ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

31 اگست، 2011

عید ملنا

عید ملنا ۔۔۔

مرزا صاحب ہمارے ہمسائے تھے، یعنی ان کے گھر میں جو درخت تھا، اس کا سایہ ہمارے گھر میں بھی آتا تھا۔ اللّہ نے انہیں سب کچھ وافر مقدار میں دے رکھا تھا۔ بچّے اتنے تھے کے بندہ ان کے گھر جاتا تو لگتا سکول میں آگیا ہے۔ان کے ہاں ایک پانی کا تالاب تھا جس میں سب بچّے یوں نہاتے رہتے کہ وہ تالاب میں 500 گیلن پانی بھرتے اور سات دن میں 550 گیلن نکالتے۔وہ مجھے بھی اپنے بچّوں کی طرح سمجھتے یعنی جب انہیں مارتے تو ساتھ مجھے بھی پیٹ ڈالتے، انہیں بچّوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا سخت ناپسند تھا۔ حلانکہ ان کی بیگم سمجھاتیں کے مسلمان بچّے ہیں، آپس میں نہیں لڑیں گے تو کیا غیروں سے لڑیں گے۔ایک روز ہم لڑ رہے ھے، بلکہ یوں سمجھیں رونے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یوں بھی رونا بچّوں کی لڑائی کا ٹریڈ مارک ہے۔ اتنے میں مرزا صاحب آگئے۔
" کیوں لڑ رہے ہو "

ہم چپ ! کیونکہ لڑتے لڑتے ہمیں بھول گیا تھا کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔انہوں نے ہمیں خاموش دیکھا تو دھاڑے، " چلو گلے لگ کر صلح کرو "۔ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ ہم ڈر کے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس بار جب میں نے لوگوں کو عید ملتے دیکھا تو یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی ہماری طرح صلح کر رہے ہیں۔
عید کے دن گلے ملنا، عید ملنا کہلاتا ہے۔پہلی بار انسان اس دن گلے ملا، جب خُدا نے اسے ایک سے دو بنایا۔ یوں آج بھی گلے ملنے کا عمل دراصل انسان کے ایک نہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ عمل ہمیں دوسرے جانوروں سے مماز کرتا ہے کہ وہ گلے پڑ تو سکتے ہیں، گلے مل نہیں سکتے۔

ہمارے یہاں عید ملنا، عید سے بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ دکاندار گاہکوں سے کلرک سائلوں سے اور ٹریفک پولیس والے گاڑی والوں کو روک روک کر ان سے عید ملتے ہیں۔بازاروں میں عید سے پہلے اتنا رش ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرنا بھی عید ملنا ہی لگتا ہے۔ کچھ نوجوان تو لبرٹی اور بانو بازار میں عید ملنے کی ریہرسل کرنے جاتے ہیں۔

عید کے دن خوشبو لگا کر عیدگاہ کا رُخ کرتا ہوں۔ واپسی پر کپڑوں سے ہر قسم کی خوشبو آرہی ہوتی ہے سوائے اس خوشبو کے جو لگا کر جاتا ہوں۔عید مل مل کر وہی حال ہو جاتا ہے جو سو میٹر کی ھرڈل جیتنے کے بعد ہوتا ہے۔ اوپر سے گوجرانوالہ کی عید ملتی مٹی ایسی کہ جب واپس آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں تو گھر والے گردن نکال کر کہتے ہیں 
" جی ! کس سے ملنا ہے "

سیاستدان تو عید یوں ملنے نکلتے ہیں، جیسے الیکشن کمپین پہ نکلے ہوں۔ جیتنے سے پہلے وہ عید مل کر آگے بڑھتے ہیں اور جیتنے کے بعد عید مل کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔پنجاب کے ایک سابق گورنر کا عید ملنے کا انداز نرالہ ہوتا تھا۔ ان کا حافظہ ہمارے ایک ادیب دوست جیسا تھا جو ایک ڈاکٹر سے اپنے مرضِ نسیان کا علاج کروا رہے تھے، دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد ایک دن ڈاکٹر نے پوچھا
" اب تو نہیں بھولتے آپ " 
" بالکل نہیں، مگر آپ کون ہیں اور کیوں پوچھ رہے ہیں " 

وہ سابق گورنر بھی عید پر معززیں سے عید ملنا شروع کرتے، ملتے ملتے درمیان تک پہنچتے تو بھول جاتے کہ کس طرف کے لوگوں سے مل لیا اور کس طرف کے لوگوں سے ابھی ملنا ہے۔ یوں وہ پھر نئے سرے سے عید ملنے لگتے۔ ایسے ہی ایک صاحب تیز دریا عبور کرنے کی کوشش میں تھے مگر عین دریا کے درمیان سے واپس پلٹ آئے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے، دراصل جب میں دریا کے درمیان پہنچا تو بہت تھک گیا سو واپس لوٹ آیا۔ 
شاعر وہ طبقہ ہے جو خوشی غمی دونوں موقعوں پرشعر کہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکھ کرپان کے بغیر، بنگالی پان کے بغیر اور شاعر دیوان کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا۔ اس لئے شاعر عید ملنے کے لئے بھی مشاعرے ہی کرتے ہیں۔ یوں مشاعروں کو لفظوں کا عید ملنا کہہ لیں اگرچہ وہ ہوتی تو لفظوں کی ہاتھاپائی ہے۔

بچّے پیار سے عید کو عیدی کہتے ہیں۔ اس لئے ان کو عیدی ملنا ان کا عید ملنا ہے۔ عورتیں بھی اکٹھی ہو کر عید ملتی ہیں، لیکن جہان چار عورتیں اکٹھی ہوں ویاں وہ ایک دوسرے سے نہیں، پانچویں سے خوب خوب ملتی ہیں۔ اور کوئی وہاں سے اٹھ کر اس لئے نہیں جاتی کہ جانے کے بعد وہاں بیٹھی رہنے والیاں اس سے " عید ملنا " نہ شروع کر دیں۔

عید کے روز امام مسجد سے عید ملنے کا یہ طریقہ ہے کہ اپنی مُٹھی مولوی صاحب کی ہتھیلی پر یوں رکھیں کہ ان کے منہ سے جزاک اللّہ کی آواز نکلے۔ چھوٹے شہروں میں نوجوانوں کی اکثریت سینما گھروں میں بھی عئد ملنے جاتی تھی۔ بکنگ کے سامنے وہ عید ملن ہوتی ہے کہ جو سفید سوٹ پہن کر آتا ہے وہ براؤن سوٹ بلکہ کبھی کبھی تو کالے سوٹ میں لوٹتا ہے، اکثر بنیان میں بھی واپس آتے ہیں۔ عید ملنا وہ ورزش ہے جس سے وزن بہت کم ہوتا ہے۔ میرا ایک دوست بتاتا ہے کہ بیرونِ ملک میں نے عید پر سو پاؤنڈ کم کئے۔

eid milna, mazah, dr younas butt. 

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں