کسی کا کیا جاتا ہے جو وہ اس کے درپے ہیں۔ اگر مسلمان عورت خود کو حجاب میں محفوظ تصور کرتی ہے تو ان کا کیا بگڑتا ہے اور اگر عیسائی سکولوں میں خواتین اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اسکارف سر پر لینے پر آزاد ہے تو باپردہ عورتوں کو مطعون کیوں کیا جاتا ہے۔ ان پر کفن پوش، دقیانوسیت کی پھبتیاں کیوں کسی جاتی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ان کی ثقافت پر طعن و طنز کے تیر کیوں برسائے جاتے ہیں؟ کیا ان خواتین کو جینے کا کوئی حق نہیں؟ یہود ونصاری کیوں اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کے درپے ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے سے پورا عالم اسلام دو چار ہے۔
مصر میں حجاب کی مخالفت
مصر میں ترقی و روشن خیالی کے داعی قاسم امین نے آزادی نسواں کے حق میں ایک کتاب 1899ء میں ’’تحریر المراۃ‘‘ کے نام سے شائع کی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام میں بے پردگی کی مخالفت نہیں۔ اس کتاب نے مصر کی اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے میں کیا کردار ادا کیا؟ اسکندریہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین اپنی کتاب ’’التجاہات الوطنیۃ فی الادب المعاصر‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اس دعوت و تحریک کے نتیجے میں عورتوں میں بے پردگی اور بے حجابی، آزادی و بے قیدی کا جو رجحان پیدا ہوا اس سے اسلامی خیال کے لوگ گھبراگئے، عورتوں کے خیالات میں قدیم آداب و رسوم، باپ اور شوہر کے اقتدار کے خلاف بغاوت کا جو جذبہ پیدا ہورہا تھا اس کو انہوں نے شدت سے ناپسند کیا۔ وہ استعجاب اور پریشانی کے عالم میں لباس کی تبدیلیوں اور تیزی کے ساتھ ڈھیلے ڈھالے اور ساتر مصری لباس کے مقابلے میں چست و کوتاہ مغربی لباس کو دیکھ رہے تھے جو اس تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا تھا کہ جس کا ان کو پہلے سے کوئی اندازہ نہ تھا‘‘۔
افغانستان میں حجاب کی مخالفت
 1960ء سے قبل افغانستان میں اسلامی ثقافت اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم تھی۔ حجاب کا باحیا تصور یہاں موجود تھا لیکن اسلامی تہذیب و ثقافت کے دشمنوں کی آنکھ میں گلستان خار بن کر چبھنے لگا اور انہوں نے اس چمن کو روند ڈالا۔ ٹائمز آف انڈیا (Time of India) کا یورپین نامہ نگار Ritchie Colder جس نے 1963ء کے افغانی جشن استقلال میں شرکت کی تھی اس اخبار کی 28 جولائی 1963ء کی اشاعت میں لکھتا ہے۔ تین سال قبل یہاں (افغانستان) کی عورتیں پردہ میں تھیں۔ اس وقت اگر ایسے مواقع پر اسے باہر نکلنے کی اجازت ملتی بھی تو اسے چادر میں ملفوف ہوکر آنا پڑتا جو اسے سر سے پیر تک ڈھکے رہتی اورنقاب اس کے چہرہ کو ڈھانپے ہوئے ہوتا جس میں دیکھنے کے لئے سوراخ بنے ہوتے۔ لیکن اب ان کو اپنا چہرہ کھلا رکھنے کی آزادی نصیب ہو چکی ہے اور عورتوں کی بڑی اکثریت بے نقاب ہوچکی ہے۔
(
مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، ص 35 بحوالہ ٹائمز آف انڈیا)
بخارا میں حجاب کی مخالفت
عورتوں کو گمراہ کرنے کے لئے سب سے زیادہ حجاب شکنی پر زور دیا گیا اور اپنی تمام تر توانائیاں پردے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ سب سے پہلے نظر پھر دل اور پھر نفس بہکتا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کو صرف مصر اور افغانستان میں ہی کچلا نہیں گیا بلکہ بخارا میں بھی مغربی تہذیب کے نفاذ کی کوشش کی گئی۔ بخارا کے اندر جب روسی کمیونسٹ داخل ہوئے تو انہوں نے بنات اسلام کے سروں سے چادریں کھینچ لیں۔ ان کی عزت و آبرو کے گوہر کو لوٹا اور معاشرے میں بگاڑ کے لئے ایسے ہتھکنڈے اپنائے کہ یہ نادان لڑکیاں ان کے جال میں پھنستی چلی گئیں۔ بخارا کی سڑکوں پر برقعوں کو جلایا گیا اور جن غیرت مند خواتین نے برقعہ اتارنے سے انکار کیا ان کے سروں سے زبردستی برقعے نوچ لئے گئے۔ بخارا کا انقلابی شاعر تاق ابوالقاسم لکھتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’کتنی بری بات ہے کہ تم پردے میں ہو اور دنیا آزاد ہے۔ افسوس کہ تم محو خواب ہو اور دنیا بیدار ہے۔ چادر چھوڑو مکتب جاؤ اور تعلیم حاصل کرو۔ جہالت کی شاخ پر پسماندگی کے سوا کوئی پھل نہیں لگتا‘‘
اُف یہ پادری ص 337 بحوالہ عبرت نامہ بخارا)
 
افغانستان کے ہمسایہ ملک بخارا میں 18 مارچ 1921ء کو ایک بڑی تقریب میں برقعوں کا ڈھیر نذر آتش کردیا گیا۔ پردہ ترک کروانے کے لئے مسلمان عورتوں پر تشدد سے بھی کام لیا گیا۔ اس تقریب میں پانچ ہزار مسلمان عورتیں آئی تھیں جنہوں نے مزاحمت کی اور پردہ ترک کرنے سے انکار کیا۔ ان کے سروں سے برقعے نوچ کر الاؤ میں ڈال دیئے گئے۔ رشتہ داروں کی منت سماجت اور ترغیب سے بالآخر انہیں بے پردگی اختیار کرنا پڑی۔ جبراً پردہ اتارنے کی مہم روسی عورتوں نے انجام دی۔ 18 مارچ کو قومی دن کی حیثیت حاصل ہوگئی اور ہر سال یہ رسم منائی جانے لگی۔ (روزنامہ نوائے وقت ملتان 18 اپریل 1996ء)
غالباً ایسے ہی ایک جلسے کا حال اعظم ہاشمی مرحوم نے اپنے سفر نامہ ہجرت میں لکھا ہے کہ
( ایک دن) کمیونسٹ پارٹی نے نماز مغرب کے بعد (بخارا کی) تمام بڑی بڑی مساجد میں جلسے منعقد کئے۔ اہل محلہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی پردہ نشین بہو، بیٹیوں اور بیویوں کو لے کر مسجد میں آئیں۔ مسلح پولیس کے سپاہی ایک سرخ فوجی کی سرکردگی میں گھر گھر گئے اورمردوں اور عورتوں کو جانور کی طرح ہانک لائے۔ مسجد کے دروازے پر دو کمیونسٹ کھڑے تھے جو مستورات کے سروں سے برقعے، چادریں اور دوپٹے اتار اتارکر مسجد کے صحن میں ڈھیر کر رہے تھے۔ رات کے دس بجے سب لوگوں کو سامنے سارے ڈھیر کو آگ لگادی گئی۔ اس کے بعد تقریریں شروع ہوگئیں۔ کمیونسٹ مقررین یکے بعد دیگرے پردے کے خلاف آتشیں تقریریں کرتے اور منہ سے جھاگ اڑاتے رہے۔ ایک باشقرستانی یہودی کمیونسٹ نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔
’’پردہ مردوں کے ظلم کی نشانی ہے۔ اب عورتیں آزاد ہوگئیں ہیں۔ وہ دفتر میں نوکری کر سکیں گی۔ فرغانہ کے غیور باشندے اس حقیقت کو پا چکے ہیں۔ ان کی عورتیں آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہو چکی ہیں۔ نکاح اور طلاق کا جھنجھٹ اب باقی نہیں رہا۔ وہ مردوں کے ظلم سے آزاد بڑے آرام و سکون کی زندگی بسر کررہی ہیں‘‘
۔( اف یہ پادری، ص 337 بحوالہ سمر قند و بخارا کی خونی سرگزشت)
ایران میں حجاب کی مخالفت
ایران میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں برقعہ پہننے پر پابندی عائد تھی۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی نے 1935ء میں برقعہ ممنوع قرار دے دیا۔ (ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ جلد3 ص 226)
یہ عین وہی زمانہ تھا جب برصغیر پاک و ہند میں اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس روشن خیالی صلیب کے سامنے سینہ سپر تھے۔ اکبر الہ آبادی لکھتے ہیں۔
بے پردہ کل جو نظر آئیں چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

ترکی میں حجاب کی مخالفت
 پاشا نے ترکی کو جدید ترکی میں تبدیل کرنے کے لئے تہذیب و ثقافت کو جسطرح کچلا وہ تاریخ کے صفحات پر واضح ہے اس نے ترکی ٹوپی اور سر کے ہر لباس، حجاب، اسکارف کو خلاف قانون قرار دیا اور ہیٹ کا استعمال لازمی قرار دیا۔ آیئے دور حاضر میں اس ترکی کی روشن خیالی کا مطالعہ کرتے ہیں۔
جاوید چوہدری اپنے کالم زیرو پوائنٹ میں لکھتے ہیں۔
میڈم مروے کا تعلق فضیلت پارٹی سے تھا وہ 18 اپریل 1999ء کے الیکشن میں ترک پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی۔ مئی میں حلف برداری کا موقع آیا تو مروے سر پر اسکارف لے کر پارلیمنٹ چلی گئیں۔ یہ جدید ترکی کی 76 سالہ تاریخ کا حیران کن واقع تھا کیونکہ جب 29 اکتوبر 1923ء کو ترکی آزاد ہوا تو کمال اتا ترک نے عربی رسم الخط، دینی تعلیم اور اذان کے ساتھ سر ڈھانپنے اور حجاب لینے پر پابندی لگادی تھی۔ کمال اتا ترک کا کہنا تھا اگر ہم ترکی کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے سیکولر ثابت کرنا ہوگا۔ اس وقت سے ترکی میں عورت کا ننگا سر اور سیکولرازم ایک ہوچکے ہیں لیکن مئی 1999ء میں مروے نے اسکارف کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوکر سیکولرازم کے ترک فلسفے کو چیلنج کر دیا۔ مروے کی اس حرکت میں پارلیمنٹ میں زلزلہ آگیا۔ سیکولر ارکان نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ ترکی میں سیکولرازم کی ضامن فوج نے بھی مروے کی جسارت کا سنجیدگی سے نوٹ لیا۔ لہذا صدر سلیمان ڈیمرل نے مروے کی رکنیت اور شہریت دونوں منسوخ کر دیں۔ یہ ایک سیکولر سٹیٹ کا ایک ایسے آزاد شہری سے انتقام تھا جو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ 29 اکتوبر 2003ء کو یہ صورت حال ایک بار پھر شدت کے ساتھ سامنے آئی۔ اس دن ترک قوم نے اپنا 80 واں یوم آزادی منایا، قومی دن کی روایات کے مطابق صدر ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیداروں کے اعزاز میں ایک دعوت کرتا ہے جس میں ارکان کی بیگمات بھی شریک ہوتی ہیں لیکن اس بار کیونکہ ترکی میں طیب اردگان کی سربراہی میں ایک اسلامی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے اور اس پارٹی کے زیادہ تر عہدیداروں کی بیگمات سروں پر اسکارف باندھتی ہیں۔ لہذا صدر کے لئے ان تمام حضرات کو دعوت دینا مسئلہ بن گیا۔ صدر نے طویل غور و خوض کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ انہوں نے حکومت پارلیمنٹ کے ارکان اور حکمران پارٹی کے چیدہ چیدہ ممبروں سے درخواست کی کہ آپ تقریب میں بیگمات کو نہ لائیں۔ صدر کے اس فارمولے کی زد میں وزیراعظم طیب اردگان بھی آگئے کیونکہ ترکی خاتون اول بھی سر پر اسکارف لیتی ہیں۔ اس اقدام پر جسٹس ڈیویلپمنٹ پارٹی نے صدارتی تقریب کا بائیکاٹ کیا اور صدر احمد نجات سیزا نے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔
(روزنامہ جنگ لاہور 8 نومبر 2003ء)

فرانس میں اسکارف کی مخالفت فرانس کے وزیر داخلہ چارلس پاسقوا اور وزیر تعلیم فرینکواٹس بائرو (Francois Bayrow) نے تمام پبلک اسکولز میں زیر تعلیم مسلمان طالبات پر حجاب پہننے پر پابندی لگا دی اور پھر فرانس میں اسکارف اوڑھ کر تعلیم حاصل کرنے پر ان کو اسکول سے خارج کردیا گیا۔ ان پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے گئے۔ فرانسیسی وزیر داخلہ نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا کہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اسلامی عقائد کو ہمارے معاشرتی رسم و رواج کا حصہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کے لئے پوری دنیا یہود ونصاریٰ اور ان کے مہروں نے اپنی پوری طاقت استعمال کی۔لیکن اس تہذیبی و ثقافتی دہشت گردی پر کسی روشن خیال اور ترقی پسند نے اپنے قلم یا زبان سے مذمت نہیں کی۔ آخر کیوں؟ کیا مسلمانوں کو اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق نہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حجاب، اسکارف فرانس کے سیکولر نظام سے متصادم نہیں اور اگر ہے تو وہاں عیسائی بچے صلیب اور یہودی طالب علم اپنے سروں پر مخصوص ٹوپی کیوں پہنتے ہیں؟۔ روزنامہ نوائے وقت کی درج ذیل رپورٹ ملاحظہ فرمایئے۔

یاد رہے کہ فرانس کے اسکولوں میں بچیوں کو صلیب لٹکانے اور سر پر مخصوص ٹوپی پہننے کی اجازت ہے عیسائیوں اور یہودیوں کی مخصوص مذہبی علامات ہیں۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 5 نومبر 1994ء)
ملت اسلامیہ کی باوقار بیٹیو!پردہ ان کو کیوں کھٹکتا ہے؟ ا سلئے کہ حجاب ان کے دیگر مقاصد کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، فحاشی،لہو و لعب، موسیقی، فلم اور خاندانی انتشار کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ لازمی سی بات ہے جب عورت بے پردہ ہوگی تو اس کے چہرے پر غلیظ نظریں بھی پڑیں گی اورجب میڈیا کے ذریعے فحاشی و عریانیت کا سیلاب اور حکومتوں کے ذریعے زنا کاری کے پرمٹ جاری ہوں گے اور آزادانہ اختلاط کن فتنوں کو جنم دے گا وہ آپ پر پوشیدہ نہیں۔ اور اس کے جو خوفناک نتائج بن بیاہی کنواری ماؤں کی صورت میں جو نکلیں گے اس کے لئے مغرب کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔
اس دہشت گردی میں مغرب کے اہل قلم ہی نہیں بلکہ اس غیر ملکی ثقافت کو عام کرنے کے لئے اور ان کو پھیلانے کے لئے ملک کے بڑے بڑے ادباء، اہل قلم اور مصنفین رضا کارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کر رہے تھے اور اس مہم کو تیز کرنے میں قلمی مزدوروں کی بھی کمی نہ تھی۔ ان ہی قلمی مزدوروں نے یہ تاثر دیا کہ کلچر کا تعلق مذہب سے نہیں۔ ایک ادیب یوں رقمطراز ہیں۔
 
’’مسلم کلچر نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر مسلمان کا کلچر دوسرے سے مختلف ہے۔ تمام مسلمان ممالک میں دینی اعتقادات بے شک ایک ہیں لیکن ان کا کلچر ایک نہیں ہوسکتا‘‘۔
(روزنامہ جنگ 15دسمبر 1991ء)
 
یہ تہذیب و ثقافت کو زمین سے وابستہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلامی اخوت کا شفاف آئینہ چکنا چور ہوگیا۔ اس افسوسناک حقیقت کا ادنیٰ سا منظر ہر سال پاکستان میں دیکھا جاتا ہے کہ یوم آزادی کے دن پاکستان کے مسلمان سندھی، ہندو سندھیوں سے یکجہتی کے لئے کنٹرول لائن کی طرف جاتے ہیں۔ وہ ان حد بندیوں کو توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن دوسرے صوبوں کے پنجابی، پٹھان، مہاجر کا وجود انہیں برداشت نہیں۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اسی طرح ایک اور قلمی مزدور اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’عصر حاضر میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں حجاب یا دوپٹے کے بغیر راہ چلتی عورت کو کوئی تنگ نہیں کرتا تو کیا وہاں بھی چادر اور دوپٹہ اوڑھنا ضروری ہو جائے گا۔ میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ اکثر غیر ملکی مہذب معاشروں میں مسلمان عورتیں کسی محرم کے بغیر بلاخوف و خطر طویل سفر اختیار کر سکتی ہیں اور کوئی نامحرم ہمسفر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا‘‘۔
(روزنامہ جنگ 4 تا 7 جولائی 1985ء میں عورت، پردہ اور جدید زندگی کے مسائل پر پروفیسر وارث میر کے مضامین)
 
وارث میر صاحب کے مضمون پر میں کیا تبصرہ کروں روزنامہ جنگ کی یہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔ اس وقت مہذب دنیا میں ہر 45 سیکنڈ کے بعد ایک عورت کو بے آبرو کر دیا جاتا ہے۔ (روزنامہ جنگ 12نومبر 1995ء)
 
اس بات کا اعتراف تو بے نظیر بھٹو نے بھی کیا ہے لکھتی ہیں۔
’’ہماری ابتدائی کلاس میں ہمیں زنا بالجبر کے خطرات کے متعلق جو لیکچر دیئے جاتے تھے، ریڈ کلف میں سن کر وحشت ہوتی تھی۔ میں نے امریکہ آنے سے قبل زنا بالجبر کے بارے میں کبھی سنا تک نہیں تھا اور اب اس امکان کی وجہ سے میں اگلے چار سال کبھی رات کو اکیلی گھر سے باہر نہیں نکلی‘‘۔
دختر مشرق از بے نظیر بھٹو ص 86
 
محترمہ کے اس بیان سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ پاکستان میں جس جرم کے متعلق بے نظیر نے سنا تک نہیں تھا امریکہ کے بے لگام معاشرے میں ایک ہولناک حقیقت تھا۔
یہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو اس لئے مٹانا چاہتے ہیں کہ کہیں ان کے حرص و ہوس کے بے قابو نفس جن کے لئے عورت ایک دل لبہانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ انہیں سیکولر نظام کی پرواہ نہیں بلکہ اپنی بدمست جوانی کی سفلی خواہشات کی پرواہ ہے۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں اسلامی تہذیب و ثقافت اپنے اندر کتنا بڑا ظرف رکھتی ہے۔
اسلامی تہذیب کو دیکھنا ہو تو یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا منظر نگاہوں کے سامنے لے آیئے۔ ہم یہاں صرف چند ایک اقتباس پیش کرتے ہیں کہ کس طرح یورپ کی خواتین کے لئے اسلامی ثقافت، حجاب کی اہمیت تھی۔ رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے۔
’’سسلی کے پایہ تخت میں تین ہزار سے زیادہ جامہ باف تھے۔ ان کی تیار کردہ عباؤں، قباؤں اور چادروں پہ قرآنی آیات بھی ہوتی تھیں جنہیں عیسائی بادشاہ اور پادری فخر سے پہنتے تھے۔ سسلی میں عیسائی عورتیں نقاب اوڑھتی تھیں‘‘۔ ( از غلام جیلانی برق یورپ پر اسلام کے احسانات ص 125 مطبوعہ شیخ غلام علی سنز)
مزید آگے لکھتے ہیں۔
’’اسلامی تہذیب نے حیات مغرب کے ہر پہلو پر اثر ڈالا۔ ان لوگوں کے لباس بدل گئے۔ طور طریقے تبدیل ہوگئے۔ تعمیرات میں مشرقیت آگئی۔ عورتوں کا احترام بڑھ گیا اور انہوں نے حریص نگاہوں سے بچنے کیلئے نقاب اوڑھ لئے‘‘۔(یورپ پر اسلام کے احسانات ص 150 بحوالہ رحلۃ ابن جبیر)
’’جو عیسائی لڑکیاں شاہی محل میں داخل ہوتی ہیں۔ وہ مسلم کنیزوں کی نیکی، پاکیزگی اور نماز سے متاثر ہوکر مسلمان ہوجاتی ہیں‘‘۔(ایضاً ص 152)
 
آیئے اس زندہ حقیقت کو دور حاضر میں ملاحظہ فرمایئے۔

حجاب اور نومسلم خواتین نومسلم ہندو دو شیزہ کملا داس جن کا اسلامی نام ثریا ہے ایک انٹرویو میں اس سوال پر کہ آپ کو اسلام میں سب سے زیادہ پرکشش بات کیا لگی؟ کہا:
مجھے مسلمان عورتوں کا برقعہ بہت پسند ہے۔ میں پچھلے 24 برسوں سے پردے کو ترجیح دے رہی ہوں۔ جب کوئی عورت پردے میں ہوتی ہے تو اس کو احترام ملتا ہے۔ کوئی اس کو چھونے اور چھیڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اس سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ 

(ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘ نئی دہلی 28 دسمبر 1999ء)
 

ثریا نے اب برقعہ کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔ وہ پردے کے بغیر زندگی کو آزادی نہیں سمجھتی بلکہ ایسی آزادی کو عورت کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ اس نے اس سوال پر کہ کیا برقعہ آپ کی آزادی کو متاثر نہیں کرتا؟ کہا:
’’مجھے آزادی نہیں چاہئے۔ اب تو آزادی میرے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کو باضابطہ اور باقاعدہ بنانے کیلئے گائیڈ لائن کی ضرورت تھی۔ ایک خدا کی تلاش تھی جو تحفظ دے۔ پردے سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ پردہ تو عورت کے لئے بلٹ پروف جیکٹ ہے‘‘
 ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 116
نو مسلم عیسائی خولہ لگاتا کہتی ہیں۔ ’’پہلے مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مسلم بہنیں برقعے کے اندر کیسے آسانی سے سانس لے سکتی ہیں۔ اس کا انحصار عادت پر ہے۔ جب کوئی عورت اس کی عادی ہوجاتی ہے تو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ پہلی بار میں نے نقاب لگایا تو مجھے بڑا عمدہ لگا۔ انتہائی حیرت انگیز، ایسا محسوس ہوا گویا میں ایک اہم شخصیت ہوں۔ مجھے ایک ایسے شاہکار کی مالکہ ہونے کا احساس ہوا جو اپنی پوشیدہ مسرتوں سے لطف اندوز ہو۔ میرے پاس ایک خزانہ تھا جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہ تھا۔ جسے اجنبیوں کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی‘‘۔
 (ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں 204)
 
نو مسلم دوشیزہ صونی رولڈ کی سرگزشت۔ ’’میں نے سر ڈھانپنا شروع کیا تو میرے باپ کا تبصرہ یہ تھا کہ بڈھی کھوسٹ لگنے لگی ہو۔ یہ تبصرہ آج کل عام ہے۔ لوگ سر پر اسکارف باندھنا ترک کر چکے ہیں اس لئے شاید وہ مجھے عجوبہ سمجھتے ہیں۔ بہر حال میں تو اپنے آپ کو عجوبہ نہیں سمجھتی ہوں۔ میں مسلمان ہوں اور میں ناروے میں غیر ملکی ہوں۔ میرے مسلم احباب زیادہ تر عرب یا پاکستانی ہیں اس ماحول میں مجھے گرمجوشی، تدبر اور دانائی ملتی ہے، ایسی دانش جو ناروے کے انفرادیت پرست ماحول سے کوسوں دور ہے‘‘۔
(ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 224)
 
ثقافتی دہشت گردی کو اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں اسلام عالمی مذہب نہ بن جائے اور وہ خواب جو یہودی دنیا پر حکومت کرنے کا دیکھ رہے ہیں چکنا چور نہ ہوجائے۔ اس لئے اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کی یہ مہم جاری و ساری ہے۔
بنات اسلام! کیا پردہ ایک ظلم ہے؟ کیا حجاب ایک جبر ہے؟ کیا برقعہ ایک قید خانہ ہے؟ اگر یہ ظلم ہے تو ہر عورت کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر یہ جبر ہے تو ہر عورت کے ساتھ جبر ہے۔ اگر یہ قید خانہ ہے تو ہر عورت کے لئے قید خانہ ہے۔ خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی، یہودی ہو یا مشرک۔ لیکن! ذرا سوچئے! ظلم و ستم، جبرو قید خانے کا پروپیگنڈہ صرف مسلم ممالک میں کیوں؟ مسلم خواتین اس پروپیگنڈے کا شکار کیوں؟ کیا عیسائیت میں ننیں اپنے سروں کو اسکارف سے ڈھانپ کر نہیں رکھتیں۔ اگر یہ جبر ہے تو یہ ایک عیسائی نن پر بھی جبر ہے؟ لیکن یہ نن خواہ برطانیہ کی ہو یا فرانس کی، اٹلی کی ہو یا جرمنی کی جب سر پر اسکارف لیتی ہے تو پورا یورپ اسے جھک کر سسٹر یا مدر کہتا ہے لیکن یہی اسکارف ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، سعودی عرب اور پاکستان کی عورت سر پر رکھ لیتی ہے تو اسے نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے جاہل، گنوار، غیر ترقی یافتہ اور فنڈ امنٹلیسٹ کہا جاتا ہے۔

اس وقت پورے یورپ میں چھوٹے بڑے 7 لاکھ چرچ اور مذہبی اسکول ہیں۔ امریکہ کے اندر ایک لاکھ 22 ہزار چرچ ہیں۔ ان 8 لاکھ 22 ہزار چرچوں میں 26 لاکھ ننیں (سسٹرز اینڈ مدرز) ہیں اور یہ تمام ننیں اپنے سروں پر اسکارف لیتی ہیں اور برقعہ نما ڈھیلا ڈھالا گاؤن پہنتی ہیں۔ اگر ان کے گاؤن اور اسکارفوں کے باوجود وہاں ترقی ہوئی تو مسلم دنیا ترقی نہیں کرسکتی؟ بنات اسلام! یہ حجاب کے خلاف تہذیبی و ثقافتی دہشت گردی اس لئے ہے کہ تم سے تمہاری قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔ تمہاری گود سے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی صورت میں فلاح امت کی صبح پھوٹ سکتی ہے۔ تمہاری غیرت، ارتقاء و بقا کی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ تمہاری حیا زندگی کے چمن میں بہار کے شگوفے کھلا سکتی ہے، تمہارے رتجگے ملت کا مقدر جگا سکتے ہیں۔
دختران ملت!اس جنگ میں تمہارا کردار بھی بہت اہم ہے۔ تمہیں اپنی پاک تہذیب و ثقافت میں نقب لگانے والوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ خود بھی اسلامی تہذیب پر عمل پیرا رہنا اور دیگر مسلمان دوشیزاؤں کو بھی اسلامی ثقافت سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ تمہارے سر سے چادریں اور تمہارے چہروں سے نقاب کھینچنے کے لئے اگر مغرب کے ہاتھ بڑھتے تو ہم ضرور کاٹ ڈالتے۔ تمہارے برقعوں کو جلانے کے لئے اگر کوئی آگ سلگاتا تو ہم اسے اسی آگ میں جلا ڈالتے۔ ہمیں کمینے دشمن سے واسطہ ہے جس نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نام نہاد ادیبوں کے ذریعے، عقل سے پیدل دانشوروں کے سہارے اور روشن خیال حکمرانوں کے بل بوتے پر تمہاری تہذیب و ثقافت پر شب خون مارنے کی تیاری کی۔ یہ شب خون، یہ حملہ تمہارے سروں سے چادریں اپنے ہاتھوں سے نہیں کھینچے گا بلکہ تمہارے ذہنوں کو اس روشن خیالی کے لئے میڈیا کے ذریعے اور زرد صحافت کے ذریعے، بعض نام نہاد روشن خیال سیکولر عورتوں کے ذریعے، تمہارے ذہنوں کو پراگندہ کرکے نوچے جائیں گے۔ بس فرق اتنا ہوگا پہلے تمہیں بے آبرو کرنے کے لئے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور آج تم بے آبرو ہونے کے لئے خود تیار ہوگی۔ سازش بہت ہولناک ہے۔ میرا قلم اس کو لکھنے سے عاجز ہے۔ اس جنگ کو تمہارے بھائی ایک حد تک لڑ سکتے ہیں مگر یہ جنگ تمہیں خود لڑنی ہوگی۔۔ اور اگر تم اس جنگ میں ثابت قدم رہیں تو قسم خدا کی! تمہاری قوم پھر بام عروج پر اپنا جھنڈا لہرائے گی۔ تمہیں ہمت نہیں ہارنی، جنگ شروع ہوچکی ہے۔ اب ہمت اور استقامت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لئے تیار رہو۔

4 septebmer 2011 Hijaab day

٤ ستمبر عالمی یوم حجاب

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں